چونا لگانا چھوڑیں بکرا بنانا کا عملی مظاہرہ دیکھ لیں عسکری اورآپ کو اللہ نے موقع دے
ہی دیا مجھے سے بدلے لینے کا
بہت مفید سر۔۔۔بھئی بات تو چل رہی تھی چونا لگانا بطور محاورہ ، اس کے معانی اور اصل کی۔
تلاش بسیار کے باوجود ہم یہ معلوم کرنے سے قاصر رہے کہ یہ محاورہ اردو زبان میں کہاں اور کس طرح شروع ہوا۔
البتہ محاورے سے قطع نظر چوٹ لگنے پر ہماری دادیاں اور نانیاں ہلدی کے ساتھ چونا لگایا کرتی تھیں۔
انڈیا کے مشہور نوابی شہر لکھنؤ میں گومتی ندی پر ایک پل ہے جو صدیوں سے اپنی شان اور پوری آن بان کے ساتھ کھڑا ہے۔
اس کی مضبوطی کا راز بتاتے ہوئے لوگ باگ کہتے ہیں کہ اس کی تعمیر بھی چونے سے ہوئی تھی لیکن اس میں پہلے انڈے اور اُرد کی دال ملائی گئی تھی۔
ویسے ہمارے شہر احمدآباد میں آج بھی درجنوں عمارتیں لکھوری اینٹوں اور چونے سے تعمیر کی ہوئی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔
پرانے زمانے کے چونے کا مقابلہ آج کی سمینٹ بھی نہیں کر سکتی۔
مختصر یہ کہ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور غور کریں تو چونا اصل میں مضبوطی عطا کرنے کا کام کرتا ہے ،
چونکہ چونے(CaCO3)میں کیلشیم کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔اس لیے انسانی جسم کے استخوانی نظام کو بھی یہ مضبوط کرتا ہے
مغلیہ دور میں کسی بیگم نے جب یہ دیکھا کہ کتھے پر اچانک چونا گر جانے سے بڑا خوبصورت سرخ رنگ وجود میں
آیا تو اس نے اپنے پان میں کتھے اور چونے کا استعمال بطور میک اپ کے شرو ع کیا ۔یہ تو ہوئی وہ بات کہ پان میں چونا کیوں لگایا جاتا ہے۔
اب ذرا اس بات پر بھی غور کر لیجیے کہ مکانات کی دیواروں پر چونا کیوں لگایا جاتا ہے؟
بھئی بات تو چل رہی تھی چونا لگانا بطور محاورہ ، اس کے معانی اور اصل کی۔
تلاش بسیار کے باوجود ہم یہ معلوم کرنے سے قاصر رہے کہ یہ محاورہ اردو زبان میں کہاں اور کس طرح شروع ہوا۔
البتہ محاورے سے قطع نظر چوٹ لگنے پر ہماری دادیاں اور نانیاں ہلدی کے ساتھ چونا لگایا کرتی تھیں۔
انڈیا کے مشہور نوابی شہر لکھنؤ میں گومتی ندی پر ایک پل ہے جو صدیوں سے اپنی شان اور پوری آن بان کے ساتھ کھڑا ہے۔
اس کی مضبوطی کا راز بتاتے ہوئے لوگ باگ کہتے ہیں کہ اس کی تعمیر بھی چونے سے ہوئی تھی لیکن اس میں پہلے انڈے اور اُرد کی دال ملائی گئی تھی۔
ویسے ہمارے شہر احمدآباد میں آج بھی درجنوں عمارتیں لکھوری اینٹوں اور چونے سے تعمیر کی ہوئی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔
پرانے زمانے کے چونے کا مقابلہ آج کی سمینٹ بھی نہیں کر سکتی۔
مختصر یہ کہ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور غور کریں تو چونا اصل میں مضبوطی عطا کرنے کا کام کرتا ہے ،
چونکہ چونے(CaCO3)میں کیلشیم کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔اس لیے انسانی جسم کے استخوانی نظام کو بھی یہ مضبوط کرتا ہے
مغلیہ دور میں کسی بیگم نے جب یہ دیکھا کہ کتھے پر اچانک چونا گر جانے سے بڑا خوبصورت سرخ رنگ وجود میں
آیا تو اس نے اپنے پان میں کتھے اور چونے کا استعمال بطور میک اپ کے شرو ع کیا ۔یہ تو ہوئی وہ بات کہ پان میں چونا کیوں لگایا جاتا ہے۔
اب ذرا اس بات پر بھی غور کر لیجیے کہ مکانات کی دیواروں پر چونا کیوں لگایا جاتا ہے؟
جو حکم مرشد۔سید فصیح احمد کی ماہرانہ رائے درکار ہے۔ عباس اعوان بھی توجہ کریں۔
بھئی بات تو چل رہی تھی چونا لگانا بطور محاورہ ، اس کے معانی اور اصل کی۔
تلاش بسیار کے باوجود ہم یہ معلوم کرنے سے قاصر رہے کہ یہ محاورہ اردو زبان میں کہاں اور کس طرح شروع ہوا۔ ؟
ہمارا اندازہ عموما خطا نہیں ہوتا۔ لہذا اس بار کیسے ہو جاتا۔۔۔۔ ہمیں معلوم تھا کہ آپ نے ادھر (چونا لگانے) بھی ڈاکٹریٹ کیا ہوگا۔۔۔۔ اللہ خوش رکھے۔۔۔ہمارے نیرنگے یار نے اس دھاگے میں ہمیں گھسیٹ کر چونا لگانے کا عملی مظاہرہ کیا۔
یعنی کہ کسی مہان شاہِ چونا نے پان کا پتہ بھر کے اردو زبان کو بھی اس محاورے کا چونا لگایا تھا؟ خیر ہووے چوُن ملنگاں دی
بھئی ہم چونا لگانے نہیں بلکہ چونا لگوانے والوں میں سے ہیں وہ کیسے؟
۱) پان کھانے کا شوق ہمیں چون دان والے کے پاس کھینچے لے جاتا ہے
۲) دوستوں سے مخلصی کے جنون میں ہم بھول جاتے ہیں اور اپنا پتا عیاں رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے جس یار کا دل کرتا ہے حسب توفیق چونا تھاپ جاتا ہے
۳) اپنی شاپر لپٹی سست مزاجی کے بدولت کبھی دیواروں کی حالت درست نہیں کر پائے تو ایسے میں ہر بار کسی چوُن بادشاہ کی خدمات سے کئی کئی دن چونا لگواتے ہیں
کافی ہے اتنا چونا نے رنگیو ؟؟