امجد علی راجا
محفلین
تو یوں کہیئے ناکیونکہ لڑکیاں جانتی ہیں یہ افسانہ ہے حقیقت نہیں .بلکہ مردوں کا سپنا سہانا ہےیہ
حقیقت نہیں ہے فسانہ ہے یہ
کہ لڑکوں کا سپنا سہانہ ہے یہ
تو یوں کہیئے ناکیونکہ لڑکیاں جانتی ہیں یہ افسانہ ہے حقیقت نہیں .بلکہ مردوں کا سپنا سہانا ہےیہ
تو یوں کہیئے نا
حقیقت نہیں ہے فسانہ ہے یہ
کہ لڑکوں کا سپنا سہانہ ہے یہ
کیونکہ
اردو محفل سے سیکھ کر تہذیب
کچھ حیا دار ہو گئے لڑکے
بہن بیٹی سمجھنے لگ گئے ہیں
ابو بھیا سے ہو گئے لڑکے۔
داد کے لئے شکریہ شمشاد بھیا!میں بھی کہوں یہ امجد بھائی نے اپنا اوتار بدل کر یہ سوٹ والا کیوں کر لیا ہے۔
بہت داد قبول فرمائیں۔
لوٹ پوٹ ہونے کا شکریہ
لوٹ پوٹ ہونے کا شکریہ
واہ امجد بھیّا بہت خوب!راج کرنے کا خواب تھا اپنا
سارے ارماں ڈبو گئے لڑکے
مست آنکھوں کا دلنشیں کاجل
آنسوئوں میں ڈبو گئے لڑکے
ہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہیں
ڈر کےمارے ہی رو گئے لڑکے
شکریہ مقدس بہنا!بہت ہی ذبردست امجد بھیا
آپس کی بات ہے ۔ ۔ ۔ بات در اصل یہ ہے کہ آج کل کے لڑکوں کے پاس اتنے سارے غم (جیسے غم نکما پن، غم کاہلی، غم جاہلی، غم بھتہ خوری، غم ٹارگٹ کلنگ، غم روزگار، غم آوارگی، غم سیاہ ست، وغیرہ وغیرہ) جمع ہوگئے ہیں کہ وہ ”غم جاناں“ سے تقریباً بے نیاز سے ہوگئے ہیں ۔ ان سارے غموں کے نتیجہ میں اب تو سچ مچ کے ”قحط الرجال“ کا سا سماں ہے۔ لہٰذا لڑکیوں کا ”شکوہ“ بجا ہے۔جانے کس دیس کھو گئے لڑکےہم سے کیوں دور ہو گئے لڑکےکالج آنے کو دل نہیں کرتاخار راہوں میں بو گئے لڑکےراج کرنے کا خواب تھا اپناسارے ارماں ڈبو گئے لڑکےکچھ بھی دیتے نہیں ہیں تحفے میںکتنےکنجوس ہو گئے لڑکےمست آنکھوں کا دلنشیں کاجلآنسوئوں میں ڈبو گئے لڑکےخون سے خط بھی اب نہیں لکھتےکس قدر خشک ہو گئے لڑکےہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہیںڈر کےمارے ہی رو گئے لڑکےہم پہ اشعار بھی نہیں لکھتےکیسے جاہل سے ہو گئے لڑکےچھیڑتے ہیں نہ تاڑتے ہیں ہمیںکتنے بےذوق ہو گئے لڑکے
ممکن تو نہیں، لیکن فرض کرلینے میں حرج ہی کیا ہے
لاجواب!کیونکہ لڑکیاں جانتی ہیں یہ افسانہ ہے حقیقت نہیں .بلکہ مردوں کا سپنا سہانا ہےیہ