محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
لڑکوں کی بےرخی پر لڑکیوں کا شکوہ
جانے کس دیس کھو گئے لڑکےہم سے کیوں دور ہو گئے لڑکےکالج آنے کو دل نہیں کرتاخار راہوں میں بو گئے لڑکےراج کرنے کا خواب تھا اپناسارے ارماں ڈبو گئے لڑکےکچھ بھی دیتے نہیں ہیں تحفے میںکتنےکنجوس ہو گئے لڑکےمست آنکھوں کا دلنشیں کاجلآنسوئوں میں ڈبو گئے لڑکےخون سے خط بھی اب نہیں لکھتےکس قدر خشک ہو گئے لڑکےہم سے شادی کا ذکر چھڑتے ہیںڈر کےمارے ہی رو گئے لڑکےہم پہ اشعار بھی نہیں لکھتےکیسے جاہل سے ہو گئے لڑکےچھیڑتے ہیں نہ تاڑتے ہیں ہمیںکتنے بےذوق ہو گئے لڑکے
نیند سے آنکھ پھر کھلی جوں ہی
کہہ کے ”اف“ پھر سے سوگئے لڑکے