لڑکی،بیٹی،ماں،خاتون،بہن،بیوی، عورت،

جاسمن

لائبریرین
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ایک لڑی۔
یہاں ہم ایسی شاعری شئیر کریں گے جو خواتین ،لڑکیوں،بیٹیوں ،بہنوں وغیرہ سے متعلق ہو گی۔
 

جاسمن

لائبریرین
بھلا کیا دکھ کے آنگن میں سلگتی لڑکیاں جانیں
کہیں چھُپتے ہیں آنسو آنچلوں میں منہ چھُپانے سے
 

جاسمن

لائبریرین
بیٹیاں پھول ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔محمود شام(مجموعہ:قربانیوں کا موسم)
پھُول جب شاخ سے کٹتا ہے،بِکھر جاتا ہے
پتّیاں سُوکھتی ہیں، ٹُوٹ کے اُڑ جاتی ہیں
بیٹیاں پھُول ہیں
ماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں
ماں کی آنکھوں کی چمک بنتی ہیں
باپ کے دِل کا سکوں ہوتی ہیں
گھر کو جنت سا بنا دیتی ہیں
ہر قدم پیار بِچھا دیتی ہیں
جب بِچھڑنے کی گھڑی آتی ہے
غم کے رنگوں میں خُوشی آتی ہے
ایک گھر میں اُترتی ہے اُداسی لیکن
دُوسرے گھر کے سنورنے کا یقیں ہوتا تھا
بیٹیاں پھُول ہیں
ایک شاخ سے کٹتی ہیں مگر
سُوکھتی ہیں نہ ٹُوٹتی ہیں
ا،ک نئی شاخ پہ کچھ اور نئے پُھول
کھِلا دیتی ہیں
 
شو جی کا پنجابی کلام ہے کہ

گربھ دتی!!!

عورت تاں اک اوہ پنچھی ہے
جس نوں سونے دے پنجرے وچ
مٹھ ساری بس کنگنی پاکے
ٹنگ دتا ہے جاندا
اولھے کندھیاں

عورت تاں اک اوہ پنچھی ہے
جس نوں سونے دے پنجرے وچ
مٹھ ساری بس کنگنی پاکے
ٹنگ دتا ہے جاندا
اولھے کندھیاں

پر ایہ فروی بھولا پنچھی
کھا کنگنی دے اک دو دانے
چنجھ بھرپی کے ٹھنڈا پانی
رہے دعاواں دیندا
عمروں لمبیاں

ہے آدم دے کامی پترو
یاں ایہ پنچھی مار مکاؤ
یاں اس پنچھی دا کجھ سوچو
چھڈدیوایہنوں کھلاوو
وچ جھنگیاں
الخ
 
آخری تدوین:
شو جی ہوراں دے ای اک ہور کلام
"اشتہار"
صُورت اُس دی پریاں ورگی
سیرت دی اوہ مریم لگدی
ہسدی ہے تاں پھل جھڑوے نیں
ٹردی ھے تاں غزل ہے لگدی
لَم سلّمی سرو قد دی
عمر اَجے ہے مر کے اگ دی
پر نیناں دی گل سمجھدی

اِک کُڑی جہدا ناں محبت
گم ہے ، گم ہے ، گم ہے
ساد مردای ، سوہنی پھبت
گم ہے ، گم ہے ، گم ہے
الخ
 
یہ نظم دادا مرحوم نے اپنی بیٹی (میری پھوپھی مرحومہ) کی رخصتی کے موقع پر لکھی۔ احبابِ محفل کے ذوق کی نذر:
رخصتی

نورِ عینی لختِ دل پاکیزہ سیرت نیک نام
بنتِ خوش اختر مری ہوتا ہوں تجھ سے ہم کلام
عقد تیرا کر دیا بر سنتِ خیر الانامؐ
آج تو ہم سے جدا ہو جائے گی تا وقتِ شام

دل میں اک طوفانِ غم ہے روح میں اک اضطراب
ہے طبیعت میں تکدر بے نہایت بے حساب
آگ سی سینے میں ہے اک ہے جگر میں التہاب
اک تری فرقت سے اف برپا ہیں کتنے انقلاب

ہے تری دنیائے دل میں ہر طرف غم کا غبار
از وفورِ سیلِ غم آنکھیں تری ہیں اشک بار
چھٹ رہا ہے گھر تری بے چینیوں کا کیا شمار
لیکن اے بیٹی سنبھل خود کو نہ کر یوں دلفگار

سن توجہ سے ذرا اے دخترِ شیریں دہن
باپ کا گھر بیٹیوں کے حق میں ہے مثلِ چمن
جب جوانی کی بہار آ جائے اے گل پیرہن
چھوڑنا پڑتا ہے یہ صحنِ چمن بن کر دلہن

میں خبر دیتا ہوں تجھ کو دخترِ غمگیں مری
تیرگئ غم کے پس منظر میں ہے اک روشنی
ساغرِ تلخِ الم میں ہے نہاں کیفِ خوشی
ختم ہے پامال منزل آگئی منزل نئی

میہماں تھی تو یہاں اب تجھ کو تیرا گھر ملا
اب قدم باہر نہ نکلیں جس سے ایسا در ملا
ایک پاکیزہ گھرانہ نیک دل شوہر ملا
شکر واجب تجھ پہ ہے سب کچھ تجھے بہتر ملا

تو کہ تھی محروم لے ماں کی محبت مل گئی
اپنے والد کی طرح ایک اور شفقت مل گئی
پانچ بھائی اور دو بہنوں کی الفت مل گئی
رحمتِ حق سے تجھے ہر شے بکثرت مل گئی

ہے خسر تیرا سبحان اللہ غلامِ آں رسولؐ
ایک سادہ دل مسلماں آدمی اک با اصول
ہو گئیں میری دعائیں سب ترے حق میں قبول
کیوں نصیبِ دشمناں ہوتی ہے تو اتنی ملول

رخصتی کو جمع ہیں کیا اقربا کیا دوسرے
جمگھٹا مردوں کا بھی ہے عورتوں کے بھی پرے
ماں تری لاؤں کہاں سے جو تجھے رخصت کرے
اف پرانے زخم دل کے ہو گئے اس دم ہرے

رخصتی کا مرحلہ لاریب ہے دشوار و سخت
آ کہ سینہ سے لگا لوں اے مری فرخندہ بخت
دیر اب کیوں کر رہی ہے لے سنبھال اپنا یہ رخت
ہو مبارک تجھ کو بیٹی اپنے گھر کا تاج و تخت

اے مرے نوشاہِ خوش خو اے مرے بیٹے رفیق
آ کہ پیشانی پہ بوسہ دوں بہ جذباتِ عمیق
ہے قسم اس ذات کی مجھ کو جو ہے بے حد شفیق
ہم سفر تو نے جو پایا ہے ہنر مند و خلیق

ہے دعا گو اب نظرؔ دونوں سدا شاداں رہو
غم نہ بھٹکے پاس کوئی خوش رہو خنداں رہو
دہر کی نیرنگیوں میں دین کے خواہاں رہو
با مراد و کامراں دونوں بہ ہر عنواں رہو

محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی
 
دوسروں کی شاعری تو ہم پڑھتے نہیں۔ اس لیے اپنی ہی پیشِ خدمت ہے۔
ماں جی سے ایک شکووں بھرا خطاب۔۔۔
کیوں جھگڑتی ہیں بے سبب، ماں جی؟
میں بڑا ہو گیا ہوں اب، ماں جی!

بھلے وقتوں کی آپ کی ہے سوچ
اب بھلا وقت ہے ہی کب، ماں جی؟

وہ زمانہ نہیں رہا، مانیں!
ہے یہی زندگی کا ڈھب، ماں جی

میں تو پھر آپ سے ہوا باغی
لوگ بھولے ہوئے ہیں رب، ماں جی

اندھے قانون کچھ ہیں فطرت کے
یہ خدا کا نہیں غضب، ماں جی

آپ نے بھی تو زندگی کی ہے
جانتی ہوں گی آپ سب، ماں جی

میں سمجھ لوں گا آپ کی باتیں
آپ جتنا بنوں گا جب، ماں جی

آپ بس یہ دعائیں میرے لیے
چھوڑیے گا نہ اب نہ تب، ماں جی

ہے تو بیٹا نا آپ کا راحیلؔ؟
لڑکے ہوتے ہیں بے ادب، ماں جی​
 
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
 
مولانا حالی کی مشہور نظم

اے ماؤ! بہنو! بیٹیو! دنیا کی عزت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمہی، قوموں کی عزت تم سے ہے

تم گھر کی ہو شہزادیاں، شہروں کی ہو آبادیاں
غمگیں دلوں کی شادیاں، دُکھ سکھ میں راحت تم سے ہے

تم ہو تو غربت ہے وطن، تم بن ہے ویرانہ چمن
ہودیس یا پردیس جینے کی حلاوت تم سے ہے

نیکی کی تم تصویر ہو، عفت کی تم تدبیر ہو
ہودین کی تم پاسباں، ایماں سلامت تم سے ہے

فطرت تمہاری ہے حیا، طینت میں ہے مہر و وفا
گھٹی میں ہے صبر و رضا، انساں عبارت تم سے ہے

مونس ہو خاوندوں کی تم، غم خوار فرزندوں کی تم
تم بن ہے گھر ویران سب‘ گھر بھر میں برکت تم سے ہے

تم آس ہو بیمار کی ڈھارس ہو تم بیکار کی
دولت ہو تم نادار کی، عسرت میں عشرت تم سے ہے
 

یوسف سلطان

محفلین
مری آنکھوں کی ساری ان کہی پہچان لو گے
تمھیں بیٹی عطا ہو گی تو سب جان لو گے

سنہری نظم کالی آستیں میں ٹانک دی ہے
اب اس ٹوٹے بٹن کا اور کیا تاوان لو گے

مجھے معلوم ہے تکیے کے نیچے کیا پڑا ہے
مجھے ڈر ہے کسی دن تم مجھی پر تان لو گے

بس ایک چھیدوں بھری دانش ہے اور یہ خوش گمانی
اسی چھلنی میں تم ساری خدائی چھان لو گے

ستائش کے بھسلواں موڑ میں کچھ حرف زادے
تمھیں اپنا خدا کہہ دیں تو کیا مان لو گے

ہماری راہ چل نکلے ہو لیکن یہ نہ سمجھ
کہ اتنی سہولت سے ہمیں تم آن لو گے

(حمیدہ شاہین)
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
اگر بزم ِ انساں میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی
ستاروں کے دل کش فسانے نہ ہوتے
بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی
جبینوں پہ نورِ مسرت نہ ہوتا
نگاہوں میں شانِ مروت نہ ہوتی
گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
فقیروں کو عرفان ہستی نہ ملتا
عطاء زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی
مسافر سدا منزلوں پر بھٹکتے
سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی
ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا ہوتا
نسیمِ بہاراں میں نکہت نہ ہوتی
خدائی کا انصاف خاموش رہتا
سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی
(ساغر صدیقی)
 

جاسمن

لائبریرین
عورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیفی اعظمی
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں
نبضِ ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں
اڑنے کھلنے میں ہے نکہت خمِ گیسو میں نہیں
جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں
اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لئے
فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لئے
قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لئے
زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لئے
رُت بدل ڈال اگر پھلنا پھولنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں، اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

توڑ کر رسم کے بت بندِ قدامت سے نکل
ضعفِ عشرت سے نکل وہمِ نزاکت سے نکل
نفس کے کھینچے ہوئے حلقہء عظمت سے نکل
قید بن جائے محبت، تو محبت سے نکل
راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تو فلاطون و ارسطو ہے، تو زہرہ پروین
تیرے قبضے میں ہےگردوں تری ٹھوکرمیں زمیں
ہاں اُٹھا جلد اُٹھا، پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں تو بھی رکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
 
محبت کی پہلی اَذاں بیٹیاں
عنایاتِ رَب کی ہے جاں بیٹیاں

نبیؐ کو سمجھتے ہو گر خوش نصیب !!
سعادَت کا پھر ہیں نشاں بیٹیاں

وَہاں رَب کی رَحمت گزرتی نہیں
جہاں پر بھریں سسکیاں بیٹیاں

محمدؐ کا پیرو نہ خود کو کہے
ذِرا بھی ہیں جس پہ گراں بیٹیاں

مِرے بیٹے یہ کوئی شکوہ نہیں
ملاتی ہیں پر ہاں میں ہاں بیٹیاں

ہر اِک آنکھ میں اَشک بھرنے لگیں
جنازے پہ نوحہ کناں بیٹیاں

خدا پیار کرتا ہے ماں جیسا قیسؔ
خدا ہی بناتا ہے ماں بیٹیاں

شہزاد قیس
 

جاسمن

لائبریرین
ہم گھرانے کی شان رکھتے ہیں
بند مٹھی کی آن رکھتے ہیں
گھر کی عزت کا پاس ہے ورنہ
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
بیٹی مریم ہے ، بیٹی زہرہ ہے
بیٹی رحمت ہے ، بیٹی زہرہ ہے
بیٹی سیتا ہے اور ساوتری
بیٹی عنوان درس عبرت ہے
سلیمان خطیب
 

جاسمن

لائبریرین
بیٹی اور باپ

'''''''''''''''''''''''''''
باپ اور بیٹا
گھر کے پچھلے لان میں
کرکٹ کھیل رہے تھے
کرکٹ کا ماہر تھا والد
پر بیٹے کا دل رکھنے کو
جان بوجھ کر ہار رہا تھا
بیٹا جیت کی سرشاری میں
خوش تھا ،نعرے مار رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
سات برس کی پیاری بیٹی
بینچ پہ بیٹھی
سارا منظر دیکھ رہی تھی
وہ ابّو کی ہار مسلسل
سہہ نہ پائی
دوڑ کے آئی
باپ سے لپٹی
رو کر بولی
ابّو میرے ساتھ بھی کھیلیں
آپ کو جتوانے کی خاطر
میں ہاروں گی

عرشی ملک
 

جاسمن

لائبریرین
سنا یہ ہے بنا کرتے ہیں جوڑے آسمانوں پر
تو یہ سمجھیں کہ ہر بیوی بلائے آسمانی ہے
احمد علوی
 
Top