فاروق احمد بھٹی
محفلین
تحریک پیش کی جائے؟بلکل ہے۔
پارلیمنٹ میں تحریک پیش کی جائے اور یمن و سعودیہ سلسلہ ہائے پیار محبت کی طرح کوئی قرارداد پیش کی جائے
تحریک پیش کی جائے؟بلکل ہے۔
پارلیمنٹ میں تحریک پیش کی جائے اور یمن و سعودیہ سلسلہ ہائے پیار محبت کی طرح کوئی قرارداد پیش کی جائے
بلکل ۔۔۔تحریک پیش کی جائے؟
مطلب پاکستان سے تو ہر دو طرح بلکہ ہر 3، 4، 5 طرح کے مختلف نظریات رکھنے والے لوگ کچھ نہ کچھ منسوب کر ہی چکے ہیں تو آپ کیا ہر منسوب چیز کا دفاع کریں گےآپ کچھ وضاحت کردیجے میں جواب دے دوں گا۔ ان شاءاللہ۔
ملالہ واقعی پہنچ گئی ؟ملالہ خلا میں پہنچ گئی، کیا خیال ہے طالبان اس سیارچے کو تباہ کرنے کا اعلان کریں گے ؟
پہنچی تو وہ کب سے تھی۔۔۔۔۔ بس پلاٹ اسے اب الاٹ ہوا ہےملالہ واقعی پہنچ گئی ؟
اور اگر کسی نے ویٹو کر دیا تو۔۔۔۔۔۔۔بلکل ۔۔۔
بعد میں اسے قرارداد میں بدل کر قانون منظور کیا جائے
یا شاید پہنچا دی گئی؟ملالہ واقعی پہنچ گئی ؟
مطلب پاکستان سے تو ہر دو طرح بلکہ ہر 3، 4، 5 طرح کے مختلف نظریات رکھنے والے لوگ کچھ نہ کچھ منسوب کر ہی چکے ہیں تو آپ کیا ہر منسوب چیز کا دفاع کریں گے
لہذا ان نکات کی بنیاد پر آپ کو چاہیے کہ ملالہ کی مخالفت کریں۔خیر چونکہ وہ سنجیدہ بات نہیں تھی سو جو دل چاہا لکھ دیا۔
اگر آپ کی مراد ملالہ سے ہے اور اُس طبقے سے ہے جو ہر وقت ملالہ کے گن گاتے نہیں تھکتا تو سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھی اس معاملے میں بہت سے اشکال ہیں۔
تاہم ملالہ کی حمایت کرنے والے لوگ پاکستانی لبرل طبقہ کے لوگ ہے۔ سو اُن سے تو ہمارا ہر ہر موڑ پر اختلاف ہے۔
1- وہ آئے دن اسلام کے خلاف کوئی نہ کوئی بات نکال کر لے آتے ہیں۔
2- وہ ہر دوسرے دن دو قومی نظریے پر وار کرتے ہیں۔
3- وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے سخت مخالف ہیں۔
4- وہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔
5- وہ طالبان اور دیگر مذہبی تنظیموں کی آڑ لے کراسلام کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔
6- وہ پاکستانیوں کو اسلام سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
7- اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ ہے کہنے کو اس سلسلے میں۔
محفل پر ان تمام موضوعات پر ڈھیروں گفتگو ہو چکی ہے۔ لیکن بات دلائل اور بحث کی نہیں ہے بلکہ بات دو طبقات کی ہے جو ایک دوسرے کے راست مخالف ہیں۔ محفل پر قائم رہنے والی اور مقفل ہو جانے والی بہت سی لڑیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ ان معاملات پر اِن سے بحث کرکے آپ انہیں قائل نہیں کر سکتے۔ اور جب کوئی دلائل سے قائل نہیں ہونا چاہتا تو پھر ایسی بحث وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
سو اپنے کام سے کام رکھنا ہی دونوں طبقات کے لئے اچھا ہے۔
لہذا ان نکات کی بنیاد پر آپ کو چاہیے کہ ملالہ کی مخالفت کریں۔
اجی ہمارا بھی مقصد قطعی طور پر بات کو سنجیدگی کی طرف لے جانے کا نہیں تھا۔خیر چونکہ وہ سنجیدہ بات نہیں تھی سو جو دل چاہا لکھ دیا۔
اگر آپ کی مراد ملالہ سے ہے اور اُس طبقے سے ہے جو ہر وقت ملالہ کے گن گاتے نہیں تھکتا تو سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھی اس معاملے میں بہت سے اشکال ہیں۔
تاہم ملالہ کی حمایت کرنے والے لوگ پاکستانی لبرل طبقہ کے لوگ ہے۔ سو اُن سے تو ہمارا ہر ہر موڑ پر اختلاف ہے۔
1- وہ آئے دن اسلام کے خلاف کوئی نہ کوئی بات نکال کر لے آتے ہیں۔
2- وہ ہر دوسرے دن دو قومی نظریے پر وار کرتے ہیں۔
3- وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے سخت مخالف ہیں۔
4- وہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔
5- وہ طالبان اور دیگر مذہبی تنظیموں کی آڑ لے کراسلام کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔
6- وہ پاکستانیوں کو اسلام سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
7- اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ ہے کہنے کو اس سلسلے میں۔
محفل پر ان تمام موضوعات پر ڈھیروں گفتگو ہو چکی ہے۔ لیکن بات دلائل اور بحث کی نہیں ہے بلکہ بات دو طبقات کی ہے جو ایک دوسرے کے راست مخالف ہیں۔ محفل پر قائم رہنے والی اور مقفل ہو جانے والی بہت سی لڑیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ ان معاملات پر اِن سے بحث کرکے آپ انہیں قائل نہیں کر سکتے۔ اور جب کوئی دلائل سے قائل نہیں ہونا چاہتا تو پھر ایسی بحث وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
سو اپنے کام سے کام رکھنا ہی دونوں طبقات کے لئے اچھا ہے
یہ تو آپ اپنے خیالات زریں فرمانے سے پہلے سوچا کریں۔ملالہ اور اُس سے متعلقہ نہ جانے کتنے دھاگوں میں دونوں مکاتبِ فکر ملالہ کے معاملے میں اپنے اپنے خیالات و تحفظات بارہا پیش کر چکے ہیں، کیا ضروری ہے کہ ہم اور آپ پھر سے الف لیلیٰ کی داستان شروع کریں۔
واشنگٹن(نیوزڈیسک)دنیا کی سب سے کم عمر نوبل امن انعام یافتہ اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم ملالہ یوسفزئی کے نام سے ایک سیارچہ منسوب کردیا گیا ہے۔اس بات کا اعلان بدھ کے روز ملالہ فنڈ نے کیا۔ناسا کے خلا باز ڈاکٹر ایمی مینزر نے 316201 نامی سیارچے کو ملالہ کے نام سے منسوب کیا۔ڈاکٹر مینزر کے مطابق یہ سیارچہ مریخ اور مشتری کے درمیان موجود ہے، یہ ہر 5.5 سال میں سورج کے گرد چکر مکمل کرتا ہے اور یہ سرخ رنگ کا ہے جیسا کہ اس نصویر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔بہت ہی کم سیارچوں کا نام کسی خاتون کے نام پر رکھا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر مینزر کے مطابق وہ اس سیارچہ کا نام ملالہ پر رکھ کر بہت فخر محسوس کر رہے ہیں۔ملالہ اس وقت 17 سال کی ہیں اور اپنے نام امن کے نوبل انعام سمیت بے شمار ایوارڈز کرچکی ہیں۔
سیارچے ملالہ کی حفاظت کا قانون۔۔ امید ہے طالبان و طالبان نواز اس قانون کا احترام کر لیں گےاور اگر کسی نے ویٹو کر دیا تو۔۔۔۔۔۔۔
اور ویسے بھی قوانین پر تو جیسے بہت عمل درآمد کیا جا رہا ہے یہاں۔۔۔۔
اور جو طالبان نواز نہ ہوں وہسیارچے ملالہ کی حفاظت کا قانون۔۔ امید ہے طالبان و طالبان نواز اس قانون کا احترام کر لیں گے
وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے ۔۔۔ انجوائے کریںاور جو طالبان نواز نہ ہوں وہ
ارے ہم نے سوچا کہ آپ ہمیں قائل کریں گے لیکن آپ تو شخصی آزادی والوں سے بھی زیادہ شخصی آزادی کے قائل نکلےوہ غیر جانبدار رہتے ہوئے ۔۔۔ انجوائے کریں
احمد بھائی، مطالعہ کیا کریں ۔۔۔اگر مغرب کو ملالہ بہت ہی پسند ہے تو اُنہیں چاہیے کہ وہ ملالہ کے نام سے پاکستان میں تعلیمی سیکٹر میں پروجیکٹس شروع کریں یا حکومتی پروجیکٹس میں معاونت کریں، تاکہ تعلیم کے لئے لڑنے والی ملالہ کے 'کاز' کو تقویت ملے۔