باذوق
محفلین
صحیح بخاری کی کتاب النکاح کا ایک باب کا عنوان یہ ہے :پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت ، سپريم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ کوئی عاقل و بالغ مسلمان عورت اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اہل ہے اور اس کو اپنےخاندان کے کسی ولی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
باب من قال لا نكاح إلا بولي. لقول الله تعالى {فلا تعضلوهن} فدخل فيه الثيب وكذلك البكر. وقال {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} وقال {وأنكحوا الأيامى منكم}۔
یعنی :
ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ سورہ البقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :
جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو (عورتوں کے اولیاء) تم کو ان کا روک رکھنا درست نہیں ۔۔۔ ۔(سورہ : 2 ، آیت : 232 )۔
اس میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا :
( عورتوں کے اولیاء) تم عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو ۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 221 )۔
جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو ۔۔۔ (سورہ : 24 ، آیت : 32 )۔
صحیح بخاری کی کتاب النکاح کے ایک باب کے عنوان ہی سے امام بخاری رحمہ اللہ وضاحت کرتے ہیں کہ : ان دونوں آیتوں میں اللہ نے اولیاء کی طرف خطاب کیا کہ ’نکاح نہ کرو‘ یا ’نکاح کر دو‘ ۔ تو معلوم ہوا کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے ۔
مسلم ، ابو داؤد اور ترمذی کی حدیث ہے کہ :
بیوہ کو اپنے نفس پر ولی سے زیادہ اختیار حاصل ہے ۔
۔( صحیح مسلم ، کتاب النکاح ، باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق والبكر بالسكوت ، حدیث : 3542 )۔
لہذا اس حدیث کی بنیاد پر بعض علماء نے ثیبہ یعنی بیوہ کو قرآن کی مذکورہ بالا آیات کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔
جس عورت کا کوئی ولی زندہ نہ ہو تو حاکم یا بادشاہ اس کا ولی ہوتا ہے ۔
اس کی دلیل میں جو صحیح احادیث ہیں وہ ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ اور ابن حبان میں وارد ہیں ۔
ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث یوں ہے کہ : نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا ۔
ابن ماجہ کی ایک حدیث یوں ہے کہ : کوئی عورت اپنا نکاح آپ نہ کرے اور کوئی عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے ۔
ترمذی کی ایک حدیث یوں ہے : جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کرے ، اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے ۔