لڑکی / عورت کی شادی میں ’ولی‘ کی اہمیت ؟

wahab49

محفلین
محترمینِ گرامی۔
ایک بات قابلِ غور ھے کہ نکاح کی شرائط میں گواھوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ھی نکاح ھے۔
دوسری بات۔
جب اسلام آیا تو زمانے کی صورتحال یکسر مختلف تھی۔ اسلام میں زمانے کے حساب سے مسائل کے حل کیلیے اجماع اور قیاس کی گنجائش بھی موجود ھے۔
آجکل کے دور میں جب کہ لڑکی سکول و کالج جاتی ھو۔ اور باھر کے ماحول میں سب کچھ خود دیکھ سکتی ھو تو شاید ایسا کرنا ممکن ھے۔
دراصل نکاح ایک بہت عظیم فعل ھے۔ سنتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ھے۔ اور اس کیلیے احتیاط برتنا لازم امر ھے۔
اسلام میں تو تصاویر بھی ممنوع ھیں۔ لیکن میں نے ایک معصوم لڑکی کا گھر اجڑنے سے بچتے دیکھا صرف تصاویر کی بنیاد پر۔
میرا خط موضوع سے ذرا ھٹ کر ھے۔ لیکن پس منظر میں موضوع سے منسلکہ ھے۔
حکومتِ پاکستان اسلام کے خلاف کچھ نہ کریں گے۔ البتہ دین میں آسانی پیدا کرنا کچھ غلط نہیں ھے۔
ھم لوگ کسی ایک ایشو کو پکڑ لیتے ھیں۔ دراصل ھمارے سیاسی مُلا ھمیں اس طرف لے جا رھے ھیں۔
اسلام میں چوری کی سزا ھاتھ کاٹنا ھے۔ کیا پاکستان میں ایسا ھوتا ھے؟؟ بہت سے ایسے جرائم ھیں جنکا ذکر ممکن نہیں لیکن وہ سزائیں بھی نہیں دی جاتی ھیں۔ فرق صرف اتنا ھے کہ عوام کی توجہ اس بات پر مبذول کرائی جاتی ھے جہاں سے سیاست چمکائی جا سکے۔ اور کچھ نہیں
 

باذوق

محفلین
مہوش علی :
آیت کے ترجمے میں "اولیاء" کے اضافی الفاظ قرانی آیت میں موجود نہیں۔ اگر تشریح کے طور پر اضافی الفاظ لانا ضروری بھی ہوں تو اسکا طریقہ یہ ہے کہ انہیں بریکٹز کے درمیان لکھا جائے۔
قیصرانی :
آپ کا اولیاء کے لفظ کا ترجمے میں اضافہ ایک علمی خیانت شمار ہوتی ہے


ذرا نیچے ثبوت بھی ملاحظہ فرما لیں کہ : ترجمے میں "اولیاء" کے اضافی الفاظ کس مترجم کی " علمی خیانت " ہے ؟
بخاری شریف کے دو تراجم سے درج ذیل تراشے لیے گئے ہیں اور دونوں تراجم " مولانا وحید الزماں " کے ہیں ۔ پہلا تراشہ ’ترجمہ بخاری‘ کا ہے اور دوسرا ’تیسیر الباری - ترجمہ و تشریح بخاری‘ سے لیا گیا ہے ۔ اور یہ " مولانا وحید الزماں " وہی ہیں جن کے صحاح ستہ کے اردو ترجمہ کی آن لائن فراہمی کا کام اردو محفل پر شروع کیا گیا ہے ۔

میں نے بذاتِ خود آیت کا ترجمہ نہیں کیا تھا ( ایسی جراءت باذوق نے کبھی نہیں کی ) بلکہ مولانا داؤد راز کے ترجمہ کو AS IT IS کاپی کیا تھا ، جیسا کہ پچھلی ایک پوسٹ میں وضاحت کر چکا ہوں ۔
اگر بریکٹ نہ لگانا میری غلطی تھی تو میں اس کی سرِ عام معافی مانگ چکا ہوں لیکن یہ میری دیانت داری بھی ہے کہ میں نے مترجم کے ترجمے کو جیسا کا تیسا پیش کیا ۔
امید ہے کہ "علمی خیانت" کا جو واحد اشارہ باذوق کی جانب کیا جا رہا تھا ، اس سے دستبرداری اختیار کر لی جائے گی ، شکریہ ۔

wahidi.gif
 

باذوق

محفلین
احتیاط ؟

قیصرانی نے کہا:
۔۔۔
وضاحت کرتے ہوئے آپ کی باتوں کے سیاق و سباق سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ ولی کے لفظ کے نہ ہونے سے زیادہ آپ اس کے ہونے کا تذکرہ کر رہے ہیں
قیصرانی :
آپ کی باتوں کے سیاق و سباق سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ ولی کے لفظ کے نہ ہونے سے زیادہ آپ اس کے ہونے کا تذکرہ کر رہے ہیں

اگر آیت میں ولی کا لفظ نہیں ہے تو اس آیت میں ولی کے ہونے کا تذکرہ کیا باذوق خود ذاتی طور سے کر رہا ہے ؟
آپ بھول رہے ہیں کہ اس آیت میں ولی کے ہونے کا تذکرہ امام بخاری کر رہے ہیں اور امام ابن کثیر اور امام ابن جریر بھی ۔
کیا آپ نے اِس دھاگے کی میری یہ پوسٹ نہیں پڑھی اور یہ بھی ۔۔۔ ؟
 

باذوق

محفلین
عورت کا ولی ؟

خرم نے کہا:
باذوق بھائی ایک حدیث کا حوالہ تو میں نے دیا تھا جس میں ایک صحابیہ نے آ کر سرکارِ دوعالم صل اللہ علیہ وسلم کو اپنا ولی مقرر کیا تھا۔ دوسری آپ نے جو احادیث بیان فرمائی ہیں ان میں بھی یہی صراحت سے کہا گیا ہے کہ جب تک کوئی مرد گواہ نہ ہو تب تک نکاح باطل ہے۔ تو بات گواہی کی یعنی ایک قانونی معاہدہ کے قرار پانے کی شرائط کی ہے۔ اسی طرح جو واقعہ آپ نے بیان فرمایا ہے اس میں بھی منع کیا گیا ہے عورتوں کے وارثوں کو کہ وہ اپنی بیٹیوں بہنوں کو شادی سے روکیں جب کہ وہ کسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تو پھر اختلاف کس بات پر؟ ہم ایک ہی بات تو کر رہے ہیں۔
اختلاف اس بات پر ہے :
خرم :
ولی وہ ہوتا ہے جسے لڑکی مقرر کرے

میں‌نے آپ سے ، آپ کے درج بالا قول کی دلیل مانگی ہے ۔
آپ نے جو حدیث پیش فرمائی تھی ۔۔۔ وہ صحیح بخاری میں تین جگہوں پر یوں درج ہے :
سہل بن سعد ساعدی نے روایت کیا کہ ایک عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ھبہ کرتی ہوں ۔ رسول اللہ نے انہیں دیکھا اور کوئی جواب نہیں دیا ۔ پھر آپ کے صحابہ میں سے ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کا نکاح مجھ سے کرا دیجئے ۔ رسول اللہ (ص) نے دریافت فرمایا : تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔ آپ (ص) نے پھر پوچھا : لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ہے ۔ البتہ میں اپنی یہ چادر پھاڑ کے آدھی انہیں دے دوں گا اور آدھی خود رکھوں گا ۔ رسول اللہ نے فرمایا : نہیں ، تمہارے پاس کچھ قرآن بھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہے ۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ پھر جاؤ میں نے تمہارا نکاح ان سے اس قرآن مجید کی وجہ سے کیا جو تمہارے ساتھ ہے ۔
(بخاری ، کتاب النکاح)

اس حدیث کی شرح میں مولانا داؤد راز اور مولانا وحید الزماں لکھتے ہیں کہ :
آپ اس عورت کے اور سب مسلمانوں کے ولی تھے ۔ اور مناسبت یہ ہے کہ جب اس مرد نے پیغام دیا تو آنحضرت (ص) نے جو سب مسلمانوں کے ولی تھے ، آپ (ص) نے اس مرد کا نکاح اس عورت سے کر دیا۔

بےشک ہم اس تشریح کو قبول کرنے یا ردّ کرنے کے لیے آزاد ہیں ۔
لیکن مسئلہ یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کو دو بار درج ذیل باب کے تحت بیان کیا ہے :
اذا کان الولی ھو الخاطب ( اگر عورت کا ولی خود اس سے نکاح کرنا چاہے )
اور تیسری بار ، امام بخاری اسی حدیث کو ذیل کے باب میں بیان کرتے ہیں :
السلطان ولی لقول النبی (ص) زوّجنا کھا بما معک من القرآن
سلطان بھی ولی ہے کیونکہ نبی کریم (ص) نے فرمایا ہم نے اس عورت کا نکاح تجھ سے کر دیا اس قرآن کے بدلے جو تجھ کو یاد ہے ۔

کیا اس حدیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عورت جسے چاہے ولی منتخب کر سکتی ہے ؟
پھر امام بخاری کے لفظ ’سلطان‘ کی کیا توجیہ پیش کی جائے گی ؟ کیا آج کوئی عورت اپنے ملک کے کسی مرد کو ولی منتخب کر لے تو وہ مرد امام بخاری کے الفاظ میں ’سلطان‘ کہلانے کا حقدار ہو جائے گا؟ جبکہ ’سلطان‘ کہتے ہیں بادشاہ کو ۔
جیسا کہ مسند احمد کی مشہور حدیث ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إن أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر
جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ، افضل جہاد ہے ۔
مسند احمد ، المجلد الثالث ، مسند ابي سعيد الخدري رضي الله تعالى عنه ، حدیث : 10716

لہذا یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ عورت جسے چاہے اپنا ولی منتخب کر لے ۔ اس طرح کی اجازت مل جائے تو ظاہر ہے عورت اسی مرد کو اپنا ولی بنا لے گی جو اس کی ہر بات پر سر تسلیم خم کر دے ۔ اس طرح تو بیشمار احادیث میں ولی کی جو اہمیت بتائی گئی ہے وہ ایک مذاق بن کر رہ جائے گی ۔

برادر خرم ، بےشک میں اب بھی اپنی بات سے رجوع کرنے تیار ہوں بشرطیکہ آپ کوئی ایسی صحیح حدیث پیش فرمائیں جس سے ظاہر ہو کہ کسی بھی مسلمان عورت کو اختیار ہے کہ وہ جس مرد کو چاہے اپنا ولی بنا لے ۔
 

باذوق

محفلین
مرد یا ولی ؟؟

سپريم کورٹ :
پاکستان کی اعلی ترین عدالت ، سپريم کورٹ نے جعمہ کو قرار دیاہے کہ کوئی عاقل و بالغ مسلمان عورت اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اہل ہے اور اس کو اپنےخاندان کے کسی ولی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
وفاقی شرعی عدالت :
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وفاقی شرعی عدالت کا وہ فیصلہ جس میں اس نے قرار دیا تھا کہ کوئی عاقل و بالغ مسلمان عورت اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اہل ہے اور اس کو اپنے خاندان کے کسی مرد کی رضامندی کی محتاج نہیں ہے درست ہے۔


درج بالا سرخ رنگ کی سطروں پر خوب غور کرنے کی احباب سے گذارش ہے ۔
خاندان کے مرد اور ولی میں فرق ہے ۔ ولی ، خاندان کا مرد بھی ہو سکتا ہے اور سلطان ( بادشاہ ، خلیفہ یا شرعی عدالت ) بھی !
وفاقی شرعی عدالت صرف خاندان کے مرد کی اجازت کو غیر ضروری بتا رہی ہے جبکہ سپریم کورٹ ولی ہی کی اتھاریٹی کی منکر ہے ۔
اب اس معاملے میں وضاحت تو وفاقی شرعی عدالت ہی کو کرنا چاہئے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مرد یا ولی ؟؟

باذوق نے کہا:
سپريم کورٹ :
پاکستان کی اعلی ترین عدالت ، سپريم کورٹ نے جعمہ کو قرار دیاہے کہ کوئی عاقل و بالغ مسلمان عورت اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اہل ہے اور اس کو اپنےخاندان کے کسی ولی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
وفاقی شرعی عدالت :
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وفاقی شرعی عدالت کا وہ فیصلہ جس میں اس نے قرار دیا تھا کہ کوئی عاقل و بالغ مسلمان عورت اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اہل ہے اور اس کو اپنے خاندان کے کسی مرد کی رضامندی کی محتاج نہیں ہے درست ہے۔


درج بالا سرخ رنگ کی سطروں پر خوب غور کرنے کی احباب سے گذارش ہے ۔
خاندان کے مرد اور ولی میں فرق ہے ۔ ولی ، خاندان کا مرد بھی ہو سکتا ہے اور سلطان ( بادشاہ ، خلیفہ یا شرعی عدالت ) بھی !
وفاقی شرعی عدالت صرف خاندان کے مرد کی اجازت کو غیر ضروری بتا رہی ہے جبکہ سپریم کورٹ ولی ہی کی اتھاریٹی کی منکر ہے ۔
اب اس معاملے میں وضاحت تو وفاقی شرعی عدالت ہی کو کرنا چاہئے ۔


باذوق صاحب،

میں بھی وفاقی شرعی عدالت کا بیان پڑھ رہی ہوں، اور مجھے اس میں اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہا۔

وفاقی شرعی عدالت بھی بالغہ اور راشدہ لڑکی کے لیے کسی بھی ولی کی منکر ہے

وفاقی شرعی عدالت :
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وفاقی شرعی عدالت کا وہ فیصلہ جس میں اس نے قرار دیا تھا کہ کوئی عاقل و بالغ مسلمان عورت اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اہل ہے اور اس کو اپنے خاندان کے کسی مرد کی رضامندی کی محتاج نہیں ہے درست ہے۔[/size]

مجھے تو وفاقی شرعی عدالت کے بیان سے صاف لگ رہا ہے کہ عاقل و بالغ مسلمان عورت کو کسی سلطان یا کورٹ یا خاندان کے کسی فرد (مرد یا عورت) کسی کو بھی ولی بنانے کی ضرورت نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میرے خیال میں آجکل کے ماحول کے مطابق اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ دو سگے بھائی بھی طبیعتوں کے حساب سے کافی مختلف ہو سکتے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ ایک کے دوست دوسرے کے اچھے دوست ثابت نہ ہوں۔
پھر طبیعتوں کا یہ فرق باپ اور بیٹی کی جنریشن میں اور بڑھ جاتا ہے۔

یہاں ایک ترک تاجر ہیں۔ حضرت انتہا درجے کے Materialist ہیں اور اُن کی ہر بات پیسہ بنانے پر شروع ہو کر پیسہ بنانے پر ختم ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی بڑی بیٹی کے لیے جب داماد ڈھونڈا تو بالکل اپنی طرح کا Materialist داماد ڈھونڈا۔ نتیجہ کیا ہوا؟؟؟؟؟ شوہر اور بیوی کی بالکل نہیں بنی۔

اور بڑی بہن کا انجام دیکھتے ہوئے چھوٹی بہن (بلکہ دو چھوٹی بہنوں) نے بغاوت کی اور اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کی۔ یہ سب بہنیں عمر میں مجھ سے کافی بڑی ہیں (میری امی کی جنریشن کی ہیں) اور آج سب سے چھوٹی بہن کی شادی کو بھی تقریبا 1ٍ5/16 سال گذر گئے ہیں اور یہ دونوں چھوٹی بہنیں خوش و خرم ہیں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

پاکستان کے معاشرے کو دیکھتے ہوئے بھی یہ کہنا بہتر ہو گا کہ سپریم کورٹ ولی کی اتھارٹی عدالتوں کو ہی تفویض کر دے کیونکہ پاکستانی ولی کبھی لسانی اور کبھی ذاتی دشمنیوں اور کبھی ذات پات کے چکر کی بنا پر اندھے ہو جاتے ہیں۔


اور سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ پشتون علاقوں میں ولی حضرات اپنی بیٹیوں کو اُن کے ساتھ بیاہ دیتے ہیں (بلکہ بیچ دیتے ہیں) جو زیادہ حق مہر دینے کی پیشکش کر دیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اچھا، اب آخر میں اُس نازک مرحلے پر آتی ہوں جسے میں ٹالنے کی کوشش کر رہی تھی۔

دیکھیں، میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے پاس یقینا قران و سنت سے ٹھوس دلائل ہی ہوں گے جس کی بنا پر اُس نے یہ فیصلہ دیا ہے۔

اور ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ فقہ میں اختلافات پائے جا سکتے ہیں اور ایک ہی معاملے میں دو یا دو سے بھی زیادہ آراء پائی جا سکتی ہیں۔ جب تک ہم اس اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کریں گے، اُس وقت تک امت میں فتنہ ہی پیدا ہوتا رہے گا۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

سورہ بقرہ مکہ میں اور پھر مدینہ کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی

باذق صاحب،

آپ نے ولی کے لیے جو آیات نقل کی ہیں، وہ سورہ بقرہ کی آیات ہیں۔ اور سورہ بقرہ کا کچھ حصہ مکہ میں اور باقی حصہ مدینہ کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوا۔


اگر یہ چیز آپکے ذہن میں ہے، تو پھر ذیل کی روایت پر ایک نظر ڈالیں


سن 8 ہجری (فتح مکہ کے بعد) کی ایک روایت

[align=left:554a045e02]Sahih Muslim, Book 008, Number 3253:

Rabi' b. Sabra reported that his father went on an expedition with Allah's Messenger (may peace be upon him) during the Victory of Mecca, and we stayed there for fifteen days (i. e. for thirteen full days and a day and a night), and Allah's Messenger (may peace be upon him) permitted us to contract temporary marriage with women. So I and another person of my tribe went out, and I was more handsome than he, whereas he was almost ugly. Each one of us had a cloaks, My cloak was worn out, whereas the cloak of my cousin was quite new. As we reached the lower or the upper side of Mecca, we came across a young woman like a young smart long-necked she-camel. We said: Is it possible that one of us may contract temporary marriage with you? She said: What will you give me as a dower? Each one of us spread his cloak. She began to cast a glance on both the persons. My companion also looked at her when she was casting a glance at her side and he said: This cloak of his is worn out, whereas my cloak is quite new. She, however, said twice or thrice: There is no harm in (accepting) this cloak (the old one). So I contracted temporary marriage with her, and I did not come out (of this) until Allah's Messenger (may peace be upon him) declared it forbidden.

http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/008.smt.html[/align:554a045e02]

باذوق صاحب،

کیا آپ اس کو صحیح حدیث تسلیم کرتے ہیں؟

اگر یہ حدیث صحیح ہے، تو جو چیزیں ہمیں پتا چل رہی ہیں، وہ یہ ہیں:

۔ یہ حدیث فتح مکہ کے بعد کی ہے۔ (یعنی رسول اللہ کی وفات سے تقریبا ڈیڑھ یا دو سال قبل کی)۔ اور اس وقت تک شریعت کافی حد تک مکمل ہو چکی تھی۔


۔ صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری حدیث سے پتا چلتا ہے کہ یہ صحابیہ قبیلہ بنی عامر سے تعلق رکھتی تھیں۔


۔ صحابی سبرہ الجہنی اور انکے ساتھی صحابی نے براہ راست قبیلہ بنی عامر کی ان صحابیہ کو عقد کی پیشکش کی۔


۔ قبیلہ بنی عامر کی یہ صحابیہ بغیر کسی ولی کے خود اپنے عقد کا فیصلہ کرتی ہیں۔


۔ یہ عقد اگرچہ کہ "عقدِ متعہ" تھا، مگر اسکا اطلاق یقینی طور پر "عقد دائمہ (یعنی نکاح)" پر بھی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ رسول (ص) عورتوں کو اجازت دے دیں کہ بغیر ولی کے وقتی نکاح تو کرتی رہیں، مگر جب دائمی نکاح کی بات آئے تو وہ بغیر ولی کے نہ ہو سکے؟؟؟


۔ نوٹ: کچھ علماء کی رائے میں عقد بغیر گواہ کے بھی ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں میں نے شاکر (دوست) کو تفصیل سے جواب دیا تھا۔ مگر یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ یہاں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ باذوق صاحب نے ولی کی شرط کے لیے جو ایک حدیث پیش کی تھی، اُسکا دوسرا جزو گواہوں کی موجودگی کو لازمی بتا رہا ہے۔ جبکہ میرا کہنا یہ ہے کہ کچھ علماء اس حدیث کو قبول نہیں کرتے اور اسی وجہ سے وہ گواہوں کے قائل نہیں ہیں [بلکہ سپریم کورٹ کا ہی ایک فیصلہ ہے جس میں سپریم کورٹ نے بغیر گواہوں کے نکاح کو جائز رکھا ہے۔ اس بات کا تذکرہ ارشاد احمد حقانی صاحب نے اپنے جنگ اخبار کے ایک کالم میں کیا ہے]



\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

مسائل یہ ہیں کہ اس موضوع پر اور بھی ایسی بہت سی احادیث ہوں گی جو کہ ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے نہیں جانتے۔ اور یقینا سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت نے بہت سوچ سمجھ کر اور ہر طرح کے دلائل سننے اور جانچنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہو گا۔ لہذا اس فیصلہ کو اسلام کے خلاف کہنا کچھ صحیح نہ ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ اسکو آپ "اجتہادی اختلاف" (یا اگر اختلاف کو آپ قبول نہیں کر سکتے تو "اجتہادی خطا") کا نام دے لیں، مگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اسلام کے خلاف قرار دینا کچھ زیادتی لگ رہی ہے۔
 

خرم

محفلین
باذوق بھائی آپ کے سوال کے جواب میں مزید سوالات اور پھر مزید سوالات پیش کئے جا سکتے ہیں‌اور اس طرح یہ نکتہ ہمیشہ لاحل رہے گا۔ چلیں ہم بالفرض اگر یہ مان لیں کہ لڑکی کا ولی صرف اس کے خاندان کا کوئی فرد ہی ہوگا (اگرچہ اس کے حق میں کوئی دلیل قرآن یا سنت سے ثابت نہیں ہے‌‌ اور اگر ہے تو پھر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو چیلنج کیا جانا چاہئے) پھر بھی نکاح کا فیصلہ لڑکی کا اپنا ہی ہوگا جیسا کہ امام بخاری کی تشریح سے ثابت ہے اور لڑکی کے والیوں کو یہ جائز نہیں کہ وہ لڑکی کو مجبور کریں۔ اس دوسرے مسئلہ پر تو آپ متفق ہیں نا (اپنے ہی فراہم کردہ تراجم کی بناء پر)؟
باقی ولی کی اہمیت کے بارے میں میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس کا ہونا ضروری ہے اسی طرح جیسے گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور عام حالات میں بغیر گواہوں کے شادی میری رائے میں‌جائز نہیں ہے۔ (اگرچہ انتہائی ناموافق حالات میں اس کو جائز بھی قرار دیا جا سکتا ہے جیسا کہ اگر لڑکا اور لڑکی غیر معینہ مدت کے لئے کسی ایسی صورتحال میں پھنس گئے ہوں کہ جہاں‌سے نکلنا ممکن نہ ہو اور وہ آپس میں محرم نہ ہوں)
 

باذوق

محفلین
صحیح مسلم کی حدیث ۔۔۔ ؟

مہوش علی نے کہا:
۔۔۔
باذوق صاحب،
کیا آپ اس کو صحیح حدیث تسلیم کرتے ہیں؟
اگر یہ حدیث صحیح ہے، تو جو چیزیں ہمیں پتا چل رہی ہیں، وہ یہ ہیں:
سسٹر مہوش علی ،
آپ کی دیگر باتوں کا جواب جلد دوں گا ۔۔۔ لیکن آپ مجھے جانتی ہیں اسلیے ایسا سوال دریافت کرنا غیرضروری امر تھا ۔
شاکر القادری بھائی نے بھی ایک جگہ ایسا ہی کچھ معاملہ اٹھایا ہے ۔۔۔
میرا موقف یہ ہے کہ صحیحین کی تمام احادیث کی صحت پر امتِ مسلمہ کا اجماع ہے ۔ گو کہ ظاہری طور پر شائد ہمیں کچھ احادیث میں تضاد یا تعارض نظر آئے ۔۔۔ لیکن کیا ایسا تضاد یا تعارض قرآن میں نہیں ملتا ؟ کیا اس کی بنیاد پر ہم بعض قرآنی آیات کا ردّ کر دیں گے ؟
عقلی یا منطقی دلائل سے براہ مہربانی صحیحین کی کسی حدیث کو مشکوک بنا کر پیش نہ کریں ۔۔۔ کسی نامور محدث کی تحقیق پیش فرمائیں ۔

بےشک یہاں کہا جا سکتا ہے جس طرح احادیث کی صحت کے معاملے میں ہم اس فیلڈ کے ماہر کی رائے طلب کر رہے ہیں اسی طرح سپریم کورٹ اور شرعی عدالت کے معاملے میں بھی ہم کو عقلی مباحث کھڑا کرنے سے احتراز کرنا چاہئے اور ماہرین (علماء ، فقہاء ، وکلاء) کی آراء کی جانچ کرنا چاہئے ۔
لیکن مسئلہ یہاں صرف نفی اور اثبات کا ہے ۔
صحیح حدیث کہتی ہے کہ : بغیر ولی نکاح نہیں ۔
اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ : ولی کے بغیر نکاح جائز ہے ۔
یہ تو دو اور دو چار والا معاملہ ہے ۔
 

خرم

محفلین
باذوق بھائی میرے خیال میں تھوڑی سی غلط فہمی ہے یہاں۔ وفاقی شرعی عدالت اور عدالتِ عظمٰی دونوں کا ایک ہی فیصلہ ہے کہ لڑکی کی شادی کے لئے خاندان کا ولی ہونا ضروری نہیں‌ہے۔ ولی کی اہمیت سے کہیں انکار نہیں کیا گیا ان دونوں فیصلوں میں صرف ولی کے لئے خاندان کا مرد کے ہونے کی لوازمت کا رد ہے۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ کہ ایک مسلمان لڑکی بغیر ولی کی اجازت کے شادی کر لے تعجب ہے اس فیصلے پر اور ایک درخواست جو حدیث انگلش میں پیش کی گئی ہے اگر اُس کا ترجمہ اردو میں کوئی بھائی یا بہن کر دیں تو مہربانی ہوگی۔۔۔ اور ایک درخواست کے مواد کو اردو میں پیش کیا جائے انگلش میں نہیں۔۔۔تاکہ اردو کا تقدس پامال نہ ہونے پائے
وسلام۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

کارتوس خان، خوش آمدید۔ آپ کی پوسٹ سے لگتا ہے کہ آپ اب تک کی گفتگو سے مطمئن نہیں ہیں اور پوری بحث دوبارہ سے کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ اردو کے تقدس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا اردو کوئی مقدس زبان ہے یا پھرانگریزی میں کوئی مقدس بات کرنا ممکن نہیں ہے؟
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

بہت شکریہ نبیل بھائی گفتگو سمجھ میں تو آرہی تھی لیکن وہ جو حدیث کو انگلش میں پیش کیا گیا اُس سے تھوڑی مشکل پیدا ہو رہی ہے کیونکہ میری انگلش کمزور ہے تقدس کے پامال کی بات اس سنس میں کی جب بات اردو میں چل رہی ہے تو ایک ہی زبان کو استعمال کیا جائے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میری انگلش کمزور ہے اس لئے میں چاہوں گا کہ بات اردو میں کی جائے تاکہ واضع طور پر اس اہم مسئلے کا جو بھی حل ہو وہ سامنے آئے۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

خرم

محفلین
کارتوس خان نے کہا:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ کہ ایک مسلمان لڑکی بغیر ولی کی اجازت کے شادی کر لے ۔۔۔

کارتوس بھائی ولی ایک سہولت کار ہوتا ہے فیصلہ کرنے یا اجازت دینے والا نہیں۔ شادی فرد کا ذاتی معاملہ ہے ہاں اس میں روڑے اٹکانے والا ضرور گنہ گار ہوتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کارتوس صاحب،

گفتگو اردو میں ہی ہو رہی ہے، مگر ریفرنس کا مسئلہ آیا تو ہمارے پاس اردو میں صحاح ستہ ڈیجییٹل شکل میں موجود نہیں ہیں، اور اسی لیے صرف ریفرنس کو انگلش میں جوں کا توں نقل کر دیا گیا ہے۔ باذوق صاحب کے پاس صحیح مسلم کا اردو ورژن موجود ہو گا اس لیے شاید وہ آپکی مدد کر سکیں۔

بہرحال، اسی حدیث کا عربی ورژن یہ ہے (اگر یہ آپکے لیے مددگار ہو):

حدثنا ‏ ‏أبو كامل فضيل بن حسين الجحدري ‏ ‏حدثنا ‏ ‏بشر يعني ابن مفضل ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عمارة بن غزية ‏ ‏عن ‏ ‏الربيع بن سبرة ‏أن ‏ ‏أباه ‏ ‏غزا مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فتح ‏ ‏مكة ‏ ‏قال فأقمنا بها خمس عشرة ثلاثين بين ليلة ويوم ‏ ‏فأذن لنا رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏في ‏ ‏متعة النساء ‏ ‏فخرجت أنا ورجل من قومي ولي عليه فضل في الجمال وهو قريب من ‏ ‏الدمامة ‏ ‏مع كل واحد منا برد فبردي ‏ ‏خلق ‏ ‏وأما برد ابن عمي فبرد جديد ‏ ‏غض ‏ ‏حتى إذا كنا بأسفل ‏ ‏مكة ‏ ‏أو بأعلاها فتلقتنا فتاة مثل ‏ ‏البكرة ‏ ‏العنطنطة ‏ ‏فقلنا هل لك أن ‏ ‏يستمتع ‏ ‏منك أحدنا قالت وماذا تبذلان فنشر كل واحد منا برده فجعلت تنظر إلى الرجلين ‏ ‏ويراها صاحبي تنظر إلى ‏ ‏عطفها ‏ ‏فقال إن برد هذا ‏ ‏خلق ‏ ‏وبردي جديد ‏ ‏غض ‏ ‏فتقول برد هذا لا بأس به ثلاث مرار أو مرتين ثم ‏ ‏استمتعت ‏ ‏منها فلم أخرج حتى حرمها رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم

ریفرنس:
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=3213

امام نووی کا اجتہاد "ولی" اور "گواہ" کے متعلق

بلکہ ابھی ایک اور دلچسپ چیز میری نظر کے سامنے آئی ہے، اور وہ ہے امام نووی کی اس حدیث کی شرح۔ امام نووی اس حدیث کے ذیل میں فرما رہے ہیں:

وَفِي هَذَا الْحَدِيث : دَلِيل عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي نِكَاح الْمُتْعَة وَلِيّ وَلَا شُهُود .
ترجمہ:
اس حدیث میں دلیل ہے کہ نکاح المتعہ کے لیے ولی لازمی ہے اور نہ ہی گواہ۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

دیکھئے، میں پہلے ہی کہتی تھی کہ فقہی مسائل میں اختلاف کی گنجائش رکھیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے سوچ سمجھ کر ہی اور دلائل سننے کے بعد ہی فیصلہ دیا ہو گا۔ باقی مجھے نہیں لگتا کہ ادھر علماء حضرات بیٹھے ہوئے ہیں جو ان فقہی معاملات پر بحوث کر سکیں۔ لہذا ایسی دقیق مسائل کے لیے آپ کو یہ سوال کسی اسلامی فورم پر اٹھانا چاہیے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرا بھی یہی خیال ہے کہ باذوق بھاءی نے ھماری راءے جاننے کے لءے یہ دھاگہ کھولا تھا۔ اکثر خواتین و حضرات اپنی اپنی راءے دے چکے۔ مسءلہ حل کرنے کے لءے تب کہا جاءے اگر ہم وفاقی شرعی عدالت یا سپریم کورٹ سے بڑی اتھارٹی ہوں۔ کیا خیال ھے، کیا اس دھاگے پر بات چیت ادھر کیوں نا روک دیں؟
 
میرا بھی یہی خیال ہے کہ باذوق بھاءی نے ھماری راءے جاننے کے لءے یہ دھاگہ کھولا تھا۔ اکثر خواتین و حضرات اپنی اپنی راءے دے چکے۔ مسءلہ حل کرنے کے لءے تب کہا جاءے اگر ہم وفاقی شرعی عدالت یا سپریم کورٹ سے بڑی اتھارٹی ہوں۔ کیا خیال ھے، کیا اس دھاگے پر بات چیت ادھر کیوں نا روک دیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

قیصرانی بھائی آپ نے اپنا خیال ظاہر کر دیا ہو سکتا ہے یہ درست ہو۔۔۔ لیکن بحیثیت ممبر جو بات میں جاننا چاہ رہا ہوں کیا میرا اتنا بھی حق نہیں ہے کہ میں اپنے ذہن میں‌ پیدا ہونےوالے سوالات کا جواب طلب کر سکوں۔۔۔ اس لئے اس لڑی کو بند کرنے کی بجائے اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے کی درخواست کروں گا۔۔۔ ورنہ یہ مسئلہ بھی دیگر مسئلوں کی طرح اختلافی مسئلہ قرار دے دیا جائے اور پھر کیسے ایک اختلافی مسئلہ قانون کی شکل اختیار کر سکتا ہے؟؟؟۔۔۔ اُمید ہے کہ آپ میرے ساتھ تعاون کریں‌گے۔۔۔

وسلام۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
خان صاحب اس مسئلے کا حل ہر فرقہ اور ہر گروہ نے اپنے اپنے طریقے پر نکال رکھا ہے۔ آپ کبھی بھی سب کو مطمئن نہیں کر سکیں گے۔ صرف وہی بات مانیں جو قرآن اور صحیح حدیث میں درج ہے۔ لیکن کیا کریں بعض بدبختوں نے حدیثیں بھی جھوٹی گھڑ رکھی ہیں اور قرآن کا ترجمہ بھی اپنی مرضی کے مطابق کر لیا ہے۔

اللہ اپنی رحمت سے ہمیں ہدایت فرمائے۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

شمشاد بھائی۔۔۔ درست فرمایا آپ نے کے ہر فرقے نے اپنے اپنے طریقے پر نکال رکھا ہے۔۔۔ لیکن ہم فرقوں میں کیوں بٹے؟؟؟۔۔۔ کیا یہ تعلیم اسلام نے ہمیں دے یا پھر اسلام دشمنوں کی سازش اس کے پیچھے کار فرما ہے؟؟؟۔۔۔ اگر تو یہ تعلیم دین کی ہے کہ فرقوں میں بٹو تو سر آنکھوں پر لیکن اگر اس کے فرقہ بندی کے پیچھے اسلام دشمن سازشیں کارفرماں ہیں تو اس صورت حال میں ہماری کیا ذمداری ہونی چایئے؟؟؟۔۔۔ قرآن میں اللہ وحدہ لاشریک نے واضع طور پر بیان فرمادیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور فرقوں میں مت بٹو تو پھر اس واضع حکم کو ہم سب نے پس پشت کیوں ڈال رکھا ہے؟؟؟۔۔۔ایسے بہت سے سوال ہیں جو میرے ذہن میں امنڈ رہے ہیں جن کے مجھے جواب طلب ہیں مگر صورت حال اس کے بلکل مختلف ہے کسی بھی موضوع کو جب شروع کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ حقیقت حال ساتھیوں کو باہم پہنچانا ہوتا ہے نہ کے یہ کہہ کر ہم لڑی بند کر دیں اور بات ادھوری رہ جائے اور ایک عامی یہ سوچ کر دین سے متنفر ہوجائے کہ ہر کوئی اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے قرآن و سنت کا سہارا لے رہا ہے۔۔۔ ہمیں اس سوچ کا قلعہ قمع کرنا ہے اور واضع کرنا ہے کہ ہمارا مقصد قرآن و سنت کی بالادستی ہے کسی خاص مکتبہ فکر کی نہیں۔۔۔ اسی لئے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کے اگر تو یہ فقہی مسئلہ تھا تو قانون کیسے بنا؟؟؟۔۔۔

وسلام۔۔۔
 
Top