باذوق
محفلین
آخری پوسٹ !
برادرِ محترم ابن حسن
السلام علیکم اور محفل پر خوش آمدید !
برادر ، اب مجھے زیادہ افسوس نہیں ہوتا ۔ ایک وقت تھا جب میں بہت آزردہ ہوا کرتا تھا کہ لوگوں کو قولِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بتایا جاتا ہے تو پوچھتے ہیں کہ فلاں امام نے کیا کہا فلاں امام کی کیا رائے ہے ؟ گویا اب ہمارے نزدیک حجت ائمہ دین کی آراء رہ گئی ہیں!
ورنہ ایک وہ دور تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات کے سامنے کوئی دوسری بات پیش کرنے پر صحابہ کرام غضبناک ہو جاتا کرتے تھے ۔۔۔ صحیح مسلم کی یہ حدیث ذرا ملاحظہ فرمائیں :
---
عمران بن حصین (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حیا تو ساری بھلائی ہے ۔ یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : حیا مکمل بھلائی ہے ۔
بشیر بن کعب (رضی اللہ عنہ) نے کہا : ہم نے بعض کتابوں میں یا دانائی کی باتوں میں پڑھا ہے کہ حیا کی ایک قسم تو اللہ کے حضور سکینہ اور وقار ہے جبکہ دوسری قسم بوداپن اور کمزوری ہے ۔
یہ سن کر صحابی رسول (ص) حضرت عمران (رض) کو سخت غصہ آیا ، آنکھیں سرخ ہو گئیں اور فرمایا :
میں تمہارے سامنے حدیثِ رسول (ص) بیان کر رہا ہوں اور تم اس کے خلاف بات کر رہے ہو ؟
راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمران (رض) نے پھر حدیث پڑھ کر سنائی ۔ ادھر بشیر بن کعب (رض) نے بھی اپنی وہی بات دہرا دی ۔ تو حضرت عمران (رض) غضبناک ہو گئے ۔ اس پر ہم سب نے کہا :
" اے ابا نجید (حضرت عمران کی کنیت) ! بشیر ہمارا ہی مسلمان ساتھی ہے (اسے معاف کر دیجئے)۔ اس میں کوئی (منافقت یا کفر والی) بات نہیں ۔
صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب : شعب الايمان ، حدیث : 166
---
برادر ابن حسن ، آپ نے ائمہ اربعہ میں سے تین کا فیصلہ یوں پیش کیا ہے :
امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کنواری لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ منعقد نہیں ہوتا
جبکہ ان تین ائمہ دین کا فیصلہ جن احادیث کی بنیاد پر ہے ، ان میں ایک حدیث خاکسار اسی دھاگے میں پیش کر چکا ہے ۔
جامع ترمذی کی ایک حدیث ہے :
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل فنكاحها باطل ۔۔۔
جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا پس اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ۔۔۔
بحوالہ : جامع ترمذی ، کتاب النکاح ، باب ما جاء لا نكاح الا بولي ، حدیث : 1125
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ حسن کہتے ہیں ۔
برادر ابن حسن ، آپ اپنا دوسرا نکتہ یوں پیش کرتے ہیں :
اگر نکاح کنواری لڑکی کی اجازت کے بغیر زبردستی کیا جائے یعنی اگر ولی زبردستی نکاح کر دے اور لڑکی رضامند نہ ہو تو بھی نکاح نہیں ہوتا۔
جبکہ اس قول کی دلیل میں جو حدیث ہے ، وہ بھی میں اسی دھاگے میں پیش کر چکا ہوں ، دوبارہ یہان ملاحظہ فرمائیں :
درج ذیل حدیث ان لوگوں (لڑکی کے ولی) کے خلاف مضبوط دلیل ہے جو لڑکی / عورت کی اپنی رضامندی کے خلاف جبراََ اس کی شادی رچا دیتے ہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے ۔ اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے ۔
صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کنواری عورت اذن کیوں کر دے گی ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے ۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی ۔
صحيح بخاري ، كتاب النکاح ، باب : لا ينكح الاب وغيره البكر والثيب الا برضاها ، حدیث : 5191
برادر حسن ، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ : جب بغیر حدیث کے حوالے کے ساتھ ، محض ائمہ دین کے ارشادات کوئی بیان فرماتا ہے تو ہر طرف سے واہ واہ شاباش کے نعرے اٹھتے ہیں ۔ اور جب کوئی محض حدیث پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہے تو چاروں طرف سے اعتراضات اور تاویلات کی بوچھار پڑتی ہے ۔ یہ ہے ہماری مقلدانہ ذہنیت جس کو بڑے فخر سے آزادیءرائے کا نام دے کر ہم بڑے خوش ہوتے ہیں ۔
اور ایک وہ صحابی (عمران بن حصین) تھے جو حدیثِ رسول (ص) کے مقابلے میں محض کوئی قول سن کر ہی غضبناک ہو جاتے تھے ۔ ہاں ۔۔۔ مجھے اعتراف ہے ۔۔۔ میرے ایمان کا درجہ اُس عظیم صحابی کے ایمان کے ذرہ برابر بھی نہیں ہے (اور نہ کسی مسلمان کے ایمان کا درجہ ہی کبھی کسی صحابی کے ایمان کے برابر ہو سکتا ہے !)
مجھے معاف رکھئے اخت و برادران !
اب باذوق اس لائق نہیں ہے کہ مزید کوئی تحریر اس دھاگے میں لگا سکے ۔ بہت معذرت ۔
اور دلی معذرت ان احبابِ محفل سے جنہیں میری کچھ باتیں اس دھاگے میں تلخ محسوس ہوئی ہوں ۔
برادر ابن حسن ، جہاں تک فقہ حنفی کی بات ہے ، اس تعلق سے زکریا ، آج سے دو سال قبل تفصیل سے اس معاملے میں یہاں بات کر چکے ہیں ۔
برادرِ محترم ابن حسن
السلام علیکم اور محفل پر خوش آمدید !
برادر ، اب مجھے زیادہ افسوس نہیں ہوتا ۔ ایک وقت تھا جب میں بہت آزردہ ہوا کرتا تھا کہ لوگوں کو قولِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بتایا جاتا ہے تو پوچھتے ہیں کہ فلاں امام نے کیا کہا فلاں امام کی کیا رائے ہے ؟ گویا اب ہمارے نزدیک حجت ائمہ دین کی آراء رہ گئی ہیں!
ورنہ ایک وہ دور تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات کے سامنے کوئی دوسری بات پیش کرنے پر صحابہ کرام غضبناک ہو جاتا کرتے تھے ۔۔۔ صحیح مسلم کی یہ حدیث ذرا ملاحظہ فرمائیں :
---
عمران بن حصین (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حیا تو ساری بھلائی ہے ۔ یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : حیا مکمل بھلائی ہے ۔
بشیر بن کعب (رضی اللہ عنہ) نے کہا : ہم نے بعض کتابوں میں یا دانائی کی باتوں میں پڑھا ہے کہ حیا کی ایک قسم تو اللہ کے حضور سکینہ اور وقار ہے جبکہ دوسری قسم بوداپن اور کمزوری ہے ۔
یہ سن کر صحابی رسول (ص) حضرت عمران (رض) کو سخت غصہ آیا ، آنکھیں سرخ ہو گئیں اور فرمایا :
میں تمہارے سامنے حدیثِ رسول (ص) بیان کر رہا ہوں اور تم اس کے خلاف بات کر رہے ہو ؟
راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمران (رض) نے پھر حدیث پڑھ کر سنائی ۔ ادھر بشیر بن کعب (رض) نے بھی اپنی وہی بات دہرا دی ۔ تو حضرت عمران (رض) غضبناک ہو گئے ۔ اس پر ہم سب نے کہا :
" اے ابا نجید (حضرت عمران کی کنیت) ! بشیر ہمارا ہی مسلمان ساتھی ہے (اسے معاف کر دیجئے)۔ اس میں کوئی (منافقت یا کفر والی) بات نہیں ۔
صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب : شعب الايمان ، حدیث : 166
---
برادر ابن حسن ، آپ نے ائمہ اربعہ میں سے تین کا فیصلہ یوں پیش کیا ہے :
امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کنواری لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ منعقد نہیں ہوتا
جبکہ ان تین ائمہ دین کا فیصلہ جن احادیث کی بنیاد پر ہے ، ان میں ایک حدیث خاکسار اسی دھاگے میں پیش کر چکا ہے ۔
جامع ترمذی کی ایک حدیث ہے :
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل فنكاحها باطل ۔۔۔
جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا پس اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ۔۔۔
بحوالہ : جامع ترمذی ، کتاب النکاح ، باب ما جاء لا نكاح الا بولي ، حدیث : 1125
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ حسن کہتے ہیں ۔
برادر ابن حسن ، آپ اپنا دوسرا نکتہ یوں پیش کرتے ہیں :
اگر نکاح کنواری لڑکی کی اجازت کے بغیر زبردستی کیا جائے یعنی اگر ولی زبردستی نکاح کر دے اور لڑکی رضامند نہ ہو تو بھی نکاح نہیں ہوتا۔
جبکہ اس قول کی دلیل میں جو حدیث ہے ، وہ بھی میں اسی دھاگے میں پیش کر چکا ہوں ، دوبارہ یہان ملاحظہ فرمائیں :
درج ذیل حدیث ان لوگوں (لڑکی کے ولی) کے خلاف مضبوط دلیل ہے جو لڑکی / عورت کی اپنی رضامندی کے خلاف جبراََ اس کی شادی رچا دیتے ہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے ۔ اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے ۔
صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کنواری عورت اذن کیوں کر دے گی ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے ۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی ۔
صحيح بخاري ، كتاب النکاح ، باب : لا ينكح الاب وغيره البكر والثيب الا برضاها ، حدیث : 5191
برادر حسن ، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ : جب بغیر حدیث کے حوالے کے ساتھ ، محض ائمہ دین کے ارشادات کوئی بیان فرماتا ہے تو ہر طرف سے واہ واہ شاباش کے نعرے اٹھتے ہیں ۔ اور جب کوئی محض حدیث پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہے تو چاروں طرف سے اعتراضات اور تاویلات کی بوچھار پڑتی ہے ۔ یہ ہے ہماری مقلدانہ ذہنیت جس کو بڑے فخر سے آزادیءرائے کا نام دے کر ہم بڑے خوش ہوتے ہیں ۔
اور ایک وہ صحابی (عمران بن حصین) تھے جو حدیثِ رسول (ص) کے مقابلے میں محض کوئی قول سن کر ہی غضبناک ہو جاتے تھے ۔ ہاں ۔۔۔ مجھے اعتراف ہے ۔۔۔ میرے ایمان کا درجہ اُس عظیم صحابی کے ایمان کے ذرہ برابر بھی نہیں ہے (اور نہ کسی مسلمان کے ایمان کا درجہ ہی کبھی کسی صحابی کے ایمان کے برابر ہو سکتا ہے !)
مجھے معاف رکھئے اخت و برادران !
اب باذوق اس لائق نہیں ہے کہ مزید کوئی تحریر اس دھاگے میں لگا سکے ۔ بہت معذرت ۔
اور دلی معذرت ان احبابِ محفل سے جنہیں میری کچھ باتیں اس دھاگے میں تلخ محسوس ہوئی ہوں ۔
برادر ابن حسن ، جہاں تک فقہ حنفی کی بات ہے ، اس تعلق سے زکریا ، آج سے دو سال قبل تفصیل سے اس معاملے میں یہاں بات کر چکے ہیں ۔