لکھے مُو سا پڑھے خود آ (لکھے موسی پڑھے خدا)
✍ڈاکٹر سیما شفیع پاکستان
گھر سے نکلے کافی عرصہ ہو چلا تھا۔ اب سپاہی ارسلا خان کو گھر اور بچوں کی یاد ستانے لگی تھی۔ پڑھا لکھا تھا نہیں کہ ایک چٹھی ہی گھر والوں کو لکھ دیتا۔ چیک پوسٹ پر کھڑے ساتھی سپاہی یوسف خان کے آگے دکھڑا رویا تو وہ بولا۔۔۔۔
"یارا۔۔۔ ارسلان خانا ! اَم نے سنا اے اِیدر ایک آدمی چِٹی لِکتا اے۔۔۔ کیا اَچا نام اے۔۔۔۔۔۔۔ آں۔۔۔۔ منظور بٹ ، اِدر قریب ریتا اے۔ ماخام(شام) اس کے پاس چلے گا۔ ٹِیک اے؟"
ارسلا خان خوشی سے شام کا انتظار کرنے لگا۔
شام کو نہر کے دوسری طرف گاؤں کے مشرقی حصے میں دونوں دوست منظور بٹ کے گھر پہنچے۔ مہمان نواز منظور بٹ نے لسی سے دونوں کی تواضع کی اور آنے کا مقصد پوچھا۔
"اے امارہ دوست اے اسپائی ارسلا خان!" یوسف خان نے تعارف کروایا۔
" اس کو اماں ابا بچے اور بابی کے واسطے اِک چِٹی لِکنی اے۔" یوسف خان نے مدعا بیان کیا۔
منظور بٹ نے کاغذ قلم سنبھالا اور سپاہی ارسلا خان کے دل کا احوال خط میں رقم کر دیا۔ خط کو لفافے میں ڈال کر پتہ درج کیا ٹکٹ لگایا اور لفافہ دیتے ہوئے مستفسر ہوا۔
"پڑھے گا کون؟ میرا مطلب ہے گاؤں میں کوئی پڑھا لکھا ہے؟"
"جی جی ۔۔۔۔ اَمری بیٹی آٹ جماعت پاس اے۔" ارسلا خان پرجوش لہجے میں بولا۔
دونوں سپاہیوں نے شکریہ ادا کیا اور خوشی خوشی خط پوسٹ کر دیا۔
سپاہی ارسلا خان کے گھر والوں کو جیسے ہی خط ملا گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تبسم ۔۔۔ او۔۔۔ تبسم ۔۔۔ چَرتہ اَے(کدھر ہو) دِیلے رَاشہ(ادھر آؤ) گورا پَلار دے خط را لیگَلے دے(دیکھو تمہارے باپ نے خط بھیجا ہے)
تبسم خوشی سے دوڑتے ہوئے صحن میں آئی جہاں پورا گھر دادا جان کی آواز پر اکٹھا ہو چکا تھا۔ اس نے خوشی خوشی خط لے کر پڑھنے کی کوشش شروع کی مگر یہ کیا۔۔۔۔۔ اتنی باریک اور آڑھی ٹیڑھی لکھائی جیسے الجھے ہوئے گیسو (بال) اف کیا لکھا ہے؟ تبسم پریشان ہو گئی۔
کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا مگر گھر والوں کو مطمئن کرنے کے لئے خود سے کچھ جملے جوڑ کر سنا دئیے اور غصے میں خط کا یک سطری جواب تحریر کر دیا۔
"لکھے مُو سا پڑھے خود آ"
مطلب: ایسی باریک یا بری لکھائی کہ جسے اپنے سوا دوسرا نہ پڑھ سکے۔
"معنی میں ’’مو‘‘ بمعنی ’’بال کی مانند‘‘ اور ’’خود آ‘‘ یعنی ’’آپ آکر سمجھنا چاہیے‘‘
لکھے موسیٰ پڑھے خدا
دوسرے معنی میں ’’موسیٰ پیغمبر‘‘ اور ’’خدا‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔چونکہ خدا موسیٰ علیہ السلام کا ہم راز تھا، اور موسیٰ علیہ السلام خدا سے ہم کلام ہوتے تھے اور اکثر راز کی باتیں اشاروں اور کنایوں میں باہم ادا ہوا کرتی تھیں۔لہذا بری لکھائی کے بارے میں طنزاً کہا جاتا ہے کہ جس نے لکھا وہی آ کر پڑھے۔عام طور پر محاورہ اسی املا میں مروج ہے ورنہ اس طرح لکھنا غلط ہے۔