لکھے موسی پڑھے خدا

یوسف-2

محفلین
آپ کے مخاطب تو اور صاحب ہیں اس لیے دخل دینے کیلیے معذرت لیکن اس میں نظر ثانی والی کوئی بات ہی نہیں۔ فرہنگِ آصفیہ کے مؤلف لاکھ سمجھتے رہیں کہ لکھے موسیٰ پڑھے خدا غلط ہے اور لکھے مو سا پڑھے خود آ صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کتاب میں جو کہ دوسروں کیلیے سند بننے والی تھی وہی لکھا جس کا چلن ہے

کیونکہ اصول کی بات یہ ہے کہ اہل زبان شعرا و ادبا لغات دیکھ کر شاعری نہیں کرتے بلکہ لغات لکھنے والے اہل زبان شعرا اور ادبا کی تحاریر سامنے رکھ کر لغت ترتیب دیتے ہیں۔ اس املا کی سند میں استاذ الاساتذہ ناسخ کی رباعی ہے جس کے سامنے تمام لغات ہیچ ہیں۔

میری اوپر والی پوسٹ کا بس یہ مطلب تھا کہ سید احمد دہلوی اس املا کو ذاتی طور پر غلط ضرور سمجھتے تھے لیکن لکھا وہی جس کا چلن ہے اور جو شعرا کے ہاں ہے کیونکہ استاذ شعرا اور ادبا کی بات لغت نگار کی بات سے زیادہ اہم ہے۔


بہت خوب ۔ یہی بات درست ہے
 

سیما کرن

محفلین
لکھے مُو سا پڑھے خود آ (لکھے موسی پڑھے خدا)
✍ڈاکٹر سیما شفیع پاکستان

گھر سے نکلے کافی عرصہ ہو چلا تھا۔ اب سپاہی ارسلا خان کو گھر اور بچوں کی یاد ستانے لگی تھی۔ پڑھا لکھا تھا نہیں کہ ایک چٹھی ہی گھر والوں کو لکھ دیتا۔ چیک پوسٹ پر کھڑے ساتھی سپاہی یوسف خان کے آگے دکھڑا رویا تو وہ بولا۔۔۔۔
"یارا۔۔۔ ارسلان خانا ! اَم نے سنا اے اِیدر ایک آدمی چِٹی لِکتا اے۔۔۔ کیا اَچا نام اے۔۔۔۔۔۔۔ آں۔۔۔۔ منظور بٹ ، اِدر قریب ریتا اے۔ ماخام(شام) اس کے پاس چلے گا۔ ٹِیک اے؟"
ارسلا خان خوشی سے شام کا انتظار کرنے لگا۔
شام کو نہر کے دوسری طرف گاؤں کے مشرقی حصے میں دونوں دوست منظور بٹ کے گھر پہنچے۔ مہمان نواز منظور بٹ نے لسی سے دونوں کی تواضع کی اور آنے کا مقصد پوچھا۔
"اے امارہ دوست اے اسپائی ارسلا خان!" یوسف خان نے تعارف کروایا۔
" اس کو اماں ابا بچے اور بابی کے واسطے اِک چِٹی لِکنی اے۔" یوسف خان نے مدعا بیان کیا۔
منظور بٹ نے کاغذ قلم سنبھالا اور سپاہی ارسلا خان کے دل کا احوال خط میں رقم کر دیا۔ خط کو لفافے میں ڈال کر پتہ درج کیا ٹکٹ لگایا اور لفافہ دیتے ہوئے مستفسر ہوا۔
"پڑھے گا کون؟ میرا مطلب ہے گاؤں میں کوئی پڑھا لکھا ہے؟"
"جی جی ۔۔۔۔ اَمری بیٹی آٹ جماعت پاس اے۔" ارسلا خان پرجوش لہجے میں بولا۔
دونوں سپاہیوں نے شکریہ ادا کیا اور خوشی خوشی خط پوسٹ کر دیا۔
سپاہی ارسلا خان کے گھر والوں کو جیسے ہی خط ملا گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تبسم ۔۔۔ او۔۔۔ تبسم ۔۔۔ چَرتہ اَے(کدھر ہو) دِیلے رَاشہ(ادھر آؤ) گورا پَلار دے خط را لیگَلے دے(دیکھو تمہارے باپ نے خط بھیجا ہے)
تبسم خوشی سے دوڑتے ہوئے صحن میں آئی جہاں پورا گھر دادا جان کی آواز پر اکٹھا ہو چکا تھا۔ اس نے خوشی خوشی خط لے کر پڑھنے کی کوشش شروع کی مگر یہ کیا۔۔۔۔۔ اتنی باریک اور آڑھی ٹیڑھی لکھائی جیسے الجھے ہوئے گیسو (بال) اف کیا لکھا ہے؟ تبسم پریشان ہو گئی۔
کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا مگر گھر والوں کو مطمئن کرنے کے لئے خود سے کچھ جملے جوڑ کر سنا دئیے اور غصے میں خط کا یک سطری جواب تحریر کر دیا۔
"لکھے مُو سا پڑھے خود آ"
مطلب: ایسی باریک یا بری لکھائی کہ جسے اپنے سوا دوسرا نہ پڑھ سکے۔
"معنی میں ’’مو‘‘ بمعنی ’’بال کی مانند‘‘ اور ’’خود آ‘‘ یعنی ’’آپ آکر سمجھنا چاہیے‘‘
لکھے موسیٰ پڑھے خدا
دوسرے معنی میں ’’موسیٰ پیغمبر‘‘ اور ’’خدا‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔چونکہ خدا موسیٰ علیہ السلام کا ہم راز تھا، اور موسیٰ علیہ السلام خدا سے ہم کلام ہوتے تھے اور اکثر راز کی باتیں اشاروں اور کنایوں میں باہم ادا ہوا کرتی تھیں۔لہذا بری لکھائی کے بارے میں طنزاً کہا جاتا ہے کہ جس نے لکھا وہی آ کر پڑھے۔عام طور پر محاورہ اسی املا میں مروج ہے ورنہ اس طرح لکھنا غلط ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایسا باریک یا بد خط لکھنا کہ جسے اپنے سوا دوسرا نہ پڑھ سکے۔ موسیٰ علیہ السلام پیغمبر کا لکھا خدا کے سوا، جو اس کا ہم راز تھا، دوسرا نہیں پڑھ سکتا۔ موسیٰ علیہ السلام خدا سے ہم کلام ہوتے تھے اور اکثر راز کی باتیں اشاروں اور کنایوں میں باہم ادا ہوا کرتی تھیں۔ اس سبب سے طنزاً ایسے بد خط کو کہنے لگے کہ جس کا خط وہی پڑھ سکے جسے آگاہی ہو۔
صاحبِ فرہنگِ آصفیہ رقم طراز ہیں کہ اول معنی میں ’’مو‘‘ بمعنی ’’بال کی مانند‘‘ اور ’’خود آ‘‘ یعنی ’’آپ آکر سمجھنا چاہیے‘‘ اور دوسرے میں ’’موسیٰ پیغمبر‘‘ اور ’’خدا‘‘ کی طرف اشارہ خیال کرنا چاہیے مگر املا دوسرے معنی کے موافق رواج ہے اور زیادہ تر لوگ اسی طرح تلمیح کرتے ہیں۔ پس اس وجہ سے یہی املا لکھا گیا۔ ورنہ اس طرح لکھنا غلط ہے۔
اس کہاوت کے تعلق سے ایک چھوٹی سی حکایت بھی اس طرح بیان کی جاتی ہے: ’’ایک سپاہی کو اپنے گھر سے آئے ہوئے کافی عرصہ ہوچکا تھا۔ وہ ایک چٹھی لکھنے والے کے پاس گیا اور اس سے ایک چٹھی لکھنے کی گزارش کی۔ چٹھی لکھنے والے نے کہا میرے پیروں میں شدید درد ہو رہا ہے۔ اس لیے میں چٹھی نہیں لکھ سکتا۔ سپاہی نے حیرت سے کہا کہ چٹھی تو ہاتھ سے لکھی جاتی ہے نہ کہ پاؤں سے۔ اس نے جواب دیا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن جب مَیں کسی کے لیے چٹھی لکھتا ہوں، تو مجھے ہی وہاں جا کر اس چٹھی کو پڑھنا بھی پڑتا ہے۔ کیوں کہ میرا لکھا ہوا کوئی دوسرا نہیں پڑھ سکتا۔ پیروں میں درد ہونے کی وجہ سے مَیں چل پھر نہیں سکتا۔ اس لیے چٹھی لکھنے سے معذور ہوں۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دار النور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 249 سے انتخاب)
 
مجھے تو اس جملہ کی ساخت پر ہی اعتراض ہے
لکھے مو سا پڑھے خود آ
نا مکمل سا جملہ لگتا ہے۔

اس وجہ سے درست محاورہ تو وہی ہے جو مشہور ہے۔ بے شک اس کا استعمال معیوب محسوس ہوتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
مجھے تو اس جملہ کی ساخت پر ہی اعتراض ہے
لکھے مو سا پڑھے خود آ
نا مکمل سا جملہ لگتا ہے۔

اس وجہ سے درست محاورہ تو وہی ہے جو مشہور ہے۔ بے شک اس کا استعمال معیوب محسوس ہوتا ہے۔
سچ کہا آپ نے تابش میاں ۔۔۔😊😊😊😊😊
 

سیما علی

لائبریرین
’’ میں نے جنت جیسی عظیم نعمت نہیں دیکھی جسے حاصل کرنے والا سویارہے ‘‘۔ اس نعمت کو احمقوں کی طرف منسوب کرنا کتنی بڑی جسارت ہے ۔ ایسا مقام جو انبیاء ، صدیقین ، شہداء ، صالحین کا ٹھکانہ ہے ۔ اس سے یہ پیغام ملتاہے کہ اللہ کی جنت کے علاوہ احمقوں کیلئے یا احمقوں کی بھی کوئی جنت ہے ۔ ہر مسلمان کو یہ چیز بخوبی سمجھ لینی چاہئے کہ جنت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ اور اس کے حقدار اللہ کے نیک بندے ہیں ۔جنت جیسی عظیم نعمت کو احمقوں سے منسوب کرنا بہت بڑی حماقت اور دین سے بہت بڑا مذاق ہے ۔ اعاذنا اللہ منہ ۔ لکھے مُوسیٰ پڑھے خُدا (کہاوت)یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی شخص کی لکھی ہوئی خراب تحریرصاف پڑھی نہ جا رہی ہو۔ اب پتہ نہیں نالائق لوگوں کی خراب لکھائی کا تعلّق سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جوڑنے کا مطلب اور مقصد کیا تھا؟ وضاحت : یہ کہاوت جس طرح بولی اور لکھی جاتی ہے ایسے نہیں بلکہ اصل کہاوت اس طرح ہے: ’’ لکھے مُو(بال) سا، پڑھے خود آ۔‘‘یعنی جو شخص بال کی طرح باریک لکھتا ہے کہ دُوسروں کے لیے اسے پڑھنا دُشوار ہو تو اسے خود ہی آکر پڑھے، کوئی اور تو اسے پڑھنے اور سمجھنے سے رہا۔ تعجب ہے کہ اُردو کی بڑی بڑی لُغات اور قواعد کی کُتب میں یہ کہاوت عنوان کے مطابق غلط طور پر لکھی ہوئی پائی گئی ہے، جس سے آپ علم کی نشرواشاعت کے ان نام نہاد مدعیوں اور ذمہ داروں کی علمی سطح کا اندازہ بخوبی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
البیان شمارہ 18 - صفحہ 55
 
کئی برس بعد اس لڑی کو اول تا آخر پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ بحث املا کی بند گلی میں جا پہنچی ہے۔ ہم تو اُس وقت زبان و ادب میں تازہ وارد تھے، لیکن حیرت ہے کہ اس دشت کے پرانے سیاحوں نے اس قیاس کو کیوں کر قبول کر لیا جس کی بنیاد املا پر تھی جب کہ چند دہائیوں سے خود موسی/موسا کے املا پر ابحاث جاری ہیں، اور زیادہ نہیں تو کم از کم نصف ماہرین کا منہج اردو املا میں الف مقصورہ (یٰ) کا نہ ہونا ہے اور ان کے مطابق موسیٰ کا درست املا موسا اور عیسیٰ کا عیسا ہے۔ لہذا موسی/موسا کا املا اس بحث میں شاہد کے طور پر مطرح ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ خود ابھی متنازع ہے۔
 
Top