لگتا ہے کہ تم ہو

جاناں یہ مری آنکھ کا دھوکہ ہے کہ تم ہو
دیکھوں میں جب آئینے کو لگتا ہے کہ تم ہو
دامن نے تڑپ کر جسے سینے سے لگایا
آنسو یہ مری آنکھ سے چھلکا ہے کہ تم ہو
ہر وقت کڑی دھوپ میں رہتا ہے مرے ساتھ
آنچل ہے، تری زلف کا سایہ ہے کہ تم ہو
رہتا ہے مرے دل میں کوئی درد کی صورت
حسرت ہے، یہ بے تاب تمنا ہے کہ تم ہو
پھولوں کو عطا کی ہے نئی زندگی جس نے
خوشبو ہے، صبا کا کوئی جھونکا ہے کہ تم ہو
چھائی ہوئی جھنکار ہے جو سات سروں کی
پائل ہے کہ کنگن ترا کھنکا ہے کہ تم ہو
یہ چاند ٹھہرتا ہے جسے دیکھنے شب بھر
شہکار ہے، قدرت کا کرشمہ ہے کہ تم ہو
عصمت ہے، محبت ہے، عقیدت ہے، وفا ہے
شاعر کے تصور کی یہ دنیا ہے کہ تم ہو
ہاں تم کو بتانا ہے کہ مرتا ہوں میں کس پر
ہاں تم کو بتانا ہے، بتانا ہے کہ تم ہو
خوابوں میں خیالوں میں تصور میں تمہیں ہو
ہر سانس میں، ہر نس میں یہ لگتا ہے کہ تم ہو
جب موت مجھے آئے تو بانہوں میں تری آئے
بس نزع کے عالم میں تمنا ہے کہ تم ہو
ساحل پہ جو لکھتا ہے، مٹاتا ہے کوئی نام
راجا ہے وہ قسمت سے جو الجھا ہے کہ تم ہو
 
مطلع اور مقطع خوب کہے ہیں جناب :)
خود کلامی کا انداز پُرسوز لہجہ رچاؤ روانی
کیا ہی کہنے بہت خوبصورت انداز
داد حاضر ہے :applause:
شاد و آباد رہیں
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہ
بہت خوب

عصمت ہے، محبت ہے، عقیدت ہے، وفا ہے
شاعر کے تصور کی یہ دنیا ہے کہ تم ہو
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بہت خوب :)
آپ کی غزل پڑھ کے احمد فراز کی غزل یاد آ گئی :)

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو

یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایہ ہے کہ تم ہو

اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو

دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو

یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں
ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو

ہر بزم میں‌ موضوعِ سخن دل زدگاں کا
اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلیٰ ہے کہ تم ہو

اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں
اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو

وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو

آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل
یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو

اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو
 
بہت خوب :)
آپ کی غزل پڑھ کے احمد فراز کی غزل یاد آ گئی :)

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو

یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایہ ہے کہ تم ہو

اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو

دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو

یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں
ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو

ہر بزم میں‌ موضوعِ سخن دل زدگاں کا
اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلیٰ ہے کہ تم ہو

اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں
اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو

وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو

آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل
یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو

اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو


شکریہ بہنا!
جی بلکل، یہ غزل بھی فراز کی زمین میں کچھ کہنے کی کاوش ہے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
جناب امجد علی راجا صاحب!
آپ سنجیدگی (غزل) میں بھی ارتقاء پر ہیں، بہت عمدہ غزل لکھی ہے، مجھ فقیر کی داد قبول کیجئے۔
پہلے تین اشعار زبردست ہیں۔۔۔
----------
شاید یہاں کچھ ٹائپوز رہ گئے ہیں۔۔
ہر وقت کڑی دھوپ میں رہتا ہے مری ساتھ
آنچل ہے، تری زلف کا سایہ ہے کہ تم ہو
یہ چاند ٹھرتا ہے جسے دیکھنے شب بھر
شہکار ہے، قدرت کا کرشمہ ہے کہ تم ہو
خوابوں میں خیالوں میں تصور میں تمہی ہو
ہر سانس میں، ہر نس میں یہ لگتا ہے کہ تم ہو

----------------
درج ذیل شعر میں اساتذہ کی رائے لے لیں، مجھے کچھ نا مناسب لگ رہا ہے۔
جب موت مجھے آئے تو بانہوں میں تری آئے
بس نزع کے عالم میں تمنا ہے کہ تم ہو
 

شوکت پرویز

محفلین
جناب امجد علی راجا صاحب!
آپ سنجیدگی (غزل) میں بھی ارتقاء پر ہیں، بہت عمدہ غزل لکھی ہے، مجھ فقیر کی داد قبول کیجئے۔
پہلے تین اشعار زبردست ہیں۔۔۔
----------
شاید یہاں کچھ ٹائپوز رہ گئے ہیں۔۔

----------------
درج ذیل شعر میں اساتذہ کی رائے لے لیں، مجھے کچھ نا مناسب لگ رہا ہے۔
جب موت مجھے آئے تو بانہوں میں تری آئے
بس نزع کے عالم میں تمنا ہے کہ تم ہو
شکریہ شوکت بھیا! ارتقاء پر لگا کر آپ نے حوصلہ بڑھا دیا :)
آپ کی داد پھولوں کی طرح میں نے دامن پھیلا کر سمیٹ لی ہے۔
 
جناب امجد علی راجا صاحب!
آپ سنجیدگی (غزل) میں بھی ارتقاء پر ہیں، بہت عمدہ غزل لکھی ہے، مجھ فقیر کی داد قبول کیجئے۔

درج ذیل شعر میں اساتذہ کی رائے لے لیں، مجھے کچھ نا مناسب لگ رہا ہے۔
جب موت مجھے آئے تو بانہوں میں تری آئے
بس نزع کے عالم میں تمنا ہے کہ تم ہو

غلط لگ رہا ہے یا نامناسب؟
میرا مطلب ہے کہ کوئی تکنیکی غلطی ہے یا آپ کو ذاتی طور پر پسند نہیں آیا؟
 

الشفاء

لائبریرین
پھر آج ہمیں ٹیگ کیا غزل میں جس نے
وہ کون ہے امجد ہے یا راجا ہے کہ تم ہو۔۔



واہ۔ بہت خوب کہا ہے جناب۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جاناں یہ مری آنکھ کا دھوکہ ہے کہ تم ہو
دیکھوں میں جب آئینے کو لگتا ہے کہ تم ہو
دامن نے تڑپ کر جسے سینے سے لگایا
آنسو یہ مری آنکھ سے چھلکا ہے کہ تم ہو
یہ چاند ٹھہرتا ہے جسے دیکھنے شب بھر
شہکار ہے، قدرت کا کرشمہ ہے کہ تم ہو
عصمت ہے، محبت ہے، عقیدت ہے، وفا ہے
شاعر کے تصور کی یہ دنیا ہے کہ تم ہو
ہاں تم کو بتانا ہے کہ مرتا ہوں میں کس پر
ہاں تم کو بتانا ہے، بتانا ہے کہ تم ہو
ساحل پہ جو لکھتا ہے، مٹاتا ہے کوئی نام
راجا ہے وہ قسمت سے جو الجھا ہے کہ تم ہو
کیا خوب غزل ہے اور کیا اشعار ہیں راجا بھائی۔
مزہ آ گیا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جب موت مجھے آئے تو بانہوں میں تری آئے
بس نزع کے عالم میں تمنا ہے کہ تم ہو

اس باب میں شوکت پرویز صاحب سے متفق ہوں امجد علی راجہ بھائی

یہ مجھے بھی کچھ نا مناسب لگ رہا ہے۔
مضمون کچھ عجیب سا نہیں لگا۔
 
جناب سید شہزاد ناصر صاحب!
آپ بتایئں گے نہیں آپ کو کون سا شعر پسند آیا؟؟؟
;) ;) ;)
کچھ غزلیں ایسی ہوتی ہیں جن کے تمام شعر ایک ہی معیار کے ہوتے ہیں جیسے مسلسل سیک خیال کی تکرار کی جائے
ایسی غزل میں سے کسی خاص شعر کا انتخاب مشکل ہوتا ہے :)
شوکت پرویز
 
Top