امجد علی راجا
محفلین
جاناں یہ مری آنکھ کا دھوکہ ہے کہ تم ہو
دیکھوں میں جب آئینے کو لگتا ہے کہ تم ہو
دامن نے تڑپ کر جسے سینے سے لگایا
آنسو یہ مری آنکھ سے چھلکا ہے کہ تم ہو
ہر وقت کڑی دھوپ میں رہتا ہے مرے ساتھ
آنچل ہے، تری زلف کا سایہ ہے کہ تم ہو
رہتا ہے مرے دل میں کوئی درد کی صورت
حسرت ہے، یہ بے تاب تمنا ہے کہ تم ہو
پھولوں کو عطا کی ہے نئی زندگی جس نے
خوشبو ہے، صبا کا کوئی جھونکا ہے کہ تم ہو
چھائی ہوئی جھنکار ہے جو سات سروں کی
پائل ہے کہ کنگن ترا کھنکا ہے کہ تم ہو
یہ چاند ٹھہرتا ہے جسے دیکھنے شب بھر
شہکار ہے، قدرت کا کرشمہ ہے کہ تم ہو
عصمت ہے، محبت ہے، عقیدت ہے، وفا ہے
شاعر کے تصور کی یہ دنیا ہے کہ تم ہو
ہاں تم کو بتانا ہے کہ مرتا ہوں میں کس پر
ہاں تم کو بتانا ہے، بتانا ہے کہ تم ہو
خوابوں میں خیالوں میں تصور میں تمہیں ہو
ہر سانس میں، ہر نس میں یہ لگتا ہے کہ تم ہو
جب موت مجھے آئے تو بانہوں میں تری آئے
بس نزع کے عالم میں تمنا ہے کہ تم ہو
ساحل پہ جو لکھتا ہے، مٹاتا ہے کوئی نام
راجا ہے وہ قسمت سے جو الجھا ہے کہ تم ہو