لہو میں تر۔۔۔ شکیب جلالی

الف عین

لائبریرین
مانندِ صبا جدھر گئے ہم
کلیوں کو نہال کر گئے ہم
زنجر بپا اگر گئے ہم
نغموں کی طرح بکھر گئےہم
سورج کی کرن تھے جانے کیا تھے
ظلمت میں اُتر اُتر گئے ہم
جب بھی کوئی سنگِ راہ دیکھا
طوفاں کی طرح بپھر گئے ہم
چلنا تھا جہاں محال یارو
اس راہ سے بھی گزر گئے ہم
بن جائیں گی منزلیں وہیں پر
بھولے سے جہاں ٹھہر گئے ہم
ہنس ہنس کے گلے ملے قضا سے
تکمیلِ حیات کر گئے ہم
 

الف عین

لائبریرین
ہم ہیں آج پھر ملول یارو
مرجھا گئے کھِل کے پھول یارو
گزرے ہیں خزاں نصیب ادھر سے
پیڑوں پہ جمی ہے دھول یارو
تا حدِّ خیال لالہ و گُل
تا حدِّ نظر ببول یارو
جب تک کہ ہوس رہی گُلوں کی
کانٹے بھی رہے قبول یارو
ہاں کوئی خطا نہیں تمھاری
ہاں ہم سے ہوئی ہے بھول یارو
 

الف عین

لائبریرین
کوئی دیکھے تو سہی یار طر حدا رکا شہر
میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رخسار کا شہر
دشت احساس میں شعلہ سا کوئی لپکا تھا
اسی بنیاد پہ تعمیر ہوا پیار کا شہر
اس کی ہر بات میں ہوتا ہے کسی بھید کا رنگ
وہ طلسمات کا پیکر ہے کہ اسرار کا شہر
میری نظروں میں چراغاں کا سماں رہتا ہے
میں کہیں جاؤں مرے ساتھ ہے دلدار کا شہر
یوں تری گرم نگاہی سے پگھلتے دیکھا
جس طرح کا نچ کا گھر ہو مرے پندار کا شہر
دل کا آفاق سمٹتا ہی چلا جاتا ہے
اور پھیلے گا کہاں تک در و دیوار کا شہر
مسکراتے رہیں سینے کے دہکتے ہوئے داغ
دائم آباد رہے درد کی سرکار کا شہر
 

الف عین

لائبریرین
خموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہوجائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہوجائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھ بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں، جنگلوں میں شام ہوجائے
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرز براندام ہوجائے
مثال ایسی ہے اس دور ِخرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرّہ اور صحرا نام ہوجائے
شکیبؔ اپنے تعارف کیلئے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہوجائے
 

الف عین

لائبریرین
[FONT=&quot]دیکھتی رہ گئی محرابِ حرم[/FONT]
[FONT=&quot]ہائے انسان کی انگڑائی کا خم[/FONT]
[FONT=&quot]جب بھی اوہام مقابل آئے[/FONT]
[FONT=&quot]مثلِ شمشیر چلی نوکِ قلم[/FONT]
[FONT=&quot]پرِ پرواز پہ یہ راز کھُلا[/FONT]
[FONT=&quot]پستیوں سے تھا بلندی کا بھرم[/FONT]
[FONT=&quot]غم کی دیوار گری تھی جن پر[/FONT]
[FONT=&quot]ہم وہ لوگ ہیں اے قصرِ اِرم[/FONT]
[FONT=&quot]چاندنی غارۂ پائے جولاں[/FONT]
[FONT=&quot]کہکشاں جادۂ ابنِ آدم[/FONT]
[FONT=&quot]ایک تارہ بھی نہ پامال ہوا[/FONT]
[FONT=&quot]ایسے گزرے رہِ افلاک سے ہم [/FONT]
 

الف عین

لائبریرین
[FONT=&quot]باقی ہے یہی ایک نشاں موسمِ گل کا[/FONT]
[FONT=&quot]جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گل کا[/FONT]
[FONT=&quot]جب پھول مرے چاکِ گریباں پہ ہنسے تھے[/FONT]
[FONT=&quot]لمحہ وہی گزرا ہے گراں موسمِ گل کا[/FONT]
[FONT=&quot]نادان گھٹاؤں کے طلب گار ہوئے ہیں[/FONT]
[FONT=&quot]شعلوں کو بنا کر نگَراں موسمِ گل کا[/FONT]
[FONT=&quot]سوکھے ہوئے پتّوں کے جہاں ڈھیر ملے ہیں[/FONT]
[FONT=&quot]دیکھا تھا وہیں سیلِ رواں موسمِ گل کا[/FONT]
 

الف عین

لائبریرین
دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلا انمول دیا
پیروں میں زنجیریں دالیں ہاتھوں میں کشکول دیا
اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے گگن میں اپنا کاجل گھول دیا
یہ کیا کم ہے اس نے بخشا ایک مہکتا درد مجھے
وہ بھی ہیں جن کو بس رنگوں کا اک چمکیلا خول دیا
مجھ سا بے مایہ اپنوں کی اور تو کیا خاطر کرتا
جب بھی ستم کا پیکاں آیا، میں نے سینہ کھول دیا
بیتے لمحے دھیان میں آ کر مجھ سے سوالی ہوتے ہیں
تو نے کس بنجر مٹّی میں من کا امرت ڈول دیا
اشکوں کی اُجلی کلیاں ہوں یا سپنوں کے کندن پھول
الفت کی میزان میں میں نے جو تھا سب کچھ تول دیا
 

الف عین

لائبریرین
برگِ دل کی طرح ہے زرد ہَوا
پھانکتی ہے کہاں کی گرد ہَوا
دل میں یادوں کا زہر گھول دیا
کتنی قاتل ہے بن کی سرد ہَوا
روز لاتی ہے ان کہے پیغام
شہرِ خوباں سے کوچہ گرد ہَوا
۔۔۔ق۔۔۔۔
دَم نہ مارے مری طرح جو سہے
اس زمانے کے گرم و سرد ہَوا
میں ہوں شعلہ بجاں، چراغ بدست
کس خلا کی ہے رہ نورد ہَوا
 

الف عین

لائبریرین
جلتے صحراؤں میں پھیلا ہوتا
کاش میں پیڑٖوں کا سایہ ہوتا
تو جو اس راہ سے گزرا ہوتا
تیرا ملبوس بھی کالا ہوتا
میں گھٹا ہوں، نہ پَون ہوں، نہ چراغ
ہم نشیں میرا کوئی کیا ہوتا
زخم عریاں تو نہ دیکھے کوئی
میں نے کچھ بھیس ہی بدلا ہوتا
کیوں سفینے میں چھپاتا دریا
گر تجھے پار اترنا ہوتا
بن میں بھی ساتھ گئے ہیں سائے
میں کسی جا تو اکیلا ہوتا
مجھ سے شفّاف ہے سینہ کس کا
چاند اس جھیل میں اترا ہوتا
اور بھی ٹوٹ کے آتی تری یاد
میں جو کچھ دن تجھے بھولا ہوتا
راکھ کر دیتے جلا کر شعلے
یہ دھواں دل میں نہ پھیلا ہوتا
کچھ تو آتا مری باتوں کا جواب
یہ کنواں اور جو گہرا ہوتا
نہ بکھرتا جو فضا میں نغمہ
سینۂ نَے میں تڑپتا ہوتا
اور کچھ دور تو چلتے مرے ساتھ
اور اک موڑ تو کاٹا ہوتا
تھی مقدّر میں خزاں ہی تو شکیبؔ
میں کسی دشت میں مہکا ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئےہیں دیوار و در کے ساتھ
منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے
بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ
سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے
الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کےساتھ
اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ
میری طرح یہ صبح بھی فنکار ہے شکیبؔ
لکھتی ہے آسماں پہ غزل آب زر کے ساتھ
 

الف عین

لائبریرین
دستکیں دیتی ہیں شب کو درِ دل پر یادیں
کچھ نہیں ہے مگر اس گھر کا مقدّر یادیں
ڈھونڈھتی ہیں تری مہکی ہوئی زلفوں کی بہار
چاندنی رات کے زینے سے اتر کر یادیں
عشرتِ رفتہ کو آواز دیا کرتی ہیں
ہر نئے لمحے کی دہلیز پہ جا کر یادیں
رنگ بھرتی ہیں خلاؤں میں ہیولے کیا کیا
پیش کرتی ہیں عجب خواب کا منظر یادیں
نہ کسی زلف کا عنبر، نہ گلوں کی خوشبو
کر گئی ہیں مری سانسوں کو معطّر یادیں
کم نہیں رات کے صحرا سے مرے دل کی فضا
اور آکاش کے تاروں سے فزوں تر یادیں
مشعلِ غم نہ بجھاؤ کہ شکیبؔ اس کے بغیر
راستہ گھر کا بھلا دیتی ہیں اکثر یادیں
 

الف عین

لائبریرین
تیز آندھیوں میں اڑتے پر وبال کی طرح
ہر شے گزشتنی ہے مہ و سال کی طرح
کیو ں کر کہوں کہ درپئے آزار ہے وہی
جو آسماں ہے سر پہ مرے ڈھال کی طرح
یوں بے سبب تو کوئی انہیں پوجتا نہیں
کچھ تو ہے پتھروں میں خدوخال کی طرح
کیا کچھ کیا نہ خود کو چھپانے کے واسطے
عریانیوں کو اوڑھ لیا شال کی طرح
اب تک مرا زمین سے رشتہ ہے استوار
رہنِ ستم ہوں سبزۂ پامال کی طرح
میں خود ہی جلوہ ریز ہوں، خود ہی نگاہِ شوق
شفاف پانیوں پہ جھکی ڈال کی طرح
ہر موڑ پر ملیں گے کئی راہ زن شکیبؔ
چلئیے چھپا کے غم بھی زر و مال کی طرح
 

الف عین

لائبریرین
شاخوں بھری بہار میں رقص برہنگی
مہکی ہوئی وہ چادرِ گل بار کیا ہوئی
بے نغمہ و صدا ہے وہ بت خانۂ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
وہ پھر رہے ہیں زخم بہ پا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وسعت ایوانِ رنگ و بو
دیوارِ گلستان درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیان چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر سجائی گئی شاخِ دار بھی
 

الف عین

لائبریرین
سمجھ سکو تو یہ تشنہ لبی سمندر ہے
بقدرِ ظرف ہر اک آدمی سمندر ہے
ابھر کے ڈوب گئی کشتیِ خیال کہیں
یہ چاند ایک بھنور، چاندنی سمندر ہے
جو داستاں نہ بنے دردِ بیکراں ہے وہی
جو آنکھ ہی میں رہے وہ نمی سمندر ہے
نہ سوچیے تو بہت مختصر ہے سیلِ حیات
جو سوچئے تو یہی زندگی سمندر ہے
تو اس میں ڈوب کے شاید ابھر سکے نہ کبھی
مرے حبیب مری خامشی سمندر ہے
 

الف عین

لائبریرین
حسنِ فردا غمِ امروز سے ضَو پائے گا
چاند ڈوبا ہے تو سورج بھی اُبھر آئےگا
آندھیوں میں بھی فروزاں ہے چراغِ امّید
خاک ڈالے سے یہ شعلہ کہیں بجھ جائے گا
کو بہ کو دام بچھے ہوں کہ کڑکتی ہو کماں
طائرِ دل پرِ پرواز تو پھیلائے گا
توڑ کے حلقۂ شب، ڈال کے تاروں پہ کمند
آدمی عرصۂ آفاق پہ چھا جائے گا
ہم بھی دو چار قدم چل کے اگر بیٹھ گئے
کون پھر وقت کی رفتار کو ٹھہرائے گا
راہ میں جس کی دیا خونِ دل و جاں ہم نے
وہ حسیں دور بھی آئے گا، ضرور آئے گا
 

الف عین

لائبریرین
اب یہ ویران دن کیسے ہوگا بسر
رات تو کٹ گئی درد کی سیج پر
بس یہیں ختم ہے پیار کی رہگزر
دوست اگلا قدم کچھ سمجھ سوچ کر
اس کی آوازِ پا تو بڑی نات ہے
ایک پتّہ بھی کھڑکا نہیں رات بھر
گھر میں طوفان آئے زمانہ ہوا
اب بھی کانوں میں بجتی ہے زنجیرِ در
اپنا دامن بھی اب تو میسّر نہیں
کتنے ارزاں ہوئے آنسوؤں کے گہر
یہ شکستہ قدم بھی ترے ساتھ تھے
اے زمانے ٹھہر، اے زمانے ٹھہر
اپنے غم پر تبسّم کا پردہ نہ ڈال
دوست، ہم ہیں سوار ایک ہی ناؤ پر
 

الف عین

لائبریرین
روشن ہیں دل کے داغ نہ آنکھوں کے شب چراغ
کیوں شام ہی سے بجھ گئے محفل کے سب چراغ
وہ دن نہیں کرن سے کرن میں لگے جو آگ
وہ شب کہاں چراغ سے جلتے تھے جب چراغ
تیرہ ہے خاکداں، تو فلک بے نجوم ہے
لائے کہاں سے مانگ کے دست طلب چراغ
روشن ضمیر آج بھی ظلمت نصیب ہیں
تم نے دیے ہیں پوچھ کے نام و نسب چراغ
وہ تیرگی ہے دشتِ وفا میں کہ الاماں
چمکے جو موجِ ریگ تو پائے لقب چراغ
دن ہو اگر تو رات سےتعبیر کیوں کریں
سورج کو اہلِ ہوش دکھاتے ہیں کب چراغ
اے بادِ تند وضع کے پابند ہم بھی ہیں
پتھر کی اوٹ لے کے جلائیں گے اب چراغ
 

الف عین

لائبریرین
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہونچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا
بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون
پُتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آکے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
گنبد کا کیا قصور اسے کیوں کہوں بُرا
آیا جدھر سے تیر، اُدھر ہی پلٹ غیا
رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا
جس کی اماں میں ہوں وہ ہی اکتا گیا نہ ہو
بوندیں یہ کیوں برستی ہیں، بادل تو چھٹ گیا
وہ لمحۂ شعور جسے جانکنی کہیں
چہرے سے زندگی کے نقابیں الٹ گیا
ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا
اک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیبؔ
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا
 

الف عین

لائبریرین
آتا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اُتار بھی؟
پستی سے ہم کنار ملے کوہسار بھی؟
دل کیوں دھڑکنے لگتا ہے اُبھرے جو کوئی چاپ
اب تو نہیں کسی کا مجھے انتظار بھی!
جب بھی سکوتِ شام میں آیا ترا خیال
کچھ دیر کو ٹھہر سا گیا آبشار بھی
کچھ ہو گیا ہے دھوپ سے خاکستری بدن
کچھ جم گیا ہے راہ کا مجھ پر غبار بھی
اس فاصلوں کے دشت میں رہبر وہی بنے
جس کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پار بھی
اے دوست، پہلے قرب کا نشّہ عجیب تھا
میں سُن سکا نہ اپنے بدن کی پُکار بھی
رستہ بھی واپسی کا کہیں بن میںکھو گیا
اوجھل ہوئی نگاہ سے ہرنوں کی ڈار بھی
کچھ عقل بھی ہے باعثٕ توقیر اے شکیبؔ
کچھ آ گئے ہیں بالوں میں چاندی کے تار بھی
 

الف عین

لائبریرین
پردۂ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے
دل کا کنول بجھا تو شہر تیرہ و تار ہوگئے
ایک ہمیں ہی اے سحر نیند نہ آئی رات بھر
زانوئے شب پہ رکھ کر سر، سارے چراغ سو گئے
راہ میں تھے ببول بھی رودِ شرر بھی دھول بھی
جانا ہمیں ضرور تھا گل کے طواف کو گئے
دیدہ ورو بتائیں کیا تم کویقیں نہ آئے گا
چہرے تھے جن کے چاند سے سینے میں داغ بوگئے
داغِ شکست دوستو دیکھو کسے نصیب ہو
بیٹھے ہوئے ہیں تیز رو سست خرام تو گئے
اہلِ جنوں کے دل شکیبؔ نرم تھے موم کی طرح
تیشۂ یاس جب چلا تودۂ سنگ ہوگئے
 
Top