لہو میں تر۔۔۔ شکیب جلالی

الف عین

لائبریرین
گریز پا


دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں
بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں
ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں
جس طرح پینے کے جھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جا گِرے
ناگہاں کجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نورانی دئے
جس طرح شورِ جرس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے
یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے
لب سلگتے رہ گئے تھے، چھن گیا تھا جام بھی
اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی
آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال
اس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حسیں چاہت کا جال
 

الف عین

لائبریرین
دلاسہ

ہم ملے کب تھے
جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و غم بجاں
ہات میں ہو نرم ہات
لب ہوں لب پر مہرباں
اس پہ کیا موگوف ہے ربطِ بہم کی داستاں
 

الف عین

لائبریرین
رہگزارِ خاک پر


دور سے دو رویہ پیڑوں کی قطاریں
لاکھ آتی ہوں نظر
اپنے سر جوڑے ہوئے
درمیاں ان کے مگر
کب نہ حائل تھا غبارِ رہگزر
ہم ملے کب تھے
جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و چشمِ تر
 

الف عین

لائبریرین
چھت کی تلاش

یہاں درخت کے اوپر اُگا ہوا ہے درخت
زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی)
ہوا کا کال پڑا ہے (نمی بھی عام نہین)
سمندروں کو بِلو کر، فضاؤں کو مَتھ کر
جنم دئے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے
جھپٹ لیا ہے انھیں یوں دراز شاخوں نے
کہ نیم جان تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی
جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں
نی تیرگی سے مفر ہے، نہ روشنی کا سوال
زمیں میں پاؤں دھنسے ہیں، فضا میں ہات بلد
نئی جہت کا لگے اب درخت میں پیوند
 

الف عین

لائبریرین
سفیر

میں روشنی کا مُغنّی کرن کرن کا سفیر
وہ سیلِ مہ سے کہ رودِ شرار سے آئے
وہ جامِ مے سے کہ چشمِ نگار سے آئے
وہ موجِ باد سے یا آبشار سے آئے
وہ دستِ گل سے کہ پائے فگار سے آئے
وہ لوحِ جاں سے کہ طاقِ مزار سے آئے
وہ قصرِ خواب سے یا خاک زار سے آئے
وہ برگِ سبز سے یا چوبِ دار سے آئے

جہاں کہیں ہو دلِ داغ دار کی تنویر
وہیں کھلیں مری بانہیں، وہیں کٹے زنجیر
 
Top