الف عین
لائبریرین
گریز پا
دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں
بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں
ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں
جس طرح پینے کے جھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جا گِرے
ناگہاں کجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نورانی دئے
جس طرح شورِ جرس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے
یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے
لب سلگتے رہ گئے تھے، چھن گیا تھا جام بھی
اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی
آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال
اس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حسیں چاہت کا جال
دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں
بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں
ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں
جس طرح پینے کے جھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جا گِرے
ناگہاں کجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نورانی دئے
جس طرح شورِ جرس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے
یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے
لب سلگتے رہ گئے تھے، چھن گیا تھا جام بھی
اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی
آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال
اس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حسیں چاہت کا جال