مزمل شیخ بسمل
محفلین
کراماتِ اولیاء
عمران سیفی صاحب: کیا تبلیغی جماعت کا نصاب (فضائل اعمال نامی کتاب) درست نصاب ہے؟
ہم نے کہا کہ ہاں جی بالکل درست کتاب ہے۔
عمران سیفی صاحب: پھر تصدیق کرتے ہیں کہ جناب آپ کو مکمل یقین ہے کہ یہ درست کتاب ہے؟
ہاں جی مکمل یقین ہے۔
عمران سیفی صاحب: نہیں آپ سوچ لیں آپ کو پورا پکا یقین ہے؟
اب ہم انہیں قران کی قسم تو دے نہیں سکتے تھے اتنے چھوٹے سے معاملے پر جس کی وہ اتنی زور و شور سے توثیق و تصدیق کروا رہے تھے ہمیں معلوم تھا کہ انہیں ضرور کوئی اعتراض ہوگا جسے وہ ہماری تصدیق کے بعد دائر کردیں گے ہم نے پھر تصدیق کی کہ ہاں بھائی مکمل پکا یقین ہے کہ فضائل اعمال الحمد للہ درست کتاب ہے۔
انہوں نے جھٹ سے ایک حکایت پیش کی اور اس حکایت پر اعتراض بھی لکھا:
عمران سیفی صاحب: فضائلِ اعمال ۔۔۔ میں سے ایک واقعہ ۔۔ غور فرمائیے گا ۔۔
فضائل اعمال ۔۔ صفحہ نمبر 484 پر ابو قرطوبی فرماتے ہیں ۔۔ ”کہ ہم نے سُنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے ۔ وہاں ایک نوجوان رہتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے کشف ہو جاتا ہے اور اس کو جنت اور جہنم کے معاملات کے بارے میں خبر ہوجاتی ہے ایک دن ہمارے پاس کھانا کھاتے ہوئے اس نے رونا شروع کر دیا میں نے ان سے پوچھا کہ کہ کیوں رو رہے ہو تو اس نے کہا کہ میری ماں کو جہنم میں ڈال دیا گیا ہے ابو یزید کہتے ہیں میں نے جو ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ رکھا تھا اور دل میں محفوظ کر رکھا تھا میں نے اس کی والدہ کے نام کردیا میں نے یہ سب کچھ دل ہی دل میں کیا .اس نوجوان نے مُسکرانا شروع کردیا اور فرمایا پیر صاحب میری والدہ کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے“
اعتراض:
”جنت اور جہنم میں کیا ہو رہا ہے ۔۔ یہ جاننے کے لیے اس نوجوان کے پاس جو سورس آف انفارمیشن تھا وہ کیا تھا ۔۔۔۔ اسے کس نے بتایا کہ اس کی والدہ کو جہنم میں پھر جہنم سے جنت میں ڈالا جا رہا ہے“
ہمارا سوال ان سے یہ تھا کہ کیا کرامت اور کشف کا ہوجانا قران و سنت کے خلاف ہے؟ کیا کہیں قران و سنت میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ کرامت یا کشف نہیں ہو سکتا؟ اگر ایسا ہے تو کوئی آیت یا کوئی صحیح صریح حدیث پیش کی جائے کہ کشف کا ہو جانا ممکن نہیں۔
اس پر انہوں نے کہا کہ جناب کشف وغیرہ سے ولی کے بارے میں علم غیب کا ماننا لازم آتا ہے۔ اور کرامت سے شرک لازم آتا ہے۔ اب ہم نے جواب دیا کہ اگر آپ کشف و کرامت کو انسان سے واقع ہونا مانیں گے تو یقیناً علم غیب کا عقیدہ بھی ثابت ہوگا، اور شرک کا بھی۔ لیکن ہم اس سلسلے میں انسان کو مختار ہی نہیں مانتے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ کشف و کرامات وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے، اللہ کی مرضی سے، اللہ کے اختیار سے کسی نیک متبع سنت انسان سے واقع ہو جائیں۔ اس میں اس انسان کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ اس لئے نہ تو کشف سے علم غیب لازم آیا، نہ کرامت سے شرک۔
اس بات سے ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔۔۔ کچھ افاقہ ہوا تو کہنے لگے کہ اس طرح تو مشرکین بھی اپنی دلیل بنا سکتے ہیں کہ ہمارا پیر یا ہمارا بابا مختار نہیں لیکن اللہ اس پیر سے سارے کام کروا سکتا ہے۔ اس لئے ان سے مدد مانگی جائے۔
میں نے انہیں مزید سمجھایا کہ : کسی پیر، یا کسی بابا کو یہ اختیار نہیں کہ جو کام اس نے ایک وقت کر کے دکھا دیا وہ کرامت اس کی مرضی سے دوسری مرتبہ بھی صادر ہو، پھر جیسا کہ میں نے اپنا عقیدہ اوپر بیان کیا کہ انسان مختار ہے ہی نہیں اس لئے اگر کسی ولی کے ہاتھوں کوئی بہت بڑا خرق عادت کام بھی ہوجائے تب بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اس کا اختیار اللہ کو ہے، اسی وجہ سے کسی بھی بڑی سے بڑی کرامت سے کوئی ولی نہ تو مشکل کشا بن جاتا ہے نہ خدا بن جاتا ہے کہ اس سے مدد طلب کی جائے۔ (مدد سے مراد مافوق الاسباب ہیں، جیسا بیٹا یا بیٹی دینا، بارش برسانا وغیرہ۔ اس کے علاوہ ما تحت الاسباب زندہ لوگوں سے طلب کرنا جائز ہے چاہے ولی ہو یا عام انسان)۔
اب ہماری دلیل کا جواب تو عمران سیفی صاحب کے پاس کیا ہونا تھا، سرے سے کرامت کو گالیاں دینا شروع ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم نہیں مانتے کرامت کو۔ ہم معجزے کو مانتے ہیں، کرامت کا کوئی ثبوت قران و حدیث میں نہیں ملتا۔۔۔۔ ہم نے اسی وقت اصحٰب الاخدود سورہ البروج کی آیت اور اس کی تفسیر میں جو کرامت سے بھر پور واقعہ صحیح مسلم میں درج ہے وہ ان کے سامنے رکھ دیا جس میں ایک نو جوان لڑکا کوڑھ کے مریضوں کو کرامت سے شفایاب کرتا، مادر زاد اندھوں کو بینا کردیتا۔ اور اپنی موت کا طریقہ بھی بتا رہا تھا۔
اس واقعے پر سیفی صاحب مبہوت ہو گئے۔ تھوڑا ہوش آیا تو کہنے لگے کہ پہلی بات تو میں یہ بتا دیتا ہوں کہ ہمارے نظریے کے خلاف آپ چاہے پورا قران بھی پیش کردیں تب بھی ہم آپ کی ایک بھی نہیں مانیں گے۔ ہم صرف اپنے مولوی صاحب کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ اس کے خلاف ایک آیت یا ایک حدیث کیا چیز ہے، ہزاروں آیات یا لاکھوں احادیث بھی آجائیں تو ہم اپنے موقف سے ہٹ کر نہیں مانیں گے۔
ہم نے کہا کہ عمران صاحب آپ کو اس بات کی صراحت کی ضرورت نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ آپ اپنے مولوی صاحب کے اندھے مقلد ہیں، قران و حدیث سے آپ کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔
بہر حال وہ کہنے لگے کہ ”یہ اصحٰب الاخدود کی کرامت کا جو واقعہ ہے وہ نبی ﷺ کے دور سے پہلے کا ہے۔ اس لئے اس وقت ایسا ہوتا تھا اب نہیں ہوتا“ ہم نے اسی وقت ان سے دلیل طلب کی کہ آپ قران و صحیح حدیث سے ثابت کریں کہ یہ نبی ﷺ کے بعد اللہ تعالی نے کرامت کروانا بند کر دیا ہو؟
اس پر انہوں نے کہا کہ اس کے خلاف ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں صرف قیاس ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا قیاس ہے آپ کے پاس؟ کہنے لگے کی کوئی ولی کسی نبی سے بڑا خرقِ عادت کام کیسے سر انجام دے سکتا ہے؟ فضائل اعمال میں مردے کا بات کرنا، اس کا اٹھ کر چلنے پھرنے کے بھی واقعات میں موجود ہیں۔ میں نے کہا کہ جب ہم ولی سے کرامت ہونے کو ولی کا اختیار ہی نہیں مانتے، صرف اللہ کا اختیار مانتے ہیں تو اللہ کے اختیار کی کوئی حد ہے؟ پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ کرامت کی کوئی حد قران و حدیث سے متعین کر دیں جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ ولی سے صرف اس حد تک کرامت کا صدور ممکن ہے، اس کے آگے کوئی کرامت ولی سے نہیں ہوگی، تاکہ ہم سمجھ لیں کہ کرامت میں کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ قران میں فرماتا ہے کہ” اے نبیﷺ تم مردوں کو نہیں سنا سکتے“ بس یہ حد قائم ہو گئی کہ جب نبیﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے تو کوئی ولی یا غیر نبی کیسے سنا سکتا ہے؟ چہ جائیکہ کہ مردہ اٹھ کر بات بھی کرے۔
میں نے انہیں حدیث پیش کی:
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں میں جھانکا (جہاں بدر کے مقتول مشرکین) پڑے تھے آپ نے فرمایا کیا تم نے ٹھیک ٹھیک اس چیز کو پا لیا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ آپ سے کہا گیا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو پکارتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔لیکن وہ جواب نہیں دیتے ہیں۔
(بخاری کتاب الجنائز)
میں نے پوچھا کہ اب بتائیں آپ نے تو حد قائم کی تھی نبیﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے، کیا فضائل اعمال کی طرح اب آپ بخاری شریف پر بھی غیر معتبر ہونے کا فتوی لگانے کو تیار ہیں؟ کیا امام بخاری کو جھوٹا کہنے کو تیار ہیں؟ اس پر ان پر ایک مرتبہ پھر سکتہ طاری ہو گیا۔ میں تو یہ شعر گنگنا رہا تھا:
اے میرے باغ آرزو کیسا ہے باغ ہائے تو
کلیاں تو گو ہیں چار سوکوئی کلی کھلی نہیں
کلیاں تو گو ہیں چار سوکوئی کلی کھلی نہیں
پھر کافی کچھ سوچ کر کہنے لگے کہ بے شک نبی ﷺ مردے کو نہیں سنا سکتے، لیکن اللہ تو سنا سکتے ہیں نا؟ میں نے کہا جناب میں اتنی دیر سے اور کہہ کیا رہا ہوں؟ اختیار اللہ ہی کا تو ہے۔ وہی تو ہے جو زندوں کو بھی سنا سکتا ہے، اور مردوں کو بھی سنا سکتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ آپ زندوں کے سننے میں اللہ کے اختیار کے بغیر بھی قائل ہیں، اور مردوں کے سنانا اللہ کا اختیار ہی نہیں مانتے۔
بہر حال، پھر یہ صاحب اس پر تو کوئی جواب کیا لاتے، کہنے لگے کہ کسی ولی سے کوئی کرامت ایسی نہیں صادر ہوسکتی جو نبی سے نہ ہوئی ہو۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ آپ کا قیاس ہے یا قران و حدیث میں ایسا کہیں ثبوت ملتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ابھی قران سے آیت پڑھی تھی کہ نبیﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے وہی میری دلیل ہے۔ میں نے کہا کہ وہ دلیل تو میں نے توڑ دی کہ نبی نہیں سنا سکتے مگر اللہ سنا سکتا ہے، اور جس طرح اللہ کی مرضی سے نبی سنا سکتے ہیں، ولی بھی سنا سکتے ہیں۔ اور اس طرح کے جتنے بھی خرقِ عادت کام ہوں سب کے سب ولی سے بھی صادر ہوسکتے ہیں، چاہے مردوں کو سنانا ہو، یا مردوں کو زندہ کرنا ہو، اندھوں کو بینا کرنا ہو یا اپاہج کو صحتمند کرنا ہو یہ سب کام ولی سے بھی صادر ہو سکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اس طرح تو کوئی ولی کرامتاً نبی بھی بن سکتا ہے، کیونکہ آپ کے مطابق اللہ اس پر بھی قادر ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا نبوت کا جھوٹا دعوی کرنا خرقِ عادت کاموں میں سے کوئی کام ہے؟ کہنے لگے نہیں۔ تو میں نے کہا کہ کرامت کسے کہتے ہیں؟ کہنے لگے کہ خرق عادت کام کو۔ تو میں نے پوچھا کہ آپ کا سوال بچگانہ ہے یا نہیں؟ کہنے لگے کہ ہمارے مولوی ہمیں ایسے ہی سوالات سکھا تے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ اگر کسی ولی سے کوئی ایسی کرامت صادر ہوجائے جو نبی ﷺ سے بھی نہ ہوئی ہو تو کیا اس کا درجہ نبی سے نہیں بڑھ جائے گا؟ ہم اسی لئے کرامت کا انکار کرتے ہیں کہ ولی کی کرامت کو ماننے سے نبی ﷺ توہین لازم آتی ہے۔ اور ولی اس نبی بھی سے افضل بن جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ محض آپ کی کم فہمی اور لاعلمی ہے۔ نبی نبوت کی وجہ سے افضل ہے، معجزے کی وجہ سے نہیں۔ اگر کسی نبی سے ایک بھی معجزہ ظاہر نہ ہوا ہو تب بھی کوئی صاحب کرامت ولی اس نبی کی برابری کو نہیں پہنچ سکتا۔ دیکھو اگر افضلیت کا ثبوت کرامت اور معجزہ ہی ہوتا تو کتنے ہی غیر نبی جن کی کرامات کے واقعات ہمیں قران و حدیث سے ملتے ہیں وہ نبیوں سے افضل ہو جاتے، اس کا جواب میں اپنے استاد جی زبان میں دوں، مثال سے سمجھیں: خواب اللہ کی طرف سے آتے ہیں، کسی کا کوئی اختیار نہیں کہ جس خواب کا ارادہ کرے وہی خواب آجائے، اگر کسی بچے کو خواب آیا کہ نانا ابو گھر آئے ہیں، اس نے گھر والوں کو خواب بتا دیا۔ اور واقعتاً نانا ابو آ بھی گئے تو کیا گھر والے بچے کو کہیں گے یہ خواب ہم نہیں مانتے کہ تجھے آیا ہو، جب گھر کو بڑوں کو یہ خواب نہیں آیا تو بچے کو کیسے آسکتا ہے؟ تو یہ جہالت کا فلسفہ ہے۔
دیکھو بی بی مریم جو محض ولیہ ہیں انہیں بے موسم کے پھل ملتے ہیں لیکن حضرت زکریا جو نبی ہیں انہیں نہیں ملتے، حضرت یعقوب علیہ السلام روز اپنے منہ پر اپنے ہاتھ پھیرتے مگر کبھی بینائی نہیں آئی، مگر یوسف علیہ السلام کے صرف کُرتے کے منہ پر پھیرنے سے آگئی، جو ہوا سلیمان ؑ کا تخت اڑائے پھرتی تھی اسے یہ حکم نہیں ہوا کہ ہجرت کے وقت اللہ کے نبی ﷺ کو ایک جھٹکے میں مدینہ پہنچا دے۔ بی بی مریم ؑ جو ولیہ ہیں انہیں بغیر شوہر کے بیٹا مل گیا، مگر حضرت عائشہ جن کے شوہر خود امام الانبیاء ہیں انہیں بیٹی بھی نہیں ملی۔ حضرت سلیمانؑ نبی ہیں، مگر تخت بلقیس کا آنا ان کے صحابی کی کرامت ہے۔ تو بھئی یہ تو اللہ کے کام ہیں، وہ چاہے تو ہزاروں میل دور بیت المقدس کا کشف ہوجائے، جنت دوزخ کا کشف ہوجائے۔ اور نہ چاہے تو چند میل دور سے حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی غلط خبر پر آپ ﷺ بیعت لینا شروع کر دیں۔ وہ چاہے تو کنعان کے کنوئیں میں یعقوب ؑ کو یوسف ؑ کی خبر تک نہ ہو، اور جب چاہے تو مصر میں یوسف ؑ کے کرتے کی خوشبو کنعان میں سونگھا دے۔
آپ کا ان سب کرامات اور معجزات سے افضل اور مفضول کو پرکھنا تو انتہائی غیر منطقی اور بچگانہ بات ہے۔ آپ جو شرک اور علم غیب کے فتوے لگا رہے ہیں ان پر آپ کو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
اس پر عمران سیفی صاحب کہنے لگے کہ مزمل بھائی آپ کی ساری باتیں درست ہیں، آپ کی باتوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ لیکن ہم کرامت کو نہیں مانتے۔۔۔۔۔۔
آخری تدوین: