مائی نیم از خان ۔۔۔۔از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان

Dilkash

محفلین
مائی نیم از خان
جس طرح پاکستان میں ایسے عقاب Hawks موجود ہیں جو بھارت کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتے حالانکہ یہی لوگ پاکستان کے ہی مخالف تھے اور پاکستان کے خطے کو ہندوستان میں رکھنے پر ہی خوش تھے۔ اسی طرح بھارت میں بھی انتہا پسند لوگ باافراط موجود ہیں جو پاکستان ہی نہیں مسلمان کے نام سے بھی الرجک ہیں حالانکہ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں بیس کروڑ یعنی دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔

وہاں ایک بال ٹھاکرے صاحب بھی ہیں جس کا مقصد‘ مشن و مذہب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ آج کل بھارت میں دنیائے فلم کے سپرسٹار شاہ رخ خان اس کی تلوار کی دھار پر آئے ہوئے ہیں۔ خان کا قصور یہی ہے جو ساری امریکی اور مغربی دنیا میں ہے ‘کہ اس کے نام کے ساتھ خان لگا ہواہے اور وہ مسلمان ہے اور اس عہد سیاہ میں چند لوگوں کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام کی وہ بدنامی ہو رہی ہے جتنی صلیبی جنگوں کے زمانے میں نہیں ہوئی تھی۔ خان کی ایک تازہ فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ حال ہی میں دنیا بھر میں ریلیز ہوئی‘ خان بڑا سیدھا سادہ صرف فلمی دنیا کا غیر مذہبی آدمی ہے‘ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔

اس سے قبل جب وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے لئے امریکہ گیا تھا تو اسے کئی گھنٹے کے لئے گرفتار کر کے سوالات و جوابات کی زد میں لایا گیا تھا‘ قصور اس کا وہی کہ تم خان ہو اور مسلمان ہو۔ اب اس نے کہیں یہ بیان دے دیا ہے کہ بھارت میں ہونے والے غیر سرکاری کرکٹ مقابلوں میں پاکستان کے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا جائے‘ بس پھر کیا تھا بال ٹھاکرے صاحب کی شمشیر اس کے خلاف بے نیام ہو گئی اور خان سے کہا گیا کہ تم بھارت سے نکل جاؤ اور جا کر لاہور‘ کراچی یا اسلام آباد میں جابسو کیونکہ تم خان ہو اور مسلمان ہو۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بال ٹھاکرے صاحب کتنے مسلمانوں کو بھارت سے نکالیں گے

اب تو مسلمانوں کے لئے ایک راستہ اور چھوڑا گیا ہے کہ بھارت کے مسلمان اپنے لئے ایک اور پاکستان کا مطالبہ کریں۔ ہم اہلِ پاکستان نے اپنے سیاسی حالات کی وجہ سے پاکستان کو اس سطح پر نہ پہنچایا ہوتا اور اسے قائداعظم کے خواب کے مطابق ویلفیئر سٹیٹ بنایا ہوتا تو یہ مطالبہ کب کا سامنے آ چکا ہوتا۔ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پورے بھارت میں بکھرے ہوئے ہیں ان کا Diaspora بہت وسیع ہے‘ یہ عملی طور پر اکٹھے ہو کر اپنی ریاست بنانے کی پوزیشن میں نہیں ورنہ ہندو جنگجو نفرت کار کب کا ان کو اس راستے کی طرف دھکیل چکے ہوتے۔

مسلمان بھارت میں غریب ترین سطح پر ہیں‘ یہ چند خوانین فلم سٹاروں اور کھلاڑیوں پر نہ جائیں‘ بھارت کا مسلمان واقعی غربت کی بہت نچلی سطح پر ہے۔ جن لوگوں کو بھارت جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ مسلمانوں کی حالت وہاں کے ہندوؤں سے بدتر ہے‘ بعض حالات میں دلتوں(Dalits)یعنی شودروں سے بھی بڑھ کر‘ پاکستان میں رہنے والے مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ بھارت کے مسلمانوں سے کس حد تک بہتر ہیں۔ بھارتی مسلمان ہندوؤں کی ہزار خوشامدیں کرنے کے باوجود وہاں دوسرے درجے کے شہری شمار ہوتے ہیں

ماب اور گینگسٹرز کی بات چھوڑیں‘ بہت سے مسلمان مجبور ہو کر ان گروہوں گینکسٹرز کا حصہ بنے ہیں ورنہ عام مسلمان سائیکل رکشہ چلاتا ہے یا بدترین علاقوں Slums میں رہتا ہے۔ میں کئی بار بھارت جا کر وہاں کے لوگوں سے مل چکا ہوں اول تو وہ اندر کی بات بتاتے نہیں بتائیں تو رو پڑتے ہیں‘ وہ پاکستان پر فخر کرتے ہیں‘ پاکستان کی ٹیم کسی میدان میں جیتتی ہے تو جشن بھارتی مسلمان مناتے ہیں۔ ہندو جنگ پسندوں نے کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں اس کے بعد تو کسی بھارتی مسلمان کے دل میں کوئی غلط فہمی رہی ہی نہیں

کشمیریوں کو صرف مسلمان ہونے کی سزا مل رہی ہے‘ بھارت کے جھوٹے سیکولرازم کا بھانڈہ کشمیر کے لال چوک میں آ کر ہر روز پھوٹتا ہے‘ سارا عالمی ضمیر مر چکا ہے‘ 20 کروڑ عربوں کے لئے تو ساری دنیا اور خود مغرب تشویش میں مبتلا رہتا ہے مگر بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں‘ ان کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کر دی گئی ہے۔ جو مسلمان منفرد و مشہور ہونے کی کوشش کرتا ہے اس کا حشر دلیپ کمار اور شاہ رخ خان جیسا کر دیا جاتا ہے۔ خان نے تو کہہ دیا ہے کہ اس نے کوئی غلط بات نہیں کی اور بال ٹھاکرے اگر وضاحت کے لئے طلب کریں گے تو وہ جا کر وضاحت بھی کر دیں گے

گویا بال ٹھاکرے بھارت کا بے تاج بادشاہ ہے جس کے آگے کنگ خان کو جھکایا اور گرایا جا رہا ہے۔ بال ٹھاکرے نے ’’مائی نیم از خان‘‘ کی بھارت میں نمائش پر بھی اپنے طور پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے مگر کنگ خان ڈٹا ہوا ہے‘ اسے اچھے ہندو دوستوں کا بے پناہ پیار بھی میسر ہے۔

کسی بھی ملک و معاشرے میں سب لوگ خراب نہیں ہوتے یہ عالمی اصول ہے‘ کسی قوم و مذہب پر لیبل لگانا درست نہیں‘ بھارت میں اچھے ہندو بھی موجود ہیں اور یہ اچھے انسان ہیں اس لئے کہا جاتا ہے انسان بننا ضروری بھی ہے اور مشکل کام بھی۔ خیر فی الحال بات خان کی ہو رہی تھی اس کی فلم بھارت کے پندرہ ہزار سینما گھروں میں کتنی جگہ اور کب ریلیز ہوتی ہے مگر اس کا افتتاح بمبئی کے 63 سینما گھروں میں ہو چکا ہے جہاں پولیس کی چھٹیاں منسوخ کر کے اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ اس فلم کے خلاف مخالفانہ ردعمل کو کم سے کم کیا جا سکے۔

Dated : 2010-02-14 00:00:00
 

arifkarim

معطل
21 ویں صدی میں ہندو مسلمان کی تفریق انتہائی پسماندانہ ہے۔ مائی نیم از خان ایک اچھی فلم ہے اور میڈیا کے پراپیگنڈا کو بے نقاب کرتی ہے۔ مغربی لوگ کہتے ہیں کہ ہٹلر اور اسکی نازی پارٹی کو کچلنے کیلئے کئی قوموں نے کروڑوں جوان جنگ کی ہولی میں ضائع کر دئے۔ پر دنیا نے اس سے کیا سیکھا؟ ہٹلر اپنے کمال پراپیگنڈا کے باعث کچھ ہی عرصہ میں پینٹر سے جرمن قوم کا محبوب لیڈر بن گیا۔ یہی کام جارج بش نے 9/11 کے بعد کیا۔ وہ امریکی جنہوں نے سنہ 2000 کے الیکشن میں‌ بش کو انڈے مارے تھے، 9/11 کے نام نہاد حملوں کے بعد اسکے لئے مرنے کو تیار ہو گئے۔ جس قوم کا یہ حال ہو۔ اسکے نقش قدم پر چلنا حماقت ہے!
 

عسکری

معطل
ہمارا کیا ہند جانے اس کے مسلمان ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ ہمارے پاکستان کے مسائل کیا کم ہیں جو ہم نانی اماں بنیں۔دنیا میں 57 اور بھی مسلمان ملک ہیں کسی کو دوسروں کا غم نہیں گھلاتا سوائے ہمارے؟۔میرے لیے انڈیا کے سارے مسلمان ارب پتی بن جائیں یا کنگال ہو جائیں۔ہندو ان کو سر کا تاج بنائے یا پھر غلام زندہ رکھے یا سارے مار دے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں پر ہمارا انٹرسٹ صرف اور صرف پاکستان میں ہے اور ہم اب مزید ایک بھی مہاجر قبول نہیں کریں گے بس۔چاہے وہ شاہ ڑخ ہو یا کوئی مسکین۔
 
السلام علیکم
جن ذرایع سے ہندوستانی مسلمانوں کی حا لت زار معلوم کرکے آپ کو دکھ ہوتا ہے۔ انہیں ذرایع سے ہمیں معلومات پاکر پاکستانی عوام کی حالت سے دکھ ہوتا ہے۔ آپ کا تجزیہ آپ کے اندرونی کرب کا احساس دلاتا ہے پر اسمیں بہت تضاد ہے۔ (بال ٹھاکرے اگر وضاحت کے لئے طلب کریں گے تو وہ جا کر وضاحت بھی کر دیں گے/ مگر کنگ خان ڈٹا ہوا ہے/ بعض حالات میں دلتوں(Dalits)یعنی شودروں سے بھی بڑھ کر۔۔۔( یعنی اکثر میں نہیں شودر ہندوں ہیں۔۔وغیرہ ۔ با حیثیت ہندوستانی مسلم مجھ کو اور میرے بہت سے ملنے جلنے والوں کو ہندوستان میں درپیش تمام پریشانیوں کے ساتھ رہنا ، پاکستان یا ایسے ہی اپنا الگ خطہ بناکر رہنے کے مقابلہ میں 1000 گنا بلکہ اس سے بھی زائید پسند ہے ۔
 

Dilkash

محفلین
دلکش صاحب آپ کا تعلق کہاں سے ہے پاکستان سے یا ہندوستان سے ۔۔؟

محترم دوست

مجھے اندازہ نہیں کہ اپ نے کس سنس میں پوچھا ہے؟
اب تک تو پاکستان میں ہی رھتا ھوں ۔اگے کا حال اللہ سبحان و تعالٰی کو معلوم ہے۔

جزاک اللہ خیر
 

عندلیب

محفلین
کہا جاتا ہے کہ جب کسی انسان کا ضمیر مردہ ہو جائے تو اس کے اندر سے جذبہ انسانیت بھی ختم ہو جاتا ہے۔ آدمی کا ضمیر اگر زندہ ہو تو انسان اور جانور کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔
جینے کو تو جانور بھی جی لیتے ہیں اور اپنی اور اپنی genes کی بقا کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں۔ مگر انسان کو اشرف المخلوقات کا خطاب دیا گیا ہے کہ انسانیت کی بنیاد پر وہ ایک وسیع و عریض انسانی معاشرہ تشکیل دیتا ہے اور اس کی مثبت تعمیر میں انفرادی و اجتماعی طور سے حصہ لیتا ہے۔
ہاں ممکن ہے انسانی معاشرہ میں بھی کچھ انفرادی کیس ایسے بھی نکل آئیں جو حیوانوں کی طرح ایک محدود اور اپنی ذات میں مقید سوچ کے حامل ہوں۔
 

Dilkash

محفلین
خدا شاہد ہے کہ میں اپکی منطق کو نہیں سمجھ سکا ھوں۔
دوست اپ کہنا کیا چاھتے ھیں؟
میں اپنے اپ کو اس کالم کے لئے سزاوار اس لئے نہیں سمجھتا کہ اس کم از کم میں نےنہیں لکھا ہے۔

البتہ اگر اپکو یہاں پوسٹ کرنے پر دقت ھورہی ہے تو میں معذرت خواہ ھوں اور ائیندہ کوشش کروں گا کہ ایسی کوئی حرکت سرزد نہ ھوں۔

اپ اگر میری خطا معاف فرماتے ھیں تو اتنا عرض کرتا ھوں کہ ضمیر،انسانیت،ادمیت اور اشرف المخلوقیت کے قصیدے بہت سنے ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ میں اب مزید ان قصیدوں کو سننے سے قاصر ھوں۔
کہ ہر کوئی دوسرے کو حیوان اور اپنے اپ کو انسان سمجھنے لگتا ھے۔
معاف کیجئےگا ۔پہلیوں میں گفتگو کرنے سے بہتر ھوگا کہ صاف صاف اپنی مدعا بیان کیجئے اگر ہمارے پاس جواب ہوگا تو دے دیں گے ورنہ معذرت کریں گے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس سے قبل جب وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے لئے امریکہ گیا تھا تو اسے کئی گھنٹے کے لئے گرفتار کر کے سوالات و جوابات کی زد میں لایا گیا تھا‘ قصور اس کا وہی کہ تم خان ہو اور مسلمان ہو۔

يہ حقيقت ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد ائرپورٹس اور ديگر چيک پوسٹس پر بہت سے لوگوں کو تفتيش کے اضافی مگر ضروری مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ليکن ميں آپ کو يہ بات پورے وثوق سے بتا سکتا ہوں کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے ايسی کوئ ہدايت يا پاليسی نہيں جاری کی گئ ہے جس کے تحت کسی خاص قوم يا مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنايا جائے۔

بلکہ ايسے کئ واقعات ريکارڈ پر موجود ہيں جب امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے سينير اہلکاروں کو اضافی تفتيش کے انھی مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ اس ضمن ميں کسی کے ساتھ بھی امتيازی سلوک نہيں کيا جاتا اوراس ضمن ميں کسی خاص مذہب يا طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ليے دوہرا معيار نہيں ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے ليے ميں آپ کو نيويارک ٹائمز کے ايک آرٹيکل کا لنک دے رہا ہوں جس ميں سينيٹر ايڈورڈ کينيڈی کے حوالے سے يہ انکشاف کيا گيا ہے کہ انھيں 5 مختلف موقعوں پر پوچھ کچھ کے اضافی مراحل سے گزرنا پڑا کيونکہ ان کا نام دہشت گردی کے حوالے سے مطلوب افراد کی لسٹ ميں موجود کسی شخص سے مشہابت رکھتا تھا۔ سب جانتے ہيں کہ سينيٹرکينيڈی کا نام امريکہ کے سياسی منظر نامے پر چند مقبول ناموں ميں سے ہے ليکن اس کے باوجود انھيں بھی طے شدہ طريقہ کار کے مطابق کسی رعايت کے بغير انتظاميہ کی کاروائ کا سامنا کرنا پڑا۔

http://query.nytimes.com/gst/fullpage.html?res=940DE7DF163EF933A1575BC0A9629C8B63

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Dilkash

محفلین
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں انسان نہیں مشینیں کام کرہی ہیں۔
کینڈی جیسے لیول کا ادمی اگر کوئی امریکن نام نھاد پڑھا لکھا امیگریشن افیسر نہیں پہچانتا تو اس سے بڑہ کر جہالت کی اور کیا تعریف ہم سن سکتے ھیں۔؟
مبارک ھو جناب
 
فواد بھی صحیح کہہ رہے ہیں اور Dilkash بھی صحیح کہہ رہے ہیں، میں اکثر جگہوں پر یہ کہہ چکا ہوں کہ سیکورٹی چیک اپ کے نام پر صورت حال خراب بنانے کا ذمہ دار اپنے ہی ملک میں خود امریکی اہلکار ہیں، جو کہ شاہ رخ خان اور کینیڈی جیسے لوگوں کی پوچھ گچھ میں‌اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں‌کہ عبدالمطلب جیسے لوگ انکی ناک کے نیچے سے باآسانی بارود سمیت نکل جاتے ہیں اور پھر نئے سرے سے معصوم عوام اور امن پسند سفر کرنے والے شہریوں کوتلاشی جیسے ٹارچر سے گزارا جاتا ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسی جگہوں پر تعینات اہلکاروں کی تربیت کی اشد ضرورت ہے جس سے نہ صرف اس عمل میں تیزی بھی پیدا ہو جائے گی اور حکومت امریکہ انکی صلاحیتوں سے صحیح طریقے سے فائدہ بھی اٹھا پائے گی۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں نے کبھی بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی ائرپورٹس پر حکام کی جانب سے تلاشی اور جانچ پڑتال کا رائج طريقہ کار مکمل اور غلطيوں سے پاک ہے اور نہ ہی يہ نظام اتنا فعال ہے کہ اس کی بدولت ہميشہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہيں۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد ميں مسافروں کی جانچ پڑتال کا کوئ بھی نظام غلطيوں سے عاری نہيں ہو سکتا۔ دسمبر 25 کو ايک مسافر کی جانب سے ايک امريکی ائرلائن کو تباہ کرنے کی کوشش اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حقيقت يہ ہے کہ اس وقت بھی امريکی حکومت ائرپورٹ سيکورٹی کے حوالے سے نئے قوانين اور ضوابط کا مسلسل جائزہ لے رہی ہے۔ اہم نقطہ جسے پاکستان ميں ميڈيا کے کچھ حلقے اکثر نظرانداز کر ديتے ہيں وہ يہ ہے کہ خود امريکی شہری ميں انھی ضوابط اور طريقہ کار کے مطابق سفر کرتے ہيں۔ اس ضمن ميں صرف انھی واقعات پر توجہ مرکوز کرنا جو پاکستانی يہ مسلمان مسافروں سے متعلق ہوں، ناانصافی ہے اور صرف تصوير کا ايک رخ واضح کرتے ہيں۔

يہ بالکل واضح ہے کہ امريکی حکام کا مقصد اور ان کا ارادہ تمام مسافروں کے تحفظ کو يقينی بنانا ہے اس بات سے قطع نظر کہ ان کا مذہب يا شہريت کيا ہے، اور اس ميں پاکستانی مسافر بھی شامل ہيں۔ اصل ايشو تمام ممکنہ وسائل اور اينٹيلی جينس کو بروئے کار لا کر جرم کو روکنا ہے نا کہ کسی مخصوص ملک کے شہريوں کو نشانہ بنانا۔ سيکورٹی کے حوالے سے نئے قواعد وضوابط کا مقصد دہشت گردی کے اس ممکنہ خطرے سے نبرد آزما ہونا ہے جو محض خام خيالی نہيں بلکہ ايک واضح حقيقت ہے جسے نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔

يہ نقطہ قابل توجہ ہے کہ جب کوئ دہشت گرد اپنے مذموم ارادے کی تکميل کے لیے جہاز ميں سوار ہوتا ہے تو وہ مذہب يا شہريت کی بنياد پر اپنے ٹارگٹ کا انتخاب نہيں کرتا۔ اس تناظر ميں دہشت گردی کی کاروائ کو روکنے کے ليے جو بھی قواعد وضوابط طے کيے جائيں گے اس کا براہ راست فائدہ جہاز ميں موجود تمام مسافروں کو ہو گا جن ميں پاکستانی اور مسلمان بھی شامل ہوں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں انسان نہیں مشینیں کام کرہی ہیں۔
کینڈی جیسے لیول کا ادمی اگر کوئی امریکن نام نھاد پڑھا لکھا امیگریشن افیسر نہیں پہچانتا تو اس سے بڑہ کر جہالت کی اور کیا تعریف ہم سن سکتے ھیں۔؟
مبارک ھو جناب
نيويارک ٹائمز کے ايک آرٹيکل
ہوم میڈ پروپگنڈا
 
Top