مائی نیم از خان
جس طرح پاکستان میں ایسے عقاب Hawks موجود ہیں جو بھارت کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتے حالانکہ یہی لوگ پاکستان کے ہی مخالف تھے اور پاکستان کے خطے کو ہندوستان میں رکھنے پر ہی خوش تھے۔ اسی طرح بھارت میں بھی انتہا پسند لوگ باافراط موجود ہیں جو پاکستان ہی نہیں مسلمان کے نام سے بھی الرجک ہیں حالانکہ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں بیس کروڑ یعنی دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔
وہاں ایک بال ٹھاکرے صاحب بھی ہیں جس کا مقصد‘ مشن و مذہب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ آج کل بھارت میں دنیائے فلم کے سپرسٹار شاہ رخ خان اس کی تلوار کی دھار پر آئے ہوئے ہیں۔ خان کا قصور یہی ہے جو ساری امریکی اور مغربی دنیا میں ہے ‘کہ اس کے نام کے ساتھ خان لگا ہواہے اور وہ مسلمان ہے اور اس عہد سیاہ میں چند لوگوں کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام کی وہ بدنامی ہو رہی ہے جتنی صلیبی جنگوں کے زمانے میں نہیں ہوئی تھی۔ خان کی ایک تازہ فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ حال ہی میں دنیا بھر میں ریلیز ہوئی‘ خان بڑا سیدھا سادہ صرف فلمی دنیا کا غیر مذہبی آدمی ہے‘ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔
اس سے قبل جب وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے لئے امریکہ گیا تھا تو اسے کئی گھنٹے کے لئے گرفتار کر کے سوالات و جوابات کی زد میں لایا گیا تھا‘ قصور اس کا وہی کہ تم خان ہو اور مسلمان ہو۔ اب اس نے کہیں یہ بیان دے دیا ہے کہ بھارت میں ہونے والے غیر سرکاری کرکٹ مقابلوں میں پاکستان کے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا جائے‘ بس پھر کیا تھا بال ٹھاکرے صاحب کی شمشیر اس کے خلاف بے نیام ہو گئی اور خان سے کہا گیا کہ تم بھارت سے نکل جاؤ اور جا کر لاہور‘ کراچی یا اسلام آباد میں جابسو کیونکہ تم خان ہو اور مسلمان ہو۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بال ٹھاکرے صاحب کتنے مسلمانوں کو بھارت سے نکالیں گے
اب تو مسلمانوں کے لئے ایک راستہ اور چھوڑا گیا ہے کہ بھارت کے مسلمان اپنے لئے ایک اور پاکستان کا مطالبہ کریں۔ ہم اہلِ پاکستان نے اپنے سیاسی حالات کی وجہ سے پاکستان کو اس سطح پر نہ پہنچایا ہوتا اور اسے قائداعظم کے خواب کے مطابق ویلفیئر سٹیٹ بنایا ہوتا تو یہ مطالبہ کب کا سامنے آ چکا ہوتا۔ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پورے بھارت میں بکھرے ہوئے ہیں ان کا Diaspora بہت وسیع ہے‘ یہ عملی طور پر اکٹھے ہو کر اپنی ریاست بنانے کی پوزیشن میں نہیں ورنہ ہندو جنگجو نفرت کار کب کا ان کو اس راستے کی طرف دھکیل چکے ہوتے۔
مسلمان بھارت میں غریب ترین سطح پر ہیں‘ یہ چند خوانین فلم سٹاروں اور کھلاڑیوں پر نہ جائیں‘ بھارت کا مسلمان واقعی غربت کی بہت نچلی سطح پر ہے۔ جن لوگوں کو بھارت جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ مسلمانوں کی حالت وہاں کے ہندوؤں سے بدتر ہے‘ بعض حالات میں دلتوں(Dalits)یعنی شودروں سے بھی بڑھ کر‘ پاکستان میں رہنے والے مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ بھارت کے مسلمانوں سے کس حد تک بہتر ہیں۔ بھارتی مسلمان ہندوؤں کی ہزار خوشامدیں کرنے کے باوجود وہاں دوسرے درجے کے شہری شمار ہوتے ہیں
ماب اور گینگسٹرز کی بات چھوڑیں‘ بہت سے مسلمان مجبور ہو کر ان گروہوں گینکسٹرز کا حصہ بنے ہیں ورنہ عام مسلمان سائیکل رکشہ چلاتا ہے یا بدترین علاقوں Slums میں رہتا ہے۔ میں کئی بار بھارت جا کر وہاں کے لوگوں سے مل چکا ہوں اول تو وہ اندر کی بات بتاتے نہیں بتائیں تو رو پڑتے ہیں‘ وہ پاکستان پر فخر کرتے ہیں‘ پاکستان کی ٹیم کسی میدان میں جیتتی ہے تو جشن بھارتی مسلمان مناتے ہیں۔ ہندو جنگ پسندوں نے کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں اس کے بعد تو کسی بھارتی مسلمان کے دل میں کوئی غلط فہمی رہی ہی نہیں
کشمیریوں کو صرف مسلمان ہونے کی سزا مل رہی ہے‘ بھارت کے جھوٹے سیکولرازم کا بھانڈہ کشمیر کے لال چوک میں آ کر ہر روز پھوٹتا ہے‘ سارا عالمی ضمیر مر چکا ہے‘ 20 کروڑ عربوں کے لئے تو ساری دنیا اور خود مغرب تشویش میں مبتلا رہتا ہے مگر بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں‘ ان کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کر دی گئی ہے۔ جو مسلمان منفرد و مشہور ہونے کی کوشش کرتا ہے اس کا حشر دلیپ کمار اور شاہ رخ خان جیسا کر دیا جاتا ہے۔ خان نے تو کہہ دیا ہے کہ اس نے کوئی غلط بات نہیں کی اور بال ٹھاکرے اگر وضاحت کے لئے طلب کریں گے تو وہ جا کر وضاحت بھی کر دیں گے
گویا بال ٹھاکرے بھارت کا بے تاج بادشاہ ہے جس کے آگے کنگ خان کو جھکایا اور گرایا جا رہا ہے۔ بال ٹھاکرے نے ’’مائی نیم از خان‘‘ کی بھارت میں نمائش پر بھی اپنے طور پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے مگر کنگ خان ڈٹا ہوا ہے‘ اسے اچھے ہندو دوستوں کا بے پناہ پیار بھی میسر ہے۔
کسی بھی ملک و معاشرے میں سب لوگ خراب نہیں ہوتے یہ عالمی اصول ہے‘ کسی قوم و مذہب پر لیبل لگانا درست نہیں‘ بھارت میں اچھے ہندو بھی موجود ہیں اور یہ اچھے انسان ہیں اس لئے کہا جاتا ہے انسان بننا ضروری بھی ہے اور مشکل کام بھی۔ خیر فی الحال بات خان کی ہو رہی تھی اس کی فلم بھارت کے پندرہ ہزار سینما گھروں میں کتنی جگہ اور کب ریلیز ہوتی ہے مگر اس کا افتتاح بمبئی کے 63 سینما گھروں میں ہو چکا ہے جہاں پولیس کی چھٹیاں منسوخ کر کے اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ اس فلم کے خلاف مخالفانہ ردعمل کو کم سے کم کیا جا سکے۔
Dated : 2010-02-14 00:00:00
جس طرح پاکستان میں ایسے عقاب Hawks موجود ہیں جو بھارت کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتے حالانکہ یہی لوگ پاکستان کے ہی مخالف تھے اور پاکستان کے خطے کو ہندوستان میں رکھنے پر ہی خوش تھے۔ اسی طرح بھارت میں بھی انتہا پسند لوگ باافراط موجود ہیں جو پاکستان ہی نہیں مسلمان کے نام سے بھی الرجک ہیں حالانکہ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں بیس کروڑ یعنی دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔
وہاں ایک بال ٹھاکرے صاحب بھی ہیں جس کا مقصد‘ مشن و مذہب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ آج کل بھارت میں دنیائے فلم کے سپرسٹار شاہ رخ خان اس کی تلوار کی دھار پر آئے ہوئے ہیں۔ خان کا قصور یہی ہے جو ساری امریکی اور مغربی دنیا میں ہے ‘کہ اس کے نام کے ساتھ خان لگا ہواہے اور وہ مسلمان ہے اور اس عہد سیاہ میں چند لوگوں کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام کی وہ بدنامی ہو رہی ہے جتنی صلیبی جنگوں کے زمانے میں نہیں ہوئی تھی۔ خان کی ایک تازہ فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ حال ہی میں دنیا بھر میں ریلیز ہوئی‘ خان بڑا سیدھا سادہ صرف فلمی دنیا کا غیر مذہبی آدمی ہے‘ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔
اس سے قبل جب وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے لئے امریکہ گیا تھا تو اسے کئی گھنٹے کے لئے گرفتار کر کے سوالات و جوابات کی زد میں لایا گیا تھا‘ قصور اس کا وہی کہ تم خان ہو اور مسلمان ہو۔ اب اس نے کہیں یہ بیان دے دیا ہے کہ بھارت میں ہونے والے غیر سرکاری کرکٹ مقابلوں میں پاکستان کے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا جائے‘ بس پھر کیا تھا بال ٹھاکرے صاحب کی شمشیر اس کے خلاف بے نیام ہو گئی اور خان سے کہا گیا کہ تم بھارت سے نکل جاؤ اور جا کر لاہور‘ کراچی یا اسلام آباد میں جابسو کیونکہ تم خان ہو اور مسلمان ہو۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بال ٹھاکرے صاحب کتنے مسلمانوں کو بھارت سے نکالیں گے
اب تو مسلمانوں کے لئے ایک راستہ اور چھوڑا گیا ہے کہ بھارت کے مسلمان اپنے لئے ایک اور پاکستان کا مطالبہ کریں۔ ہم اہلِ پاکستان نے اپنے سیاسی حالات کی وجہ سے پاکستان کو اس سطح پر نہ پہنچایا ہوتا اور اسے قائداعظم کے خواب کے مطابق ویلفیئر سٹیٹ بنایا ہوتا تو یہ مطالبہ کب کا سامنے آ چکا ہوتا۔ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پورے بھارت میں بکھرے ہوئے ہیں ان کا Diaspora بہت وسیع ہے‘ یہ عملی طور پر اکٹھے ہو کر اپنی ریاست بنانے کی پوزیشن میں نہیں ورنہ ہندو جنگجو نفرت کار کب کا ان کو اس راستے کی طرف دھکیل چکے ہوتے۔
مسلمان بھارت میں غریب ترین سطح پر ہیں‘ یہ چند خوانین فلم سٹاروں اور کھلاڑیوں پر نہ جائیں‘ بھارت کا مسلمان واقعی غربت کی بہت نچلی سطح پر ہے۔ جن لوگوں کو بھارت جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ مسلمانوں کی حالت وہاں کے ہندوؤں سے بدتر ہے‘ بعض حالات میں دلتوں(Dalits)یعنی شودروں سے بھی بڑھ کر‘ پاکستان میں رہنے والے مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ بھارت کے مسلمانوں سے کس حد تک بہتر ہیں۔ بھارتی مسلمان ہندوؤں کی ہزار خوشامدیں کرنے کے باوجود وہاں دوسرے درجے کے شہری شمار ہوتے ہیں
ماب اور گینگسٹرز کی بات چھوڑیں‘ بہت سے مسلمان مجبور ہو کر ان گروہوں گینکسٹرز کا حصہ بنے ہیں ورنہ عام مسلمان سائیکل رکشہ چلاتا ہے یا بدترین علاقوں Slums میں رہتا ہے۔ میں کئی بار بھارت جا کر وہاں کے لوگوں سے مل چکا ہوں اول تو وہ اندر کی بات بتاتے نہیں بتائیں تو رو پڑتے ہیں‘ وہ پاکستان پر فخر کرتے ہیں‘ پاکستان کی ٹیم کسی میدان میں جیتتی ہے تو جشن بھارتی مسلمان مناتے ہیں۔ ہندو جنگ پسندوں نے کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں اس کے بعد تو کسی بھارتی مسلمان کے دل میں کوئی غلط فہمی رہی ہی نہیں
کشمیریوں کو صرف مسلمان ہونے کی سزا مل رہی ہے‘ بھارت کے جھوٹے سیکولرازم کا بھانڈہ کشمیر کے لال چوک میں آ کر ہر روز پھوٹتا ہے‘ سارا عالمی ضمیر مر چکا ہے‘ 20 کروڑ عربوں کے لئے تو ساری دنیا اور خود مغرب تشویش میں مبتلا رہتا ہے مگر بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں‘ ان کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کر دی گئی ہے۔ جو مسلمان منفرد و مشہور ہونے کی کوشش کرتا ہے اس کا حشر دلیپ کمار اور شاہ رخ خان جیسا کر دیا جاتا ہے۔ خان نے تو کہہ دیا ہے کہ اس نے کوئی غلط بات نہیں کی اور بال ٹھاکرے اگر وضاحت کے لئے طلب کریں گے تو وہ جا کر وضاحت بھی کر دیں گے
گویا بال ٹھاکرے بھارت کا بے تاج بادشاہ ہے جس کے آگے کنگ خان کو جھکایا اور گرایا جا رہا ہے۔ بال ٹھاکرے نے ’’مائی نیم از خان‘‘ کی بھارت میں نمائش پر بھی اپنے طور پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے مگر کنگ خان ڈٹا ہوا ہے‘ اسے اچھے ہندو دوستوں کا بے پناہ پیار بھی میسر ہے۔
کسی بھی ملک و معاشرے میں سب لوگ خراب نہیں ہوتے یہ عالمی اصول ہے‘ کسی قوم و مذہب پر لیبل لگانا درست نہیں‘ بھارت میں اچھے ہندو بھی موجود ہیں اور یہ اچھے انسان ہیں اس لئے کہا جاتا ہے انسان بننا ضروری بھی ہے اور مشکل کام بھی۔ خیر فی الحال بات خان کی ہو رہی تھی اس کی فلم بھارت کے پندرہ ہزار سینما گھروں میں کتنی جگہ اور کب ریلیز ہوتی ہے مگر اس کا افتتاح بمبئی کے 63 سینما گھروں میں ہو چکا ہے جہاں پولیس کی چھٹیاں منسوخ کر کے اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ اس فلم کے خلاف مخالفانہ ردعمل کو کم سے کم کیا جا سکے۔
Dated : 2010-02-14 00:00:00