محمد علم اللہ
محفلین
غزل
مانا کہ دل تمہارے ہی زیر نگین رہا
جو مستویِ عرش ہے اس کے قریں رہا
جس دن سے تم نے ناز و ادا اپنی چھوڑ دی
میں بھی تکلفات کا عادی نہیں رہا
ذرے چمک اٹھے مرے سجدوں کے فیض سے
تابندہ مدتوں وہیں روئے زمیں رہا
جب تک پڑے نہ تھے مرے گھر میں ترے قدم
سامان میرے گھر میں کہیں کا کہیں رہا
اٹھتے گئے حجاب حریم خیال کے
میں جس جگہ کھڑا تھا وہیں کا وہیں رہا
گھوما پھرا میں ہشت بہشت نگاہ میں
بے خوف از خرابئ دنیا و دیں رہا
کہتا رہا غزل میں ضیاؔ اس کے روبرو
ہر شعر کا جواب ہمیں اور ہمیں رہا
مانا کہ دل تمہارے ہی زیر نگین رہا
جو مستویِ عرش ہے اس کے قریں رہا
جس دن سے تم نے ناز و ادا اپنی چھوڑ دی
میں بھی تکلفات کا عادی نہیں رہا
ذرے چمک اٹھے مرے سجدوں کے فیض سے
تابندہ مدتوں وہیں روئے زمیں رہا
جب تک پڑے نہ تھے مرے گھر میں ترے قدم
سامان میرے گھر میں کہیں کا کہیں رہا
اٹھتے گئے حجاب حریم خیال کے
میں جس جگہ کھڑا تھا وہیں کا وہیں رہا
گھوما پھرا میں ہشت بہشت نگاہ میں
بے خوف از خرابئ دنیا و دیں رہا
کہتا رہا غزل میں ضیاؔ اس کے روبرو
ہر شعر کا جواب ہمیں اور ہمیں رہا
آخری تدوین: