صرف علی
محفلین
مانسہرہ: ریپ کے ملزمان کا پولیس ریمانڈ
عزیز اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
آخری وقت اشاعت: بدھ 14 مئ 2014 , 15:43 GMT 20:43 PST
مانسہرہ میں لوگ اس واقع پر شدت غم و غصے کا شکار ہیں
خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں دن دیہاڑے گاڑی میں ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار ملزمان کو عدالت نے چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔
پولیس نے گزشتہ روز ایک خاتون سمیت چار ملزمان کو گرفتار کر لیا تھا ۔ اس واقعہ کے خلاف مقامی لوگوں میں سخت عضہ پایا جاتا ہے۔
آج صبح جب ملزمان کو عدالت لے جایا جا رہا تھا تو اس وقت مقامی لوگوں نے ان پر گندے انڈے پھینکے اور ان کے خلاف سخت نعرہ بازی کی ہے ۔
عدالت نے تینوں ملزمان کو چار دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے جبکہ ملزمان کی ایک خاتون ساتھی کو پہلے ہی جیل بھیج دیا گیا ہے۔
پولیس اہلکاروں کے مطابق اس واقعہ کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پیر کے روز انٹرمیڈیٹ کے آخری پرچے کے بعد ایک سہیلی (الف) نے دوسری سہیلی (پ) سے کہا کہ وہ کچھ مرد دوستوں کے ساتھ گاڑی میں مستی کرنے جائیں گے تم بھی ساتھ آو لیکن اس کی سہیلی (پ) نے انکار کر دیا اور کہا کہ اسے گھر کے سامنے اتر دینا۔
گاڑی میں ایک دینی مدرسے کے قاری سمیت تین افراد آئے اور دونوں لڑکیوں کو ساتھ لے گئے جہاں پولیس کے مطابق طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیم
"اگر معاشرے میں یہی حال رہا تو پھر کون کس پر اعتبار کرے گا اور پھر کس کی بچیاں محفوظ رہیں گی"
مانسہرہ کے ضلعی پولیس افسر ڈاکٹر خرم رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ تمام ملزمان کو جس میں سہیلی (الف) شامل ہے کو بارہ گھنٹے کے اندر اندر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ یہ گروہ پہلے بھی اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے اور اس بارے میں پولیس مزید تفتیش کر رہی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ملزمان کا ڈی این اے حاصل کر لیا گیا ہے اور تمام شواہد ایسے ہیں کہ جس سے ملزمان کو سزا ہو سکتی ہے ۔
پولیس نے ملزمان کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
مقامی صحافی نثار احمد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعہ کے خلاف مقامی لوگوں میں سخت غصہ پایا جاتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں ایک دینی مدرسے کے قاری کے ملوث ہونے کے الزام پر لوگوں میں سخت غصہ پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ ان ملزمان کے لیے سخت سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مانسہرہ میں انسانی حقوق کی تنظیم کی ایک متحرک رکن گلناز شاہ گیلانی نے بتایا کہ جس طالبہ نے ان ملزمان کی مدد کی ہے اسے بھی ان تینوں ملزمان نے بلیک میل کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ لوگوں نے احتجاج کیا ہے اور پولیس نے ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا ہے اب ذمہ داری عدلیہ کی ہے کہ وہ کیا کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر معاشرے میں یہی حال رہا تو پھر کون کس پر اعتبار کرے گا اور پھر کس کی بچیاں محفوظ رہیں گی ۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق اس طرح کے واقعات میں اگر ملزمان کو سخت سزا دی جائے تو معاشرے میں اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/05/140514_rape_manshera_fz.shtml
عزیز اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
آخری وقت اشاعت: بدھ 14 مئ 2014 , 15:43 GMT 20:43 PST
مانسہرہ میں لوگ اس واقع پر شدت غم و غصے کا شکار ہیں
خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں دن دیہاڑے گاڑی میں ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار ملزمان کو عدالت نے چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔
پولیس نے گزشتہ روز ایک خاتون سمیت چار ملزمان کو گرفتار کر لیا تھا ۔ اس واقعہ کے خلاف مقامی لوگوں میں سخت عضہ پایا جاتا ہے۔
آج صبح جب ملزمان کو عدالت لے جایا جا رہا تھا تو اس وقت مقامی لوگوں نے ان پر گندے انڈے پھینکے اور ان کے خلاف سخت نعرہ بازی کی ہے ۔
عدالت نے تینوں ملزمان کو چار دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے جبکہ ملزمان کی ایک خاتون ساتھی کو پہلے ہی جیل بھیج دیا گیا ہے۔
پولیس اہلکاروں کے مطابق اس واقعہ کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پیر کے روز انٹرمیڈیٹ کے آخری پرچے کے بعد ایک سہیلی (الف) نے دوسری سہیلی (پ) سے کہا کہ وہ کچھ مرد دوستوں کے ساتھ گاڑی میں مستی کرنے جائیں گے تم بھی ساتھ آو لیکن اس کی سہیلی (پ) نے انکار کر دیا اور کہا کہ اسے گھر کے سامنے اتر دینا۔
گاڑی میں ایک دینی مدرسے کے قاری سمیت تین افراد آئے اور دونوں لڑکیوں کو ساتھ لے گئے جہاں پولیس کے مطابق طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیم
"اگر معاشرے میں یہی حال رہا تو پھر کون کس پر اعتبار کرے گا اور پھر کس کی بچیاں محفوظ رہیں گی"
مانسہرہ کے ضلعی پولیس افسر ڈاکٹر خرم رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ تمام ملزمان کو جس میں سہیلی (الف) شامل ہے کو بارہ گھنٹے کے اندر اندر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ یہ گروہ پہلے بھی اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے اور اس بارے میں پولیس مزید تفتیش کر رہی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ملزمان کا ڈی این اے حاصل کر لیا گیا ہے اور تمام شواہد ایسے ہیں کہ جس سے ملزمان کو سزا ہو سکتی ہے ۔
پولیس نے ملزمان کے خلاف زنا بالجبر کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
مقامی صحافی نثار احمد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعہ کے خلاف مقامی لوگوں میں سخت غصہ پایا جاتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں ایک دینی مدرسے کے قاری کے ملوث ہونے کے الزام پر لوگوں میں سخت غصہ پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ ان ملزمان کے لیے سخت سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مانسہرہ میں انسانی حقوق کی تنظیم کی ایک متحرک رکن گلناز شاہ گیلانی نے بتایا کہ جس طالبہ نے ان ملزمان کی مدد کی ہے اسے بھی ان تینوں ملزمان نے بلیک میل کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ لوگوں نے احتجاج کیا ہے اور پولیس نے ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا ہے اب ذمہ داری عدلیہ کی ہے کہ وہ کیا کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر معاشرے میں یہی حال رہا تو پھر کون کس پر اعتبار کرے گا اور پھر کس کی بچیاں محفوظ رہیں گی ۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق اس طرح کے واقعات میں اگر ملزمان کو سخت سزا دی جائے تو معاشرے میں اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/05/140514_rape_manshera_fz.shtml