مانسہرہ: مدرسے میں بچے سے زیادتی کے مرکزی ملزم شمس الدین کا سرکاری سکول کے استاد ہونے کا انکشاف

عدنان عمر

محفلین
یہ قبیح فعل مدرسے کے معلم نے کیا تو بھی غلط۔۔
اسکول کے معلم نے کیا تو بھی غلط۔۔
وطنِ عزیز میں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے اور کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے۔۔
بے گھر بچے اور مزدور بچے خاص طور پر ایسے مجرموں کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔۔
الامان الحفیظ! بہت سے کیسز میں قریبی رشتے دار ہی بچوں سے بدسلوکی کے مرتکب پائے گئے۔۔
یہ ایک پیچیدہ معاشرتی مسئلہ ہے۔۔
اسے سماجی برائی سمجھ کر ڈیل کیا جائے۔۔
نہ کہ درست اعداد و شمار جانے بغیر ہی کسی مخصوص طبقے کو رگیدنا شروع کردیا جائے۔۔
ورنہ پھر کچھ اس قسم کے سوال اٹھیں گے جو اس ٹوئیٹ سے جھلک رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوال یہی ہے کہ مذکورہ قاری کی آر میں تمام مولویوں کو نشانہ بنانے والا اب تمام مسٹروں کو کیوں نہیں کوس رہاہے، کیوں وہ خاموش ہے،کیوں اس کی زبان پر تالے پڑ گئے ہیں، اس سے واضح نہیں ہوتاکہ ایسے لوگ دوغلے منافق اورکسی خاص ایجنڈہ پر عمل پیرا ہیں، ان کا مقصد مجرم کو سزا دلانا نہیں بلکہ اس کی آر میں اسلام اورمذہبی شخصیات کو نشانہ بناناہے، جو ملامنافق کے نعرے لگاتے تھے، اب وہ کیوں نہیں بولتے کہ میں منافق ہوں کیوں کہ یہ جرم میرے جیسے ایک مسٹر نے کیاہے۔
کیونکہ کوئی بھی اس مسٹر کا دفاع نہیں کررہا۔ اس کے اپنے اخبار نے اس کے خلاف لکھا ہے۔ جبکہ مولوی کمیونٹی سے جب کوئی بچوں کے ساتھ زیادتی کرتا پکڑا جائے تو سارے اس کے دفاع میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
Jami names Dawn CEO Hameed Haroon as alleged rapist; Haroon rejects accusation - Pakistan - DAWN.COM
 

ابن جمال

محفلین
جاسم صاحب کی بیماری بات سمجھے بغیر ہانکنے کی ہے سو وہ گفتار بے ڈھنگی بدستور ہے۔
کس نے اس قاری کی حمایت کی حمایت کی ہے آئندہ مراسلہ میں وہ نام ضرور لکھئے گا اور کمال منافقت یہ ہے کہ گزشتہ مراسلہ میں قاری شمس الدین کے خلاف جو لب ولہجہ تھا وہ یہاں بالکل مفقود ہے بس اتنی بات کافی ہے کہ اس کے اخبار نے مذمت کی ہے اور یہ نہیں بتایا کہ مذمت سے زیادہ حمید ہارون کی تردید اور صفائی شائع کی ہے۔
کسی مذہبی شخصیت کا نام آتے ہی سبھی پر تبرا بھیجنے والا طبقہ ان معاملات میں کس درجہ ڈبل اسٹینڈرڈ ہے وہ ان دونوں خبروں پر اس کے ردعمل سے واضح ہے۔ہمارا تو کہنا ہے کہ چاہے ڈان گروپ کاچیرمیں ہو یا کوئی مولوی اگر اس طرح کی حرکت کرتا ہے تو مجمع عام میں عبرتناک سزا دی جائے تاکہ باقیوں کیلئے عبرت ہو۔
لیکن ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو مذہب کو بدنام کرنے کا بطور خاص ایجنڈا رکھتا ہے اور یہ اس سے بھی واضح ہے کہ یہ گمنام واقعہ تو یہاں پوسٹ کر دیاگیا لیکن ڈان گروپ کے چیرمین کا واقعہ بی بی سی نے کور کیا ہے اس پر تا حال خاموشی ہے۔
جرم کو اگر جرم کی نوعیت سے دیکھا جائے چاہے وہ قاری کرے یا پھر حمید ہارون اور ان سے یکساں برتاؤ کیا جائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔
مجھے تو ابھی بھی رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی مشہور مذہبی شخصیت پر یہ الزام لگتا تو کیا محفل کے روشن خیال اور بزعم خود دانشور ایسے ہی خاموش رہتے یا تمام مولویوں پر تبرا بھیجا جارہا ہوتا اور ہر ایک بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہوتا اور مدارس کو ننگ انسانیت ثابت کرکے بند کرنے کے مشورے دے رہا ہوتا لیکن اب ایسے خاموش ہیں جیسے منہ میں زبان نہ ہو اور اسی دوہرے طرز عمل کانام منافقت اور دوغلا پن ہے
 

جاسم محمد

محفلین
کس نے اس قاری کی حمایت کی حمایت کی ہے آئندہ مراسلہ میں وہ نام ضرور لکھئے گا

مانسہرہ کے دس سالہ بچے کے چچا کی پریس کانفرنس۔ چچا کے مطابق علاقے کے معزز علما اس کیس کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں اور اصلی ملزم قاری شمس الدین کی بجائے ایک بچے کو ملزم قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں جس کی اپنی عمر دس سے کم ہے۔

واضح رہے کہ یہاں معززین سے مراد مفتی کفایت اور جے یو آئی کے دوسرے رہنما ہیں۔

کیا ثابت نہیں ہوگیا کہ یہ ملا نیٹ ورک پاکستان کا سب سے غلیظ مافیا ہے؟؟؟ بقلم خود باباکوڈا
 

ابن جمال

محفلین
اس نے تویہ بات کہیں نہیں کہی کہ جے یوآئی والے اس کو بچاناچاہ رہے ہیں، بلکہ جے آئی یو والے مفتی کفایت اللہ نے ملزم کو پولیس کے حوالے کیاہےاورآپ دوسرے کے منہ میں اپنی بات نہ ڈالیں، کہ فلاں مراد ہے اورفلاں مراد ہے کہیں دوسرا حمید ہارون سے آپ کو مراد لینے لگا تو مشکل ہوجائے گی،اور حمید ہارون پر تو ابھی تک ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوسکی، اس بارے میں زبان کیوں خاموش ہے، کیا کسی نے زبان بند کردی ہے یاکچھ اور؟
 

جاسم محمد

محفلین
اس نے تویہ بات کہیں نہیں کہی کہ جے یوآئی والے اس کو بچاناچاہ رہے ہیں
ویڈیو دوبارہ سنیں۔ زیادتی کا شکار بچے کے چچا نے کہا ہے کہ مقامی علما کرام ملزم کو بچانے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اور اس کی جگہ کسی ۹ سالہ بچے کو مجرم ٹھہرا رہے ہیں
 

ابن جمال

محفلین
وہ میں نے سن لیاہے مقامی علماء کرام اورجے یو آئی میں کوئی فرق نہیں نظرآتا،اس علاقے میں موجود تمام علماء کیا جے یوآئی سے وابستہ ہیں؟ کیالاہور میں رہنے والا ہرشخص حمید ہارون یاناروے میں رہنے والا ہرشخص جاسم محمد ہوتاہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
وہ میں نے سن لیاہے مقامی علماء کرام اورجے یو آئی میں کوئی فرق نہیں نظرآتا،اس علاقے میں موجود تمام علماء کیا جے یوآئی سے وابستہ ہیں؟ کیالاہور میں رہنے والا ہرشخص حمید ہارون یاناروے میں رہنے والا ہرشخص جاسم محمد ہوتاہے؟
اب بھی جمعیت علما اسلام کا دفاع کرنا ہے؟

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنوں کا مانسہرہ میں بچے سے جنسی زیادتی کے ملزم مولوی کے حق میں عدالت پر دھاوا
08/01/2020 نیوز ڈیسک



جے یو آئی (ف) کے کارکنوں نے معصوم بچے کے ساتھ 100 بار جنسی زیادتی اور تشدد کرنے والے قاری شمس الدین کی حمایت میں مانسہرہ کی مقامی عدالت پر حملہ کر دیا۔ مقامی صحافی نے اپنی یوٹیوب ویڈیو میں اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے مرکزی امیر مفتی کفایت اللہ کی علاقہ میں دھاک اور بدمعاشی ہے جس کی وجہ سے عدالت کی کوئی خبر میڈیا کو رپورٹ نہیں کی گئی۔

صحافی نے ویڈیو میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ جے یو آئی (ف) کے مرکزی امیر کفایت اللہ کی جانب سے ملزم قاری شمس الدین کو بچانے کی کوشش میں عدالت پر حملہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل عدالت میں ایک شمس نامی نوجوان کو پیش کیاگیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ قاری شمس الدین کو غلط فہمی کا شکار بنا کر پھنسایا جا رہا ہے ۔

ویڈیو میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کمرہ عدالت میں بچے نے اس بات کی تردید کر دی کہ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والا شخص کوئی ہے۔ بچے نے کہا کہ قاری شمس الدین ہی نے اس سے زیادتی کی اور اس پر تشدد کیا۔ صحافی نے ویڈیو پر مزید بتایا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے مرکزی امیر مفتی کفایت اللہ اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر وہ قاری شمس الدین کو اس کیس میں بچانا چاہ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ مانسہرہ سے قاری شمس الدین کو ایک بچے کے ساتھ سو بار سے زائد مرتبہ زیادتی کرنے کی وجہ سے مقدمہ درج کروایا گیا تھا جس کے بعد انہیں مقامی پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اب مقامی صحافی کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے مرکزی رہنما مفتی کفایت اللہ بدمعاشی کے زور پر قاری شمس الدین کو اس کیس سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
وہ میں نے سن لیاہے مقامی علماء کرام اورجے یو آئی میں کوئی فرق نہیں نظرآتا،اس علاقے میں موجود تمام علماء کیا جے یوآئی سے وابستہ ہیں؟ کیالاہور میں رہنے والا ہرشخص حمید ہارون یاناروے میں رہنے والا ہرشخص جاسم محمد ہوتاہے؟

مانسہرہ میں دس سالہ معصوم بچے کے ساتھ قاری شمس الدین کی جانب سے کی جانے والی زیادتی کے حوالے سے تازہ ترین اپ ڈیٹ۔
پولیس رپورٹ کے مطابق ملزم قاری شمس الدین کا ڈی این اے میچ کرچکا ہے۔
اب تھوڑی دیر کیلئے آج سے چند ہفتے قبل کی وہ پوسٹس یاد کریں جو اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد ملاؤں کی جانب سے کی گئی تھیں - ان کے مطابق:
1۔ یہ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ بچے کا اس کے ہم عمر دوست کے ساتھ جھگڑا ہوا جسے یہودی ایجنٹوں نے اچھالنا شروع کردیا۔

2۔ شمس الدین نامی شخص کا مدرسے سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو سرسید کے لونڈوں کے انگریزی تعلیمی ادارے کا ٹیچر تھا۔

3۔ قاری شمس الدین بے قصور ہے، یہ سارا واقعہ دراصل جے یو آئی کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

ان سب کا جھوٹ آج ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہوگیا۔ داڑھی اور عمامے رکھ کر یہ لوگ جس طرح دین فروشی کرتے ہیں، وہ تاریخ انسانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ان ملاؤں کیلئے نوازشریف اور زرداری کی لوٹ مار بھی جائز ہے، ضیا اور مشرف کی آمریت بھی درست تھی، لونڈے بازی ان کی جسمانی تھکاوٹ اتارنے کا ذریعہ ہے تاکہ یہ دین کا کام جوش و جذبے سے کرسکیں، غیرمسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کی بجائے پہلے سے موجود مسلمانوں کو دائرہ اسلامی سے خارج کرنا ان کے اولین فرائض میں شامل ہے ۔ ۔ ۔

لیکن اس پولیس رپورٹ سے اس ملا مافیا کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ۔ ۔ ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند سال قبل اسلامی نظریاتی کونسل یہ کہہ چکی ہے کہ ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے کو بطور ثبوت پیش کرنا خلاف شریعت ہے ۔ ۔ ۔ اسلام نظریاتی کونسل کا چئیرمین کوئی اور نہیں بلکہ جے یو آئی کا مولانا شیرانی تھا جو بخوبی جانتا تھا کہ ڈی این اے ہی وہ واحد طریقہ ہوسکتا تھا کہ جس سے مدراس کے ملاؤں کو بچہ بازی کے جرم میں سزا ہوسکتی تھی ۔۔ ۔ اس لئے اسے متنازعہ بنا دیا۔

اگر ڈی این اے کو کسی وجہ سے مسترد نہ کرسکے تو ان ملاؤں کا اگلا ہتھیار ایک مرتبہ پھر شرعی تاویل ہوگی۔ یہ لوگ کہیں گے کہ قرآن کی رُو سے چار گواہ پیش کئے جائیں جنہوں نے قاری شمس الدین کو زیادتی کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ یاد رہے، ہمارے اکابرین کی تشریح کے مطابق ان گواہوں کی گواہی اسی صورت قبول ہوگی جب انہوں نے یہ عمل اس حالت میں دیکھا ہو جیسے کہ سرمچو، سرمے دانی کے اندر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔

مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اپنے پھول جیسے بچوں اور بچیوں کی عزت بچانے کیلئے آپ نہ تو قانون پر بھروسہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ملکی نظام پر۔ والدین کو یہ کام خود کرنا ہے اور اس کیلئے اپنے بچوں کو ان مذہبی درندوں سے دور رکھنا ہوگا۔ خود قرآن سیکھیں اور اپنے بچوں کو سکھائیں۔ اگر آپ کے بچے ویڈیو گیمز اور انگریزی زبان کے کارٹون خود بخود سیکھ سکتے ہیں تو قرآن سیکھنا کونسا مشکل کام ہے؟

ملائیت اس ملک کا ناسور ہے، اور جب تک یہ ناسور جڑ سے اکھاڑ نہیں دیا جاتا، تب تک ہم نہ تو دین پر عمل کرسکتے ہیں اور نہ ہی دنیا میں ترقی پاسکتے ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا
83203355_2800631843338086_6894697140409335808_n.png
 

عرفان سعید

محفلین
یہ لوگ کہیں گے کہ قرآن کی رُو سے چار گواہ پیش کئے جائیں جنہوں نے قاری شمس الدین کو زیادتی کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔
قرآن مجید کی اس آیت کے ساتھ اتنا کھلواڑ یہ مذہبی غنڈے ہی کر سکتے ہیں۔
ایک عام آدمی بھی یہ دیکھ سکتا ہے یہاں گواہوں کا مطالبہ کس سے کیا گیا ہے۔

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَ۔۔قْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (سورۃ النور 4)
اور جولوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں۔

ایک شخص اپنی آنکھوں سے بدکاری (بالرضا) ہوتے ہوئے دیکھے اور اس معاملے کو عدالت تک لیکر جانا چاہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ چار گواہ مہیا کرے۔

اس آیت کا زنا بالجبر یا جنسی زیادتی کے جرائم پر اطلاق کرنا اللہ کی کتاب سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

زنا بالجبر یا جنسی زیادتی کے جرائم کی سزا "حرابہ" کے تحت دی جائے گی، جو ذیل کی آیت میں بیان کی گئی ہے۔ یہاں واقعاتی شہادت سے ثبوت مہیا کیا جائے گا۔ زیادتی کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے یہ مطالبہ کرنا کہ اس جرم کے ارتکاب کے وقت چار گواہ موجود ہوں، سراسر عقل کے خلاف ہے۔ جو لوگ چار گواہوں کے لازم ہونے کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں، ان کی عقلوں پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔

قرآن صاف صاف یہ اعلان کرتا ہے کہ حرابہ کے مجرموں کو بدترین طریقے سے قتل کر دیا جائے۔

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلاَفٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ.

بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔

الْمَآئِدَة، 5: 33
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ایک شخص اپنی آنکھوں سے بدکاری (بالرضا) ہوتے ہوئے دیکھے اور اس معاملے کو عدالت تک لیکر جانا چاہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ چار گواہ مہیا کرے۔
صرف اپنی معلومات کیلئے پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کیا بدکاری (بالرضا) گناہ ہے یا جرم ہے؟ اور اگر جرم ہے تو اس کی گواہی اور سزا کیسے متعین ہوگی؟
کیونکہ میرے خیال میں کوئی بھی بدکاری اتنے سارے گواہوں کے سامنے نہیں ہوتی۔
 

عرفان سعید

محفلین
صرف اپنی معلومات کیلئے پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کیا بدکاری (بالرضا) گناہ ہے یا جرم ہے؟ اور اگر جرم ہے تو اس کی گواہی اور سزا کیسے متعین ہوگی؟
اصلا تو گناہ ہے۔ جب قانون کی گرفت میں آ جائے اور ثابت ہو جائے تو جرم بن جائے گا۔
 

محمدصابر

محفلین
صرف اپنی معلومات کیلئے پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کیا بدکاری (بالرضا) گناہ ہے یا جرم ہے؟ اور اگر جرم ہے تو اس کی گواہی اور سزا کیسے متعین ہوگی؟
کیونکہ میرے خیال میں کوئی بھی بدکاری اتنے سارے گواہوں کے سامنے نہیں ہوتی۔
محمد مشتاق صاحب کی وال پر اس حوالے سے بہت سا مواد موجود ہے۔ خود ساختہ مولویوں کی بجائے علماء سے رجوع کیا کریں۔
 

یاقوت

محفلین
ڈان گروپ کےسربراہ پرمشہور فلمساز نے ریپ کا الزام لگایاہے، اب ان لوگوں کی زبانیں کیوں اچانک بند ہوگئی ہیں جو مجرم کو کیفردار پہنچانے کی آر میں مذہب اور مذہبی شخصیات کو مطعون کرنا شروع کردیتاہے، ڈان گروپ سربراہ نے اس الزام کی تردید کی ہے لیکن یہ بھی جھوٹا آدمی ہے اور بی بی سی پر ایک مرتبہ اس کے جھوٹ کی قلعی بی بی سی کا اینکر کھول چکاہے۔
سوال یہی ہے کہ مذکورہ قاری کی آر میں تمام مولویوں کو نشانہ بنانے والا اب تمام مسٹروں کو کیوں نہیں کوس رہاہے، کیوں وہ خاموش ہے،کیوں اس کی زبان پر تالے پڑ گئے ہیں، اس سے واضح نہیں ہوتاکہ ایسے لوگ دوغلے منافق اورکسی خاص ایجنڈہ پر عمل پیرا ہیں، ان کا مقصد مجرم کو سزا دلانا نہیں بلکہ اس کی آر میں اسلام اورمذہبی شخصیات کو نشانہ بناناہے، جو ملامنافق کے نعرے لگاتے تھے، اب وہ کیوں نہیں بولتے کہ میں منافق ہوں کیوں کہ یہ جرم میرے جیسے ایک مسٹر نے کیاہے۔

میاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھا کریں۔
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور۔
 

یاقوت

محفلین
میں تو پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ چاہیے کوئی عالم ہے یا پروفیسر قانون اور معاشرتی مواخدہ سب کا برابر ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جرم ثابت تو بغیر کسی رعایت کے سزار پر فوری عملدرآمد۔
انتہائی تکلیف سے کہوں گا کہ جاسم صاحب طبقہ علماء کے خلاف اپنی رائے کا اظہار اکثر جذباتی ہو کر یا سوچ سمجھ کر انتہائی پست الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں (جیسے کہ مافیا وغیرہ) جاسم صاحب سے عرض ہے کہ ہماری بہت ساری بہنیں یونیورسٹیوں میں اپنے پروفیسرز اور ساتھی طالب علموں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں تو انکی آواز بھی تو بنیں ناں آپ؟؟؟؟
ایک یونیورسٹی میں جب ایک بہن ایک عرصہ تک زیادتی کا شکار ہونے کے بعد چلا اٹھی تو مٹی پاؤ کا بڑا زبردست منظر تھا ہر طرف۔۔
مٹی ڈالنے کے عمل سے پہلے اس بہن کا ایک انٹر ویو سامنے سے گزرا کہ ان لوگوں کے سامنے بڑے بڑے بے بس ہیں کیونکہ ہمیں یہ بہت اوپر تک کے لوگوں سے بھی ملواتے ہیں۔۔۔
کئی ایک خاندان (غور سے پڑھیں خاندان کے الفاظ استعمال ہیں) اس استحصال اور معاشرتی شرمندگی سے بچنے کیلئے بیرون ملک شفٹ ہوگئے ۔اب ہر ایرا غیرا تو بیرون ملک شفٹ ہونے سے رہا۔۔
جب اتنے مضبوط خاندان اپنا مقدمہ نہ پیش کر سکیں یا اسکا دفاع نہ کرسکیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کتنے کمزور نظام کے سہارے جی رہے ہیں اور ترجیحات کیا ہیں یہاں کے قائدین کی۔۔
جن صاحبان پر یہ الزام لگے اور ثابت بھی ہوئے اوہ اب بھی اسی یونیورسٹی میں بڑے طنطنے سے موجود ہیں جب کہ لٹنے والے جگہ چھوڑ کر جاچکے ہیں؟؟؟؟
ان کی وکالت کون کرےگا؟؟ میرا یہ مقصد ہوگز نہیں ہے کہ اگر ایسا جرم کسی مذہب پسند طبقے کے فرد سے سرزد ہوجاتا ہے تو اسے معافی ملنی چاہیے۔ بلکل نہیں ! سخت ترین مواخدہ ہونا چاہیے لیکن میاں انصٖاف بھی کوئی چیز ہے عدالت اور ادارے کام کر رہے ہیں تو ہو رہا ہے ناں۔۔۔۔ آپ اورمیں تو منصف نہیں ہیں ناں؟؟؟؟
باقی وکالت کی بات ہے تو کرنی تو سب طبقات کی کریں ورنہ ٰخدارا کوئلوں کی دلالی میں منھ کالا والے محاورے پر ہرگز عمل پیرا نہ ہوں۔
لگے ہاتھوں ایک اور واقعہ بھی بتاتا چلوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عورت کو وڈیرے نے اپنے ڈیرے پر اٹھوایا (اب جو کچھ ڈیرے پر ہوا وہ لکھنے کے قابل تو نہیں ہے) جب اس نے قانون کے مخافظوں کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس رات قانون کے مخافظوں نے اسے اپنی تحویل میں لےلیا اور کئی دن تک اسکا فزیکل ٹیسٹ (جی ہاں تھانے میں حوالات کے اندر ایک عورت متواتر کئی روز تک لٹتی رہی) ہوتا رہا ،بات باہر نکلی تو نکے تھانیدار صاحب کو تفتیش کیلئے معطل کر دیا گیا اور جانبین کے نمونے فزانزک لیب بھیج دیےگئے۔نمونوں کے پیچھے نکے تھانیدار صاحب کا چیک بھی پہنچ گیا لوگوں کا کیا ہے لوگ تو باتیں کرتے ہی رہتے ہی بعد میں لوگوں نے خواہ مخواہ افواہیں اڑائیں کہ 6 ماہ بعد نکے تھانیدار صاحب اعلی کارکردگی کے نتیجے میں وڈے تھانیدار (ایس۔ایچ۔او) بن کر ملت کی دیگر بیٹیوں کی ناموس کے محافظ بنا کر بٹھا دیے گئےہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہیں سماجی کارکن،کہاں ہیں عورت کی ناموس کے مخافظ کہاں ہیں سول سوسائٹی کے نمائندے،کہاں ہیں انسانی حقوق کے ماؤنٹ ایورسٹ،کہاں ہیں وہ این جی اوز جن کی روزی روٹی کا سامان ہی یہی سب کچھ ہے، کہاں ہیں حق اور حقوق کی بات کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
میں تو پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ چاہیے کوئی عالم ہے یا پروفیسر قانون اور معاشرتی مواخدہ سب کا برابر ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جرم ثابت تو بغیر کسی رعایت کے سزار پر فوری عملدرآمد۔
انتہائی تکلیف سے کہوں گا کہ جاسم صاحب طبقہ علماء کے خلاف اپنی رائے کا اظہار اکثر جذباتی ہو کر یا سوچ سمجھ کر انتہائی پست الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں (جیسے کہ مافیا وغیرہ) جاسم صاحب سے عرض ہے کہ ہماری بہت ساری بہنیں یونیورسٹیوں میں اپنے پروفیسرز اور ساتھی طالب علموں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں تو انکی آواز بھی تو بنیں ناں آپ؟؟؟؟
ایک یونیورسٹی میں جب ایک بہن ایک عرصہ تک زیادتی کا شکار ہونے کے بعد چلا اٹھی تو مٹی پاؤ کا بڑا زبردست منظر تھا ہر طرف۔۔
مٹی ڈالنے کے عمل سے پہلے اس بہن کا ایک انٹر ویو سامنے سے گزرا کہ ان لوگوں کے سامنے بڑے بڑے بے بس ہیں کیونکہ ہمیں یہ بہت اوپر تک کے لوگوں سے بھی ملواتے ہیں۔۔۔
کئی ایک خاندان (غور سے پڑھیں خاندان کے الفاظ استعمال ہیں) اس استحصال اور معاشرتی شرمندگی سے بچنے کیلئے بیرون ملک شفٹ ہوگئے ۔اب ہر ایرا غیرا تو بیرون ملک شفٹ ہونے سے رہا۔۔
جب اتنے مضبوط خاندان اپنا مقدمہ نہ پیش کر سکیں یا اسکا دفاع نہ کرسکیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کتنے کمزور نظام کے سہارے جی رہے ہیں اور ترجیحات کیا ہیں یہاں کے قائدین کی۔۔
جن صاحبان پر یہ الزام لگے اور ثابت بھی ہوئے اوہ اب بھی اسی یونیورسٹی میں بڑے طنطنے سے موجود ہیں جب کہ لٹنے والے جگہ چھوڑ کر جاچکے ہیں؟؟؟؟
ان کی وکالت کون کرےگا؟؟ میرا یہ مقصد ہوگز نہیں ہے کہ اگر ایسا جرم کسی مذہب پسند طبقے کے فرد سے سرزد ہوجاتا ہے تو اسے معافی ملنی چاہیے۔ بلکل نہیں ! سخت ترین مواخدہ ہونا چاہیے لیکن میاں انصٖاف بھی کوئی چیز ہے عدالت اور ادارے کام کر رہے ہیں تو ہو رہا ہے ناں۔۔۔۔ آپ اورمیں تو منصف نہیں ہیں ناں؟؟؟؟
باقی وکالت کی بات ہے تو کرنی تو سب طبقات کی کریں ورنہ ٰخدارا کوئلوں کی دلالی میں منھ کالا والے محاورے پر ہرگز عمل پیرا نہ ہوں۔
لگے ہاتھوں ایک اور واقعہ بھی بتاتا چلوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عورت کو وڈیرے نے اپنے ڈیرے پر اٹھوایا (اب جو کچھ ڈیرے پر ہوا وہ لکھنے کے قابل تو نہیں ہے) جب اس نے قانون کے مخافظوں کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس رات قانون کے مخافظوں نے اسے اپنی تحویل میں لےلیا اور کئی دن تک اسکا فزیکل ٹیسٹ (جی ہاں تھانے میں حوالات کے اندر ایک عورت متواتر کئی روز تک لٹتی رہی) ہوتا رہا ،بات باہر نکلی تو نکے تھانیدار صاحب کو تفتیش کیلئے معطل کر دیا گیا اور جانبین کے نمونے فزانزک لیب بھیج دیےگئے۔نمونوں کے پیچھے نکے تھانیدار صاحب کا چیک بھی پہنچ گیا لوگوں کا کیا ہے لوگ تو باتیں کرتے ہی رہتے ہی بعد میں لوگوں نے خواہ مخواہ افواہیں اڑائیں کہ 6 ماہ بعد نکے تھانیدار صاحب اعلی کارکردگی کے نتیجے میں وڈے تھانیدار (ایس۔ایچ۔او) بن کر ملت کی دیگر بیٹیوں کی ناموس کے محافظ بنا کر بٹھا دیے گئےہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہیں سماجی کارکن،کہاں ہیں عورت کی ناموس کے مخافظ کہاں ہیں سول سوسائٹی کے نمائندے،کہاں ہیں انسانی حقوق کے ماؤنٹ ایورسٹ،کہاں ہیں وہ این جی اوز جن کی روزی روٹی کا سامان ہی یہی سب کچھ ہے، کہاں ہیں حق اور حقوق کی بات کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکار این جی اوز، صالح مذہبی تنظیمیں اور مدرسے میں بچے کا ریپ
25/01/2020 عدنان خان کاکڑ

دسمبر کے آخری عشرے میں ایک خبر میڈیا پر چلی کہ مانسہرہ میں ایک مدرسے میں ایک بچے کو مبینہ طور پر سو مرتبہ زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس کی حالت غیر ہو گئی ہے اور آنکھوں سے بھی خون رس رہا ہے۔ بچے کے لواحقین نے مدرسے کے استاد قاری شمس الدین کو مجرم ٹھہرایا۔ بچہ ہسپتال میں ہوش میں آیا تو اس نے بھی یہی کہا۔

قاری شمس الدین غائب تھے۔ پھر وہ جمعیت علمائے اسلام کے مانسہرہ کے امیر مفتی کفایت اللہ کے پاس سے برآمد ہوئے۔ مفتی صاحب نہایت ناراض تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مذکورہ مدرسے میں ایک بچہ شمس الدین بھی ہے، اس کی متاثرہ بچے سے لڑائی ہو گئی تھی اس لئے چوٹ شوٹ لگ گئی ہو گی۔ بچے کے والدین کو قانون کا پتہ نہیں اس لئے ایسی ایف آئی آر درج کروا دی ہے۔ یعنی سزا دینی ہے تو اس دوسرے بچے کو دے دو۔ ظاہر ہے کہ مدرسے کے متعلق منفی خبر آئے تو ذمہ دار ایک ہی ہوتا ہے۔ مفتی کفایت اللہ نے بتا دیا کہ ”یہ سب کچھ این جی اوز کی ایما پر کیا جا رہا ہے“۔

مدرسہ انتظامیہ نے بچے سے زیادتی کے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بچے پرتشدد مدرسہ کے طالبعلم شمس الدین نے کیا ہے اور ایک جیسے ناموں کی وجہ سے قاری شمس الدین کو ملزم قرار دے دیا گیا۔

لیکن بچے کے اقارب شرارت پر تلے ہوئے تھے۔ متاثرہ بچے کے چچا محمد جاوید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ”میرے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے علما اس کیس کو کمزور بنا کر اسی مدرسے کے ایک چھوٹے بچے پر ریپ کا الزام لگاتے ہوئے ملزم کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ “ مزید کہا کہ ”ہمیں طعنے دیے جا رہے ہیں کہ آپ لوگ کسی این جی او والوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور اسی کی ایما پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں حالانکہ میں خود بھی مدرسے میں پڑھا ہوں اور مدرسے کے بالکل خلاف نہیں اورنہ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی ہے۔ “

اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹر کے مطابق بچے پر تشدد کے واقعے کے تین دن بعد مفتی کفایت اللہ نے ملزم کو ڈی پی او کے حوالے کیا تھا، ملزم کو 3 روز تک پناہ دی گئی جو جرم ہے تاہم مفتی کفایت کے خلاف مقدمہ اس وقت درج کیا جائے گا جب جرم ثابت ہو گا۔

پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ جہاں تک ملزمان کی بات ہے تو اس میں ایک ملزم 35 سالہ قاری شمس الدین ہے، جسے ایف آئی آر درج ہونے کے تین دن بعد گرفتار کیا گیا، جب کہ بچے کے ساتھ پڑھنے والے دو اور لڑکوں 15 سالہ شمس الدین اور 18 سالہ شفیع اللہ بھی حراست ہیں۔ ملزم قاری شمس الدین نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کیا اور بچے کی ابتدائی طبی رپورٹ میں ریپ کی طبی علامات موجود ہیں لیکن مقامی میڈیا میں جو رپورٹ ہوا کہ 100 مرتبہ ریپ کیا گیا تو اس میں کوئی صداقت نہیں۔

اب لبرل سیکولر سائنسدانوں کی ایجاد کردہ ڈی این اے رپورٹ آ گئی ہے جو کہتی ہے کہ قاری شمس الدین نے ہی بچے کا ریپ کیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ مفتی کفایت اللہ سے پوچھا جائے تو وہ یہی فرمائیں گے کہ وہ اور اسلامی نظریاتی کونسل ڈی این اے کی شہادت تسلیم نہیں کرتے، نابالغ بچے کی شہادت کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جب بالغ قاری شمس الدین نے انکار کر دیا ہے تو اس بچے کی بات کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے؟ نیز انہیں شرعی طور پر ڈی این اے کی بجائے چار عینی شاہدین کی گواہی درکار ہے، جب تک وہ نہ ہو قاری شمس الدین کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہاں بچے کو قرار واقعی سزا دے دینی چاہیے کیونکہ اس نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے ساتھ جنسی فعل کیا گیا ہے۔

آپ انہیں زیادہ دق کریں گے تو وہ آپ کو جنرل ضیا کے دور کے دو مقدموں کی مثال دیں گے جن میں معززین پر ریپ کا الزام لگانے والی دو مفسد لڑکیوں کو قرار واقعی سزا دی گئی تھی۔ ایک نابینا گھریلو لڑکی صفیہ بی بی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے آجر اور اس کے لڑکے نے اس کا ریپ کیا تھا اور وہ حاملہ ہو گئی۔ وہ دعوے کے حق میں چار عینی شاہدین پیش نہ کر سکی۔ اس لئے ملزمان کو عدالت نے باعزت بری کر دیا اور صفیہ بی بی کو زنا کے جرم میں تین سال قید بامشقت، پندرہ کوڑوں اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔ اس پر کچھ مفسد ملکی اور غیر ملکی این جی اوز نے شور مچایا تو وفاقی شرعی عدالت نے صفیہ بی بی پر رحم کھاتے ہوئے اسے بری کر دیا۔

اسی زمانے کا ایک دوسرا مقدمہ تیرہ برس کی یتیم لڑکی جہان مینا کا تھا۔ اس کے چچا نے پرچہ درج کروایا کہ اس کے بہنوئی اور اس کے لڑکے نے جہان مینا کا ریپ کیا ہے جن کے گھر میں وہ اپنی بیمار پھوپھی کی تیمار داری کے لئے مقیم تھی۔ چچا اور جہان مینا اپنے موقف کے حق میں چار عینی شاہد پیش نہ کر سکے۔ جبکہ حمل بتا رہا تھا کہ سیکس ہوئی ہے۔ اس لئے ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو باعزت بری کرتے ہوئے جہان مینا کو زنا کا مجرم ٹھہرایا اور اسے سرعام سو کوڑے لگانے کی سزا دی۔ وفاقی شرعی عدالت نے ایک مرتبہ پھر رحم سے کام لیا اور سزا کو تین سال قید بامشقت اور دس کوڑوں تک گھٹا دیا۔ جہان مینا صدمے سے گونگی ہو گئی کچھ عرصے بعد اس نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا۔

مفتی کفایت اللہ اور صالح مذہبی تنظیمیں بھی مدرسے کے قاری شمس الدین پر الزام لگانے اور عینی شاہد پیش نہ کرنے پر اس بچے کو ایسی ہی سزا دینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ ڈی این اے کفار کی سازش ہے جو قاری شمس الدین کے مدرسے کو بدنام کرنے کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اور مدرسے کو بچوں کو ریپ کرنے والے قاری شمس الدین جیسے استاد نہیں بلکہ این جی اوز بدنام کر رہی ہیں جو ایسے واقعات کو بنیاد بنا کر مجرم کو سزا دینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
نابالغ بچے کی شہادت کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جب بالغ قاری شمس الدین نے انکار کر دیا ہے تو اس بچے کی بات کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے؟ نیز انہیں شرعی طور پر ڈی این اے کی بجائے چار عینی شاہدین کی گواہی درکار ہے، جب تک وہ نہ ہو قاری شمس الدین کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہاں بچے کو قرار واقعی سزا دے دینی چاہیے کیونکہ اس نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے ساتھ جنسی فعل کیا گیا ہے۔

ایک نابینا گھریلو لڑکی صفیہ بی بی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے آجر اور اس کے لڑکے نے اس کا ریپ کیا تھا اور وہ حاملہ ہو گئی۔ وہ دعوے کے حق میں چار عینی شاہدین پیش نہ کر سکی۔ اس لئے ملزمان کو عدالت نے باعزت بری کر دیا اور صفیہ بی بی کو زنا کے جرم میں تین سال قید بامشقت، پندرہ کوڑوں اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔

اسی زمانے کا ایک دوسرا مقدمہ تیرہ برس کی یتیم لڑکی جہان مینا کا تھا۔ اس کے چچا نے پرچہ درج کروایا کہ اس کے بہنوئی اور اس کے لڑکے نے جہان مینا کا ریپ کیا ہے جن کے گھر میں وہ اپنی بیمار پھوپھی کی تیمار داری کے لئے مقیم تھی۔ چچا اور جہان مینا اپنے موقف کے حق میں چار عینی شاہد پیش نہ کر سکے۔ جبکہ حمل بتا رہا تھا کہ سیکس ہوئی ہے۔ اس لئے ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو باعزت بری کرتے ہوئے جہان مینا کو زنا کا مجرم ٹھہرایا اور اسے سرعام سو کوڑے لگانے کی سزا دی۔ وفاقی شرعی عدالت نے ایک مرتبہ پھر رحم سے کام لیا اور سزا کو تین سال قید بامشقت اور دس کوڑوں تک گھٹا دیا۔ جہان مینا صدمے سے گونگی ہو گئی کچھ عرصے بعد اس نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا۔
زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی نوعیت اور سنگینی میں اصولا اور عقلا بہت فرق ہے۔ اس فرق کا لحاظ نہ کیا جائے اور دونوں کی سزاؤں کو گڈمڈ کیا جائے تو اس طرح کے انسانیت سوز واقعات ہوتے رہیں گے۔
زنا بالجبر کے مقدمات میں چار گواہوں کا مطالبہ کسی طور پر درست نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں تو پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ چاہیے کوئی عالم ہے یا پروفیسر قانون اور معاشرتی مواخدہ سب کا برابر ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جرم ثابت تو بغیر کسی رعایت کے سزار پر فوری عملدرآمد۔
انتہائی تکلیف سے کہوں گا کہ جاسم صاحب طبقہ علماء کے خلاف اپنی رائے کا اظہار اکثر جذباتی ہو کر یا سوچ سمجھ کر انتہائی پست الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں (جیسے کہ مافیا وغیرہ) جاسم صاحب سے عرض ہے کہ ہماری بہت ساری بہنیں یونیورسٹیوں میں اپنے پروفیسرز اور ساتھی طالب علموں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں تو انکی آواز بھی تو بنیں ناں آپ؟؟؟؟
ایک یونیورسٹی میں جب ایک بہن ایک عرصہ تک زیادتی کا شکار ہونے کے بعد چلا اٹھی تو مٹی پاؤ کا بڑا زبردست منظر تھا ہر طرف۔۔
مٹی ڈالنے کے عمل سے پہلے اس بہن کا ایک انٹر ویو سامنے سے گزرا کہ ان لوگوں کے سامنے بڑے بڑے بے بس ہیں کیونکہ ہمیں یہ بہت اوپر تک کے لوگوں سے بھی ملواتے ہیں۔۔۔
کئی ایک خاندان (غور سے پڑھیں خاندان کے الفاظ استعمال ہیں) اس استحصال اور معاشرتی شرمندگی سے بچنے کیلئے بیرون ملک شفٹ ہوگئے ۔اب ہر ایرا غیرا تو بیرون ملک شفٹ ہونے سے رہا۔۔
جب اتنے مضبوط خاندان اپنا مقدمہ نہ پیش کر سکیں یا اسکا دفاع نہ کرسکیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کتنے کمزور نظام کے سہارے جی رہے ہیں اور ترجیحات کیا ہیں یہاں کے قائدین کی۔۔
جن صاحبان پر یہ الزام لگے اور ثابت بھی ہوئے اوہ اب بھی اسی یونیورسٹی میں بڑے طنطنے سے موجود ہیں جب کہ لٹنے والے جگہ چھوڑ کر جاچکے ہیں؟؟؟؟
ان کی وکالت کون کرےگا؟؟ میرا یہ مقصد ہوگز نہیں ہے کہ اگر ایسا جرم کسی مذہب پسند طبقے کے فرد سے سرزد ہوجاتا ہے تو اسے معافی ملنی چاہیے۔ بلکل نہیں ! سخت ترین مواخدہ ہونا چاہیے لیکن میاں انصٖاف بھی کوئی چیز ہے عدالت اور ادارے کام کر رہے ہیں تو ہو رہا ہے ناں۔۔۔۔ آپ اورمیں تو منصف نہیں ہیں ناں؟؟؟؟
باقی وکالت کی بات ہے تو کرنی تو سب طبقات کی کریں ورنہ ٰخدارا کوئلوں کی دلالی میں منھ کالا والے محاورے پر ہرگز عمل پیرا نہ ہوں۔
لگے ہاتھوں ایک اور واقعہ بھی بتاتا چلوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عورت کو وڈیرے نے اپنے ڈیرے پر اٹھوایا (اب جو کچھ ڈیرے پر ہوا وہ لکھنے کے قابل تو نہیں ہے) جب اس نے قانون کے مخافظوں کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس رات قانون کے مخافظوں نے اسے اپنی تحویل میں لےلیا اور کئی دن تک اسکا فزیکل ٹیسٹ (جی ہاں تھانے میں حوالات کے اندر ایک عورت متواتر کئی روز تک لٹتی رہی) ہوتا رہا ،بات باہر نکلی تو نکے تھانیدار صاحب کو تفتیش کیلئے معطل کر دیا گیا اور جانبین کے نمونے فزانزک لیب بھیج دیےگئے۔نمونوں کے پیچھے نکے تھانیدار صاحب کا چیک بھی پہنچ گیا لوگوں کا کیا ہے لوگ تو باتیں کرتے ہی رہتے ہی بعد میں لوگوں نے خواہ مخواہ افواہیں اڑائیں کہ 6 ماہ بعد نکے تھانیدار صاحب اعلی کارکردگی کے نتیجے میں وڈے تھانیدار (ایس۔ایچ۔او) بن کر ملت کی دیگر بیٹیوں کی ناموس کے محافظ بنا کر بٹھا دیے گئےہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہیں سماجی کارکن،کہاں ہیں عورت کی ناموس کے مخافظ کہاں ہیں سول سوسائٹی کے نمائندے،کہاں ہیں انسانی حقوق کے ماؤنٹ ایورسٹ،کہاں ہیں وہ این جی اوز جن کی روزی روٹی کا سامان ہی یہی سب کچھ ہے، کہاں ہیں حق اور حقوق کی بات کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوجرانوالہ میں سات سالہ بچے کو مذہبی مدرسے میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والا ملزم گرفتار
27/01/2020 نیوز ڈیسک



گوجرانوالہ پولیس نے کمسن بچے کو مذہبی مدرسے میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے ملزم کو گرفتار کرلیا، ملزم نے7 سالہ فیضان کو مدرسے میں لےجا کر مبینہ زیادتی کا نشانہ بنایا، ملزم مجید کالونی کا رہائشی ہے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق گوجرانوالہ کا رہائشی 7 سالہ بچہ نماز ظہر پڑھنے مسجد گیا۔ جب بچے کو کافی دیر ہوگئی اور وہ گھر واپس نہ آیا۔ تو والدین کو تشویش ہونے لگی۔ جب والدین بچے کی تلاش میں مسجد گئے تو ان کو اپنے بچے کی مسجد سے ملحقہ مدرسے میں رونے چیخنے کی آواز آئی۔ جب والدین وہاں پہنچے تو بچے کی شلوار اتری ہوئی تھی اور وحشی درندہ بچے کو درندگی کا نشانہ بنا رہا تھا۔ ملزم بچے کے والدین کو دیکھتے ہی فوری موقع سے فرار ہوگیا۔

ویڈیو تصاویر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک نوجوان کمسن بچے کو لے کر جا رہا ہے اور بچے کی مزاحمت کے باوجود زبردستی زیادتی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم گوجرانوالہ پولیس نے مجید کالونی میں ملزم سجاول کو گرفتار کرلیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے 7سالہ فیضان کو مدرسے میں لے جاکر مبینہ زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پولیس نے معاملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کرلی ہے۔ جس میں ملزم کو کمسن بچے کو اپنے ساتھ لے جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ملزم واقعے کے بعد فرار ہوگیا تھا لیکن پولیس نے بروقت کارروائی کرکے گرفتار کرلیا ہے۔ پولیس ملزم سے واقعے سے متعلق انکوائری شروع کردی ہے۔ چیئرپرسن چائلڈپروٹیکشن بیورو لاہور نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

 

آورکزئی

محفلین
انتہائی افسوسناک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیئے ؟؟؟
سوشل میڈیا پر یہ ملبہ بھی ملوی پر ڈالا جا رہا تھا۔۔۔ خصوصاً یوتھیوں کی جانب سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top