میں تو پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ چاہیے کوئی عالم ہے یا پروفیسر قانون اور معاشرتی مواخدہ سب کا برابر ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جرم ثابت تو بغیر کسی رعایت کے سزار پر فوری عملدرآمد۔
انتہائی تکلیف سے کہوں گا کہ جاسم صاحب طبقہ علماء کے خلاف اپنی رائے کا اظہار اکثر جذباتی ہو کر یا سوچ سمجھ کر انتہائی پست الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں (جیسے کہ مافیا وغیرہ) جاسم صاحب سے عرض ہے کہ ہماری بہت ساری بہنیں یونیورسٹیوں میں اپنے پروفیسرز اور ساتھی طالب علموں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں تو انکی آواز بھی تو بنیں ناں آپ؟؟؟؟
ایک یونیورسٹی میں جب ایک بہن ایک عرصہ تک زیادتی کا شکار ہونے کے بعد چلا اٹھی تو مٹی پاؤ کا بڑا زبردست منظر تھا ہر طرف۔۔
مٹی ڈالنے کے عمل سے پہلے اس بہن کا ایک انٹر ویو سامنے سے گزرا کہ ان لوگوں کے سامنے بڑے بڑے بے بس ہیں کیونکہ ہمیں یہ بہت اوپر تک کے لوگوں سے بھی ملواتے ہیں۔۔۔
کئی ایک خاندان (غور سے پڑھیں خاندان کے الفاظ استعمال ہیں) اس استحصال اور معاشرتی شرمندگی سے بچنے کیلئے بیرون ملک شفٹ ہوگئے ۔اب ہر ایرا غیرا تو بیرون ملک شفٹ ہونے سے رہا۔۔
جب اتنے مضبوط خاندان اپنا مقدمہ نہ پیش کر سکیں یا اسکا دفاع نہ کرسکیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کتنے کمزور نظام کے سہارے جی رہے ہیں اور ترجیحات کیا ہیں یہاں کے قائدین کی۔۔
جن صاحبان پر یہ الزام لگے اور ثابت بھی ہوئے اوہ اب بھی اسی یونیورسٹی میں بڑے طنطنے سے موجود ہیں جب کہ لٹنے والے جگہ چھوڑ کر جاچکے ہیں؟؟؟؟
ان کی وکالت کون کرےگا؟؟ میرا یہ مقصد ہوگز نہیں ہے کہ اگر ایسا جرم کسی مذہب پسند طبقے کے فرد سے سرزد ہوجاتا ہے تو اسے معافی ملنی چاہیے۔ بلکل نہیں ! سخت ترین مواخدہ ہونا چاہیے لیکن میاں انصٖاف بھی کوئی چیز ہے عدالت اور ادارے کام کر رہے ہیں تو ہو رہا ہے ناں۔۔۔۔ آپ اورمیں تو منصف نہیں ہیں ناں؟؟؟؟
باقی وکالت کی بات ہے تو کرنی تو سب طبقات کی کریں ورنہ ٰخدارا کوئلوں کی دلالی میں منھ کالا والے محاورے پر ہرگز عمل پیرا نہ ہوں۔
لگے ہاتھوں ایک اور واقعہ بھی بتاتا چلوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عورت کو وڈیرے نے اپنے ڈیرے پر اٹھوایا (اب جو کچھ ڈیرے پر ہوا وہ لکھنے کے قابل تو نہیں ہے) جب اس نے قانون کے مخافظوں کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس رات قانون کے مخافظوں نے اسے اپنی تحویل میں لےلیا اور کئی دن تک اسکا فزیکل ٹیسٹ (جی ہاں تھانے میں حوالات کے اندر ایک عورت متواتر کئی روز تک لٹتی رہی) ہوتا رہا ،بات باہر نکلی تو نکے تھانیدار صاحب کو تفتیش کیلئے معطل کر دیا گیا اور جانبین کے نمونے فزانزک لیب بھیج دیےگئے۔نمونوں کے پیچھے نکے تھانیدار صاحب کا چیک بھی پہنچ گیا لوگوں کا کیا ہے لوگ تو باتیں کرتے ہی رہتے ہی بعد میں لوگوں نے خواہ مخواہ افواہیں اڑائیں کہ 6 ماہ بعد نکے تھانیدار صاحب اعلی کارکردگی کے نتیجے میں وڈے تھانیدار (ایس۔ایچ۔او) بن کر ملت کی دیگر بیٹیوں کی ناموس کے محافظ بنا کر بٹھا دیے گئےہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہیں سماجی کارکن،کہاں ہیں عورت کی ناموس کے مخافظ کہاں ہیں سول سوسائٹی کے نمائندے،کہاں ہیں انسانی حقوق کے ماؤنٹ ایورسٹ،کہاں ہیں وہ این جی اوز جن کی روزی روٹی کا سامان ہی یہی سب کچھ ہے، کہاں ہیں حق اور حقوق کی بات کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکار این جی اوز، صالح مذہبی تنظیمیں اور مدرسے میں بچے کا ریپ
25/01/2020 عدنان خان کاکڑ
دسمبر کے آخری عشرے میں ایک خبر میڈیا پر چلی کہ مانسہرہ میں ایک مدرسے میں ایک بچے کو مبینہ طور پر سو مرتبہ زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس کی حالت غیر ہو گئی ہے اور آنکھوں سے بھی خون رس رہا ہے۔ بچے کے لواحقین نے مدرسے کے استاد قاری شمس الدین کو مجرم ٹھہرایا۔ بچہ ہسپتال میں ہوش میں آیا تو اس نے بھی یہی کہا۔
قاری شمس الدین غائب تھے۔ پھر وہ جمعیت علمائے اسلام کے مانسہرہ کے امیر مفتی کفایت اللہ کے پاس سے برآمد ہوئے۔ مفتی صاحب نہایت ناراض تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مذکورہ مدرسے میں ایک بچہ شمس الدین بھی ہے، اس کی متاثرہ بچے سے لڑائی ہو گئی تھی اس لئے چوٹ شوٹ لگ گئی ہو گی۔ بچے کے والدین کو قانون کا پتہ نہیں اس لئے ایسی ایف آئی آر درج کروا دی ہے۔ یعنی سزا دینی ہے تو اس دوسرے بچے کو دے دو۔ ظاہر ہے کہ مدرسے کے متعلق منفی خبر آئے تو ذمہ دار ایک ہی ہوتا ہے۔ مفتی کفایت اللہ نے بتا دیا کہ ”یہ سب کچھ این جی اوز کی ایما پر کیا جا رہا ہے“۔
مدرسہ انتظامیہ نے بچے سے زیادتی کے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بچے پرتشدد مدرسہ کے طالبعلم شمس الدین نے کیا ہے اور ایک جیسے ناموں کی وجہ سے قاری شمس الدین کو ملزم قرار دے دیا گیا۔
لیکن بچے کے اقارب شرارت پر تلے ہوئے تھے۔ متاثرہ بچے کے چچا محمد جاوید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ”میرے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے علما اس کیس کو کمزور بنا کر اسی مدرسے کے ایک چھوٹے بچے پر ریپ کا الزام لگاتے ہوئے ملزم کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ “ مزید کہا کہ ”ہمیں طعنے دیے جا رہے ہیں کہ آپ لوگ کسی این جی او والوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور اسی کی ایما پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں حالانکہ میں خود بھی مدرسے میں پڑھا ہوں اور مدرسے کے بالکل خلاف نہیں اورنہ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی ہے۔ “
اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹر کے مطابق بچے پر تشدد کے واقعے کے تین دن بعد مفتی کفایت اللہ نے ملزم کو ڈی پی او کے حوالے کیا تھا، ملزم کو 3 روز تک پناہ دی گئی جو جرم ہے تاہم مفتی کفایت کے خلاف مقدمہ اس وقت درج کیا جائے گا جب جرم ثابت ہو گا۔
پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ جہاں تک ملزمان کی بات ہے تو اس میں ایک ملزم 35 سالہ قاری شمس الدین ہے، جسے ایف آئی آر درج ہونے کے تین دن بعد گرفتار کیا گیا، جب کہ بچے کے ساتھ پڑھنے والے دو اور لڑکوں 15 سالہ شمس الدین اور 18 سالہ شفیع اللہ بھی حراست ہیں۔ ملزم قاری شمس الدین نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کیا اور بچے کی ابتدائی طبی رپورٹ میں ریپ کی طبی علامات موجود ہیں لیکن مقامی میڈیا میں جو رپورٹ ہوا کہ 100 مرتبہ ریپ کیا گیا تو اس میں کوئی صداقت نہیں۔
اب لبرل سیکولر سائنسدانوں کی ایجاد کردہ ڈی این اے رپورٹ آ گئی ہے جو کہتی ہے کہ قاری شمس الدین نے ہی بچے کا ریپ کیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ مفتی کفایت اللہ سے پوچھا جائے تو وہ یہی فرمائیں گے کہ وہ اور اسلامی نظریاتی کونسل ڈی این اے کی شہادت تسلیم نہیں کرتے، نابالغ بچے کی شہادت کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جب بالغ قاری شمس الدین نے انکار کر دیا ہے تو اس بچے کی بات کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے؟ نیز انہیں شرعی طور پر ڈی این اے کی بجائے چار عینی شاہدین کی گواہی درکار ہے، جب تک وہ نہ ہو قاری شمس الدین کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہاں بچے کو قرار واقعی سزا دے دینی چاہیے کیونکہ اس نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے ساتھ جنسی فعل کیا گیا ہے۔
آپ انہیں زیادہ دق کریں گے تو وہ آپ کو جنرل ضیا کے دور کے دو مقدموں کی مثال دیں گے جن میں معززین پر ریپ کا الزام لگانے والی دو مفسد لڑکیوں کو قرار واقعی سزا دی گئی تھی۔ ایک نابینا گھریلو لڑکی صفیہ بی بی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے آجر اور اس کے لڑکے نے اس کا ریپ کیا تھا اور وہ حاملہ ہو گئی۔ وہ دعوے کے حق میں چار عینی شاہدین پیش نہ کر سکی۔ اس لئے ملزمان کو عدالت نے باعزت بری کر دیا اور صفیہ بی بی کو زنا کے جرم میں تین سال قید بامشقت، پندرہ کوڑوں اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔ اس پر کچھ مفسد ملکی اور غیر ملکی این جی اوز نے شور مچایا تو وفاقی شرعی عدالت نے صفیہ بی بی پر رحم کھاتے ہوئے اسے بری کر دیا۔
اسی زمانے کا ایک دوسرا مقدمہ تیرہ برس کی یتیم لڑکی جہان مینا کا تھا۔ اس کے چچا نے پرچہ درج کروایا کہ اس کے بہنوئی اور اس کے لڑکے نے جہان مینا کا ریپ کیا ہے جن کے گھر میں وہ اپنی بیمار پھوپھی کی تیمار داری کے لئے مقیم تھی۔ چچا اور جہان مینا اپنے موقف کے حق میں چار عینی شاہد پیش نہ کر سکے۔ جبکہ حمل بتا رہا تھا کہ سیکس ہوئی ہے۔ اس لئے ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو باعزت بری کرتے ہوئے جہان مینا کو زنا کا مجرم ٹھہرایا اور اسے سرعام سو کوڑے لگانے کی سزا دی۔ وفاقی شرعی عدالت نے ایک مرتبہ پھر رحم سے کام لیا اور سزا کو تین سال قید بامشقت اور دس کوڑوں تک گھٹا دیا۔ جہان مینا صدمے سے گونگی ہو گئی کچھ عرصے بعد اس نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا۔
مفتی کفایت اللہ اور صالح مذہبی تنظیمیں بھی مدرسے کے قاری شمس الدین پر الزام لگانے اور عینی شاہد پیش نہ کرنے پر اس بچے کو ایسی ہی سزا دینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ ڈی این اے کفار کی سازش ہے جو قاری شمس الدین کے مدرسے کو بدنام کرنے کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اور مدرسے کو بچوں کو ریپ کرنے والے قاری شمس الدین جیسے استاد نہیں بلکہ این جی اوز بدنام کر رہی ہیں جو ایسے واقعات کو بنیاد بنا کر مجرم کو سزا دینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔