مانسہرہ میں این جی او پر بم حملہ

مہوش علی

لائبریرین
آج دو بم دھماکے ہوئے ہیں۔

۱۔ آرمی میڈیکل کور کے جنرل مشتاق کو ۸ افراد سمیت خود کش حملے میں اڑا دیا گیا۔
۲۔ مانسہرہ میں ایک این جی او کے دفتر میں گھس کر فائرنگ اور پھر بم سے حملہ۔
۳۔ ناورے کے سفارتخانے پر حملے کی دھمکی جسکے بعد ناروے کے سفارتخانے کی سیکورٹی بڑھا دی گئی۔

این جی او پلان کا تعلق برطانیہ سے ہے۔
 

زینب

محفلین
این جی اہ کا تعلق تو ڈنمارک سے ہے مگر پنڈی میں آرمی میڈیکل کور کے جنرل مشتاق بیگ تو ڈنمارک کے نہیں تھے وہ تو 100% پاکستانی تھے اور ایک بہت معتبر عہد ے پے فائز تھے۔۔اللہ جانے کیا چاہتے ہیں یہ لوگ کیا ہیں کس قسم کی تعلیمات پر عمل پرا ہیں۔۔ ہنست بستے گھر اجاڑنے میں ان کی کون سی خوشی پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ ان چند جنرلوں میں سے ایک تھے جو پابند صوم صلوتہ اور باریش شخص تھے ۔ یہ اب تک کا سب سے اہم واقعہ ہے کیونکہ لیفٹننٹ جنرل کا راولپنڈی میں خود کش حملے میں شہید ہونا بہت بڑا واقع ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن و عامہ کی صورتحال کس قدر خراب ہے جبکہ جنرل تک محفوظ نہیں رہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی نکتہ نظر سے ہٹ کر پاکستان کو اپنی ذاتی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی اور جلد از جلد تمام گروپوں سے مذاکرات شروع کرنا ہوں گے ورنہ یہ تشدد کی لہر بڑھتی ہی جائے گی جو پاکستان دشمن طاقتوں کی اولین ترجیح ہے اور جس کے لیے مشرف جیسے اقتدار کی ہوس میں مبتلا کٹھ پتلی حکمرانوں نے ہر طرح سے مدد کی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ ان چند جنرلوں میں سے ایک تھے جو پابند صوم صلوتہ اور باریش شخص تھے ۔ یہ اب تک کا سب سے اہم واقعہ ہے کیونکہ لیفٹننٹ جنرل کا راولپنڈی میں خود کش حملے میں شہید ہونا بہت بڑا واقع ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن و عامہ کی صورتحال کس قدر خراب ہے جبکہ جنرل تک محفوظ نہیں رہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی نکتہ نظر سے ہٹ کر پاکستان کو اپنی ذاتی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی اور جلد از جلد تمام گروپوں سے مذاکرات شروع کرنا ہوں گے ورنہ یہ تشدد کی لہر بڑھتی ہی جائے گی جو پاکستان دشمن طاقتوں کی اولین ترجیح ہے اور جس کے لیے مشرف جیسے اقتدار کی ہوس میں مبتلا کٹھ پتلی حکمرانوں نے ہر طرح سے مدد کی ہے۔

آپکی پوسٹ سے قبل مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ انتہا پسندوں کے ان حملوں کا تمام تر الزام ابھی تک مشرف صاحب پر کیوں نہیں لگا۔

میں اپنی قوم سے بیزار ہوتی جا رہی ہوں جو اپنی تمام تر بیماریوں کی وجہ امریکہ کو ٹہرا دیتی ہے یا پھر مشرف صاحب کو، مگر اپسے کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کر سکے۔
 

زینب

محفلین
جناب اب کینا کے لوگ کہتے پھرتے ہیں۔کینا یس فار بیٹر دن پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ حال ہو گیا ہے۔۔۔۔

کل بہت بڑا نقصان ہوا پاکستان کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
زیک، اس این جی او کے متعلق میری معلومات کا ذریعہ پاکستانی ڈیفنس فورم کی ایک پوسٹ تھی، اور اس پوسٹر سے پھر غلطی ہوئی ہے کہ اس نے پلان کا تعلق ڈنمارک سے بتایا ہے۔ [پوسٹ 27 اور 28]۔

چونکہ میں نے بغیر زیادہ تحقیق کیے انکی بات کو آگے بڑھا دیا ہے اس لیے میری طرف سے معذرت۔ میں اپنی پہلی پوسٹ اور عنوان کو ایڈٹ کر رہی ہوں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
ایک جنرل آیا تھا وہ ملک کو کلاشنکوف کلچر کی سوغات دے گیا اورجب سے دوسرا آیا ہے تو ملک خودکش حملوں کی زد میں ہے آج اگر مشرف صاحب اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں تو ان شاء اللہ خود کش حملے خود بخود رک جائیں گے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ جو بھی خود کش حملے کروانے کے ذمہ دار ہیں، انتہائی سفاک اور ظالم لوگ ہیں۔ بلکہ سفاک اور ظالم جیسے الفاظ ان کے لیے بہت کم ہیں۔ یہ وحشی درندے ہیں جو جنگلوں سے راہ بھٹک کر شہروں میں آ گئے ہیں۔ یہ بھیڑ کی کھالوں میں خونی بھیڑیئے ہیں جنہیں ہم پہچان نہیں پا رہے۔
 

ظفری

لائبریرین
جب میں نے یہ خبر سنی کہ لیفٹنٹ جنرل مشاق کو ایک خودکش حملے میں ہلاک کردیا گیا ہے تو پہلا احساس یہی ہوا کہ کسی بڑے رینک کے آفیسر کو خاص طور پر الگ سے ٹارگٹ بناکر اس طرح خودکش حملے کا نشانہ بنانا کسی خاص انتقام کی نشان دہی کررہا ہے ۔ اور یہ خیال بھی آیا کہ شاید جنرل مشاق ، کسی طرح لال مسجد یا اسی نوعیت کے کسی اور آپریشن میں براہ ِ راست یا بالواسطہ ملوث ہوں ۔ مگر وہ بنیادی طور پر سرجن تھے ۔ اس لیئے ان کو اس طرح ٹارگٹ بناکر خود کش حملے کا نشانہ بنانا کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ :confused:
 

شمشاد

لائبریرین
ظفری بھائی انہوں نے ملڑی کے افسروں کو نشانہ بنایا ہے۔ انہیں نہیں معلوم ہو گا کہ یہ ڈاکٹر ہے یا ڈائریکٹر، بس ملڑی کا افسر، بڑا افسر ہونا چاہیے۔
 
یہ جو بھی خود کش حملے کروانے کے ذمہ دار ہیں، انتہائی سفاک اور ظالم لوگ ہیں۔ بلکہ سفاک اور ظالم جیسے الفاظ ان کے لیے بہت کم ہیں۔ یہ وحشی درندے ہیں جو جنگلوں سے راہ بھٹک کر شہروں میں آ گئے ہیں۔ یہ بھیڑ کی کھالوں میں خونی بھیڑیئے ہیں جنہیں ہم پہچان نہیں پا رہے۔

اگر غور سے دیکھیے تو یہ پاکستانی فوج کے ایجینٹ ہی‌ ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے آپ کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔ یہ خودکش حملے پاکستانی فوج یا اس کے ایجنٹ کے بلکل نہیں ہیں۔
 
مجھے آپ کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔ یہ خودکش حملے پاکستانی فوج یا اس کے ایجنٹ کے بلکل نہیں ہیں۔

اتفاق کرنا یا نہ کرنا اپکا حق ہے۔ یہ میری رائے تھی جو عرض کی۔
بدقسمتی سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ فوج کے اندر کے دھڑے یہ کام کررہے ہیں۔
نہ بھولیے کہ طالبان پاکستانی فوج کی پیداوار ہیں۔ اور یہ بھی نہ بھولیے کہ فوج نے لال مسجد میں جن بچے سمیت لوگوں کو اگ میں‌بھون دیا تھا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اتفاق کرنا یا نہ کرنا اپکا حق ہے۔ یہ میری رائے تھی جو عرض کی۔
بدقسمتی سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ فوج کے اندر کے دھڑے یہ کام کررہے ہیں۔
نہ بھولیے کہ طالبان پاکستانی فوج کی پیداوار ہیں۔ اور یہ بھی نہ بھولیے کہ فوج نے لال مسجد میں جن بچے سمیت لوگوں کو اگ میں‌بھون دیا تھا۔

ہمت علی برادر،

اگر آپ برا نہ مانیں تو میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ طالبان کو بینظیر کے دور میں امریکہ اور سعودیہ کی آشیرواد سے بنایا گیا تھا۔ اس میں آرمی بینظیر کے بالکل ساتھ تھی اور آئی ایس آئی سے طالباب کے گہرے روابط تھے۔

بہرحال صورتحال بدل چکی ہے۔ یہی طالبان بینطیر کے خلاف ہو گئی ہے اور بینظیر کو موت کی دھمکیاں دینے والے یہی تھے۔ بینظیر کی طرح طالبان مشرف صاحب اور فوج کے بھی خلاف ہو گئے ہیں اور اسی لیے اُن پر یہ حملے کر رہے ہیں۔

تو ماضی کے حوالے سے یہ فیصلہ دے دینا کہ صرف فوج خود یہ دھماکے کر وا رہی ہے، یہ شاید صحیح نہ ہو۔ میری ذاتی رائے میں ضیاء کی فوج اور مشرف صاحب کی فوج میں بہت فرق ہے مگر لوگ اس میں تمیز نہیں کر پاتے اور ضیاء صاحب کی غلطیوں اور گناہوں کو بھی مشرف صاحب کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے۔
 
اپ کی بات کسی حد تک درست ہے سوائے اس کے کہ طالبان بے نظیر کے قتل میں‌ ملوث ہیں۔
ذرا سوچیے پاکستانی فوج کی دو متضاد پالیسیاں‌ہیں۔ اس پالیسی کے حامی (دل سے حامی) بھی موجود ہیں۔ اس تضاد کا لازمی نتیجہ تصادم ہے۔
بدقسمتی سے وہ ہورہا ہے جس سے میں‌ڈر رہا تھا۔ یہ تصادم اب سطح پر انا شروع ہوگیا ہے۔
یہ لڑائی کیا وزیرستان کا ان پڑھ ادمی اسلام اباد میں‌لڑرہا ہے۔ نہیں۔ فوج اپنے اندر ہی متصادم ہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو مگر میرا غالب گمان یہی ہے ۔
 
آپکی پوسٹ سے قبل مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ انتہا پسندوں کے ان حملوں کا تمام تر الزام ابھی تک مشرف صاحب پر کیوں نہیں لگا۔

میں اپنی قوم سے بیزار ہوتی جا رہی ہوں جو اپنی تمام تر بیماریوں کی وجہ امریکہ کو ٹہرا دیتی ہے یا پھر مشرف صاحب کو، مگر اپسے کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کر سکے۔

فکر نہ کریں مہوش ہم لوگ اپنی قوم سے بیزار نہیں ہیں کیونکہ ہم اپنی قوم پر ہونے والے مظالم کا تجزیہ ملک سے باہر بیٹھ کر نہیں بلکہ ملک کے اندر رہ کر بہت قریب سے کر رہے ہیں اور اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ ہی تو دیا تھا مگر شاید آپ نے اپنے بہت عظیم لیڈر مشرف کو فرشتہ ثابت کرنے پر ہی اکتفا کر لیا ہے اس لیے آپ کو ایک صائب مشورہ بھی بیزار کن ہی لگتا ہے۔ غور سے پھر پڑھیں اور شاید آپ سمجھ سکیں کہ میں نے کیا لکھا ہے

دہشت گردی کے خلاف امریکی نکتہ نظر سے ہٹ کر پاکستان کو اپنی ذاتی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی اور جلد از جلد تمام گروپوں سے مذاکرات شروع کرنا ہوں گے ورنہ یہ تشدد کی لہر بڑھتی ہی جائے گی جو پاکستان دشمن طاقتوں کی اولین ترجیح ہے اور جس کے لیے مشرف جیسے اقتدار کی ہوس میں مبتلا کٹھ پتلی حکمرانوں نے ہر طرح سے مدد کی ہے۔


یہ بات تمام جمہوری قوتیں اور پاکستان کا ہر مکتبہ فکر کہہ رہا ہے سوائے ان چند لوگوں کے جو آنکھیں بند کرکے اب بھی مشرف کو ہی جائز سمجھتے ہیں۔

صرف ایک سوال پر غور کر لیں کہ مشرف حکومت سے پہلے خود کش حملے کہاں پر ہوتے تھے اور تمام سروے پڑھ لیں 80% کی رائے میں مشرف کے جانے سے امن و عامہ کی صورتحال میں واضح بہتری آئے گی ۔ آپ کو فرق نہیں پڑتا کیونکہ آپ پر گزرتی جو نہیں ہے میں نے ان خودکش دھماکوں سے مرنے والوں کی لاشیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں اور اس ظلم کے بعد اس کے براہ راست ذمہ دار کو معاف کردینے کی جرات کم از کم کوئی باضمیر شخص نہیں کر سکتا۔

شاخیں کاٹنے سے مسئلہ ختم نہیں ہوگا ورنہ مشرف نے ایک لاکھ سے زائد فوج سرحد میں تعینات کر رکھی ہے اور ہزاروں لوگ فنا کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ آپ کے لیے وہ کیڑے مکوڑے ہوں گے یا موت کے مستحق مگر ہمارے لیے وہ ہمارے ہم وطں اور زندگی کے اتنے ہی حقدار تھے جتنے میں اور آپ۔

طاقت اور بندوق سے ایسے مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے اور بدقسمتی سے ایک فوجی کو بندوق ہی تمام مسائل کا حل نظر آتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محب: "صرف ایک سوال پر غور کر لیں کہ مشرف حکومت سے پہلے خود کش حملے کہاں پر ہوتے تھے؟"
آبی ٹو کول:
"ایک جنرل آیا تھا وہ ملک کو کلاشنکوف کلچر کی سوغات دے گیا اورجب سے دوسرا آیا ہے تو ملک خودکش حملوں کی زد میں ہے آج اگر مشرف صاحب اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں تو ان شاء اللہ خود کش حملے خود بخود رک جائیں گے ۔"

یہ ایک بہت سطحی بات کی گئی ہے اور مسئلے کی گہرائی سے مکمل نظر چرائی گئی ہے۔ کبھی کبھار مجھے یقین نہیں آتا کہ اصل حقائق سے منہ موڑ کر ایسی بات بھی کہی جا سکتی ہے۔

۱۔ بینظیر تو حکومت میں بھی نہیں تھی، مگر پھر بھی ان انتہا پسندوں کی طرف سے مسلسل بینظیر کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں اور حتی کی موقع ملتے ہیں قتل کر دیا گیا۔

۲۔ لوگ اس دھشت گردی کا تمام تر ذمہ وار مشرف صاحب کو ٹہرا رہے ہیں، مگر کیونکر ممکن ہے کہ یہ "پوری تصویر" نہ دیکھ پائیں کہ جو واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ دھشت گردوں نے اس دھشت گردی کا "پوٹنشل" ایک دن میں حاصل نہیں کیا، بلکہ یہ ایک لمبا پراسس تھا جو کہ ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا اور پچھلی چار سول حکومتوں کے دور میں بغیر کسی روک ٹوک کے نشو و نما پاتا رہا۔ [ان چار سول حکومتوں نے مسلسل اس فتنے سے نظریں چرائے رکھیں تا کہ انکی سیاست چمکتی رہے]

لوگوں کی یاداشت کیونکر اسقدر کمزور ہو سکتی ہے کہ وہ بھول جائیں کہ یہ بینظیر تھیں جنہوں نے امریکہ اور سعودیہ کے آشیرواد سے طالبان کی بنیاد رکھی تھی۔

اور پھر یہ نواز شریف کی سول حکومت تھی جو پھر اسی امریکہ اور سعودیہ کے آشیرواد سے طالبان کی نشو و نما کرتی رہی۔

۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا حتی کہ مشرف صاحب کا دور آیا جہاں انہوں نے پہلی مرتبہ اس چیز کا ادراک کیا کہ طالبان کو پالنا پوسنا پاکستان کے اپنے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ اور طالبان کی وجہ سے خود پاکستان میں انتہا پسندی کا فتنہ پیدا ہو رہا ہے کیونکہ اس تحریک سے متاثر لوگ کسی کی کوئی بات نہیں سنتے بلکہ انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ کلاشنکوف کے زور پر وہ اسلام کا اپنا ورژن دوسروں پر نافذ کرنا عین اسلام ہے۔ اور اسی انتہا پسندی کی تعلیمات کچھ ایسے ہی عناصر کے مدارس میں مسلسل دی جا رہی ہے اور یہی قوتیں خود کش حملہ آور پیدا کر رہی ہیں، یہی قوتیں "پاکستان کے کسی قانون" کو نہیں مانتیں، یہی قوتیں غیر ملکی دھشت گردوں کو پناہ دے رہی ہیں، اور یہی قوتیں ریاض بسرہ جیسے قاتلوں کو پناہ دے رہی ہیں اور انکا مقصد اس انتہا پسندی اور نظام کو پاکستان ایکسپورٹ کر کے کلاشنکوف کے ذریعے نافذ کرنا ہے جسکا لازمی نتیجہ پاکستان میں خون ریزی کی صورت میں نکلے گا کیونکہ پاکستان کی اکثریت انکے انتہا پسند نظام کے خلاف ہے۔

پچھلی چاروں سول حکومتیں ان فنتوں سے آنکھیں مکمل طور پر بند کر کے صرف پیسہ لوٹنے میں مصروف رہیں اور انہوں نے اس فتنے کو پورے پاکستان میں آسانی سے پھیلنے دیا۔ اور پھر جب مشرف صاحب آئے تو اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور ان انتہا پسندوں نے پچھلے ادوار میں اسقدر "پوٹنشل" حاصل کر لیا تھا کہ وہ اب اس پوزیشن میں تھے کہ پاکستان آرمی پر بھی حملے کر سکیں۔

بہرحال، "دیر آید درست آید"
شکریہ مشرف صاحب کہ آپ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ کم از کم یہ ہمت تو دکھائی کہ ان انتہا پسندوں کو پتا چل سکے کہ پاکستان ایک بہادر قوم ہے اور وہ اتنی آسانی سے پاکستانی قوم کو کلاشنکوف اور خود کش حملوں کے زور پر یرغمال بنا کر بلیک میل نہیں کر سکتے۔ [بینظیر و نواز شریف کی طرح نہیں جو اتنے بزدل تھے کہ ان انتہا پسندوں کے ہاتھ یرغمال بنے رہے اور ہمت نہ ہو سکی کہ انکی کاروائیوں پر کوئی بند باندھ سکیں]



////////////////////////

محب:
طاقت اور بندوق سے ایسے مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے اور بدقسمتی سے ایک فوجی کو بندوق ہی تمام مسائل کا حل نظر آتی ہے۔


محب، مجھے لگتا ہے کہ آپ اکثریت کے اس نعرے پر بہک گئے ہیں کہ "فوجی عقل نہیں رکھتے، مسائل کبھی حل نہیں کر سکتے، یا تمام مسائل کا حل بندوق سمجھتے ہیں۔"

تو مجھے اس اکثریت کو چیلنج کرنے دیں کہ اگر وہ اپنے دعوے میں اتنے ہی سچے ہیں بتائیں کہ:

۱۔ کراچی میں پچھلے 4 سول جمہوری ادوار میں مسائل کیوں نہ حل ہو سکے، بلکہ جبر و تشدد کا مسلسل نشانہ بنا رہا؟ تو کیا اس کو آپ مسائل کا حل ہونا کہتے ہیں یا بندوق کا استعمال "نہ ہونا" کہتے ہیں؟

۲۔ تو بتائیں کہ مشرف صاحب کے پاس وہ کونسا الہ دین کا چراغ تھا کہ انکے آنے سے کراچی میں بندوق کی گولی چلائے بغیر یہ تصادم ختم ہو گیا؟ اور پھر اس دور میں کراچی نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی ترقی ہوتے ہوئے دیکھی۔


صرف یہی ایک مثال بہت ہے کہ اگر آپ کھلے ذہنوں اور صاف دل سے سوچیں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ اکثریت کا یہ دعوی کس قدر فضول اور بے بنیاد ہے۔

اور اس بے بنیاد دعوی کا نتیجہ قوم کو بھگتنا پڑے گا جب مشرف صاحب کے جانے کے بعد بھی یہ خود کش حملے جاری رہیں گے۔ [بلکہ اب تو الیکشن ہو بھی چکے اور مشرف مخالف پارٹیاں جیت بھی گئیں، مگر کل پرسوں پھر یہ دھماکے ہوئے ہیں]۔


///////////////////

اور محب،

آپ میرے بیرون وطن ہونے سے میری کریڈیبلیٹی پر اعتراض نہ کریں کہ یہ بھی بہت بے بنیاد اعتراض ہے۔

آجکل میڈیا اتنا تیز ہے کہ بیرون ملک رہنے والے بھی ملک کے حالات سے اتنے ہی باخبر ہیں جتننا کہ ملک میں رہنے والے۔ اصل بات صرف "احساس" کی ہے۔ کہ کچھ لوگ ملک میں رہتے ہوئے بھی احساس نہیں کر پاتے، [بلکہ جو خود کش حملہ آور ہیں، وہ تو یہ کاروائی کرتے ہوئے یہ احساس نہیں کر پاتے کہ وہ کتنا غلط کر رہے ہیں] جبکہ جو شخص احساس رکھے اُس کے لیے ایک اشارہ بھی کافی ہے چاہے وہ بیرون ملک ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔

ذرا سوچیں کہ کراچی سے ایم کیو ایم والے آپکی کریڈیبلٹی صرف اس بنیاد پر ختم کر دیں کہ آپ کراچی میں نہیں بیٹھے اور صرف انہوں نے اپنوں کی میتیں اٹھتی دیکھی ہیں، تو اس پر آپکا کیا ری ایکشن ہو گا؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
آبی ٹو کول: [/COLOR]"ایک جنرل آیا تھا وہ ملک کو کلاشنکوف کلچر کی سوغات دے گیا اورجب سے دوسرا آیا ہے تو ملک خودکش حملوں کی زد میں ہے آج اگر مشرف صاحب اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں تو ان شاء اللہ خود کش حملے خود بخود رک جائیں گے ۔"

یہ ایک بہت سطحی بات کی گئی ہے اور مسئلے کی گہرائی سے مکمل نظر چرائی گئی ہے۔ کبھی کبھار مجھے یقین نہیں آتا کہ اصل حقائق سے منہ موڑ کر ایسی بات بھی کہی جا سکتی ہے۔

۱۔ بینظیر تو حکومت میں بھی نہیں تھی، مگر پھر بھی ان انتہا پسندوں کی طرف سے مسلسل بینظیر کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں اور حتی کی موقع ملتے ہیں قتل کر دیا گیا۔

۲۔ لوگ اس دھشت گردی کا تمام تر ذمہ وار مشرف صاحب کو ٹہرا رہے ہیں، مگر کیونکر ممکن ہے کہ یہ "پوری تصویر" نہ دیکھ پائیں کہ جو واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ دھشت گردوں نے اس دھشت گردی کا "پوٹنشل" ایک دن میں حاصل نہیں کیا، بلکہ یہ ایک لمبا پراسس تھا جو کہ ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا اور پچھلی چار سول حکومتوں کے دور میں بغیر کسی روک ٹوک کے نشو و نما پاتا رہا۔ [ان چار سول حکومتوں نے مسلسل اس فتنے سے نظریں چرائے رکھیں تا کہ انکی سیاست چمکتی رہے]

لوگوں کی یاداشت کیونکر اسقدر کمزور ہو سکتی ہے کہ وہ بھول جائیں کہ یہ بینظیر تھیں جنہوں نے امریکہ اور سعودیہ کے آشیرواد سے طالبان کی بنیاد رکھی تھی۔

اور پھر یہ نواز شریف کی سول حکومت تھی جو پھر اسی امریکہ اور سعودیہ کے آشیرواد سے طالبان کی نشو و نما کرتی رہی۔

معاف کیجئے گا محترمہ جس بات کو آپ سطحی سی فرما رہی ہیں آگے چل کر خود آپ کے قلم نے اسی بات کی تصدیق کردی ہے کہ اس دہشت گردی کا آغاز بالاتفاق ایک جنرل کے دور سے ہی ہوا تھا رہی بات یہ کہ یہ پراسس نواز اور بے نظیر دور میں بھی چلتا رہا تو سر دست مجھے ا سپر کچھ نہیں کہنا میرا کام تو آپ کے ممدوح کا اصل چہرہ آپ پر واضح کرنا تھا سو میں کرچکا باقی نہ مجھے نواز فرشتہ نظر آتا ہے کہ اس کا دفاع کروں اور نہ ہی مجھے دلچسپی ہے کہ بے نظیر کو معصوم ثابت کیا جائے بحرحال آپ نے دروغ گو حافظہ نا باشد والی مثال بن کر کسی نہ کسی طریقے سے میری بات کی تائید فرماہی دی شکریہ اور آپ کو آپکی محبت کا مشرف ہونا مبارک ہو۔
 

خاور بلال

محفلین
شکریہ مشرف صاحب کہ آپ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ کم از کم یہ ہمت تو دکھائی کہ ان انتہا پسندوں کو پتا چل سکے کہ پاکستان ایک بہادر قوم ہے اور وہ اتنی آسانی سے پاکستانی قوم کو کلاشنکوف اور خود کش حملوں کے زور پر یرغمال بنا کر بلیک میل نہیں کر سکتے۔ [بینظیر و نواز شریف کی طرح نہیں جو اتنے بزدل تھے کہ ان انتہا پسندوں کے ہاتھ یرغمال بنے رہے اور ہمت نہ ہو سکی کہ انکی کاروائیوں پر کوئی بند باندھ سکیں]

مہوش صاحبہ نے مشرف صاحب کا شکریہ ادا کیا ہے۔اس شکریے کے لیےمشرف صاحب کو مہوش صاحبہ کا مشکور ہونا چاہیے کہ جب پوری قوم مشرف صاحب پر سے اپنا اعتماد کھو چکی ہے، کوئ تو ہے جو ان کے لیے اچھے جذبات رکھتا ہے:grin:
 
Top