آپکی پوسٹ سے قبل مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ انتہا پسندوں کے ان حملوں کا تمام تر الزام ابھی تک مشرف صاحب پر کیوں نہیں لگا۔
میں اپنی قوم سے بیزار ہوتی جا رہی ہوں جو اپنی تمام تر بیماریوں کی وجہ امریکہ کو ٹہرا دیتی ہے یا پھر مشرف صاحب کو، مگر اپسے کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کر سکے۔
فکر نہ کریں مہوش ہم لوگ اپنی قوم سے بیزار نہیں ہیں کیونکہ ہم اپنی قوم پر ہونے والے مظالم کا تجزیہ ملک سے باہر بیٹھ کر نہیں بلکہ ملک کے اندر رہ کر بہت قریب سے کر رہے ہیں اور اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ ہی تو دیا تھا مگر شاید آپ نے اپنے بہت عظیم لیڈر مشرف کو فرشتہ ثابت کرنے پر ہی اکتفا کر لیا ہے اس لیے آپ کو ایک صائب مشورہ بھی بیزار کن ہی لگتا ہے۔ غور سے پھر پڑھیں اور شاید آپ سمجھ سکیں کہ میں نے کیا لکھا ہے
دہشت گردی کے خلاف امریکی نکتہ نظر سے ہٹ کر پاکستان کو اپنی ذاتی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی اور جلد از جلد تمام گروپوں سے مذاکرات شروع کرنا ہوں گے ورنہ یہ تشدد کی لہر بڑھتی ہی جائے گی جو پاکستان دشمن طاقتوں کی اولین ترجیح ہے اور جس کے لیے مشرف جیسے اقتدار کی ہوس میں مبتلا کٹھ پتلی حکمرانوں نے ہر طرح سے مدد کی ہے۔
یہ بات تمام جمہوری قوتیں اور پاکستان کا ہر مکتبہ فکر کہہ رہا ہے سوائے ان چند لوگوں کے جو آنکھیں بند کرکے اب بھی مشرف کو ہی جائز سمجھتے ہیں۔
صرف ایک سوال پر غور کر لیں کہ مشرف حکومت سے پہلے خود کش حملے کہاں پر ہوتے تھے اور تمام سروے پڑھ لیں 80% کی رائے میں مشرف کے جانے سے امن و عامہ کی صورتحال میں واضح بہتری آئے گی ۔ آپ کو فرق نہیں پڑتا کیونکہ آپ پر گزرتی جو نہیں ہے میں نے ان خودکش دھماکوں سے مرنے والوں کی لاشیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں اور اس ظلم کے بعد اس کے براہ راست ذمہ دار کو معاف کردینے کی جرات کم از کم کوئی باضمیر شخص نہیں کر سکتا۔
شاخیں کاٹنے سے مسئلہ ختم نہیں ہوگا ورنہ مشرف نے ایک لاکھ سے زائد فوج سرحد میں تعینات کر رکھی ہے اور ہزاروں لوگ فنا کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ آپ کے لیے وہ کیڑے مکوڑے ہوں گے یا موت کے مستحق مگر ہمارے لیے وہ ہمارے ہم وطں اور زندگی کے اتنے ہی حقدار تھے جتنے میں اور آپ۔
طاقت اور بندوق سے ایسے مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے اور بدقسمتی سے ایک فوجی کو بندوق ہی تمام مسائل کا حل نظر آتی ہے۔