مانسہرہ میں 20 شیعہ مسافر قتل

دوست

محفلین
چیف جسٹس کیا کرے بھائی۔ وہ تو بس فیصلے دے سکتا ہے۔ ڈنڈہ لے کر تو نکل نہیں سکتا عدالت سے۔ کل یہاں ایک شیعہ ذاکر بھی چیف جسٹس کو سنا رہا تھا۔ وہ کیا کر لے بیچارہ۔ ایک منصف تو فیصلہ دے سکتا ہے بس، اس پر عملدرآمد کرانا تو پولیس، فوج، حکومتی اداروں کا کام ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
چیف جسٹس کیا کرے بھائی۔ وہ تو بس فیصلے دے سکتا ہے۔ ڈنڈہ لے کر تو نکل نہیں سکتا عدالت سے۔ کل یہاں ایک شیعہ ذاکر بھی چیف جسٹس کو سنا رہا تھا۔ وہ کیا کر لے بیچارہ۔ ایک منصف تو فیصلہ دے سکتا ہے بس، اس پر عملدرآمد کرانا تو پولیس، فوج، حکومتی اداروں کا کام ہے۔

بات تو آپ کی درست ہے کہ یہ پولیس اور انتظامیہ کا کام ہے۔ لیکن سپریم کورٹ سوو موٹو ایکشن لیتی ہی تب ہے جب انسانی حقوق پر آنچ آتی ہے اور انتظامیہ ناکام ہو جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سے پہلے مسنگ پرسنز کیس اور دوسرے کیسز پر ایسا ایکشن لیا جو کہ قابل تعریف ہے۔

اس کیس میں انتظامیہ اپنے ملک کی ایک بڑی آبادی کو حفاظت دینے میں ناکام ہوئی ہے۔ اور انسانی حقوق کی پامالی تو بالکل عیاں ہے۔ اور یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ بھی نہیں کہ ہم سمجھیں کہ ایک ادھ دفعہ ہوا اور مسئلہ ختم ہو گیا۔ یہ سسٹمیٹک انداز میں شیعہ آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ ملک کے لئے بہت خدشے کی بات ہے اور اس مسئلے کو پس پشت ڈال کر اس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتی ہیں۔ اس کو بہت سنجیدہ انداز میں پرایوریٹی کی بنیاد پر حل کرنا ہو گا۔
 

دوست

محفلین
بلوچستان میں کیا کر لیا ہے سپریم کورٹ نے؟ چیخ چلا کر آ جاتے ہیں جج ہر پیشی پر۔
یہ ذلالت انتطامیہ کی ہے۔ یہ بہت ہی گھمبیر مسئلہ ہے مگر یہ جو اقتدار کے بھوکے ہیں انہیں اقتدار کے علاوہ کچھ نظر آئے تو بات بنے۔ نہ دہشت گردی والا قانون ترمیم ہوتا ہے۔ نہ پالیسی واضح بنتی ہے۔ عجیب طُرفہ تماشا لگا ہوا ہے۔
 

زین

لائبریرین
بلوچستان کے علاقے مستونگ میں مسافر بس سے بیس سے زائد مسافروں کو اتار کر قتل کرنے کے واقعہ کا ہائیکورٹ بلوچستان نے از خود نوٹس لیا تھا۔ لشکر جھنگوی نے چیف جسٹس بلوچستان کو قتل کی دھمکی دی ۔ تب سے معلوم ہی نہیں کہ از خود نوٹس کیا بنا
 

میر انیس

لائبریرین
چیف جسٹس کیا کرے بھائی۔ وہ تو بس فیصلے دے سکتا ہے۔ ڈنڈہ لے کر تو نکل نہیں سکتا عدالت سے۔ کل یہاں ایک شیعہ ذاکر بھی چیف جسٹس کو سنا رہا تھا۔ وہ کیا کر لے بیچارہ۔ ایک منصف تو فیصلہ دے سکتا ہے بس، اس پر عملدرآمد کرانا تو پولیس، فوج، حکومتی اداروں کا کام ہے۔
غیر متفق ہونے کی معافی چاہتا ہوں لیکن آپ کے اسی ایک بیچارے نے پاکستان کے وزیراعظم کو گھر جانے پر مجبور کردیا اور اسوقت پولیس فوج اور حکومتی ادارے کوئی بھی کچھ نہ کرسکا اسی بیچارے نے نواز شریف کا کیس ایک دن میں ہی بھگتا دیا اسی بیچارے نے ایسے کئی مجرموں کو آزاد کردیا جن پر اہلِ تشیع کے قتل کا الزام تھا اور پھر انہوں نے آزاد ہوکر مذید قیامتیں ڈھائیں اسی بیچارے نے وحیدہ شاہ کے ایک خاتون کو صرف تھپڑ مارنے کا نوٹس لیا اور حکومتی پارٹی کی امیدوار ہونے کے باوجود وہ نا اہل قرار پاگئیں ۔ میرے بھائی جب جہاں جس وقت اس بیچارے نے جو کرنا چاہا کیا اور پولیس فوج اور حکومتی ادارے بے بس رہے ۔ دوسرے میں آپ سے سوال کرتا ہوں اگر یہ شخٰص اتنا ہی بے بس ہے تو پھر اسکو واپس لانے کیلئے اتنا ذور کیوں لگایا گیا اسوقت تو یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ اگر افتخار چوہدری کو بحال نہ کیا گیا تو شاید قیامت آجائے گی اور اگر بحال کردیا گیا تو جیسے حضرت عمر(ر) کا دور پھر سے آجائے گا اتنا انصاف ہوجائے گا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پینے لگیں گے۔ آپ ٹھنڈے دل سے خود سوچیں جو چیف جسٹس اتنا رحمدل ہو کہ ایک عورت کے وحیدہ شاہ سے صرف ایک تھپڑ کھانے پر ایک بہترین منصف ہونے کا ایسا ثبوت دیتا ہے کہ ازخود نوٹس لے کر انصاف کرتا ہے پر وہ اب اسکی رحمدلی کہاں چلی گئی کہ سینکڑوں شیعہ اس مختصر سے عرصے میں شہید ہوچکے ہیں پر اب اسکا انصاف نہیں جاگتا یا تو پھر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ اس سپریم کورٹ میں ہمارے لئے انصاف نہیں یا ہم یہ سوچیں کہ اہلِ تشیع کا قتل جائز قرار دیا جاچکا ہے؟ آپ دیکھئے گا دو تین دن یہ خبر چلے گی اور پھر کراچی میں عاشور کے دن دھماکے کی طرح لاہور میں یوم علی (ع) کے دھماکے کی طرح متعد بار بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر مارے جانے کی طرح بس چند دن یہ خبر ٹی وی اور اخبارات میں چلے گی اور پھر نئے کسی ایسے واقعہ کے ہونے تک بھلادی جائے گی۔
دوسرے آپ سے گذارش ہے میں نے برا نہیں مانا پر ہم کو ایک دوسرے کہ علما کا ذاکرین کا احترام کرنا چاہیئے ''ایک شیعہ ذاکر سنا رہا تھا'' ذرا عجیب سا لگا اتنا ہی عجیب سا جیسے کوئی کہے کہ ''ایک سنی مُلا بہت سنا رہا تھا'' لگے گا
 

الف نظامی

لائبریرین
اس مسئلہ کا حل ملی یکجہتی کونسل ہے۔
جو اس مسئلہ کو سمجھے اور ملک میں بین الفرقہ ہم آہنگی اور امن و امان کی بحالی کے لیے اپنا فعال کردار ادا کرے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے عرفان صدیقی کا ایک پرانا کالم جو اب بھی اہم ہے
محترم قاضی صاحب۔ مکرر عرض ہے!…..نقش خیال…عرفان صدیقی

.رمضان المبارک… رحمتوں‘ برکتوں‘ شفقتوں‘ مہربانیوں اور بخششوں کا مہینہ ‘ امیر المومنین سید نا علی المرتضیٰ کا یوم شہادت ‘ اور ایسی قتل وغارت گری۔ کم سے کم میری سمجھ سے ماوریٰ ہے کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے۔ ہم کہ محسن انسانیت ‘ رحمتہ للعالمین کے امتی ہیں‘ ہم کہ آپ پر درود و سلام کی سوغاتیں بھیج کر روح و قلب کی آسودگی چاہتے ہیں ‘ ہم کہ قرآن و حدیث کی منور تعلیمات کو سرمایہ ایمان سمجھتے ہیں ‘ ہم کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کو اپنی خوش بختی خیال کرتے ہیں ‘ ہم کہ ہر آن الله تعالیٰ سے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی خیریت چاہتے ہیں‘ ہم کہ دنیا میں فوز و فلاح او رآخرت میں مغفرت کے آرزومند ہوتے ہیں‘ ہمیں یکایک کیا ہوجاتا ہے کہ سب کچھ پس پشت ڈال کر انسانی قتل پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے دین کا یہ عظیم سبق بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان (چاہے وہ کوئی بھی ہو) کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے؟۔​
یہ سلسلہ برس ہا برس سے جاری ہے اور ہم مداوا نہیں کرپارہے۔ کسی فرقے‘ کسی مسلک کی شخصیات محفوظ ہیں نہ ان کے اجتماعات نہ اُن کی عبادت گاہیں۔ کیسی کیسی ہستیاں اس آگ میں بھسم ہوگئیں۔ کیسے کیسے لو گ ہم سے چھین لئے گئے۔ ہر عہد کی حکو متیں بے بس نظر آئیں۔ نہ سب کچھ تلپٹ کردینے والے فوجی حکمران اسے روک پائے نہ عوام میں گہری جڑیں رکھنے والے جمہوری بندوبست۔ کبھی کبھی تو اس کی دھمک سے دماغ چٹخنے لگتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک قوم کی حیثیت سے اس قتل و غارتگری کو نکیل کیوں نہیں ڈال پارہے؟۔ دوسروں کی جانیں لینے کے لئے اپنے آپ کو باروود سے اڑا دینے کا جنون کیسے تخلیق پاتا ہے؟ ہم مل بیٹھ کر اس مرض کہن کے تمام پہلوؤں کا جائزہ کیوں نہیں لے پارہے؟ وہ اقدامات کیوں نہیں کرپارہے جو متشددانہ سوچ کو تحمل‘ برداشت اور برد باری میں بدل دیں؟۔​
آج ایک بار پھر مجھے شدت سے احساس ہورہا ہے کہ کم از کم اس مرض کے حوالے سے اولین ذمہ داری علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے۔ وہ معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنی مسجدوں‘ اپنے مدرسوں‘ اپنے حجروں اور اپنی خانقاہوں سے نکلیں۔مسلک ‘ فرقے اور مکتب فکر کی دیواریں گراکے‘ اسلام کے وسیع دالان میں ایک جرگہ بٹھائیں۔ اپنے دلوں کو ہر نوع کی کدورت سے پاک کرکے ایسا لائحہ عمل تجویز کریں جو اس جوئے خوں کو لگام ڈال سکے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایسی ہر واردات کسی دوسرے مسلک کے کھاتے میں پڑجاتی ہے چاہے وہ اس کا ذمہ دار ہونہ ہو۔ یوں اسلام کے جمیل چہرے پہ بھی داغ پڑتے ہیں‘ علمائے کرام کی قبائیں اور عبائیں بھی تار تار ہوتی ہیں اور دینی مدارس بھی زد میں آتے ہیں۔ میں سازش کی کہانیوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتا لیکن ابھی دو دن قبل ”وکی لیکس“ کی طرف سے جاری کردہ خفیہ امریکی دستاویزات سے منکشف ہوا ہے کہ خود امریکہ ہمارے ہاں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ ہمارے بہت سے بدخواہ کہیں لسانی‘ کہیں نسلی‘ کہیں فرقہ وارانہ آگ بھڑکاکر ہمیں کمزور کرنے میں لگے ہیں۔ لیکن اس کی آڑ میں ہمیں اس حقیقت کو پس پشت نہیں ڈال دینا چاہئے کہ خود ہمارے ہاں بھی بارود خانے موجود ہیں اور اسلام کے نام پر دوسروں کا لہو بہانے کی سوچ پوری طرح سرگرم عمل ہے۔​
علمائے کرام کے ہاں احساس فکر مندی یقینا ہوگا کیوں کہ اصل نقصان انہی کی ولایت کو پہنچ رہا ہے۔ انفرادی طور پر اُن سے بات ہو تو یوں لگتا ہے جیسے اُن کا دل سوز درد مندی سے پگھل جانے کو ہے۔ وہ ایسی ہر واردات کی مذمت بھی کرتے ہیں اور گہرے رنج و غم کا اظہار بھی۔ لیکن پھراگلی موج خوں تک خاموشی چھا جاتی ہے۔​
اس بات کو اب ڈیڑھ عشرے سے زیادہ کا وقت ہوچلا جب باہمی قتل و غارت گری اور فرقہ وارانہ منافرت کے مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے علمائے کرام سرجوڑ کر بیٹھے تھے۔تمام مسالک کے سرکردہ راہنماؤں نے ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا بنیادی مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی خیر سگالی تھا۔ دیوبندی‘ سنی‘ شیعہ اور اہل حدیث مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء پر مشتمل اس نمائندہ کونسل کے پہلے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی تھے۔ا س کونسل نے سارے ملک کے دورے کئے ‘ علماء ایک دوسرے کے مدارس میں گئے ۔ ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کی۔ اس تاثر کو شعوری طو رپر زائل کیا کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ اکابر کے اس طرز عمل نے نچلی سطح پر بھی انتہائی خوشگوار اثرات مرتب کئے۔پوری قوم نے علماء کی اس کاوش کو سراہا اور تحسین کی ۔ اس کونسل کی تشکیل میں حکومت پاکستان نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ایران کی طرف سے بھی بھر پور تعاون سامنے آیا۔ کونسل عمومی طور پر فضا میں پھیلی کدورت کو کم کرنے میں خاصی کامیاب رہی لیکن وہ ایسے اقدامات کی دیر پا منصوبہ بندی نہ کرسکی جو منافرت کے سرچشموں کا کلی طو رپر خاتمہ کردیتے۔ مثال کے طور پر ایسی کتب کی نشاندہی جو نفرت انگیز مواد رکھتی ہیں‘ مختلف مسالک کے مدارس کے نصاب تعلیم میں ہم آہنگی لانا‘ اساتذہ اور طلبہ کا باہمی تبادلہ‘ ایسے لٹریچر کی تیاری جو دوریاں کم کرسکے اور ملی یکجہتی کونسل کے زعماء کی طرف سے خطبات جمعہ کے لئے راہنما نکات وغیرہ۔ اس کے باوجود اس تجربے کے مفید اور محسوس کئے جانے والے اثرات مرتب ہوئے۔ دسمبر 2003ء میں مولانا نورانی کے انتقال کے بعد قاضی حسین احمد نے کونسل کی راہنمائی سنبھالی ۔ قاضی صاحب اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی او رپرجوش مبلغ ہیں۔ انہوں نے پورے عزم کے ساتھ مشن جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن اب صورت حال میں ایک جوہری تبدیلی آچکی ہے۔ہوا یہ کہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں امریکہ کے خلاف جذبات کا ایک ابال اٹھا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ملک سے باہر تھے۔ قیادت کا خلا بھی تھا اور مذہبی جو ش وجذبہ کی اٹھان بھی۔ علمائے کرام کو ایک سنہری امکان کی جھلک دکھائی دی۔ انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے ایک نیا سیاسی انتخابی اتحاد قائم کرلیا۔ جماعت اسلامی‘ جمعیت العلمائے اسلام (ف) ‘ جمعیت العلمائے اسلام (س)‘ جمعیت العلمائے پاکستان(نورانی) ‘ جمعیت اہل حدیث(ساجد میر) اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ( ساجد نقوی) ‘ ایم ایم اے کا حصہ بن گئے۔ یہی جماعتیں ملی یکجہتی کونسل کے اجزائے ترکیبی بھی تھیں۔ انتخابی سیاست نے علمائے کرام کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا او رملی یکجہتی کونسل راستوں کی دھول ہوگئی۔ ایم ایم اے پانچ برس صوبہ پختون خواہ کی حکمران رہی۔ مرکز میں اُسے توانا اپوزیشن کا درجہ حاصل تھا لیکن ملی یکجہتی کونسل کے اہداف و مقاصد اُس کی ترجیحات میں راہ نہ پاسکے۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا اور آج بارد گر کہہ رہا ہوں کہ ملی یکجہتی کونسل کو پھر سے زندہ ومتحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کام قاضی حسین احمد جیسا مرقلندر کرسکتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ وہ جماعت اسلامی کی عملی سیاست سے کنارہ کش رہتے ہوئے اپنی ساری توانائیاں اس کارخیر کے لئے مخصوص کردیں۔ الله نے انہیں بے پناہ صلاحیتیں بھی بخشی ہیں استعداد کار بھی اور جذبہ اخلاص بھی۔ جماعت کی سیاست کو محترم منور حسن اور ایم ایم اے کے احیاء کو مولانا فضل الرحمن پر چھوڑتے ہوئے وہ ملی یکجہتی کونسل کا پرچم اٹھا کر نکلیں او رآگے بڑھ کر اس تند ہوتی ہوئی موج خوں کا راستہ روکیں۔ ضروری نہیں کہ ہر شخض سیاست ہی کا ہو کے رہ جائے۔کرنے کے اور کام بھی ہیں اور یہ کام تو ایسا ہے جو قاضی صاحب جیسا کوئی مرد کار ہی کرسکتا ہے۔​
 

الف نظامی

لائبریرین
ملی یکجہتی کونسل کا قیام نعمت سے کم نہیں ، علامہ امین شہیدی

اسلام آباد(پ ر) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے میریٹ ہوٹل میں ملی یکجہتی کونسل کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کا قیام ملک کی موجودہ سیاسی اور مذہبی صورتحال کے پیش نظر کسی نعمت سے کم نہیں اور اس امر کا ادراک صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں امت کی وحدت کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین باہمی احترام کی پالیسی کو فروغ دینے کے لئے مصروف عمل ہے۔ انہوں نے اپنے ایک الگ بیان میں کہا کہ کالعدم تنظیموں کی فعالیت میں اہم کردار فنڈنگ کا ہے، جسے روکا جائے تو سب رک جائے گا۔ انہوں نے چیف جسٹس سے کالعدم تنظیموں کے سرپرستوں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
عیدالفطر کے موقع پر ملی یکجہتی کونسل کے صدر قاضی حسین احمد کا پیغام

اپنے پیغام میں قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک کے دوران ملک کے مختلف شہروں، خاص طور پر استور کے راستے میں بےگناہ مسافروں کا المناک قتل نیز کوئٹہ، کراچی، پشاور اور کامرہ وغیرہ میں پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعات پر وہ رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور عید سعید کے موقع پر ان غم ناک واقعات میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز۔ سابق امیر جماعت اسلامی و ملی یکجہتی کونسل کے صدر قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ ماہ رمضان المبارک کو اللہ کی فرماں برداری میں بسر کرنے والوں، عبادت گزاروں، غریبوں ومحروموں کی مدد کرنے والوں، اپنے واجبات ادا کرنے والوں اور اللہ سے طلبِ مغفرت و رحمت کرنے والوں کی خدمت میں وہ عید سعید کی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

آج جبکہ ہم عید منا رہے ہیں ہمارا وطن پاکستان اور عالم اسلام مشکل حالات میں گھرا ہوا ہے اور ان تمام مشکلات کی بنیادی وجہ باہمی اعتماد و یکجہتی کی کمی اور عالم اسلام میں اغیار کی بے جا مداخلت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے لیے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کریں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہوں اور اس ایمان کی وجہ سے ان کی روح آزاد ہو اور وہ غیروں کے احکام ماننے کے بجائے اپنے اللہ کے حکم کے مطابق عمل کریں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اس صورت حال کا ادراک کر رہے ہیں اور مثبت تبدیلیوں کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان میں مختلف مسالک کی مذہبی جماعتوں کا ملی یکجہتی کونسل میں اکٹھے ہو جانا اسی ادراک کا ایک اظہار ہے۔

ہم پاکستان کی حکومت، تمام سیاسی جماعتوں اور مسلح افواج سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس ملک کو ہر طرح کی غیرملکی مداخلت سے پاک کرکے اس ملک کی عزت وافتخار کو بحال کریں۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کے ایماء پر فیصلے کرنے کے بجائے ملک و قوم کے مفاد میں آزادانہ فیصلے کرنے کی روش اختیار کریں۔

رمضان المبارک کے دوران میں ملک کے مختلف شہروں، خاص طور پر استور کے راستے میں بےگناہ مسافروں کا المناک قتل نیز کوئٹہ، کراچی، پشاور اور کامرہ وغیرہ میں پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعات پر میں رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں اور عید سعید کے موقع پر ان غم ناک واقعات میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتا ہوں۔

عیدالفطر جو مسلمانوں کے نزدیک ایک مذہبی تہوار ہے، کے موقع پر ہمیں چاہیے کہ ستم رسیدہ، پسماندہ اور محروم لوگوں کو یاد رکھیں اور انھیں عید کی خوشیوں میں شریک کریں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام نے دیگر مذاہب و ادیان سے تعلق رکھنے والے انسانوں سے بھی حسنِ سلوک کی تعلیم دی ہے۔ عید کے موقع پر ہمیں غیر مسلم محروم افراد کی مدد کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور دنیا بھر کے محروم و مظلوم انسانوں کو موجودہ مشکلات سے نجات عطا فرمائے اور کشمیر، فلسطین اور دیگر خطوں میں آزادی کے لیے کوشاں مسلمانوں کو کامیابی نصیب فرمائے۔ برما کے مظلوم مسلمانوں کو ظالموں کے شر سے نجات عطا فرمائے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مولانا تنویر احمد علوی ملی یکجہتی کونسل کے رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ جامعہ محمدیہ کے نائب رئیس بھی ہیں۔ آپ نے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ایم اے اصول دین کیا، اس کے علاوہ درس نظامی وفاق المدارس سے 1997ء میں مکمل کیا۔ فیصل آباد جامعہ اسلامیہ امدادیہ سے دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی اور آج کل تدریس سے منسلک ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مدارس دینیہ اور ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے مولانا تنویر علوی کے ساتھ مدرسہ محمدیہ میں ایک نشست کا اہتمام کیا تھا، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں ملی یکجہتی کونسل کا احیاء عمل میں لایا گیا، اس سے کس حد تک امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔؟
تنویر احمد علوی: ملی یکجہتی کونسل مختلف مسالک اور فرقوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے تو یہ بہت زیادہ موثر کردار ہے۔ اگر یہ پلیٹ فارم سیاست میں الجھ گیا تو سیاست کی نظر ہو جائے گا، جیسے متحدہ مجلس عمل سیاست کا شکار ہو کر غیر فعال ہو گئی۔ ملی یکجہتی کونسل کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہونا چاہیے کہ مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد اور امن کو قائم کرکے اخوت کو فروغ دیا جائے۔ کونسل کی میٹنگ میں بھی یہ رائے دی تھی کہ دیکھا جائے کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کی راہ میں کون سے اسباب و عوامل مددگار ہوسکتے ہیں اور کونسے اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام مسالک کے ذمہ داران بیٹھیں اور ایک ضابطہ اخلاق طے کر لیں اور دیکھیں کہ اس ملک میں مختلف مسالک کے درمیان کیا چیزیں ہیں جو انتشار پیدا کر رہی ہیں اور کون سی ہیں جو پیار اور الفت پیدا کریں گی۔ اسطرح جو منفی چیزیں ہیں، ان کا خاتمہ کیا جائے اور مثبت چیزوں کو آگے بڑھایا جائے۔

اسلام ٹائمز: ابھی تک ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے کیا امور سرانجام دئیے گئے اور وہ کس حد تک باعث اطمینان ہیں۔؟
تنویر احمد علوی: میری رائے میں وہ جماعتیں جن پر شدت پسندی کا الزام پہلے سے موجود ہے، جب تک وہ جماعتیں اس اتحاد میں شامل نہ ہوں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ مثال کے طور پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ان سے متعلق سپاہ محمد ہے، اسی طرح دیوبندی حضرات کی طرف سے سپاہ صحابہ ہے۔ اسی طرح جمعیت علماء پاکستان میں سنی تحریک ہے۔ ملک میں امن یا فساد میں ان دھڑوں کا عمل دخل زیادہ ہے۔ تو ان کو اگر باہم بٹھایا جائے ان کے مسائل کو سنا جائے، شروع میں کچھ اجلاسوں میں تند و تیز باتیں ہوں گی، لیکن آہستہ آہستہ جب ان کے سامنے مشکلات رکھی جائیں کہ آپ کے اس نقطہ نظر سے اور اس انداز سے کیا کیا مسائل جنم لے رہے ہیں تو معاملہ حل ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: عام تاثر ہے کہ ان مذہبی فسادات میں انٹرنیشنل کانسپیریسی کارفرما ہے اور مذہبی فسادات میں بیرونی ممالک کی پشت پناہی کے شواہد موجود ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
تنویر احمد علوی: اس حوالے سے چونکہ عملاً میں اس میدان میں نہیں رہا۔ تمام ممالک کے اس خطے سے اپنے مفادات وابستہ ہیں۔ مثلاً روس کے مفادات کے تحفظ کے لئے بھی لوگ موجود ہیں، لیبیا ہے ایک دور کا ملک ہے لیکن اس کے مفادات کے تحفظ کے لئے بھی پاکستان میں لوگ موجود ہیں۔ کچھ لوگ غلط فہمی میں استعمال ہو رہے ہوتے ہیں، ان کے سامنے مشکلات رکھی جائیں، تو میرا خیال ہے ان کو قائل کیا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے اقدامات میں سے ایک خوش آئند اقدام جمعہ کمیشن کا قیام ہے، جو تند و تیز خطباء حضرات کو کنٹرول کرے گا، یہ عملی طور پر کیسے ممکن ہوگا۔؟
تنویر احمد علوی: ایک رائے جو کونسل کے اجلاس میں چل رہی تھی وہ یہ تھی کہ تمام حضرات کو لکھی ہوئی تقریر دے دی جائے اس کا تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ کچھ بنیادی نکات ایسے ہونے چاہییں جن پر ہمارا اتحاد ہو۔ تمام مسالک و مساجد ان بنیادی نکات پر متفق ہوں، تاکہ وہ نکات ہر جمعے کو بیان ہو جایا کریں۔ مثال کے طور پر آج کل ڈرون حملے چل رہے ہیں یا برما کی صورتحال ہے، ان پر رہنمائی کر دی جائے کہ اگر آپ ان موضوعات پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو فلاں فلاں آیات و احادیث کو ضرور دیکھ لیں، باقی گفتگو ہر مقرر اپنی ہی کرے گا، لیکن چند موضوعات ایسے ہیں جن پر پورے پاکستان کی مساجد سے آواز اٹھے۔

اسلام ٹائمز: ابھی تک ملی یکجہتی کونسل نے مشترکات اور متفقات پر جو کام سرانجام دیا ہے، اس کے بارے میں بتائیں۔؟
تنویر احمد علوی: میرا خیال ہے ابھی تک کام ہوا نہیں ہے لیکن کام ہوسکتا ہے، مثلاً میں نے ایک رائے دی تھی کہ تمام مدارس کا ایک مشترکہ بورڈ ہو، ہمارے ہاں مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے، خواہ وہ اہل تشیع کے مدارس ہوں یا اہل سنت کے، ان میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس میں کافی حد تک یکسانیت موجود ہے، مثلاً دیوبندی اور بریلوی مدارس میں منطق کی جو کتب پڑھائی جاتی ہیں، وہ اہل تشیع حضرات کی لکھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح اہل تشیع کے مدارس میں نحو و صرف کی جو کتب پڑھائی جاتی ہیں وہ اہل سنت کی تحریر کردہ ہیں۔ جب پہلے سے اس قدر وسعت ہمارے اندر موجود ہے کہ ہم ایک دوسرے کی کتب پڑھا سکتے ہیں تو نصاب کو بھی ہم ایک بنا سکتے ہیں۔ نصاب اور فنون کی کتب ایک ہو جائیں اور احادیث اور فقہ کی کتب اختیاری مضامین ہو جائیں وہ ہر ایک مسلک اپنی پڑھائے۔ اور اوپر سند سب کو ایک ہی جاری ہو۔ اسطرح میں سمجھتا ہوں کہ ہم کافی حد تک یکسانیت اور وحدت پیدا کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک رائے یہ بھی آئی تھی کہ تمام مسالک کے طلاب اور نوجوانوں کی مشترکہ ورکشاپ رکھی جائے، یہ بھی وحدت کے لئے ممد و معاون ثابت ہوگی۔؟
تنویر احمد علوی: بالکل جب آپس میں ہم مل کر بیٹھتے ہیں تو بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن ہوتا ہے۔ مثلاً اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔ اگر مل کر بیٹھیں ایک دوسرے کے علماء کو دیکھیں تو بہت سی پیچیدگیاں ختم ہوسکتی ہیں۔ ایک ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے بڑوں کو اگر احترام نہیں دے سکتے تو ان کو برا بھلا نہ کہا جائے، آپ یہ کہیں کہ دوسروں کے اکابر کو بھی اسی طرح احترام دیں جس طرح اپنے اکابرین کا دیتے ہیں تو یہ ناممکن ہے۔

میں اب بریلوی حضرات سے کہنا شروع کر دوں کہ دیوبندی اکابر کا اسی طرح احترام کریں جیسے مولانا احمد رضا خان کا آپ احترام کرتے ہیں یا وہ کہیں کہ آ پ جیسے مولانا قاسم نانوتوی کا احترام کرتے ہیں اسی طرح آپ مولانا احمد رضا خان کا احترام کریں تو یہ ناممکن چیزیں ہیں۔ لیکن میں اگر سرعام مولانا احمد رضا خان بریلوی پر تنقید نہ کروں، وہ سرعام مولانا قاسم نانوتوی پر تنقید نہ کریں تو یہ دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

اسی طرح اہل تشیع اور اہل سنت حضرات ایک دوسرے کے بڑوں کو کچھ نہ کہیں۔ اپنے نظریات اپنی درسگاہوں تک محدود کریں اور اہل سنت اپنی درسگاہوں میں اپنے طلباء کو پڑھائیں اور باہر عوام کے سامنے یہ مسائل نہ چھیڑے جائیں، تو عوام باہم شیر و شکر ہوسکتی ہے، اکٹھی رہ سکتی ہے۔ عوام کو اپنی نماز، عبادات، مسائل پڑھائے جائیں وہ ہے تعلیم، تعلیم کی حد تک پڑھائے جائیں۔ لیکن عوام کے سامنے ایسی چیزیں نہ رکھی جائیں، جن سے باہمی غلط فہمیاں اور الجھنیں جنم لیتی ہیں، اس طرح ہم امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دشمن ہمارے درمیان موجود اختلافات کو استعمال کرکے ہمیں کمزور کر رہا ہے، کیا یہ حقیقت ہمارے پیش نظر ہے۔؟
تنویر احمد علوی: اہل علم حضرات کی زبان عام کرنے کی اشد ضرورت ہے، جو علمی انداز میں عقائد کو بیان کریں، علمی انداز سے مسائل سمجھانے سے کبھی آگ نہیں لگتی۔ انہیں مسائل کو اہل علم کی بجائے جب خطیب بیان کرتے ہیں تو وہ اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں، جس سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ علمی انداز سے ایک دوسرے کے مسائل کو پڑھا جاتا ہے، سنا جاتا ہے، لیکن انہیں مسائل کو جب خطیب بیان کرتے ہیں تو اس سے آگ لگتی ہے اور مسائل و اختلافات بڑھتے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل اگر اپنا مثبت کردار پیش کرے اور اپنی اہمیت اجاگر کرے تو سارے لوگ ان کو تسلیم کریں گے، لیکن اگر یہ شروع سے ہی متنازعہ بن جائیں اور قومی مسائل میں ان کا کوئی کردار نہ ہو تو یہ اپنی حیثیت کھو بیٹھیں گے۔

مشرف دور میں مدارس کے خلاف مہم چلی، ان دنوں جامعہ فریدیہ کے اندر تنظیمات مدارس دینیہ کا پروگرام ہوا۔ تو وہاں جامعہ فریدیہ کی چھت پر پہلی لائن کے اندر جو شخصیات موجود تھیں، ان میں علامہ ساجد میر، علامہ ساجد نقوی، حافظ حسین احمد صاحب، ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب۔ بہرحال ہر مکتبہ فکر کی صف اول کی قیادت موجود تھی، تو وہاں ہمارے صحافی سے ایک گورا صحافی پوچھتا ہے، یہ کون کون ہیں۔ اسے بتایا گیا کہ یہ فلاں فلاں ہیں اور ان کا تعلق ان مسالک سے ہے تو وہ بےساختہ بولا کہ پھر حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ تو اگر یہی مثال ہم ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے پیش کریں تو اگر یہ تمام لوگ اکٹھے ہوکر چلیں تو قومی معاملات میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر معاملہ سر سے گزر جائے اور یہ تمام اکٹھے ہوکر ایک معمولی سی مٹنگ کرلیں، تو نہ ہی ان کو عوام میں پذیرائی ملے گی اور نہ ہی یہ مزید چل سکیں گے۔

اسلام ٹائمز: مصالحتی کمیشن کی غرض و غایت کیا ہے۔؟
تنویر احمد علوی: مختلف مسالک کے درمیان جھگڑوں کا حل تلاش کرنا، اگر شیعہ سنی جھگڑا ہوتا ہے تو شیعہ سنی اکابر یہ دیکھیں کہ زیادتی کس کے ساتھ ہو رہی ہے، مظلوم کا ساتھ دیں اور ظالم کا ہاتھ روکیں۔ یہاں یہ نہ دیکھا جائے کہ میرا مسلک کونسا ہے، اس سے ہمارے مسائل حل ہوں گے۔ میں یہاں ایک مثال دیتا ہوں۔ مولانا مظفر حسین ایک بزرگ گزرے ہیں، آج سے دو سو سال پہلے، مسلمانوں کا وہاں جھگڑا تھا ہندؤوں کے ساتھ مندر کے سلسلے میں، ہندو کہتے تھے کہ یہ جگہ ہمارے مندر کی اور مسلمان کہتے تھے کہ یہ مسجد کی جگہ ہے۔ آخر میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مولانا مظفر حسین آکر جو فیصلہ کریں ہمیں منظور ہے، مولانا مظفر حسین آئے انہوں نے دونوں کا قضیہ سنا اور فیصلہ دیا کہ میری رائے میں یہ جگہ ہندؤوں کی ہے۔ وقتی طور پر بہت سے مسلمان مولانا کے خلاف ہوگئے، لیکن اس واقعے کے بعد بہت سے ہندو مسلمان ہوگئے۔ اگر ہمارے اکابرین اس انداز میں فیصلے کریں تو ظلم کرنے والے بھی خائف ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ملی یکجہتی کونسل کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی۔؟
تنویر احمد علوی: پارلیمنٹ کے اندر موجود افراد کی ذہن سازی کی جائے کہ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہ بننے پائے۔ اب اسلامی نظریاتی کونسل قانون کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھ کر اپنی سفارشات مرتب کرتی ہے، پارلیمنٹ میں موجود افراد کی ذہن سازی کی جائے، تاکہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آواز اٹھائیں۔ دین کا درد رکھنے والے علما وقتاً فوقتاً اکٹھے ہو کر پارلیمنٹ کے ممبران سے ملاقاتیں کریں، تاکہ ان کی ذہن سازی کی جاسکے۔

احتجاج سے بڑھ کر اگر ناصحانہ انداز اپنایا جائے تو زیادہ فائدہ ہوگا، ہر چیز کا حل احتجاج میں نہیں ہے۔ حکومتی افراد سے ملاقاتیں کی جائیں اور ان کے سامنے مسائل رکھے جائیں کہ یہاں قرآن و سنت سے متصادم قوانین چل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سی تحریکیں چلی ہیں، ختم نبوت کی تحریک کیوں کامیاب ہوئی۔ اس لئے کہ اس تحریک کے قائدین کا انداز ناصحانہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے علماء کی یہ روش رہی ہے کہ اپنی مسلمان حکومت سے بھی وہی طریقہ کار رکھا گیا جو انگریز سے رو ا رکھا جاتا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیار محبت اور خیر خواہی کا طریقہ کار اپناتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کروایا جائے۔
 
آخری تدوین:

S. H. Naqvi

محفلین
بہت خوب نظامی صاحب، بہت اچھی اور بروقت شمولیت ہے۔ واقعی ملی یکجہتی کونسل ہی یہ کام کر سکتی ہے اور اس سلسلے میں اگر ملی یکجہتی کونسل کو صرف چند بااثر اور مخلص راہنما میسر آ جائیں تو میرا خیال ہے کہ زیادہ نہیں تو کچھ ہی عرصے میں شدت پسندی میں کمی آ جائے گی اور بہت سے مسائل حل ہو سکیں گے مگر اس حوالے سے کونسل کو کچھ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، مثلا ایسے کسی سانحہ پر بجائے اس کے ٹی این ایف جے احتجاج اور سوگ کی کال دے، کونسل کی طرف سے ملک بھر میں احتجاج اور سوگ کی کال ہو اور کونسل ہر مکتبہ فکر کے علمائے کو مجبور کرے کہ وہ عوام کو ایسے احتجاج میں شرکت کرنے پر اکسائیں اور انھیں ایسے سانحات کی ہولناکی کا احساس دلائیں۔ اس کے علاوہ دوسرے مرحلے میں کونسل عدلیہ اور انتظامیہ پر دباو ڈال کر ایسے سانحہ کی فوری تحقیقات کروائے اور مرتکب مجرمان کوبے نقاب کروانے تک چین سے نہ بیٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔! اور یقین کریں کہ اگر ایک دفعہ کونسل ایسا فعال کردار ادا کرے تو بہت کہ کم چانسز ہیں کہ دوبارہ ایسہ سانحہ ہو مگر پھر وہی کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کونسل او آئی سی کی طرح نہ ہو بلکہ ہر وقت فعال، بیدار اور ایسے سانحات کے بارے میں حساس ہو۔۔۔۔۔!
 

طالوت

محفلین
خدا کرے کہ کوششیں کامیاب ہوں ۔ لیکن میرا پھر اصرار ہے کہ بنیادی خرابی کی درستگی کے بغیر کوئی بھی حل ناپائیدار ہو گا۔

میر انیس ۔ آپ نے ایک مراسلے میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اختلاف کی مثال دی جو اس معاملے میں درست نہیں ، یہاں مثال کیتھولک اور پروٹسنٹ کی مناسب ہو گی نا کہ عیسائی یہودی۔

جہاں تک عدالتوں کا معاملہ ہے وہ تو بس فیصلہ ہی کرتی ہیں عملدرآمد حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ۔
 

میر انیس

لائبریرین
خدا کرے کہ کوششیں کامیاب ہوں ۔ لیکن میرا پھر اصرار ہے کہ بنیادی خرابی کی درستگی کے بغیر کوئی بھی حل ناپائیدار ہو گا۔

میر انیس ۔ آپ نے ایک مراسلے میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اختلاف کی مثال دی جو اس معاملے میں درست نہیں ، یہاں مثال کیتھولک اور پروٹسنٹ کی مناسب ہو گی نا کہ عیسائی یہودی۔

جہاں تک عدالتوں کا معاملہ ہے وہ تو بس فیصلہ ہی کرتی ہیں عملدرآمد حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ۔
میرے بھائی آپ میری بات سمجھے نہیں اگر میں یہ مثال دیتا تو یہ تو ایک ہی مذہب کے دو فرقے ہیں نا میں نے مثال دی دو مختلف فرقوں کے اتحاد کی جو سب کو نظر آرہا ہے یہودی اور عیسائی دونوں مسلمانوں کے خلاف کتنے متحد ہیں اسرائیل خالص یہودیوں کا ہے اسکے باوجود عیسائی انکی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ عیسائی اپنے اوپر اور اپنے خداوند کے اوپر ظلم ڈھانے والوں سے اتحاد کرکے انکی حمایت کرتے ہیں مسلمانوں کے نمقابلے پر حالانکہ مسلمانوں نے انکے ساتھ کیا کیا ہے۔ آنحضرت (ص) نے تو انکے ساتھ کوئی جنگ بھی نہیں لڑی ہاں صرف ایک مباہلہ ہوا تھا جس میں نہ کوئی تلوار چلی نہ کوئی تیر ۔ تو ہم مسلمانوں میں اتحاد کیوں نہیں ہوسکتا
 

سید ذیشان

محفلین
قتل کئے گئے 22 لوگوں میں 4 کا تعلق اہل سنت سے تھا۔ ان لوگوں کو اس لئے قتل کیا گیا کہ وہ بے گناہ شیعوں کے قتل کی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ دہشت گردوں کے منہ پر طمانچہ ہے اور ثابت کرتا ہے زیادہ تر اہل سنت کا ان گروپوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ربط
 
Top