نیرنگ خیال
لائبریرین
آج ماؤں کا عالمی دن ہے۔ گورے اس دن کو شاید اس لیے مناتے ہیں۔ کہ اس دن وہ اولڈ ہاؤسز میں جاتے ہیں۔ اپنی ماؤں کے گلے لگتے ہیں۔ اور واپس آجاتے ہیں۔ سال کے مصروف دنوں میں وہ اک دن اپنی ماں کا بھی رکھتے ہیں۔ لیکن میرے جیسے جن کے دل کا اک حصہ اپنی ماں سے ہی جڑا رہتا ہے۔ روز یہی دن مناتے ہیں۔
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
ابھی امی سے بات کر رہا تھا۔ تو یہی موضوع زیر بحث تھا۔ لیکن فون ختم ہونے کے بعد اپنے بچپن سے جڑی بہت سی باتیں یاد آگئیں۔ اور پھر میں دیر تک ان یادوں میں بھیگتا رہا۔ ان کا لطف لیتا رہا۔ کتنا پرمسرت دور تھا میرے بچپن کا۔ کتنی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں اس بچپن سے۔ آئیں آپ کو اک جھلک دکھاتا ہوں۔
بچوں کو ٹانگیں جوڑ کر پیروں پر بٹھا کر لوری دینے کا عمل شاید آپ میں سے کسی نے دیکھا ہو۔۔ امی مجھے کافی دیر دیر تک یوں ہی جھولا جھلاتی تھیں۔ اس لوری کے بول مجھے ابھی تک ازبر ہیں۔
نین میرا چاند نین میرا تارا
ابو کو لاڈلا، امی کا پیارا
نین میرا چاند، نین میرا تارا
آیا ہے دیکھو بادل کا گھوڑا
بیٹھے گا اس پر ننھا بھگوڑا
اڑتا پھرے گا مست ہواؤں میں
گھوڑا تمہارا
نین میرا چاند، نین میرا تارا
کچھ دن پہلے یہ مجھے یاد آئی۔ میں نے بھی عشبہ کو یہی لوری دینی شروع کر دی۔ نین کی جگہ اب عشبہ کے لفظ نے لے لی لوری میں۔ اسی انداز میں جس میں خود جھولتا تھا۔ لیکن میری ٹانگیں کچھ دیر بعد ہی جواب دے گئیں۔ لیکن عشبہ کو بہت اچھا لگا۔ اور اب میں روز اس کو جھلاتا ہوں۔ لیکن سوچتا ہوں کہ میں تین منٹ سے زیادہ ابھی تک اس کو جھولا نہیں دے پایا۔ اور خود وہیں پر سو جایا کرتا تھا۔ کتنا حوصلہ تھا۔ دن بھر کی مشقت سے تھکی ہاری ماں۔۔ لکڑیاں جلاتی۔۔ کھانے بناتی۔۔ گھربھر کی صفائی کرتی۔۔ اور ابو کے پورا دن جو مہمان آتے رہتے ان کے چائے کا بندوبست ساتھ ساتھ۔۔ اور پھر میرے جیسی اولاد کو بھی سنبھالنا۔۔۔ یہ کام کتنے مشکل ہیں۔ مجھے دفتر سے گھر آکر مارکیٹ جاتے موت پڑتی ہے۔ اور ماں۔۔۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ نہیں بیٹا۔۔ اب تھک گئی ہوں۔ آج لوری نہیں سناؤں گی۔۔۔
اس کے بعد ہم تھوڑے بڑے ہوگئے۔ تو روز رات کو کسی صحابؓی۠ کے ایمان لانے کا واقعہ سننے کو ملتا۔ کبھی کبھی کوئی کہانی بھی سننے کو ملتی۔ کچھ کہانیاں ہمیں بہت پسند تھیں۔ وہ ہم روز سنا کرتے تھے۔ اس میں اک تو امی گا کر سنایا کرتی تھیں۔ اب گھر گیا تو امی سے دوبارہ سن کر لکھوں گا یہاں۔۔ وہ کچھ یوں تھی۔۔
ارے کسان ذرا سننا
یہ کیکر تم گرا دینا
یہ ہے کوے کی مکاری
میں بے کس اور بیچاری
گلولا لے اڑا میرا
لگایا پیڑ پہ ڈیرا
یہ کافی لمبی تھی۔ اب میں بھول گیا ہوں۔ اک کوئل کی کہانی ہوتی تھی۔ وہ بھی کبھی لکھوں گا۔
لیکن کتنا خوبصورت ماضی تھا۔ ماں کی مامتا سے بھرپور۔۔۔۔ اب دیکھتا ہوں تو زمانہ بدل گیا ہے۔ اب مائیں اپنے بچوں کو لوریاں نہیں سناتی۔ ٹی وی دکھا دیتی ہیں۔ رات کو بچہ دو بار اٹھ جائے تو دیر تک بولتی رہتی ہیں۔ بچوں کو اسلامی تعلیمات نہیں دیتیں۔ صحابہؓ کرام کے ایمان افروز واقعے نہیں سناتی۔ مجھے وہ دور بڑا اچھا لگتا ہے۔ میرا دل کرتا ہے پھر وہی ماضی آجائے۔ میں وہیں چلا جاؤں۔۔ کبھی بڑا نہ ہوں۔۔ بس ماں کی محبت میں صبح و شام بھیگتا رہوں۔۔
آپ لوگ بھی بتائیں کہ آپ کے بچپن کی لوریاں اور کہانیاں کونسی تھیں۔