ماں

تلمیذ

لائبریرین
کیا احساس محرومی ہے! اور کیا انداز اظہار ہے!
یہ تصویر دیکھ کرعمر کے اس حصے میں اچانک بے ساختہ اپنی مرحومہ والدہ کی یاد آنے پر آنکھوں سے امڈ آنے والے آنسوؤں کو کہاں لے جاؤں، نیلم اور بٹ جی؟ کاش ان کی قبر ہی کہیں قریب ہوتی جس کی مٹی میں انہیں ملا سکتا۔ اللہم غفر لہا!!
زیادہ لکھنے سے معذور ہوں، سوائے اس کے کہ جن خوش نصیبوں کی مائیں حیات ہیں، ان سے التماس ہے کہ جیسے بھی ہو، اللہ تعالے کی اس نعمت کی قدر کریں۔ کیونکہ عاطف بٹ صاحب کی پوسٹ کردہ تصویر کی انگریزی عبارت کا نچلا حصہ عین حقیقت ہے۔
 
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ماں-کے-آٹھ-جھوٹ۔۔-۔۔۔-ایک-عربی-آزاد-نظم-کا-ترجمہ.30633/
ایک عربی فورم پر ڈاکٹر مصطفیٰ اکّاد کی ایک آزاد نظم پڑھی۔ سوچا اسکا نثری ترجمہ کرکے آپکے ساتھ شئیر کیا جائے:
میری ماں نے ہمیشہ حقیقت بیان کی ہو، ایسا بھی نہیں
آٹھ مرتبہ تو اس نے مجھ سے ضرور جھوٹ بولا۔ ۔ ۔ ۔۔
یہ قصہ مری ولادت سے شروع ہوتا ہے
میں اکلوتا بیٹا تھا اور غربت بہت تھی
اتنا کھانا نہیں ہوتا تھا جو ہم سب کو کافی ہوجائے
ایک دن ہمارے گھر کہیں سے چاول آئے۔ ۔ ۔
میں بڑے شوق سے کھانے لگا اور وہ کھلانے لگی
میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی پلیٹ کے چاول بھی میری تھالی میں ڈال دئیے۔
بیٹا یہ چاول تم کھالو مجھے تو بھوک ہی نہیں ہے۔
یہ اسکا پہلا جھوٹ تھا۔ ۔ ۔ ۔۔

اور جب میں قدرے بڑا ہوا تو ایک دن مچھلی پکڑنے گیا۔ ۔
اس چھوٹی سی نہر سے جو ہمارے قصبے سے گذرتی تھی
یوں ہوا کہ دومچھلیاں میرے ہاتھ لگیں۔ ۔ ۔
بھاگا بھاگا گھر آیا اور جب کھانا تیار ہوگیا
دونوں مچھلیاں سامنے تھیں اور میں شوق سے کھا رہا تھا۔
دیکھا کہ ماں صرف کانٹوں کو چوس رہی تھی۔ ۔۔
میں نے جب یہ دیکھ کر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تو کہنے لگی۔ ۔
تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے مچھلی کا گوشت پسند نہین۔ تم تو کھاو۔ ۔ ۔
اور یہ اسکا دوسرا جھوٹ تھا۔

اور پھر میرا باپ مرگیا اور وہ بیوہ ہوگئی۔ ۔ ۔
اور ہم دونوں گھر میں اکیلے رہ گئے۔ ۔ ۔۔
کچھ دن میرا چچا جو بہت اچھا آدمی تھا
ہمیں کھانا اور ضروریاتِ زندگی لاکر دیتا رہا۔ ۔ ۔ ۔
ہمارے ہمسائے اسے آتے جاتے غور سے دیکھنے لگے۔
ایک دن انہوں نے ماں سے کہا
زندگی ہمیشہ اس طور پر گذاری نہیں جاسکتی
بہتر ہے کہ تم اس آدمی سے شادی کرلو
لیکن میری ماں نے چچا کو ہی آنے جانے سے منع کردیا
مجھے کسی ساتھی کی اور کسی کی محبت کی کوئی ضرورت نہیں ہے
یہ اسکا تیسرا جھوٹ تھا۔ ۔ ۔ ۔۔

اور جب مین کچھ اور بڑا ہوا اور بڑے مدرسے میں جانے لگا
تو میری ماں گھر میں ہر وقت کپڑے سینے لگی۔ ۔ ۔
اور یہ کپڑے وہ گھر گھر جاکر بیچتی تھی۔ ۔ ۔
سردیوں کی ایک رات تھی، اور ماں ابھی تک گھر واپس نہیں آئی تھی
میں تنگ اسے ڈھونڈنے باہر نکل پڑا۔
میں نے اسے کپڑوں کا ایک گٹھر اٹھائے دیکھا
گلیّوں میں گھر گھر دروازےکھٹکھٹا رہی تھی۔
میں نے کہا کہ ماں چلو اب گھر چلو، باقی کام کل کرلینا۔ ۔
کہنے لگی تم تو گھر جاو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دیکھو کتنی سردی ہے اور بارش بھی ہو رہی ہے
میں یہ دو جوڑے بیچ کر ہی آونگی۔ ۔ ۔
اور فکر نہ کرو میں بالکل ٹھیک ہوں اور تھکاوٹ بھی نہیں ہے۔ ۔
یہ اسکا چوتھا جھوٹ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور پھر میرا مدرسے میں آخری دن بھی آیا۔ ۔
آخری امتحانات تھے۔ ۔
ماں میرے ساتھ مدرسے گئی
میں اندر کمرہءِ امتحان میں تھا۔ اور وہ باہر دھوپ میں کھڑی تھی
بہت دیر بعد میں باہر نکلا۔ میں بہت خوش تھا
ماں نے وہیں سے ایک مشروب کی بوتل خریدی اور میں غٹا غٹ پی گیا۔
میں نے شکرگذار نظروں سے اسے دیکھا۔ ۔ ۔
اسکے ماتھے پر پسینے کی دھاریں چل رہی تھیں۔
میں نے بوتل اسکی طرف بڑھا دی
پیو ناں ماں۔ ۔۔
لیکن اس نے کہا
تم پیو، مجھے تو بالکل پیاس نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔
یہ اسکا پانچواں جھوٹ تھا۔

اور جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوگیا تو ایک نوکری مل گئی
میں نے سوچا کہ اب یہ مناسب وقت ہے کہ ماں کو کچھ آرام دیا جائے
اب اسکی صحت پہلے جیسی نہیں تھی
اسی لئے وہ گھر گھر پھر کر کپڑے نہیں بیچتی تھی
بلکہ بازار میں ہی زمین پر دری بچھا کر کچھ سبزیاں وغیرہ فروخت کر آتی تھی۔
جب میں نے اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ اسے دینا چاہا
تو اس نے نرمی سے مجھے منع کردیا۔ ۔
بیٹا ابھی تمہاری تنخواہ تھوڑی ہے، ۔ ۔
اسے اپنے پاس ہی رکھو جمع کرو، میرا تو گذارہ چل ہی رہا ہے
اتنا کما لیتی ہوں جو مجھے کافی ہوجائے۔ ۔ ۔
اور یہ اسکا چھٹا جھوٹ تھا۔ ۔ ۔

اور جب میں کام کے ساتھ ساتھ مزید پڑھنے لگا اور مزید ڈگریاں لینے لگا
تو میری ترقی بھی ہوگئی۔ ۔ ۔
میں جس جرمن کمپنی میں تھا، انہوں نے مجھے اپنےہیڈ آفس جرمنی میں بلالیا۔
اور میری ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوئی۔ ۔
میں نے ماں کو فون کیا اور اسے وہاں میرے پاس آنے کو کہا
لیکن اسے پسند نہ آیا کہ مجھ پر بوجھ بنے۔ ۔ ۔
کہنے لگی کہ تمہیں تو پتہ ہے کہ میں اس طرزِ زندگی کی عادی نہیں ہوں
میں یہاں پر ہی خوش ہوں۔ ۔ ۔۔
اور یہ اسکا ساتواں جھوٹ تھا۔ ۔ ۔ ۔۔

اور پھر وہ بہت بوڑھی ہوگئی۔ ۔ ۔ ۔
ایک دن مجھے پتہ چلا کہ اسکو جان لیوا سرطان ہوگیا ہے
مجھے اسکے پاس ہونا چاہئیے تھا لیکن ہمارے درمیاں مسافتیں حائل تھیں
پھر جب اسے ہسپتال پہنچادیا گیا تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ ۔
میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وطن واپس آیا اسکے پاس
وہ بستر پر تھی ، مجھے دیکھ کر اسکے ہونٹوں پر ایک مسکان آگئی۔ ۔ ۔
مجھے اسے دیکھ کر ایک دھچکا سا لگا اور دل جلنے لگا۔ ۔
بہت کمزور بہت بیمار لگ رہی تھی ۔ ۔
یہ وہ نہیں تھی جسکو میں جانتا تھا۔ ۔ ۔۔
میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ۔۔ ۔ ۔
لیکن ماں نے مجھے ٹھیک سے رونے بھی نہیں دیا۔ ۔
میرِی خاطر پھر مسکرانے لگی
نہ رو میرے بیٹے، مجھے بالکل کوئی درد نہیں محسوس ہورہی۔ ۔ ۔ ۔
اور یہ اسکا آٹھواں جھوٹ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسکے بعد اس نے آنکھیں موند لیں۔ ۔ ۔
اور اسکے بعد پھر دوبارہ کبھی نہیں کھولیں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔
 

تلمیذ

لائبریرین
عربی نظم کا نثری ترجمہ کرنے کی آپ یہ کاوش قابل ستائش ہے، جناب۔
در اصل یہ احساسات کےمعاملے ہیں۔ اور یقینا ہم سب اپنی زندگی کئی مرتبہ ا ن کا سامناکرتے ہیں ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس عظیم رشتے (جو میرے نزدیک واحد خالص انسانی رشتہ ہے) کی قدر کی جائے اس سے پہلے کہ اس سے محروم ہو جانے کا وقت آ جائے۔
 
عربی نظم کا نثری ترجمہ کرنے کی آپ یہ کاوش قابل ستائش ہے، جناب۔
در اصل یہ احساسات کےمعاملے ہیں۔ اور یقینا ہم سب اپنی زندگی کئی مرتبہ ا ن کا سامناکرتے ہیں ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس عظیم رشتے (جو میرے نزدیک واحد خالص انسانی رشتہ ہے) کی قدر کی جائے اس سے پہلے کہ اس سے محروم ہو جانے کا وقت آ جائے۔
محرومی کی بات آپ نے کی تو چلتے چلتے اس محرومی کا قصہ بھی پڑھتے چلیں۔۔۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سناٹا.24876/
سناٹاآج صبح اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو خلافِ معمول ماں جی کو وہاں موجود پایا۔ یہ کیا؟۔ ۔ ماں جی ایکوریم کے پاس، کارپٹ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی ہیں اور بڑی محویت سے اس میں کچھ دیکھ رہی ہیں۔ آنکھوں میں وہی بچوں جیسی دل چسپی اور حیرت ہے۔ میں دبے پاوءں چلتا ہوا انکے پیچھے آ کر انکے کندھوں کے اوپر سے ایکوریم میں جھانکنے لگا۔ نیلی نیلی روشنیوں سے جگمگاتے ہوئے ایکوریم میں رنگ برنگ کی مچھلیاں ہیں۔ ماں جی کی توجہ ایک ننھی سی گولڈ فش پر ہے جو تہہ میں پڑے ہوئے کنکروں کے آس پاس تھرک رہی ہےاور ان کنکروں میں چھپے ہوئے خوراک کے ریزے بار بار منہ کھول کر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انکو اس منظر میں نجانے کیا خوشی مل رہی ہے۔ مسکرا رہی ہیں۔۔۔ ماں جی بھی عجیب ہیں۔
میں نے چپکے سے اپنے بازو انکے گرد حمائل کردیئے ہیں لیکن انکی توجہ میں خلل نہیں آیا ۔ بس میرے ہاتھ کو پکڑ لیا ہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ کتنا عرصہ ہو گیا ہے ہم دونوں ماں بیٹے کو اس طرح کی فراغت ملے ہوئے۔ اِس لمحے مجھے شدت سے خواہش ہو رہی ہے کہ انکا سر اور کندھے دبا دوں۔ کافی عرصے سے انکا سر نہیں دبایا ۔ اور وہ دبانے بھی کب دیتی ہیں۔ میری انگلیاں انکے بالوں میں مساج کرنے لگیں تو انکی محویت ٹوٹی اور فوراَ میرا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا۔۔۔ ' ' اوںہوں۔۔رہن دے"'۔ لیکن میں نے بھی آج فیصلہ کر لیا ہے کہ ماں جی کی ایک نہیں سننی۔ میرے ہاتھ انکے نحیف و نزار کندھوں کو دبانے لگے۔
جب سے ماں جی کے ایک بازو اور ایک ٹانگ پر فالج کا حملہ ہوا ہے، چلنا پھرنا بالکل موقوف ہوگیا ہے اور تقریباَ بستر سے ہی لگ کر رہ گئی ہیں۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ فالج سے انکا ذہن بھی متاثر ہوا ہے۔ گفتگو میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ جو کہنا چاہتی ہیں کہہ نہیں سکتیں۔ زبان ساتھ نہیں دے پاتی۔اپنی ضروریات بتانے سے قاصر ہو گئی ہیں۔ ہم لوگ صرف انکی آنکھیں دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں کہ شائد پیاس لگی ہے یا شائد باتھ روم جانا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جائے گی۔
خیر۔۔۔ بات ہورہی تھی ماں جی کی۔ میں کندھوں اور گردن کے پٹھوں کا مساج کرتے کرتے سوچ رہا ہوں کہ ماں جی کی عادت ابھی تک نہیں گئی۔ جب بھی میں انکے پاس بیٹحھ جاتا تھا تو بغیر کچھ کہے سنے میرے بالوں کو یا میرے ماتھے کو سہلانا شروع کر دیتی ہیں۔ اب بھی انکا ہاتھ میرے سر کو ڈھونڈھ رہا ہے۔انکو اس کشمکش سے بچانے کیلئے میں انکے پاوءں کی طرف آ گیا ہوں۔
''لیٹ جاوء تسی''۔
اور وہ کسی فرمانبردار بچے کی طرح کارپٹ پر ہی لیٹ گئیں۔میں انکے پاوءں دبا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ ماں جی بھی عجیب ہیں۔مدت ہو گئی مجھے حسرت ہی رہی کہ کبھی تو ماں جی مجھ سے کوئی فرمائیش کریں۔میں نے جب بھی چھٹی پر وطن واپس جانا ہوتا ہے پوچھ پوچھ کر تھک جاتا ہوں کہ بتائیں آپ کے لئیے کیا لیکر آوّں، اُدھر سے بس ایک ہی جواب ہوتا ہے۔' "وے رہن دے۔۔بس توں آجا"'۔ ایک دفعہ سوچ سوچ کر میں نے انکے لئیے ایک شال بھیج دی۔اتنی خوش ہوئیں کہ گھر میں جو بھی آتا وہ شال ضرور دکھائی جاتی۔ "'ویکھ۔۔میرے ممود نے پیجی ایہہ''۔
کوئی انکا معمولی سا کام بھی کردے، بغیر کہے پانی پلا د ے یا اکیلی بیٹھی ہوں اور ہم میں سے کوئی قریب آ کر بیٹھ جائے تو اس قدر شکر گذار نگاہوں سے دیکھتی ہیں کہ مارے شرمساری کےانسان کو اپنا آپ اپنی ہی نگاہوں میں بے حد حقیر دکھائی دینے لگتا ہے۔پہلے تو ایسی کسی بات پر دعائیں دینا شروع ہو جاتی تھیں لیکن جب سے زبان نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے، یہ دعائیں اب آنکھوں سے نکلتی ہیں آنسووّں کی جھڑی کی صورت۔اب دیکھیئے یہ بھی کوئی رونے کی بات ہے کہ تھوڑے دن پہلے میں نے انکو کمرے میں اکیلے بیٹھےکافی دیر تک دروازے کی طرف دیکھتے پایا تو ایسے ہی انکا جی بہلانے کے لئیے نصرت کی کیسٹ لگا دی۔ پھر اُنہی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگیں۔جب یہ غزل شروع ہوئی "' دل مر جانے نوں کیہہ ہویا سجناں، کدے نئی سی اج جِناں رویا سجناں''، پھر جو انکی ہچکی بندھی ہے، کہ سارے گھر کو رُلا کر چھوڑا ۔بعد میں والد صاحب سے مجھے کافی جھڑکیاں سننی پڑیں۔
میں انکے پاوءں دباتا جا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ اب ماں جی کا ویزہ ختم ہوتا ہے تو انکو واپس وطن بھیج دوں۔ وہاں میری بیوی ہے، بچے ہیں۔ مناسب دیکھ بھال ہوجائے گی انکی۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ماں جی کو شور بہت برا لگتا ہے۔ بچوں کے شور میں تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اور پھر وہاں انکو ٹیپ ریکارڈر پر انکے زمانے کی غزلیں اور گانے کوں سنایا کرے گا۔اور جب بھی وہ خاموش گم صم بیٹھی ہوں تو کون مسخرہ پن کرکے انہیں ہنسایا کرے گا؟
یہی کچھ سوچ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ انکی پنڈلی پر زیتون کے تیل سے مساج بھی کر رہا ہوں۔ فالج کی وجہ سے پٹھے کسقدر اکڑ گئے ہیں۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ انکا پاوءں پکڑ کر چوم لوں کیونکہ پہلے تو وہ برا منا جائیں گی اور جب میں باز نہیں آوءں گا تو ہنسنے لگیں گی۔
ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ یکایک کمرے کا ائیر کنڈیشنر ایک مہیب گڑگڑاہٹ کے ساتھ بند ہو گیا اور میری آنکھ کھل گئی۔ ۔ ۔ ۔ایکدم سناٹا سائیں سائیں کرنے لگا۔ میرے نگاہیں بے اختیار کمرے میں کچھ تلاش کرنے لگیں۔ وہی بے ترتیبی اور بکھری ہوئی کتابیں ہیں آس پاس۔۔۔ اور کسی ایکوریم کا وجود نہیں ہے۔ ۔ ۔ ارے ہاں یاد آیا، جنریٹر بند ہونے کا مطلب ہے کہ چھ بج گئے ہیں۔آٹھ بجے تک ڈیوٹی پر پہنچنا ہے کہیں لیٹ نہ ہو جاوءں۔ آجکل چھٹی سختی سے منع ہے۔ اور ابھی تھوڑے دن پہلے ہی تو ایمرجنسی چھٹی کاٹ کر واپس آیا ہوں، ماں جی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار کر۔۔۔ ۔
فرمائش تو انہوں نے کبھی کی نہیں تھی۔ اس مرتبہ بھی ایک چادر ہی تھی وہی انکی قبر پر چڑھا آیاچند پھولوں کے ساتھ ۔ اور میں کچھ دے بھی کیا سکتا تھا انہیں۔
سناٹے کی گونج گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ۔ ۔
ّ
 

نایاب

لائبریرین
آج تو محفل پر سچے جذبوں کی برسات برس رہی ہے ۔۔۔۔ آنکھیں وضو پہ وضو کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ چھاؤں کب بچھڑتی ہے ؟ دعا کی صورت سدا ساتھ رہتی ہے ۔۔۔۔
 

نیلم

محفلین
کیا احساس محرومی ہے! اور کیا انداز اظہار ہے!
یہ تصویر دیکھ کرعمر کے اس حصے میں اچانک بے ساختہ اپنی مرحومہ والدہ کی یاد آنے پر آنکھوں سے امڈ آنے والے آنسوؤں کو کہاں لے جاؤں، نیلم اور بٹ جی؟ کاش ان کی قبر ہی کہیں قریب ہوتی جس کی مٹی میں انہیں ملا سکتا۔ اللہم غفر لہا!!
زیادہ لکھنے سے معذور ہوں، سوائے اس کے کہ جن خوش نصیبوں کی مائیں حیات ہیں، ان سے التماس ہے کہ جیسے بھی ہو، اللہ تعالے کی اس نعمت کی قدر کریں۔ کیونکہ عاطف بٹ صاحب کی پوسٹ کردہ تصویر کی انگریزی عبارت کا نچلا حصہ عین حقیقت ہے۔

نیک اولاد ماں باپ کے لیے صدقہ جاریاں ہوتیں ہیں آپ بھی زندگی میں ایسے کام کریں کہ اُن کی روح کو سکون ملے ۔
ماں کا نعم البدل کوئی نہیں ۔آپ اُن کی قبر پر جا سکتےہیں یا نہیں لیکن آپ جو کچھ بھی پڑھیں گے قرآن پاک یا کوئی بھی اذکار وہ اُن تک تحفے کی طرح پہنچتے رہیں گیں
 

نیلم

محفلین
محرومی کی بات آپ نے کی تو چلتے چلتے اس محرومی کا قصہ بھی پڑھتے چلیں۔۔۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سناٹا.24876/
سناٹاآج صبح اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو خلافِ معمول ماں جی کو وہاں موجود پایا۔ یہ کیا؟۔ ۔ ماں جی ایکوریم کے پاس، کارپٹ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی ہیں اور بڑی محویت سے اس میں کچھ دیکھ رہی ہیں۔ آنکھوں میں وہی بچوں جیسی دل چسپی اور حیرت ہے۔ میں دبے پاوءں چلتا ہوا انکے پیچھے آ کر انکے کندھوں کے اوپر سے ایکوریم میں جھانکنے لگا۔ نیلی نیلی روشنیوں سے جگمگاتے ہوئے ایکوریم میں رنگ برنگ کی مچھلیاں ہیں۔ ماں جی کی توجہ ایک ننھی سی گولڈ فش پر ہے جو تہہ میں پڑے ہوئے کنکروں کے آس پاس تھرک رہی ہےاور ان کنکروں میں چھپے ہوئے خوراک کے ریزے بار بار منہ کھول کر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انکو اس منظر میں نجانے کیا خوشی مل رہی ہے۔ مسکرا رہی ہیں۔۔۔ ماں جی بھی عجیب ہیں۔
میں نے چپکے سے اپنے بازو انکے گرد حمائل کردیئے ہیں لیکن انکی توجہ میں خلل نہیں آیا ۔ بس میرے ہاتھ کو پکڑ لیا ہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ کتنا عرصہ ہو گیا ہے ہم دونوں ماں بیٹے کو اس طرح کی فراغت ملے ہوئے۔ اِس لمحے مجھے شدت سے خواہش ہو رہی ہے کہ انکا سر اور کندھے دبا دوں۔ کافی عرصے سے انکا سر نہیں دبایا ۔ اور وہ دبانے بھی کب دیتی ہیں۔ میری انگلیاں انکے بالوں میں مساج کرنے لگیں تو انکی محویت ٹوٹی اور فوراَ میرا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا۔۔۔ ' ' اوںہوں۔۔رہن دے"'۔ لیکن میں نے بھی آج فیصلہ کر لیا ہے کہ ماں جی کی ایک نہیں سننی۔ میرے ہاتھ انکے نحیف و نزار کندھوں کو دبانے لگے۔
جب سے ماں جی کے ایک بازو اور ایک ٹانگ پر فالج کا حملہ ہوا ہے، چلنا پھرنا بالکل موقوف ہوگیا ہے اور تقریباَ بستر سے ہی لگ کر رہ گئی ہیں۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ فالج سے انکا ذہن بھی متاثر ہوا ہے۔ گفتگو میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ جو کہنا چاہتی ہیں کہہ نہیں سکتیں۔ زبان ساتھ نہیں دے پاتی۔اپنی ضروریات بتانے سے قاصر ہو گئی ہیں۔ ہم لوگ صرف انکی آنکھیں دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں کہ شائد پیاس لگی ہے یا شائد باتھ روم جانا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جائے گی۔
خیر۔۔۔ بات ہورہی تھی ماں جی کی۔ میں کندھوں اور گردن کے پٹھوں کا مساج کرتے کرتے سوچ رہا ہوں کہ ماں جی کی عادت ابھی تک نہیں گئی۔ جب بھی میں انکے پاس بیٹحھ جاتا تھا تو بغیر کچھ کہے سنے میرے بالوں کو یا میرے ماتھے کو سہلانا شروع کر دیتی ہیں۔ اب بھی انکا ہاتھ میرے سر کو ڈھونڈھ رہا ہے۔انکو اس کشمکش سے بچانے کیلئے میں انکے پاوءں کی طرف آ گیا ہوں۔
''لیٹ جاوء تسی''۔
اور وہ کسی فرمانبردار بچے کی طرح کارپٹ پر ہی لیٹ گئیں۔میں انکے پاوءں دبا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ ماں جی بھی عجیب ہیں۔مدت ہو گئی مجھے حسرت ہی رہی کہ کبھی تو ماں جی مجھ سے کوئی فرمائیش کریں۔میں نے جب بھی چھٹی پر وطن واپس جانا ہوتا ہے پوچھ پوچھ کر تھک جاتا ہوں کہ بتائیں آپ کے لئیے کیا لیکر آوّں، اُدھر سے بس ایک ہی جواب ہوتا ہے۔' "وے رہن دے۔۔بس توں آجا"'۔ ایک دفعہ سوچ سوچ کر میں نے انکے لئیے ایک شال بھیج دی۔اتنی خوش ہوئیں کہ گھر میں جو بھی آتا وہ شال ضرور دکھائی جاتی۔ "'ویکھ۔۔میرے ممود نے پیجی ایہہ''۔
کوئی انکا معمولی سا کام بھی کردے، بغیر کہے پانی پلا د ے یا اکیلی بیٹھی ہوں اور ہم میں سے کوئی قریب آ کر بیٹھ جائے تو اس قدر شکر گذار نگاہوں سے دیکھتی ہیں کہ مارے شرمساری کےانسان کو اپنا آپ اپنی ہی نگاہوں میں بے حد حقیر دکھائی دینے لگتا ہے۔پہلے تو ایسی کسی بات پر دعائیں دینا شروع ہو جاتی تھیں لیکن جب سے زبان نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے، یہ دعائیں اب آنکھوں سے نکلتی ہیں آنسووّں کی جھڑی کی صورت۔اب دیکھیئے یہ بھی کوئی رونے کی بات ہے کہ تھوڑے دن پہلے میں نے انکو کمرے میں اکیلے بیٹھےکافی دیر تک دروازے کی طرف دیکھتے پایا تو ایسے ہی انکا جی بہلانے کے لئیے نصرت کی کیسٹ لگا دی۔ پھر اُنہی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگیں۔جب یہ غزل شروع ہوئی "' دل مر جانے نوں کیہہ ہویا سجناں، کدے نئی سی اج جِناں رویا سجناں''، پھر جو انکی ہچکی بندھی ہے، کہ سارے گھر کو رُلا کر چھوڑا ۔بعد میں والد صاحب سے مجھے کافی جھڑکیاں سننی پڑیں۔
میں انکے پاوءں دباتا جا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ اب ماں جی کا ویزہ ختم ہوتا ہے تو انکو واپس وطن بھیج دوں۔ وہاں میری بیوی ہے، بچے ہیں۔ مناسب دیکھ بھال ہوجائے گی انکی۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ماں جی کو شور بہت برا لگتا ہے۔ بچوں کے شور میں تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اور پھر وہاں انکو ٹیپ ریکارڈر پر انکے زمانے کی غزلیں اور گانے کوں سنایا کرے گا۔اور جب بھی وہ خاموش گم صم بیٹھی ہوں تو کون مسخرہ پن کرکے انہیں ہنسایا کرے گا؟
یہی کچھ سوچ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ انکی پنڈلی پر زیتون کے تیل سے مساج بھی کر رہا ہوں۔ فالج کی وجہ سے پٹھے کسقدر اکڑ گئے ہیں۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ انکا پاوءں پکڑ کر چوم لوں کیونکہ پہلے تو وہ برا منا جائیں گی اور جب میں باز نہیں آوءں گا تو ہنسنے لگیں گی۔
ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ یکایک کمرے کا ائیر کنڈیشنر ایک مہیب گڑگڑاہٹ کے ساتھ بند ہو گیا اور میری آنکھ کھل گئی۔ ۔ ۔ ۔ایکدم سناٹا سائیں سائیں کرنے لگا۔ میرے نگاہیں بے اختیار کمرے میں کچھ تلاش کرنے لگیں۔ وہی بے ترتیبی اور بکھری ہوئی کتابیں ہیں آس پاس۔۔۔ اور کسی ایکوریم کا وجود نہیں ہے۔ ۔ ۔ ارے ہاں یاد آیا، جنریٹر بند ہونے کا مطلب ہے کہ چھ بج گئے ہیں۔آٹھ بجے تک ڈیوٹی پر پہنچنا ہے کہیں لیٹ نہ ہو جاوءں۔ آجکل چھٹی سختی سے منع ہے۔ اور ابھی تھوڑے دن پہلے ہی تو ایمرجنسی چھٹی کاٹ کر واپس آیا ہوں، ماں جی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار کر۔۔۔ ۔
فرمائش تو انہوں نے کبھی کی نہیں تھی۔ اس مرتبہ بھی ایک چادر ہی تھی وہی انکی قبر پر چڑھا آیاچند پھولوں کے ساتھ ۔ اور میں کچھ دے بھی کیا سکتا تھا انہیں۔
سناٹے کی گونج گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ۔ ۔
ّ
اسپیچ لیس
 
Top