موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہی جا کر رضا تھوڑا سکون پاتی ہے ماں
فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گُھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
ہڈیوں کا رس پلا کر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں میں خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں
جانے کتنی برف سی راتوں میں ایسا بھی ہوا
بچہ تو چھاتی پے ہے گیلے میں سو جاتی ہے ماں
جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسوں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں
فکر کے شمشان میں آخر چتاؤں کی طرح
جیسے سوکھی لکڑیاں ، اس طرح جل جاتی ہے ماں
اپنے آنچل سے گلابی آنسوں کو پونچھ کر
دیر تک غربت پے اپنی اشک برساتی ہے ماں
سامنے بچوں کے خوش رہتی ہے ہر ایک حال میں
رات کیوں چھپ چھپ کے لیکن اشک برساتی ہے ماں
کب ضرورت ہو میری بچے کو ، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں
مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے
اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں
دے کے اک بیمار بچے کو دعائیں اور دوا
پینتی پے رکھ کے سر قدموں پے سو جاتی ہے ماں
گر جوان بیٹی ہو گھر میں کوئی رشتہ نا ہو
اک نئے احساس کی سولی پے چڑھ جاتی ہے ماں
ہر عبادت ہر محبت میں نیہا ہے اک غرض
بے غرض بے لوث ہر خدمات کو کر جاتی ہے ماں
زندگی بھر چنتی ہے خار ، راہ ذیست سے
جاتے جاتے نعمت فردوس دے جاتی ہے ماں
بازوں میں کھینچ کے آجائے گی جیسے کائنات
ایسے بچے کے لیے بانہوں کو پھیلاتی ہے ماں
زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں
پیار کہتے ہے کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچو سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
صفحہ ہستی پے لکھتی ہے اصول زندگی
اس لیے اک مکتب اسلام کہلاتی ہے ماں
اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے
عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں
گھر سے جب پردیس جاتا ہے کوئی نور نظر
ہاتھ میں قرآن لے کر در پے آجاتی ہے ماں
دے کے بچے کو ضمانت میں اللہ پاک کی
پیچھے پیچھے سر جھکائے در تک جاتی ہے ماں
کانپتی آواز سے کہتی ہے بیٹا الوداع
سامنے جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں
جب پریشانی میں گھر جاتے ہیں ہم پردیس میں
آنسوں کو پونچھنے خوابوں میں آجاتی ہے ماں
دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں
مرتے دم بچہ نا آ پائے اگر پردیس سے
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں
باب مر جانے پے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آجاتی ہے ماں
ہم بلاؤں میں کہیں گھرتے ہیں تو بے اختیار
خیر ہو بچے کی ، کہ کر در پے آجاتی ہے ماں
چاہے ہم خوشیوں میں ماں کو بھول جائیں دوستو !
جب مصیبت سر پے آتی ہے تو یاد آتی ہے ماں
دور ہو جاتی ہے ساری عمر کی اس دم تھکن
بیاہ کر بیٹے کو جب گھر میں بہو لاتی ہے ماں
چین لیتی ہے وہی اکثر سکون زندگی
پیار سے دلہن بناکر جس کو گھر لاتی ہے ماں
پھر لیتے ہیں نار جس وقت بیٹے اور بہو
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہے بن جاتی ہے ماں
ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں
ضبط تو دیکھوں کہ اتنی بے رخی کے باوجود
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نا پچھتاتی ہے ماں​
سبحان اللہ کیا خوبصورت کلام ہے
شاعر کون ہے یوسف بھائی
 

لاریب مرزا

محفلین
"ماں کے نام"

یہ کامیابیاں، یہ عزت، یہ نام تم سے ہے،
خدا نے جو دیا ہے۔۔۔۔۔ مقام تم سے ہے!!
تمہارے دم سے ہیں کھلے میرے لہو میں گلاب،
میرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے!!
جہاں جہاں ہے میری دُشمنی، سبب میں ہوں،
جہاں جہاں ہے میرا احترام، تم سے ہے!!
۔
(وصی شاہ)
 
جمیل اعجاز صاحب کی ایک خوبصورت تحریر ۔۔۔۔
ہم ساری دنیا کے غم، پورے عالم کی پریشانیاں اپنی ماں سے کہہ سکتے ہیں، مگر ماؤں کی پریشانیاں سننے کے لیے ہمارے پاس کان، غم سمونے کے لیے سینہ اور دکھ ڈھونے کے لیے کاندھے نہیں ہوتے۔ یہ بچوں کی خوشی کے لیے اپنی خوشیاں وار دیتی ہیں، مگر اولادیں ان کی مسکراہٹ کے لیے اپنی مسرتیں داؤ پر نہیں لگاسکتے۔ ہمارے ایک عزیز شادی کے بعد الگ ہوگئے تو ان کی ماں کا ہر لمحہ اذیت میں گزرتا تھا، مگر جب وہ ان سے ملنے آتے تھے تو وہ اپنے آنسو چھپا کر ایسے ملتی تھیں کہ کسی کوگمان تک نہ ہوتا تھا دل پر کیا الم گزر رہے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے مائیں جب عمر میں ہوجائیں تو ایسی باتیں بھی کر جاتی ہیں جو شادی شدہ اولاد کو ناگوار گزرتی ہیں، مگر کیا ہے جو اسے برداشت کرلیا جائے۔ ایسی ہزاروں جلی کٹی بھی تو ہمارے بچپن میں ماں سہتی رہی۔ یقین کیجیے جو ایسا کرجائے گا اس کی لغت سے ’’غم‘‘ کا لفظ ہی نکل جائے گا۔ ’’بڑا انسان‘‘ بننے کی ہر کوئی خواہش رکھتا ہے اپنی ماؤں کو ستانے والے جتنے بھی بڑے ہوجائیں، کردار کے اعتبار سے پست رہیں گے۔ کوئی ماں کو خفا کرکے کامیابیوں کے خواب بھی نہ دیکھے۔ ایسے لوگوں کے مقدر میں ہر جگہ ٹھوکریں لکھ دی جاتی ہیں۔ کامرانیوں کے لیے ماں کی دعا ضروری ہے۔ ایک آدمی کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ 3دن بعد وہ کام پر جارہا تھا کہ غیب سے آواز آئی: ذرا دھیان سے چلنا۔ سوال کیا: کیوں؟ جواب آیا: تمہاری ماں نہیں رہی۔ ہمارے ایک ساتھی شہر کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کا آج تک کسی ڈاکو، کسی چور، کسی ٹارگٹ کلر سے واسطہ نہیں پڑا حالانکہ وہ رات کو 2بجے گھر جاتے ہیں اور ان کا راستہ جرائم پیشہ لوگوں کے گڑھ سے ہوکر گزرتا ہے۔ ہم جب کبھی راز جاننے کی کوشش کریں،
وہ مسکراتے ہیں اور دھیرے سے کہتے ہیں: ابھی میری ماں زندہ ہے۔ یقینا میری طرح وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کی مائیں زندہ ہیں۔ یہ وہ نعمت ہے جو زندگی میں ایک بار ملتی ہے، اس کو کھو دینے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ ان پر دل کھول کر خرچ کرنا چاہیے کہ یہ وہ بینک ہیں، جہاں صرف منافع ہے، خسارہ کوئی نہیں۔
از :جمیل اعجاز۔۔۔
 
آخری تدوین:
ہم ساری دنیا کے غم، پورے عالم کی پریشانیاں اپنی ماں سے کہہ سکتے ہیں، مگر ماؤں کی پریشانیاں سننے کے لیے ہمارے پاس کان، غم سمونے کے لیے سینہ اور دکھ ڈھونے کے لیے کاندھے نہیں ہوتے۔ یہ بچوں کی خوشی کے لیے اپنی خوشیاں وار دیتی ہیں، مگر اولادیں ان کی مسکراہٹ کے لیے اپنی مسرتیں داؤ پر نہیں لگاسکتے۔ ہمارے ایک عزیز شادی کے بعد الگ ہوگئے تو ان کی ماں کا ہر لمحہ اذیت میں گزرتا تھا، مگر جب وہ ان سے ملنے آتے تھے تو وہ اپنے آنسو چھپا کر ایسے ملتی تھیں کہ کسی کوگمان تک نہ ہوتا تھا دل پر کیا الم گزر رہے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے مائیں جب عمر میں ہوجائیں تو ایسی باتیں بھی کر جاتی ہیں جو شادی شدہ اولاد کو ناگوار گزرتی ہیں، مگر کیا ہے جو اسے برداشت کرلیا جائے۔ ایسی ہزاروں جلی کٹی بھی تو ہمارے بچپن میں ماں سہتی رہی۔ یقین کیجیے جو ایسا کرجائے گا اس کی لغت سے ’’غم‘‘ کا لفظ ہی نکل جائے گا۔ ’’بڑا انسان‘‘ بننے کی ہر کوئی خواہش رکھتا ہے اپنی ماؤں کو ستانے والے جتنے بھی بڑے ہوجائیں، کردار کے اعتبار سے پست رہیں گے۔ کوئی ماں کو خفا کرکے کامیابیوں کے خواب بھی نہ دیکھے۔ ایسے لوگوں کے مقدر میں ہر جگہ ٹھوکریں لکھ دی جاتی ہیں۔ کامرانیوں کے لیے ماں کی دعا ضروری ہے۔ ایک آدمی کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ 3دن بعد وہ کام پر جارہا تھا کہ غیب سے آواز آئی: ذرا دھیان سے چلنا۔ سوال کیا: کیوں؟ جواب آیا: تمہاری ماں نہیں رہی۔ ہمارے ایک ساتھی شہر کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کا آج تک کسی ڈاکو، کسی چور، کسی ٹارگٹ کلر سے واسطہ نہیں پڑا حالانکہ وہ رات کو 2بجے گھر جاتے ہیں اور ان کا راستہ جرائم پیشہ لوگوں کے گڑھ سے ہوکر گزرتا ہے۔ ہم جب کبھی راز جاننے کی کوشش کریں،
وہ مسکراتے ہیں اور دھیرے سے کہتے ہیں: ابھی میری ماں زندہ ہے۔ یقینا میری طرح وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کی مائیں زندہ ہیں۔ یہ وہ نعمت ہے جو زندگی میں ایک بار ملتی ہے، اس کو کھو دینے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ ان پر دل کھول کر خرچ کرنا چاہیے کہ یہ وہ بینک ہیں، جہاں صرف منافع ہے، خسارہ کوئی نہیں۔
از سید لبید غزنوی

لبید بھائی، انتہائی ادب اور احترام سے گزارش ہے کہ جب کسی دوسرے کی تحریر یہاں پیش کریں تو اس کے نام سے اور حوالے کے ساتھ پیش کریں.
یہاں بھی آپ نے از لبید غزنوی لکھ دیا ہے، جو کہ درست طریقۂ کار نہیں ہے.

اس ربط کے مطابق یہ جمیل اعجاز صاحب کی تحریر ہے. امید ہے کہ آئندہ احتیاط کریں گے. جزاک اللہ
 
لبید بھائی، انتہائی ادب اور احترام سے گزارش ہے کہ جب کسی دوسرے کی تحریر یہاں پیش کریں تو اس کے نام سے اور حوالے کے ساتھ پیش کریں.
یہاں بھی آپ نے از لبید غزنوی لکھ دیا ہے، جو کہ درست طریقۂ کار نہیں ہے.

اس ربط کے مطابق یہ جمیل اعجاز صاحب کی تحریر ہے. امید ہے کہ آئندہ احتیاط کریں گے. جزاک اللہ
جی ان شاء اللہ
 

کاشفی

محفلین
ماں نے لکھا ہے خط میں جہاں جاؤ خوش رہو
مجھ کو بھلے نہ یاد کرو گھر نہ بھولنا

(اجمل اجملی)
 

کاشفی

محفلین
وہ لمحہ جب مرے بچے نے ماں پکارا مجھے
میں ایک شاخ سے کتنا گھنا درخت ہوئی

(حمیرا رحمان)
 
ماں

ماں زندگی ہے مرکز صبر و قرار ہے
ماں ایک چمن ہے جس میں مسلسل بہار ہے
ماں لطف ہے سکون ہے شفقت ہے پیار ہے
ماں ایک عظیم نعمتِ پروردگار ہے
ماں پہلی درسگاہ ہے عقل و شعور کی
ماں شمع فروزاں ہے محبت کے نور کی
ماں نظارہ ہے قدرتِ رب جلیل کا
ماں چشمہ خلوص ہے الفت کی جھیل کا
ماں کو کوئی کرے گا فراموش کس طرح
ماں سے رہے جدا تو ہوش کس طرح
بچہ ہو بوڑھا ہو عور ت ہو یا کہ مرد
آتی ہے ماں کی یاد تو ہوتا ہے دل میں درد
ماں ہوا خوشبوؤں کی،ہمدردی کا پھول ہے
ماں کے بغیر زوبی زندگی فضول ہے
محمد زبیر ڈھال۔۔۔۔فتح خان
ننھے مجاہد میگزین

 

جاسمن

لائبریرین
روک لیتا ہے بلاوں کو وہ اپنے اوپر
ماں کا آنچل مجھے جبریل کا پر لگتا ہے
 
ماں جی سے

کیوں جھگڑتی ہیں بے سبب، ماں جی؟
میں بڑا ہو گیا ہوں اب، ماں جی!

بھلے وقتوں کی آپ کی ہے سوچ
اب بھلا وقت ہے ہی کب، ماں جی؟

وہ زمانہ نہیں رہا، مانیں!
ہے یہی زندگی کا ڈھب، ماں جی

میں تو پھر آپ سے ہوا باغی
لوگ بھولے ہوئے ہیں رب، ماں جی

اندھے قانون کچھ ہیں فطرت کے
یہ خدا کا نہیں غضب، ماں جی

آپ نے بھی تو زندگی کی ہے
جانتی ہوں گی آپ سب، ماں جی

میں سمجھ لوں گا آپ کی باتیں
آپ جتنا بنوں گا جب، ماں جی

آپ بس یہ دعائیں میرے لیے
چھوڑیے گا نہ اب نہ تب، ماں جی

ہے تو بیٹا نا آپ کا راحیلؔ؟
لڑکے ہوتے ہیں بے ادب، ماں جی
٭
راحیل فاروق
 

زیرک

محفلین
تلاشِ معاش میں نکلے بیٹوں کا المیہ
تیری چاہت کا مختصر موسم ماں
رزق کی جستجو میں بِیت گیا
 

زیرک

محفلین
یہ لوگ ماں سے محبت کا دن منا رہے ہیں
بغیر ماں کے بھی ہوتا ہے کوئی دن گویا؟
زبیر قیصر
 

زیرک

محفلین
جالے بُنتی ہوئی مکڑی نہیں دیکھی جاتی
ماں! ترے گھر کی اداسی نہیں دیکھی جاتی
ناہید ورک
 
Top