حمیرا عدنان
محفلین
سبحان اللہ کیا خوبصورت کلام ہےموت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہی جا کر رضا تھوڑا سکون پاتی ہے ماں
فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گُھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
ہڈیوں کا رس پلا کر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں میں خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں
جانے کتنی برف سی راتوں میں ایسا بھی ہوا
بچہ تو چھاتی پے ہے گیلے میں سو جاتی ہے ماں
جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسوں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں
فکر کے شمشان میں آخر چتاؤں کی طرح
جیسے سوکھی لکڑیاں ، اس طرح جل جاتی ہے ماں
اپنے آنچل سے گلابی آنسوں کو پونچھ کر
دیر تک غربت پے اپنی اشک برساتی ہے ماں
سامنے بچوں کے خوش رہتی ہے ہر ایک حال میں
رات کیوں چھپ چھپ کے لیکن اشک برساتی ہے ماں
کب ضرورت ہو میری بچے کو ، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں
مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے
اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں
دے کے اک بیمار بچے کو دعائیں اور دوا
پینتی پے رکھ کے سر قدموں پے سو جاتی ہے ماں
گر جوان بیٹی ہو گھر میں کوئی رشتہ نا ہو
اک نئے احساس کی سولی پے چڑھ جاتی ہے ماں
ہر عبادت ہر محبت میں نیہا ہے اک غرض
بے غرض بے لوث ہر خدمات کو کر جاتی ہے ماں
زندگی بھر چنتی ہے خار ، راہ ذیست سے
جاتے جاتے نعمت فردوس دے جاتی ہے ماں
بازوں میں کھینچ کے آجائے گی جیسے کائنات
ایسے بچے کے لیے بانہوں کو پھیلاتی ہے ماں
زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں
پیار کہتے ہے کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچو سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
صفحہ ہستی پے لکھتی ہے اصول زندگی
اس لیے اک مکتب اسلام کہلاتی ہے ماں
اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے
عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں
گھر سے جب پردیس جاتا ہے کوئی نور نظر
ہاتھ میں قرآن لے کر در پے آجاتی ہے ماں
دے کے بچے کو ضمانت میں اللہ پاک کی
پیچھے پیچھے سر جھکائے در تک جاتی ہے ماں
کانپتی آواز سے کہتی ہے بیٹا الوداع
سامنے جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں
جب پریشانی میں گھر جاتے ہیں ہم پردیس میں
آنسوں کو پونچھنے خوابوں میں آجاتی ہے ماں
دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں
مرتے دم بچہ نا آ پائے اگر پردیس سے
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں
باب مر جانے پے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آجاتی ہے ماں
ہم بلاؤں میں کہیں گھرتے ہیں تو بے اختیار
خیر ہو بچے کی ، کہ کر در پے آجاتی ہے ماں
چاہے ہم خوشیوں میں ماں کو بھول جائیں دوستو !
جب مصیبت سر پے آتی ہے تو یاد آتی ہے ماں
دور ہو جاتی ہے ساری عمر کی اس دم تھکن
بیاہ کر بیٹے کو جب گھر میں بہو لاتی ہے ماں
چین لیتی ہے وہی اکثر سکون زندگی
پیار سے دلہن بناکر جس کو گھر لاتی ہے ماں
پھر لیتے ہیں نار جس وقت بیٹے اور بہو
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہے بن جاتی ہے ماں
ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں
ضبط تو دیکھوں کہ اتنی بے رخی کے باوجود
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نا پچھتاتی ہے ماں
شاعر کون ہے یوسف بھائی