ٹونک، راجستھان سے
پروفیسر ڈاکٹر ارشد عبدالحمید کی نظم
دوپَٹّے کا پھول
مَیّا!
میرے لَڑَکپَن میں
جب آنکھ میں کچھ گِر جاتا تھا
تو مجھ کو گودی میں لِٹا کر
دوپَٹّے کا پھول بنا کر
اُس کو پُھونکوں سے بھرتی تھی
جانے کیا جادُو کرتی تھی
پھول کو آنکھوں پر رکھتے ہی
جیسے شِفا ہو جاتی تھی
مجھ کو نیند آ جاتی تھی
مَیّا!
آج بھی اِن آنکھوں میں
خوابوں کے کچھ موٹے تِنکے
صبح و شام کَھٹکتے ہیں
نیند کی پَریاں رُوٹھ گئی ہیں
ذِہن میں اِک ہُو کا عالَم ہے
لیکن مَیّا تیرا دوپَٹّا
تیری پُھونکیں کہاں سے لاؤں
لگتا ہے خوابوں کے تِنکے
ساری عمر نہیں نکلیں گے
ساری عمر یُوں ہی گزرے گی
مجھ کو نیند نہیں آئے گی