عادل ـ سہیل
محفلین
::::: افطاری کی دُعاء ؛؛؛ کب اور کیا ؟؟؟ :::::
****** ابن عمر رضی اللہ عنھُما سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطار کیا کرتے تھے تو فرمایا کرتے تھے (ذھب الظماءُ وَ اَبتَلت العَرُوق وَ ثَبَتَ الاجر اِنشَاءَ اللَّہ) (پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر پکا ہوگیا ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٤ ، اِمام الالبانی رحمۃ اللہ نے اِس حدیث کو حسن قرار دِیا ، اِروا الغلیل ، حدیث ، ٩٢٠
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن الفاط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ افطار کے بعد ادا کئیے جانے والے ہیں نہ کہ پہلے ، کیونکہ افطار سے پہلے نہ تو پیاس جاتی ہے ، نہ ہی رگیں تر ہوتی ہیں اور نہ ہی روزہ مُکمل ہوتا ہے کہ جِس کا اجر پکا ہو جائے ، پس یہ دُعا نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتوں کا اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے شکر کا انتہائی خوبصورت انداز ہے ، اور اپنے اِیمان اور نیک عمل کے مطابق اللہ کی رحمت سے ثواب مل جانے کے یقین کا اظہار ہے ، کہیں کوئی دُعا نہیں ،لیکن ہم نے اِن اِلفاظ کو دُعا بنا کر بے وقت اور بے سمجھ اِستعمال کرنے کا ڈھنگ اپنا رکھا ہے ، کہ ہم لوگ اِسے روزہ کھولنے سے پہلے پڑھتے ہیں اور جو کچھ اِس میں ہے اُس کو عمل طور پر جھوٹ بناتے ہیں ،
اِس کے عِلاوہ ایک دو احادیث ایسی ہیں جِن سے یہ دلیل لی جاتی ہے کہ روزہ دار کی حالتِ روزہ میں یا افطاری کے وقت دُعا قبول ہوتی ہے وہ احادیث صحیح نہیں ہیں ، سحری اور افطاری کی دُعاؤں کے موضوع پر حاصلِ کلام یہ ہے کہ اِن اوقات کے لیے کوئی خاص دُعا نہیں ہے ۔
چلتے چلتے ذرا اُن دو جملوں کا جائزہ لے لیا جائے ، جو افطاری کی دُعا کے طور پر مشہور ہیں ،
***** ( ١ ) ''' اللَّھُم لک صُمنَا ،و علیٰ رزقِکَ اَفطرنَا ، اللَّھُمَ تَقبل مِنا اِنَّکَ اَنت َ السَّمِیعُ العلِیم ''' ، اِمام ا لالبانی رحمہُ اللہ نے اِس حدیث کو ضعیف یعنی کمزور قرار دِیا ہے ، '' اِرواءَ الغلیل ، حدیث ٩١٩ ''
اور ***** ( ٢ ) ''' بِسّمِ اللَّہ اللَّھُم لک صُمت ُ و علیٰ رزقِکَ اَفطرت ُ ''' حدیث ضعیف ، یعنی کمزور نا قابل حُجت ہے ، ''' الکلم الطیب للالبانی ،حدیث ١٦٦ ۔
یہ دو جملے عام طور پر افطاری کی دُعا کے طور پر مشہور ہیں ، اور دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ،
اب یہ فیصلہ کرنا تو قطعاً مشکل نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عِلاوہ کِسی اور کی سُنّت پر چلنے والے کہاں جائیں اور اُن کے اعمال کہاں جائیں گے ۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اگلے مضامین میں شب قدر کے بارے میں بات ہو گی انشاء اللہ ، و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
****** ابن عمر رضی اللہ عنھُما سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطار کیا کرتے تھے تو فرمایا کرتے تھے (ذھب الظماءُ وَ اَبتَلت العَرُوق وَ ثَبَتَ الاجر اِنشَاءَ اللَّہ) (پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر پکا ہوگیا ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٤ ، اِمام الالبانی رحمۃ اللہ نے اِس حدیث کو حسن قرار دِیا ، اِروا الغلیل ، حدیث ، ٩٢٠
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن الفاط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ افطار کے بعد ادا کئیے جانے والے ہیں نہ کہ پہلے ، کیونکہ افطار سے پہلے نہ تو پیاس جاتی ہے ، نہ ہی رگیں تر ہوتی ہیں اور نہ ہی روزہ مُکمل ہوتا ہے کہ جِس کا اجر پکا ہو جائے ، پس یہ دُعا نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتوں کا اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے شکر کا انتہائی خوبصورت انداز ہے ، اور اپنے اِیمان اور نیک عمل کے مطابق اللہ کی رحمت سے ثواب مل جانے کے یقین کا اظہار ہے ، کہیں کوئی دُعا نہیں ،لیکن ہم نے اِن اِلفاظ کو دُعا بنا کر بے وقت اور بے سمجھ اِستعمال کرنے کا ڈھنگ اپنا رکھا ہے ، کہ ہم لوگ اِسے روزہ کھولنے سے پہلے پڑھتے ہیں اور جو کچھ اِس میں ہے اُس کو عمل طور پر جھوٹ بناتے ہیں ،
اِس کے عِلاوہ ایک دو احادیث ایسی ہیں جِن سے یہ دلیل لی جاتی ہے کہ روزہ دار کی حالتِ روزہ میں یا افطاری کے وقت دُعا قبول ہوتی ہے وہ احادیث صحیح نہیں ہیں ، سحری اور افطاری کی دُعاؤں کے موضوع پر حاصلِ کلام یہ ہے کہ اِن اوقات کے لیے کوئی خاص دُعا نہیں ہے ۔
چلتے چلتے ذرا اُن دو جملوں کا جائزہ لے لیا جائے ، جو افطاری کی دُعا کے طور پر مشہور ہیں ،
***** ( ١ ) ''' اللَّھُم لک صُمنَا ،و علیٰ رزقِکَ اَفطرنَا ، اللَّھُمَ تَقبل مِنا اِنَّکَ اَنت َ السَّمِیعُ العلِیم ''' ، اِمام ا لالبانی رحمہُ اللہ نے اِس حدیث کو ضعیف یعنی کمزور قرار دِیا ہے ، '' اِرواءَ الغلیل ، حدیث ٩١٩ ''
اور ***** ( ٢ ) ''' بِسّمِ اللَّہ اللَّھُم لک صُمت ُ و علیٰ رزقِکَ اَفطرت ُ ''' حدیث ضعیف ، یعنی کمزور نا قابل حُجت ہے ، ''' الکلم الطیب للالبانی ،حدیث ١٦٦ ۔
یہ دو جملے عام طور پر افطاری کی دُعا کے طور پر مشہور ہیں ، اور دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ،
اب یہ فیصلہ کرنا تو قطعاً مشکل نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عِلاوہ کِسی اور کی سُنّت پر چلنے والے کہاں جائیں اور اُن کے اعمال کہاں جائیں گے ۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اگلے مضامین میں شب قدر کے بارے میں بات ہو گی انشاء اللہ ، و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔