::: ماہ رمضان اور ہم (2) ::: روزہ کیوں ؟ کیا ؟ اور دیگر مسائل

ماہِ رمضان اور ہم ۲
روزہ ، کیوں ،کیا اور دیگر مسائل
: روزے کی اصل اور حقیقی حِکمت '
(یآ اَیّھا الَّذین اَمَنُوا کُتِبَ عَلِیکُم الصَّیامَ کَما کُتِبَ عَلیٰ الذیِنَ مِن قَبلِکُم لعلَّکُم تَتَّقُونَ) ( اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو ، تُم پر روزے لکھ دیے(یعنی فرض کر دیے) گئے ہیں ، جیسا کہ تُم سے پہلے والوں پر لکھے گئے ، تاکہ تُم تقویٰ اِختیار کرو)البقرہ ، آیت ١٨٣
اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان میں روزوں کی فرضیت کے حُکم کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ روزے کے ذریعے اپنے نفس کی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ترک کرنامطلوب ہے ،

یہاں یہ بات بہت ہی اچھی طرح سے سمجھ کر یاد رکھنے کی ہے کہ صِرف بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ نہیں ، اور نہ ہی یہ مطلوب ہے کہ اللہ کی رضا مندی کے عِلاوہ کِسی اور مقصد کےلیے خود کو کھانے پینے سے روک لیا جائے، اگر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کے احکامات کی پابندی نہ کی جائے تو اللہ کو کِسی کے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ہے ، رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کا فرمان ہے :::
(مَن لَم یَدعَ قولَ الزُورِ و العَملَ بِہِ فَلیس للّہِ حاجۃٌ اَن یَدَع طعامَہُ و شرابَہُ ) ( جِس نے جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل نہیں چھوڑا اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ) صحیح البخُاری ، حدیث ١٩٠٣
حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری میں اِمام ابن بطال کا یہ قول نقل کیا '' اِس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ روزہ رکھنا چھوڑ دیا جائے ، بلکہ یقینا اِس کا معنیٰ جھوٹ بولنے اور اُس پر عمل کرنے سے روکنا ہے '' اور اِمام البیضاوی کا یہ قول نقل کیا '' اللہ کو اُسکی ضرورت نہیں'' سے مُراد اللہ کی طرف سے غیر مقبول ہونا ہے ''
ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام نے فرمایا( لَیسَ الصَّیامُ مِنَ الاکلِ و الشُّربِ ، اِنَّمَا الصَّیامُ مِنَ اللَّغُوِ والرَّفثِ ، فَاِن سَابَّکَ اَحَدٌ اَو جَھِلَ عَلِیکَ فَقُل اِني صائمٌ ) ( روزہ صِرف کھانے پینے کا نہیں ، بلکہ بلا شک روزہ فحش کلامی کرنے سے ہے ، اور اگر کوئی تُمہیں گالی دے یا تُمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو تُم کہو میں روزے میں ہوں ) مُستدرک الحاکم حدیث ، ١٥٧٠ ، اِمام الذہبی نے التلخیص میں اِمام الالبانی نے صحیح الجامع الصغیر ( ٥٣٧٦ ) میں اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ۔
** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جِن کے روزہ رکھنے کی وجہ صِرف یہ نہیں ہوتی کہ اللہ کی طرف سے فرض ہے بلکہاُن کا مطمع نیت صحت کی بہتری ، کچھ دبلا ہونا وغیرہ بھی ہوتا ہے ؟
کیا آپ اُن روزہ داروں میں سے تو نہیں جو اپنے پیٹ کی خواہشات کو تو روک لیتے ہیں مگر نفس کی خواہشات پرکوئی روکاوٹ نہیں لگاتے ؟
** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جو روزے کی وجہ سے اپنی زُبان کو کھانے پینے کے ذائقے سے تو باز رکھتے ہیں مگر،،،،جھوٹ ،غیبت ، چُغلی ، گالی گلوچ اور گندی واہیات باتوں سے باز نہیں رکھتے ؟
** روزہ لگ رہا ہے ، ذرا وقت گزاری اور دہیان بدلنے کے لیے کوئی فلم یا ڈرامہ دیکھ لیا جائے ، جِسم کا تو روزہ ہے روح کو ہی خوارک مہیا کی جائے، کوئی موسیقی گانا وغیرہ سُنا جائے ، اگر دین اور اِسلام کا خیال آ گیا تو موسیقی کی تال پر گائی ہوئی نعتیں ، قوالیاں ، کوئی عارفانہ کلام ، سُن لیا جائے **** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں ہیں جو روزے کی شدت کو دور کرنے کے لیے آنکھوں اور کانوں کا زنا کرتے ہیں ؟ ( موسیقی کو روح کی خوراک کہہ کر شیطان نے بنی آدم کو اِس راہ پر لگا رکھاہے ، موسیقی والے درس میں اِس کا ذِکر تفصیل سے کیاگیا تھا ، اور وہ اب کتابی شکل میں بھی موجود ہے )
** اگر آپ اِن میں سے ہیں تو آپ کی بھوک پیاس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ، اور اگر آپ اِن میں سے نہیں توپھر آپکی بھوک پیاس اِنشاء اللہ آپ کے لئیے فائدہ مند ہو گی ۔
** ابوہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دخَلَ شھرُ رمضانُ فُتِحت اَبوابُ السَّماءِ وغُلِّقت اَبوابُ جھنَّمَ و سُلسِلَت الشیٰطین )( جب رمضان داخل ہوتا ہے تو شیطانوں کو زنجیریں پہنا دی جاتی ہیںاور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ) صحیح البُخاری حدیث ، ١٨٩٩ ، اور صحیح مُسلم کی ایک روایت میں جنت کے دروازے کُھلنے اور آگ کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے اور دوسری روایتمیں رحمت کے دروازے کُھلنے اور جہنم کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے ، ( حدیث ، ١٠٧٩ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور کوئی کام جو صحیح سند کے ساتھ ہم تک پُہنچا ہو اُس فرمان یا کا م کا انکار کرنا بِلا شک کُفر ہے ، اور مذکورہ بالا حدیث بِلا شک صحیح ہے ، اب ذرا اِس صحیح حدیث کی روشنی میں غور فرمائیے کہ :::
** رمضان میں شیاطین تو باندھ دیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مُسلمان گناہوں میں ملوث نظر آتے ہیں اور بڑی کثرت سے نظر آتے ہیں !!!
** رحمت اور جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر بھی اِن کُھلے دروازوں پر داخلے کے خواہش مند کم کم ہی دِکھائی دیتے ہیں!!!
** آگ اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پھر بھی اُن پر جم غفیر نظر آتا ہے !!!
** کون ہے جو اُنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے ؟؟؟؟؟
** کیا اُنکے دِلوں میں اِیمان اِنتہائی کمزور نہیں ہو چُکا ؟
** کون ہے جو اُنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے ؟؟؟؟؟
** کیا اُنکے دِلوں میں اِیمان اِنتہائی کمزور نہیں ہو چُکا ؟
** کیا وہ اِس وسوسے کا شکار نہیں کہ فجر سے مغرب تک بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ ہے ، باقی سب کُچھ حسبِ معمول جاری رہے تو کوئی حرج نہیں ؟
** کیا اُنکے دِل و دماغ شیطان کے اتنے تابع فرمان نہیں ہو چکے کہ خود بخود ہی اُسکی راہ پر چلتے جا رہے ہیں ؟
** کہیں آپ بھی تو اُن میں سے نہیں ؟ اللہ نہ کرے کہ اِس کا جواب ''' جی ہاں ''' ہو اور اگر ایسا ہے تو پھر رمضان توبہ کر کے اللہ کی مغفرت حاصل کرنے کا سُنہری موقع(Golden Chance )ہے ،اِس موقع سے فائدہ اُٹھائیے ۔
(وَسَارِعُوا اِلَی مَغفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُم وَجَنَّۃٍ عَرضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالاَرضُ اُعِدَّتْ لِلمُتَّقِینَ ) ( اور جلدی بھاگو اللہ کی طرف سے مغفرت کی طرف اور جنّت (کی طرف ) جِس کی چوڑائی (تمام ) آسمانوں اور زمین کے برابر ہے (اور) جو تقویٰ والوں کے لیے تیار کی گئی ہے) آل عمران /آیت ١٣٣
مضمون جاری ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 
:::::: ماہِ رمضان اور ہم 2:::::: روزہ کیوں؟ کیا؟ اور دیگر مسائل (۲)::::::
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( الصِّیَامُ جُنَّۃٌ فلا یَرفُث ولا یَجہَل وَاِن امرُؤٌ قَاتَلَہُ اَو شَاتَمَہُ فَلیَقُل اِنی صَائِمٌ مَرَّتَینِ وَالَّذِی نَفسِی بیدہ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطیَبُ عِندَ اللَّہِ تَعَالَی من رِیحِ المِسکِ یَترُکُ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ وَشَہوَتَہُ مِن اَجلِی الصِّیَامُ لی واَنا اَجزِی بِہِ وَالحَسَنَۃُ بِعَشرِ اَمثَالِہَا )((١)روزہ (جہنم کے عذاب کے سامنے)ڈھال ہے ، لہذا روزہ دار نہ تو ہمبستری کرے اور نہ ہی جہالت (والا کوئی کام جیسا کہ ) اور اگر کوئی اُسکے ساتھ لڑائی کرے یا گالی دے تو روزہ دار دو دفعہ کہے میں تو روزے میں ہوں ، اور اُسکی قسم جِس کے ہاتھ میں میری جان ہے (٢)روزہ دار کے مُنہ کی بو اللہ کے ہاں مِسک کی خُوشبُو سے زیادہ پاکیزہ (یعنی محبُوب ) ہے (٣۔اللہ کہتا ہے ) روزہ دار میرے لیے اپنا کھانا ، پینا ، اور خواہشات چھوڑتا ہے ، روزہ میری خاطر ہے (تو ) میں ہی اُسکا ثواب دوں گا اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ہے ) صحیح البُخاری،حدیث ١٧٩٥ /کتاب الصوم/باب٢ ، صحیح مُسلم ، حدیث ١١٥١ /کتاب الصیام /باب ٣٠
**** روزہ دار یعنی روزہ رکھنے والے کی عِزت ****
سھل بن سعد رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِنَّ فی الجَنَّۃِ بَابًا یُقَالُ لہ الرَّیَّانُ یَدخُلُ منہ الصَّائِمُونَ یوم القِیَامَۃِ لَا یَدخُلُ منہ اَحَدٌ غَیرُہُم یُقَالُ اَینَ الصَّائِمُونَ فَیَقُومُونَ لَا یَدخُلُ منہ اَحَدٌ غَیرُہُم فاِذا دَخَلُوا اَُغلِقَ فلم یَدخُل منہ اَحَدٌ ) (بے شک جنّت میں ایک دروازہ ہے جِس کا نام الرّیّان ہے ، اُس میں سے روزہ دار داخل ہوں گے اور اُن کے عِلاوہ کوئی بھی اور داخل نہیں ہو(سکے)گا ، ( اللہ کی طرف ) کہا جائے گا ، کہاں ہیں روزہ دار ؟، تو روزہ دار اُٹھ کھڑے ہوں گے ، اُس دروازے میں سے اُن روزہ داروں کے عِلاوہ کوئی بھی اور داخل نہیں ہوگا اور جب وہ روزہ دارداخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور (پھر ) کوئی اُس میں سے داخل نہیں ہو (سکے ) گا)صحیح البخاری ، حدیث ١٧٩٧/ کتاب الصوم /باب٤، صحیح مُسلم ، حدیث١١٥٣/ کتاب الصیام / باب ٣١ ۔ ۔۔۔۔۔ نفلی روزہ ہو یا فرض ، روزے کے فائدے اور عِزت و اِکرام ہر روزہ دار کے لیے ہے ،ہر اُس روزہ دار کے لیے جِس کا روزہ صِرف اللہ کی رضا کے لیے ہو اور جِس روزہ میں کوئی نافرمانی نہ ہو۔
**** بغیر جائز سبب کے روزہ خوری کرنے والے کا انجام ****
ابی امامہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بَینا اَنا نَائمٌ اِذ اَتاَنی رَجُلان فاَخَذَا بضبُعَی َّ فاَتَیا بی جَبَلًا وَعْراً فَقالَا لی: اصعَدْ، فَقُلْتُ اِنی لَا اَطِیْقُہُ فَقَالاَ اِناَّ سَنَسْہِلُہُ لَکَ فَصْعدت حَتٰی اِذا کُنْتُ فی سَواء الْجبل اِذا اَنَا باَصواتٍ شَّدیدۃٍ فقُلتُ ما ہذہِ الاَصوات قالوا ہذا عُواءٍ اَہلِ النَّارِ ثُّمَ انطَلقَ بِیَّ فَاِذا اَنَا بِقومٍ مُعلِقِینَ بِعِراقِیبِہِم مُشَقَّقۃً اَشدَاقُہُم تَسِیلُ اَشدَاقُہُم دَماً قال قُلتُ مَن ہَؤلاءِ قال ہَؤُلاءِ الَّذِینَ یُفطِرُونَ قَبلَ تَحِلَّۃِ صَومِہِم) ( میں سو رہا تھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور مجھے بازوں سے تھام کر ایک مشکل چڑھائی والے پہاڑ کے پاس لے گئے اور کہا ::: اِس پر چڑھیے ::: میں نے کہا ::: میں نہیں چڑھ سکتا ::: اُنہوں نے کہا ::: ہم آپکے لیے سہولت مہیا کریں گے ::: لہذا میں چڑھ گیا ، جب چوٹی پر پہنچا تو شدید (چیخ و پکار کی ) آوازیں سنِیں ، میں نے پوچھا ::: یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ ::: اُنہوں نے کہا ::: یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے ::: پھر وہ مجھے لیکر چلے، تو میں ایسے لوگوں میں پہنچا جو اپنی ایڑیوں کے اوپر والے پٹھوں کے ذریعے اُلٹے لٹکے ہوئے تھے ( جیسے بکرے یا گائے وغیرہ کو ذبح کرنے کے بعد لٹکایا جاتا ہے ) اور اُن کے منہ پہلوں سے کٹے ہوئے تھے ، اور وہاں سے خُون بہہ رہا تھا ، میں نے پوچھا ::: یہ کون ہیں؟ ::: اُن دونوں نے جواب دِیا ::: یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ حلال ہونے سے پہلے ہی کھا پی لیتے تھے) المُستدرک الحاکم ، حدیث ١٥٦٨، تعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان ، آخری حدیث ، صحیح ابن خُزیمہ ، حدیث ١٩٨٦
وہ لوگ جو افطار کے وقت سے پہلے خواہ ایک آدھ منٹ پہلے بغیر کسی جائز سبب کے روزہ کھول لیتے ہیں ، اور وہ جو بغیر کسی جائز سبب کے روزہ رکھتے ہی نہیں اُن کی سزا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ، اِس صحیح حدیث میں کچھ اور کاموں کا انجام بھی بتایا گیا ہے لیکن طوالت کے ڈر سے اور رواں موضوع تک محدود رہنے کے لیے اِس کو پورا نقل نہیں کر رہا ہوں ،

مضمون جاری ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 
ماہ رمضان اور ہم (۲) روزہ کیا؟کیوں؟ دیگر اہم مسائل (۳)
**** رمضان کا روزہ چھوڑنے کا مسئلہ ****
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ اَُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الہُدَی وَالفُرقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہرَ فَلیَصُمہُ وَمَن کَانَ مَرِیضاً اَو عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّن اَیَّامٍ اَُخَرَ یُرِیدُ اللّہُ بِکُمُ الیُسرَ وَلاَ یُرِیدُ بِکُمُ العُسرَ وَلِتُکمِلُوا العِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُم وَلَعَلَّکُم تَشکُرُون) ( رمضان کا مہینہ (وہ ہے ) جِس میں قُران نازل کیا گیا (قُران )جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جِس میں ہدایت کی اورحق و باطل میں فرق کرنے والی واضح نشانیاں ہیں ، لہذا تم میں سے جو کوئی اِس مہینے کو پائے تو اِسکے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ (صحت یاب ہونے یا سفر ختم ہونے کے بعد ، چھوڑے ہوئے روزوں کے بدلے ) اور دِنوں میں روزے رکھے ، اللہ تُم لوگوں کے لیے نرمی چاہتا ہے اور تُم لوگوں کے لیے سختی نہیں چاہتا اور (یہ)اِس لیے کہ تُم لوگ (رمضان کے روزے رکھنے میںاُن کی) گنتی پوری کر لو اور اللہ کی عطا فرمائی ہوئی ہدایت پر اُس کی بڑائی بیان کرو اور تا کہ تُم اللہ کا شُکر ادا کرو ) سورت البقرہ / آیت ١٨٥
کِسی بیماری کی وجہ سے یا سفر پر ہونے کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑنے کی اجازت ہے ، یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں (١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ( عَلَی سَفَر )یعنی جب تک سفر پر ہو سواری پر نہیں ، سفر صِرف سواری پر ہونے یا چلنے پھرنے کی حالت نہیں ، ایسی حالت کو فی سفرٍ کہا جاتا ہے ، پس اگر کوئی پورا مہینہ بھی سفر پر ہو تو وہ رمضان کے روزے چھوڑ سکتا ہے اور (٢) سفر ختم ہونے کے بعد جتنے روزے چھوڑے رکھنا فرض ہے، اور اُن کا کوئی کُفارہ نہیں۔
سفر کتنی مسافت کے بعد شروع ہوتا ہے یا کتنی مسافت طے ہونے کے بعد سفر کا حُکم ہو گا اِس معاملے میں بہت باتیں کی گئی ہیں لیکن سُنّتِ مُبارک میں ایسی کوئی کسوٹی نہیں ملتی جو مسافت یا فاصلے کو طے کرتی ہو بلکہ معاملہ نیّت پر منحصر ہے ، اِس موضوع پر بات پھر کبھی اِنشا اللہ تعالیٰ۔
**** مسافر رمضان کا روزہ چھوڑے یا رکھے ، چھوڑنے کی صُورت میں کوئی کُفارہ نہیں ****
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ حَمزہ بن عَمروْ الاسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ::: کیا میں سفر میں روزہ رکھوں ؟ ::: اور حمزہ بہت روزے رکھا کرتے تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِن شِئتَ فَصُم و اِن شِئتَ فَاَفطِر ) ( اگر چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو ) صحیح البخاری ، حدیث ١٨٤١ /کتاب الصوم / باب ٣٣ ، صحیح مسلم ، حدیث ١١٢١/ کتاب الصیام / باب ١٧
ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ ( ہم سولہ ١٦ رمضان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جِہاد کے سفر پر نکلے اور ہم میں سے روزہ دار بھی تھے اور بغیر روزے کے بھی ، لیکن نہ کِسی روزدار نے کِسی بغیر روزے والے پر اعتراض کیا اور نہ بغیر روزے والے نہ روزہ دار پر ) صحیح مُسلم ، حدیث ١١١٦ /کتاب الصیام / باب ١٥ ۔
**** حیض (ماہواری ) نفاس اور دودھ پلانے کی صورت میں روزے کا حُکم **** ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اَلَیسَ اِذا حَاضَت لم تُصَلِّ ولم تَصُم فَذَلِکَ نُقصَانُ دِینِہَا ) ( کیا ایسا نہیں ہے ( یعنی ایسا ہی تو ہے ) کہ عورت جب حیض (ماہواری) میں ہوتی ہے تو نہ ہی نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہے ، اور اِس طرح یہ عورت کے دِین میں کمی ہے ) صحیح البخاری ، کتاب الصوم / باب ٤٠ ،
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ( کَان یُصِیبُنَا ذلک فَنُؤمَرُ بِقَضَاء ِ الصَّومِ ولا نُؤمَرُ بِقَضَاء ِ الصَّلَاۃِ ) ( (رسول اللہ کے ساتھ ) ہم میں سے کِسی کو یہ موقع پیش آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضاء کاحُکم تو دِیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضاء کا نہیں ) صحیح مُسلم ، حدیث ٣٣٥ /کتاب الحیض / باب ١٥ ،
انس ابن مالک الکعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِنَّ اللَّہَ عز وجل وَضَعَ عَن المُسَافِرِ شَطرَ الصَّلَاۃِ وَعَن المُسَافِرِ وَالحَامِلِ وَالمُرضِعِ الصَّومَ ) ( اللہ عز و جل نے مسافر کے لیے روزہ (سفر کے بعد ) رکھنے اور (دوران سفر ) نماز آدھی کرنے کی اجازت دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو (خطرے کی صورت میں) روزےنہ رکھنے کی چھوٹ دی ہے ) صحیح سنن الترمذی ، حدیث٥٧٥ ،
حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت اگر اپنی یادودھ پینے والے بچے کی جان کے خطرے کے باعث روزہ چھوڑتی تو اُس پر قضاء نہیں ہے جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ( اگر حاملہ عورتروزے کی وجہ سے اپنی جان پر خطرہ محسوس کرتی ہے اور دُدوھ پلانے والی اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرتی ہے تو روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے کِسی غریب کو کھانا کِھلائے اور اِن دونوں عورتوں پر کوئی قضاء نہیں ) امام الابانی نے کہا ۔''' یہ حدیث طبرانی نے روایت کی ہے اور اِس کی سند امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ''' ، الاِرواءُ الغلیل، جلد ٤ ، صفحہ ١٩ ۔
**** ہو سکتا ہے کِسی ذہن میں خیال آئے کہ حیض اور نفاس میں روزے کی قضاء کیوں اورنماز کی قضا ء کیوں نہیں ، گو کہ اِس قسم کی باتوں کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن اُمت کے اماموں نے بہت اچھی نصحیت کی ہے کہ منطق و فلسفہ کا جواب منطق و فلسفہ سے دینے کی بجائے قران اور صحیح حدیث سے دِیا جائے اور کوئی مانے یا نہ مانے ہم اِس کے ذمہ دار نہیں ،
دِین کے احکامات قُبُول کرنے عقل و فلسفہ و منطق کی کسوٹی پر نہیں پرکھے جاتے بلکہ قُبُول کرنا فرض ہوتا ہے ، جی ہاں سمجھنے کے لیے اُنہیں کِسی بھی زاویے سے دیکھا جائے لیکن اِس شرط پر کہ اگر اپنی ناقص سمجھ میں نہ آ پائیں تو اُن کو غلط نہ جانا جائے بلکہ اپنی اصلاح کی جائے ، پس دِین کے احکامات عقل کے مُطابق قُبول نہیں کیے جاتے بلکہ قُران و صحیح سُنّت سے ثابت ہونے کی بنا پر قبول کیے جاتے ہیں اور اپنی عقل کو اُن کا تابع بنانا ہوتا ہے ، گو کہ یہ بات چلتے چلتے آ گئی لیکن جب آ ہی گئی تو ایک دو دلائل بھی ملاحظہ فرما بھی ہے کہ حیض والی عورت روزوں کی قضاء ادا کرے گی اور نماز کی نہیں''' ابو الزناد، عبداللہ بن ذکوان فقیہ مدینہ ، تابعی ہیں۔
،،،،،مضمون جاری ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 
ماہ رمضان اور ہم 2 ::: روزہ کیوں ؟ کیا ؟ اور دیگر اہم مسائل (4):::
گذشتہ سے پیوستہ
::: بوڑھوں اور مریضوں کے روزوں کا حُکم :::
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ( رُخِّصَ لِلشَّیخِ الکَبِیرِ اِن یُفِطرَ ویُطعِمَ عَن کُلِّ یَومٍ مَسکِینًا وَلا قَضَاءَ عَلِیہِ ) ( بوڑھے آدمی کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن ( اِس صُورت میں کہ ) وہ ہر روزے کے بدلے میں کِسی غریب کو کھانا کِھلائے (اُسکے لیے اتنا ہی کافی ہے ) اور اُس پر کوئی قضاء نہیں ) المُستدرک الحاکم ، حدیث ١٦٠٧/کتاب الصوم ، اِمام الذہبی نے '' التلخیص '''کہا ، حدیث حسن ہے ،
اللہ تعالیٰ کے فرمان ( وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدیَۃٌ طَعَامُ مِسکِینٍ) سورت البقرہ / آیت ١٨٤کی تفسیر میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ( لَا یُرَخَّصُ فی ہذا اِلا لِلَّذِی لَا یُطِیق ُ الصِّیَامَ اَو مَرِیضٍ لَا یُشفَی ) ( اِس معاملے میں (یعنی روزے رکھنے کی بجائے فدیہ دینا ) صِرف اُن کو اجازت دی جائے گی جو روزہ رکھنے کی (جسمانی ) طاقت نہ رکھتے ہوں یا ایسا مریض جِس کی بیماری ختم ہونے کی اُمید بھی نہ ہو) سُنن النسائی المجتبیٰ ، حدیث ٢٣١٦ / کتاب الصیام / باب ٦٣، اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے ، الاِرواءُ الغلیل، حدیث ٩١٢ کی تخریج و شرح ۔
::: روزے کی حالت میں ہم بستری کا حُکم :::
اللہ تعالیٰ کا فرمان ( اُحِلَّ لَکُم لَیلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِِلَی نِسَآئِکُم ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُم وَاَنتُم لِبَاسٌ لَّہُنَّ ) ( رمضان کی راتوں میں تم لوگوں کے لیے اپنی عورتوں سے ہم بستری حلال کر دی گئی ہے وہ تمہارا لباس ہیں اور تُم اُنکا لباس ہو ) سورت البقرہ آیت ١٨٧
اللہ تعالیٰ نے اِس فرمان میں رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں (بیویوں ، باندیوں ، باندی یا لونڈی کا مطلب خادمہ یا نوکرانی نہیں ، بلکہ زر خرید عورت ہے یا جو کافر عورت میدانِ جِہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ لگی ہو اور خلیفہ کی طرف سے کِسی کو دی گئی ہو) سے ہم بستری کرنے کی اجازت فرمائی ،
::: اِس آیت میں ایک اور معاملے کی بہت کھلی وضاحت ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے مکمل طور پر بے لباس ہو سکتے ہیں ، بہر حال یہ موضوع پھر کبھی انشا اللہ ، تو ، رمضان کی راتوں میں ہم بستری کرنا جائز ہے لیکن دِن میں یعنی روزے کی حالت میں ایسا کرنا گُناہ ہے اور اِ س سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے ، بَینَمَا نَحنُ جُلُوسٌ عِندَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم اِِذ جَاء َہُ رَجُلٌ فقال یا رَسُولَ اللَّہِ ہَلَکتُ قال (ما لک )قال وَقَعتُ علی امرَاَتِی واَنا صَائِمٌ فقال رسول اللَّہِ صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم (ہل تَجِدُ رَقَبَۃً تُعتِقُہَا )قال لَا قال (فَہَل تَستَطِیعُ اَن تَصُومَ شَہرَینِ مُتَتَابِعَینِ) قال لَا فقال( فَہَل تَجِدُ اِِطعَامَ سِتِّینَ مِسکِینًا )قال لَا قال فَمَکَثَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم فَبَینَا نَحنُ علی ذلک اُتِیَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم بِعَرَقٍ فیہ تَمرٌ وَالعَرَقُ المِکتَلُ قال (اَینَ السَّائِلُ )فقال اَنا قال (خُذ ہذا فَتَصَدَّق بِہِ) فقال الرَّجُلُ اَعَلَی اَفقَرَ مِنِّی یا رَسُولَ اللَّہِ فَوَاللَّہِ ما بین لَابَتَیہَا یُرِیدُ الحَرَّتَینِ اَہلُ بَیتٍ اَفقَرُ من اَہلِ بَیتِی فَضَحِکَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم حتی بَدَت اَنیَابُہُ ثُمَّ قال( اَطعِمہُ اَہلَکَ ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہا ::: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں مارا گیا ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ( کیا ہوا )اُس نے کہا ::: میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ( کیا تُم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو ؟ ) اُس نے کہا :: نہیں :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ( کیا دو ماہ مسلسل روزے رکھ سکتے ہو ؟ ) اُس نے کہا :: نہیں :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ( کیا ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلا سکتے ہو ؟ ) اُس نے کہا ::: نہیں :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تشریف فرما رہے ، کچھ دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ( وہ سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ ) اُس نے کہا ::: جی میں حاضر ہوں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( یہ کھجوریں لے جاؤ اور صدقہ کر دو ) اُس نے کہا ::: اے اللہ کے رسول کیا صدقہ اپنے سے زیادہ محتاجوں کو دوں ، اللہ کی قسم مدینہ میں کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے یہاں تک کہ اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑہیں مُبارک نظر آنے لگِیں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اچھا چلو اپنے گھر والوں کو ہی کِھلا دو ) صحیح البخاری ، حدیث ١٨٣٤ / کتاب الصوم /باب ٣٠ ،
::: اپنی جنسی خواہش پر قابو رکھ سکنے والا بیوی کا بوسہ لے سکتا ہے اور بغلگیر ہو سکتا ہے :::
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ( کان النَّبیُّ صَلی اللَّہُ عَلِیہ وَسلَّم یُقَبِّلُ وَیُبَاشِرُ وہو صَائِمٌ وکان اَملَکَکُم لِاِِربِہِ ) ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے (یعنی چومتے) اور بغلگیر ہوتے (یعنی گلے ملتے ) لیکن وہ سب سے زیادہ اپنی شہوت پر قابو پانے والے تھے ) صحیح البخاری ، حدیث ١٨٢٦ /کتاب الصوم/باب ٢٣۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ( کِسی آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کی حالت میں (بیوی یا لونڈی) سے بغلگیر ہونے کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اجازت دِی ، پھر ایک اور نے پوچھا تو اُسے منع فرما دِیا ، جِسے اجازت دِی تھی وہ بوڑھا آدمی تھا اور جِسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا )حدیث حسن، صحیح سنن ابو داؤد ، حدیث ٢٠٩٠۔
یعنی جو اپنی شہوت پر قابو نہیں رکھ سکتا اُسکے لیے روزے کی حالت میں بیوی یا لونڈی سے بغلگیر ہونا یا بوسہ لینا جائز نہیں۔
کسی بھائی کو لونڈی کے معاملے کوئی شکایت یو تو گذارش ہے کہ اس مضمون میں بات کرنے کی بجائے ایک الگ دھاگہ کھول کر وہاں بات کر لیں اور مجھے اس دھاگے کی خبر کر دیں
،،،،،،،،،،،،،،،،،، مضمون جاری ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 

ابو کاشان

محفلین
عام معلومات کیلیئے

بہت عمدہ جناب،

رمضان کی مناسبت سے خطیب صاحب سے کچھ ایسا بھی سُنا ہے جو ابھی یاد نہیں۔
(یا باغی الشر اقسل)
مفہوم
نیکی کے کام کرنے والے آگے بڑھ،
بدی کی طرف برھنے والے پیچھے ہٹ۔

کیا یہ حدیث ہے؟؟؟
 
:::::: ماہِ رمضان اور ہم 2:::::: روزہ کیوں؟ کیا؟ اور دیگر مسائل (۵)::::::

::: اِن کاموں یا چیزوں سے روزہ کی درستگی پر کوئی فرق نہیں پرتا :::
(١) ::: بھول چوک سے کھا پی لینا ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذَاَ نَسِیْ فَاَکَلَ وَشَرِبَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہ' فَاِنَّمَا اَطْعَمَہُ اللّٰہُ وَسَقَاہُ ) ( اگر کوئی بھول کر کھا پی لے تو اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا پلایا ہے ) صحیح البخاری حدیث ١٨٣١ ، / کتاب الصوم / باب ٢٦ ، یعنی ایسا ہو جانے کی صورت میں روزہ خراب نہیں ہوتا۔
(٢) :::روزے میں مسواک کرنا :::عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے (رَاَیْتَ النَبِّی صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَاکَ وَھُوَ صَائِمْ مَا لَا اُحْصِیْ اَوْ اَعُدُ) (میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کی حالت میں اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا ہے کہ گن نہیں سکتا ) صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٧ کے عنوان میں ۔
(٣)::: سر میں تیل لگانا ، کنگھی کرنا::: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :'' جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو اسے تیل کنگھی کر نا چاہیے ۔'' صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٥
(٤) ::: ناک میں دوائی وغیرہ ڈالنا اور سُرمہ لگانا ::: حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں '' روزہ دار کے لیے ناک میں دوا ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں بشر طیکہ حلق تک نہ پہنچے ،نیز روزہ دار سرمہ بھی لگا سکتا ہے ۔'' صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٨
(٥) ::: ہنڈیا یا کوئی چیز چکھنا ::: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا فرمان ہے '' روزہ دار ہنڈیا یا کسی دوسری چیز کا ذائقہ چکھ لے تو کوئی حرج نہیں '' صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٥
(٦) ::: اپنا تھوک نگلنا :::عطاء رحمۃ اللہ علیہ ، ( تابعی ہیں ) کا کہنا ہے ''روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے '' صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٥
(٧)::: روزہ دار کے اِرادے کے بغیر کِسی چیز کا حلق میں داخل ہو نا::: عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''اگر روزہ دار (وضو کرتے ہوئے ) ناک میں پانی داخل کرے اور کچھ پانی بغیر اُس کے اِرادے کے حلق میں چلا جائے تو کوئی حرج نہیں''، حسن رضی اللہ عنہ کہنا '' اگر مکھی روزے دار کے حلق میں چلی جائے تو کوئی حرج نہیں '' صحیح البخاری / کتاب الصوم /باب ٢٦ ،
یہ معاملہ بغیر اِرادے کے چیز داخل ہونے کا ہے لہذا روزہ دار کو وضو کرتے ہوئے پانی ناک یا منہُ میں بہت احتیاط کے ساتھ داخل اور خارج کرنا چاہیئے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ::: لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے وضو کے بارے میں بتائیے ، تو اُنہوں نے فرمایا ( اَسبِغ الوُضُوء َ وَخَلِّل بین الاَصَابِعِ وَبَالِغ فی الِاستِنشَاقِ اِلا اَن تَکُونَ صَائِمًا ) ( وضو کو رنگ چڑھانے کی طرح کرو اور اپنی انگلیوں کے درمیان خلال کیا کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی چڑھایا کرو ، لیکن اگر روزے کی حالت میں ہو تو پھر ایسا نہیں کرو ) سنن ابو داؤد ، حدیث ١٢٤ /باب ٥٥ ، حدیث صحیح ، الاِرواءُ الغلیل ، حدیث ٩٣٥۔
ایسی دوائیاں جو ٹیکوں (انجکشنز) یا قطروں (ڈارپس) یا سونگھائی (ان ہیلنگ ) کے ذریعے استعمال کی جاتی ہیں ، یا منہُ کے اند ، دانت یا مسوڑھے یا زُبان وغیرہ پر لگائی جاتی ہیں اور جو حلق تک نہ پہنچتی ہوں اور نہ ہی پیٹ میں داخل ہوتی ہوں ، اور نہ ہی اُن کے داخلے کی وجہ سے جِسم کو غذائیت یا طاقت و توانائی پہنچتی ہو یا پیاس وغیرہ کو سہارا ملتا ہو ، کا حُکم بھی یہی ہے کہ اِن کے اِستعمال سے روزہ خراب نہیں ہوتا۔( بلا ضرورت ٹوتھ پیسٹ سے گریز کرنا بہتر ہے ، کیونکہ اِس سے روزہ دار کے منہُ کی بُو جو اللہ کو مسک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے جاتی رہتی ہے ، رہا مسواک کرنا تو وہ اللہ کی رضا کا سبب ہے )۔
(٨)::: گرمی کی شدت کی وجہ سے یا پیاس یا کسی اور سبب سے سر میں پانی ڈالنا ::: ابو بکر بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اُنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک صحابی نے کہا ( لقد رَاَیْتُ النَبِی صلی اللَّہ عَلِیہ وسلم بِالعَرْجِ یَصُبٌ عَلَی رَاسِہِ المَاءَ وَھُوَ صَائِمٌمِنَ العَطَشْ اَوْ مِنَ الحَرِ) (میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے میں گرمی یا پیاس کی وجہ سے سر پر پانی بہا رہے تھے)سنن ابو داؤد ، حدیث٢٣٦٥/کتاب الصوم / باب ٢٧ ، صحیح ، المشکاۃ المصابیح ٢٠١١۔
(٩)::: بلا اِرادہ (احتلام یا کِسی اور سبب سے )منی یا مذی خارج ہونا ::: عبداللہ بن عباس اور ، عکرمہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا کہنا ہے'' روزہ کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے جسم سے خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا ۔'' منی وہ سفید گاڑھا لیس دار مادہ ہے جو شہوت کی حالت میں قوت کے ساتھ شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے ، اور مذی سفید پتلا ہلکی لیس والا مادہ ہے جوپیشاب سے پہلے یا بعد میں شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے ۔
(١٠):::قے (اُلٹی) آنا ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مَن ذَرَعَہُ قَیء ٌ وہو صَائِمٌ فَلَیسَ علیہ قَضَاء ٌ وَاِِن استَقَاء َ فَلیَقضِ ) ( جِس روزہ دار کو خود قے ہو جائے تو اُس پر کوئی قضاء نہیں ، لیکن اگر وہ جان بوجھ کر قے کرے تو اُس روزے کی قضاء (ادا) کرے ) یعنی جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور اُس کو قضاء کرنا پڑے گا یعنی پھر دوبارہ رکھنا ہوگا ۔صحیح ابو داؤد ، حدیث ٢٣٨٠۔
میں نے یہاںصرف اُن مسائل کو بیان کرنے پر اکتفاء کیا ہے جو عام طور پر پوچھے جاتے ہیں اور اکثر محض رائے کی بنیاد پر اُن کا جواب دیا جاتا ہے ۔
ماہ رمضان اور ہم 2 ::: روزہ کیوں ؟ کیا اور دیگر اہم مسائل ::: کا اختتام ہوا آگے انشاء اللہ ، سحری کے بارے میں بات ہو گی ۔
....................................................
السلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، عادَل سُہیل ظفر .
 
رمضان کی مناسبت سے خطیب صاحب سے کچھ ایسا بھی سُنا ہے جو ابھی یاد نہیں۔
(یا باغی الشر اقسل)
مفہوم
نیکی کے کام کرنے والے آگے بڑھ،
بدی کی طرف برھنے والے پیچھے ہٹ۔

کیا یہ حدیث ہے؟؟؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، بھائی ابو کاشان ،
جی یہ حدیث ہے اور صحیح ہے ، سنن ابن ماجہ میں ہے ، آپ کے سوال کے جواب کے طور پر وہ حدیث یہاں لکھے دیتا ہوں ،

((( اِذا کانَت أَوَّلُ لَیلَۃٍ مِن رَمضَانِ ، صُفِّدَتِ الشَّیَاطِینُ وَ مَردَۃَ الجِنِّ ، وَ غُلِّقت أَبوابُ النَّارِ ، فَلَم یُفتَحَ مِنھَا بابٌ وَ فُتِّحت أبوابُ الجَنَّۃِ ، فَلَم یُغلَقُ مِنھَا بابٌ ، وَ نَادَی مُنَادٍ ، یَا باغی الخَیرِ أقبل ، یَا باغی الشَّرِّ أَقصِر ، وَ لِلَّہِ عُتَقَاءُ مِن النَّارِ ، وَ ذَلِکَ فِی کُلِّ لَیلَۃٍ :::جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سر کشّ جنّوں کو باندھ دِیا جاتا ہے ، اور آگ ( یعنی جہنم ) کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں پھر اُن میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا ( یعنی رمضان میں ) اور جنّت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، پھر اُن میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا ، اور آواز دینے والا آواز دیتا ہے ( یعنی اللہ کی طرف سے کِسی فرشتے کے ذریعے آواز دی جاتی ہے ) اے خیر کے چاہنے والے آگے بڑھ ، اے شر کے چاہنے والے باز آ ، اور اللہ ہر رات میں لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے )))

، یہ حدیث ::: ماہ رمضان اور ہم (۱) ::: میں ذکر کر چکا ہوں ، اگر آپ اس مضمون کا مطالعہ فرمائیں تو ان شا اللہ کافی فائدہ ہو گا ،
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
 
Top