عادل ـ سہیل
محفلین
ماہِ رمضان اور ہم ۲
روزہ ، کیوں ،کیا اور دیگر مسائل
: روزے کی اصل اور حقیقی حِکمت '
(یآ اَیّھا الَّذین اَمَنُوا کُتِبَ عَلِیکُم الصَّیامَ کَما کُتِبَ عَلیٰ الذیِنَ مِن قَبلِکُم لعلَّکُم تَتَّقُونَ) ( اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو ، تُم پر روزے لکھ دیے(یعنی فرض کر دیے) گئے ہیں ، جیسا کہ تُم سے پہلے والوں پر لکھے گئے ، تاکہ تُم تقویٰ اِختیار کرو)البقرہ ، آیت ١٨٣
اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان میں روزوں کی فرضیت کے حُکم کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ روزے کے ذریعے اپنے نفس کی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ترک کرنامطلوب ہے ،
یہاں یہ بات بہت ہی اچھی طرح سے سمجھ کر یاد رکھنے کی ہے کہ صِرف بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ نہیں ، اور نہ ہی یہ مطلوب ہے کہ اللہ کی رضا مندی کے عِلاوہ کِسی اور مقصد کےلیے خود کو کھانے پینے سے روک لیا جائے، اگر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کے احکامات کی پابندی نہ کی جائے تو اللہ کو کِسی کے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ہے ، رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کا فرمان ہے :::
(مَن لَم یَدعَ قولَ الزُورِ و العَملَ بِہِ فَلیس للّہِ حاجۃٌ اَن یَدَع طعامَہُ و شرابَہُ ) ( جِس نے جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل نہیں چھوڑا اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ) صحیح البخُاری ، حدیث ١٩٠٣
حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری میں اِمام ابن بطال کا یہ قول نقل کیا '' اِس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ روزہ رکھنا چھوڑ دیا جائے ، بلکہ یقینا اِس کا معنیٰ جھوٹ بولنے اور اُس پر عمل کرنے سے روکنا ہے '' اور اِمام البیضاوی کا یہ قول نقل کیا '' اللہ کو اُسکی ضرورت نہیں'' سے مُراد اللہ کی طرف سے غیر مقبول ہونا ہے ''
ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام نے فرمایا( لَیسَ الصَّیامُ مِنَ الاکلِ و الشُّربِ ، اِنَّمَا الصَّیامُ مِنَ اللَّغُوِ والرَّفثِ ، فَاِن سَابَّکَ اَحَدٌ اَو جَھِلَ عَلِیکَ فَقُل اِني صائمٌ ) ( روزہ صِرف کھانے پینے کا نہیں ، بلکہ بلا شک روزہ فحش کلامی کرنے سے ہے ، اور اگر کوئی تُمہیں گالی دے یا تُمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو تُم کہو میں روزے میں ہوں ) مُستدرک الحاکم حدیث ، ١٥٧٠ ، اِمام الذہبی نے التلخیص میں اِمام الالبانی نے صحیح الجامع الصغیر ( ٥٣٧٦ ) میں اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ۔
** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جِن کے روزہ رکھنے کی وجہ صِرف یہ نہیں ہوتی کہ اللہ کی طرف سے فرض ہے بلکہاُن کا مطمع نیت صحت کی بہتری ، کچھ دبلا ہونا وغیرہ بھی ہوتا ہے ؟
کیا آپ اُن روزہ داروں میں سے تو نہیں جو اپنے پیٹ کی خواہشات کو تو روک لیتے ہیں مگر نفس کی خواہشات پرکوئی روکاوٹ نہیں لگاتے ؟
** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جو روزے کی وجہ سے اپنی زُبان کو کھانے پینے کے ذائقے سے تو باز رکھتے ہیں مگر،،،،جھوٹ ،غیبت ، چُغلی ، گالی گلوچ اور گندی واہیات باتوں سے باز نہیں رکھتے ؟
** روزہ لگ رہا ہے ، ذرا وقت گزاری اور دہیان بدلنے کے لیے کوئی فلم یا ڈرامہ دیکھ لیا جائے ، جِسم کا تو روزہ ہے روح کو ہی خوارک مہیا کی جائے، کوئی موسیقی گانا وغیرہ سُنا جائے ، اگر دین اور اِسلام کا خیال آ گیا تو موسیقی کی تال پر گائی ہوئی نعتیں ، قوالیاں ، کوئی عارفانہ کلام ، سُن لیا جائے **** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں ہیں جو روزے کی شدت کو دور کرنے کے لیے آنکھوں اور کانوں کا زنا کرتے ہیں ؟ ( موسیقی کو روح کی خوراک کہہ کر شیطان نے بنی آدم کو اِس راہ پر لگا رکھاہے ، موسیقی والے درس میں اِس کا ذِکر تفصیل سے کیاگیا تھا ، اور وہ اب کتابی شکل میں بھی موجود ہے )
** اگر آپ اِن میں سے ہیں تو آپ کی بھوک پیاس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ، اور اگر آپ اِن میں سے نہیں توپھر آپکی بھوک پیاس اِنشاء اللہ آپ کے لئیے فائدہ مند ہو گی ۔
** ابوہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دخَلَ شھرُ رمضانُ فُتِحت اَبوابُ السَّماءِ وغُلِّقت اَبوابُ جھنَّمَ و سُلسِلَت الشیٰطین )( جب رمضان داخل ہوتا ہے تو شیطانوں کو زنجیریں پہنا دی جاتی ہیںاور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ) صحیح البُخاری حدیث ، ١٨٩٩ ، اور صحیح مُسلم کی ایک روایت میں جنت کے دروازے کُھلنے اور آگ کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے اور دوسری روایتمیں رحمت کے دروازے کُھلنے اور جہنم کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے ، ( حدیث ، ١٠٧٩ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور کوئی کام جو صحیح سند کے ساتھ ہم تک پُہنچا ہو اُس فرمان یا کا م کا انکار کرنا بِلا شک کُفر ہے ، اور مذکورہ بالا حدیث بِلا شک صحیح ہے ، اب ذرا اِس صحیح حدیث کی روشنی میں غور فرمائیے کہ :::
** رمضان میں شیاطین تو باندھ دیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مُسلمان گناہوں میں ملوث نظر آتے ہیں اور بڑی کثرت سے نظر آتے ہیں !!!
** رحمت اور جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر بھی اِن کُھلے دروازوں پر داخلے کے خواہش مند کم کم ہی دِکھائی دیتے ہیں!!!
** آگ اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پھر بھی اُن پر جم غفیر نظر آتا ہے !!!
** کون ہے جو اُنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے ؟؟؟؟؟
** کیا اُنکے دِلوں میں اِیمان اِنتہائی کمزور نہیں ہو چُکا ؟
** کون ہے جو اُنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے ؟؟؟؟؟
** کیا اُنکے دِلوں میں اِیمان اِنتہائی کمزور نہیں ہو چُکا ؟
** کیا وہ اِس وسوسے کا شکار نہیں کہ فجر سے مغرب تک بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ ہے ، باقی سب کُچھ حسبِ معمول جاری رہے تو کوئی حرج نہیں ؟
** کیا اُنکے دِل و دماغ شیطان کے اتنے تابع فرمان نہیں ہو چکے کہ خود بخود ہی اُسکی راہ پر چلتے جا رہے ہیں ؟
** کہیں آپ بھی تو اُن میں سے نہیں ؟ اللہ نہ کرے کہ اِس کا جواب ''' جی ہاں ''' ہو اور اگر ایسا ہے تو پھر رمضان توبہ کر کے اللہ کی مغفرت حاصل کرنے کا سُنہری موقع(Golden Chance )ہے ،اِس موقع سے فائدہ اُٹھائیے ۔
(وَسَارِعُوا اِلَی مَغفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُم وَجَنَّۃٍ عَرضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالاَرضُ اُعِدَّتْ لِلمُتَّقِینَ ) ( اور جلدی بھاگو اللہ کی طرف سے مغفرت کی طرف اور جنّت (کی طرف ) جِس کی چوڑائی (تمام ) آسمانوں اور زمین کے برابر ہے (اور) جو تقویٰ والوں کے لیے تیار کی گئی ہے) آل عمران /آیت ١٣٣
مضمون جاری ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
روزہ ، کیوں ،کیا اور دیگر مسائل
: روزے کی اصل اور حقیقی حِکمت '
(یآ اَیّھا الَّذین اَمَنُوا کُتِبَ عَلِیکُم الصَّیامَ کَما کُتِبَ عَلیٰ الذیِنَ مِن قَبلِکُم لعلَّکُم تَتَّقُونَ) ( اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو ، تُم پر روزے لکھ دیے(یعنی فرض کر دیے) گئے ہیں ، جیسا کہ تُم سے پہلے والوں پر لکھے گئے ، تاکہ تُم تقویٰ اِختیار کرو)البقرہ ، آیت ١٨٣
اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان میں روزوں کی فرضیت کے حُکم کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ روزے کے ذریعے اپنے نفس کی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ترک کرنامطلوب ہے ،
یہاں یہ بات بہت ہی اچھی طرح سے سمجھ کر یاد رکھنے کی ہے کہ صِرف بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ نہیں ، اور نہ ہی یہ مطلوب ہے کہ اللہ کی رضا مندی کے عِلاوہ کِسی اور مقصد کےلیے خود کو کھانے پینے سے روک لیا جائے، اگر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کے احکامات کی پابندی نہ کی جائے تو اللہ کو کِسی کے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ہے ، رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کا فرمان ہے :::
(مَن لَم یَدعَ قولَ الزُورِ و العَملَ بِہِ فَلیس للّہِ حاجۃٌ اَن یَدَع طعامَہُ و شرابَہُ ) ( جِس نے جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل نہیں چھوڑا اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ) صحیح البخُاری ، حدیث ١٩٠٣
حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری میں اِمام ابن بطال کا یہ قول نقل کیا '' اِس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ روزہ رکھنا چھوڑ دیا جائے ، بلکہ یقینا اِس کا معنیٰ جھوٹ بولنے اور اُس پر عمل کرنے سے روکنا ہے '' اور اِمام البیضاوی کا یہ قول نقل کیا '' اللہ کو اُسکی ضرورت نہیں'' سے مُراد اللہ کی طرف سے غیر مقبول ہونا ہے ''
ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام نے فرمایا( لَیسَ الصَّیامُ مِنَ الاکلِ و الشُّربِ ، اِنَّمَا الصَّیامُ مِنَ اللَّغُوِ والرَّفثِ ، فَاِن سَابَّکَ اَحَدٌ اَو جَھِلَ عَلِیکَ فَقُل اِني صائمٌ ) ( روزہ صِرف کھانے پینے کا نہیں ، بلکہ بلا شک روزہ فحش کلامی کرنے سے ہے ، اور اگر کوئی تُمہیں گالی دے یا تُمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو تُم کہو میں روزے میں ہوں ) مُستدرک الحاکم حدیث ، ١٥٧٠ ، اِمام الذہبی نے التلخیص میں اِمام الالبانی نے صحیح الجامع الصغیر ( ٥٣٧٦ ) میں اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ۔
** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جِن کے روزہ رکھنے کی وجہ صِرف یہ نہیں ہوتی کہ اللہ کی طرف سے فرض ہے بلکہاُن کا مطمع نیت صحت کی بہتری ، کچھ دبلا ہونا وغیرہ بھی ہوتا ہے ؟
کیا آپ اُن روزہ داروں میں سے تو نہیں جو اپنے پیٹ کی خواہشات کو تو روک لیتے ہیں مگر نفس کی خواہشات پرکوئی روکاوٹ نہیں لگاتے ؟
** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جو روزے کی وجہ سے اپنی زُبان کو کھانے پینے کے ذائقے سے تو باز رکھتے ہیں مگر،،،،جھوٹ ،غیبت ، چُغلی ، گالی گلوچ اور گندی واہیات باتوں سے باز نہیں رکھتے ؟
** روزہ لگ رہا ہے ، ذرا وقت گزاری اور دہیان بدلنے کے لیے کوئی فلم یا ڈرامہ دیکھ لیا جائے ، جِسم کا تو روزہ ہے روح کو ہی خوارک مہیا کی جائے، کوئی موسیقی گانا وغیرہ سُنا جائے ، اگر دین اور اِسلام کا خیال آ گیا تو موسیقی کی تال پر گائی ہوئی نعتیں ، قوالیاں ، کوئی عارفانہ کلام ، سُن لیا جائے **** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں ہیں جو روزے کی شدت کو دور کرنے کے لیے آنکھوں اور کانوں کا زنا کرتے ہیں ؟ ( موسیقی کو روح کی خوراک کہہ کر شیطان نے بنی آدم کو اِس راہ پر لگا رکھاہے ، موسیقی والے درس میں اِس کا ذِکر تفصیل سے کیاگیا تھا ، اور وہ اب کتابی شکل میں بھی موجود ہے )
** اگر آپ اِن میں سے ہیں تو آپ کی بھوک پیاس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ، اور اگر آپ اِن میں سے نہیں توپھر آپکی بھوک پیاس اِنشاء اللہ آپ کے لئیے فائدہ مند ہو گی ۔
** ابوہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دخَلَ شھرُ رمضانُ فُتِحت اَبوابُ السَّماءِ وغُلِّقت اَبوابُ جھنَّمَ و سُلسِلَت الشیٰطین )( جب رمضان داخل ہوتا ہے تو شیطانوں کو زنجیریں پہنا دی جاتی ہیںاور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ) صحیح البُخاری حدیث ، ١٨٩٩ ، اور صحیح مُسلم کی ایک روایت میں جنت کے دروازے کُھلنے اور آگ کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے اور دوسری روایتمیں رحمت کے دروازے کُھلنے اور جہنم کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے ، ( حدیث ، ١٠٧٩ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور کوئی کام جو صحیح سند کے ساتھ ہم تک پُہنچا ہو اُس فرمان یا کا م کا انکار کرنا بِلا شک کُفر ہے ، اور مذکورہ بالا حدیث بِلا شک صحیح ہے ، اب ذرا اِس صحیح حدیث کی روشنی میں غور فرمائیے کہ :::
** رمضان میں شیاطین تو باندھ دیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مُسلمان گناہوں میں ملوث نظر آتے ہیں اور بڑی کثرت سے نظر آتے ہیں !!!
** رحمت اور جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر بھی اِن کُھلے دروازوں پر داخلے کے خواہش مند کم کم ہی دِکھائی دیتے ہیں!!!
** آگ اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پھر بھی اُن پر جم غفیر نظر آتا ہے !!!
** کون ہے جو اُنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے ؟؟؟؟؟
** کیا اُنکے دِلوں میں اِیمان اِنتہائی کمزور نہیں ہو چُکا ؟
** کون ہے جو اُنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے ؟؟؟؟؟
** کیا اُنکے دِلوں میں اِیمان اِنتہائی کمزور نہیں ہو چُکا ؟
** کیا وہ اِس وسوسے کا شکار نہیں کہ فجر سے مغرب تک بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ ہے ، باقی سب کُچھ حسبِ معمول جاری رہے تو کوئی حرج نہیں ؟
** کیا اُنکے دِل و دماغ شیطان کے اتنے تابع فرمان نہیں ہو چکے کہ خود بخود ہی اُسکی راہ پر چلتے جا رہے ہیں ؟
** کہیں آپ بھی تو اُن میں سے نہیں ؟ اللہ نہ کرے کہ اِس کا جواب ''' جی ہاں ''' ہو اور اگر ایسا ہے تو پھر رمضان توبہ کر کے اللہ کی مغفرت حاصل کرنے کا سُنہری موقع(Golden Chance )ہے ،اِس موقع سے فائدہ اُٹھائیے ۔
(وَسَارِعُوا اِلَی مَغفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُم وَجَنَّۃٍ عَرضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالاَرضُ اُعِدَّتْ لِلمُتَّقِینَ ) ( اور جلدی بھاگو اللہ کی طرف سے مغفرت کی طرف اور جنّت (کی طرف ) جِس کی چوڑائی (تمام ) آسمانوں اور زمین کے برابر ہے (اور) جو تقویٰ والوں کے لیے تیار کی گئی ہے) آل عمران /آیت ١٣٣
مضمون جاری ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،