مایوسی سے جنگ

ناعمہ عزیز

لائبریرین
پاگل پن ایک بیماری ہے اور مجھے نہیں پتا پاگل انسان کس طرح کا ہوتا ہے!! میں اپنی طرز کی ایک عجیب سی پاگل ہوں ، فرسٹر یشن بھی ایک بیماری ہے ، اور مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ یہ پاگل پن کی ایک قسم ہے کیونکہ جب میں فرسٹریشن کا شکار ہوتی ہوں تو میری کیفیت بالکل پاگلوں جیسی ہوتی ہے، انسان کو اپنی فرسٹریشن باہر نکالنے کے لئے بھی ایک زندہ انسان کی ضرورت پڑتی ہے، جس پر وہ جی بھر کی اند ر کا کوڑا کڑکٹ نکال لے، پر ضروری نہیں ہے کہ وہ بندہ ہمیں سمجھتا بھی ہو!!
اور ایسی حالت میں جب انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہو اور مایوسی جیسے مرض میں مبتلا ہو تو پھر اللہ ہی وارث ہے!!
باتوں کی حد تک ہم بہت آگے آگے ہوتے ہیں پر عمل کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، اشفاق احمد بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں دنیا میں گوڈے گوڈے دھنسا ہوا ہو ں ۔
میرے پاس تو علم نہیں ہے عمل بھی نہیں ہے، مجھے لگتا ہے اگر دنیا میں کوئی بندہ ناکام ہے تو مجھ سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے،
صوفی لوگ گلہ نہیں کیا کرتے تھے شکوہ نہیں کرتے، ساری دنیا ان کے اشاروں پر ناچتی ہے ، اس لئے کہ دنیا میں جو ہو تا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہو تاہے اور صوفی لوگ اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں!!
جب میں فرسٹریشن کا شکا ر ہوتی ہو ں تو میں بھی یہ سوچتی ہو ں کہ جو ہو رہا ہے اللہ کے حکم سے ہے پر پھر بھی انسان ہوں قدم ڈگمگا ہی جاتے ہیں۔ یہ جان کر بھی سب کچھ اسی کے حکم سے ہے میں عام فہم لوگوں کی طرح گلہ بھی کرتی ہوں اور شکوہ بھی۔۔۔
عجیب بے بسی ہے کہ میں سچ لکھنا بھی چاہتی ہوں کہنا بھی چاہتی ہوں اور کہہ بھی نہیں سکتی!!
میں اپنی فرسٹریشن کو باہر نکالنا بھی چاہتی اور نکال بھی نہیں پاتی، کوئی حل نہیں ہے بیکا ر ہے سب !
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنی مرضی سے بھیجا اپنی مرضی سے اٹھائیں گے، اور دنیامیں رکھ کر بھی کہتے ہیں کہ اگر میری مرضی پہ نا چلو گے تو نامراد ہو ناکام ہو!!
کیسا اصول ہے!
کیسی کشمکش ہے!
جب ہم اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے تو پھر فرسٹریشن کا شکار کیوں ہوں!
ایک طرف اس بات پر یقین ہے کہ جو ہوتا ہے بہتری کے لئے ہو تا ہے اور ایک طرف مایوسی کے دورے!!
میں کہتی ہوں کہ اگر آپ سے کچھ چھن جاتا ہے تو اسی کے بدلے میں کچھ نا کچھ مل بھی جاتا ہے!
پر مسئلہ یہ ہے کہ یقین کی کمی ہے ، اور کیوں یہ بھی نہیں معلوم !
کہتے ہیں بندے کے پاس یقین ہو تو وہ ساری دنیا فتح کر سکتا ہے! ہم سے اپنا آپ فتح نہیں ہوتا دنیا خاک فتح کریں گے!!!!!!!:(

اتنا کچھ لکھ کر بھی فرسٹریشن سے جان نہیں چھوٹی!!!:( :(:(:(:(:(:(:(:(:(:(:(:(:(:(:(:(
 
کیا ہوگیا آپ کو پگلی بٹیا رانی؟ ہمیں یہ تو یقین نہیں کہ ہم زندہ ہیں بھی یا نہیں۔ لیکن آپ ہم پر فرسٹریشن نکال سکتی ہیں۔ :)
 

پپو

محفلین
عمر کے ایک حصہ میں ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے کسی کے زیادہ اور کسی کے ساتھ کم اس وقت انسان عقل پر کم اور جذباتی پہلو پر زیادہ توجہ دیتا ہے پھر آہستہ آہستہ تبدیلی ہوتی جاتی ہے اگر ساتھ رہنے والے مدد کریں توایسی حالت پر جلد قابو پایا جا سکتا ہے
 
السلام عليكم ناعمہ آپ كو كيا ہوا ؟ :confused: موڈ پر سكون اور تحرير ۔۔۔ ؟
آپ نے بہت سارے جو سوالات اٹھائے ہيں يہ اچھی بات ہے۔ الله سبحانہ وتعالى كى حكمتوں اور رحمتوں كے متعلق صرف كتاب الہی رہنمائى كر سكتى ہے۔ ميرے خيال ميں آپ اس كا مطالعہ شروع كريں تو بہت سے سوالات كے جوابات مل جائيں گے۔ ميرے ساتھ تو ايسا ہی معاملہ ہے ۔
میں اپنی طرز کی ایک عجیب سی پاگل ہوں ، فرسٹر یشن بھی ایک بیماری ہے ، اور مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ یہ پاگل پن کی ایک قسم ہے کیونکہ جب میں فرسٹریشن کا شکار ہوتی ہوں تو میری کیفیت بالکل پاگلوں جیسی ہوتی ہے،
ايسا مت كہيں ! پليز ۔
انسان کو اپنی فرسٹریشن باہر نکالنے کے لئے بھی ایک زندہ انسان کی ضرورت پڑتی ہے، جس پر وہ جی بھر کی اند ر کا کوڑا کڑکٹ نکال لے، پر ضروری نہیں ہے کہ وہ بندہ ہمیں سمجھتا بھی ہو!!
كتھارسس كے ليے كسى دوسرے كى ضرورت نہيں ہوتی۔ لوگ مشغلے كيوں اختيار كرتے ہيں بھلا؟ اور لمبى پرسکون واك بھی مدد كر سكتى ہے۔ نماز باجماعت والوں كو يہ نعمت مفت ملتى ہے۔
اور ایسی حالت میں جب انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہو اور مایوسی جیسے مرض میں مبتلا ہو تو پھر اللہ ہی وارث ہے!!
جى اسى ليے اس نے اپنی كتاب مقدس ميں کہا ہے : ألا بذكر الله تطمئن القلوب ! يعنى صرف اللہ كى ياد دلوں كو سكون بخشتى ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
نبي صلى الله عليہ وسلم كے فرمان کے مطابق : لا إله إالا الله وحده لا شريك له الملك و له الحمد وهو على كل شيئ قدير كو صبح اور شام سو بار يا كم از كم دس بار پڑھیں ۔ اور اثردیکھیں۔
ايك آخرى بات : يقين ركھيں الله سبحانه وتعالى آپ سے سب سے زيادہ محبت كرتے ہيں ۔
اور آپ كى فرينڈ اسلام آباد ميں آپ کے ليے بہت زيادہ دعا گو ہے کہ الله سبحانه وتعالى آپ كو بہت سى نعمتيں اور راحتيں دے ، دنيا و آخرت كى سعادتيں دے
 

پپو

محفلین
اچھا اچھا کیونکہ کپڑا تو میڑ ہی سے ناپا جاتا ہے
ویسے یہ کونسے دربار پر لیکر جانا ہے تاکہ ہماری بہن کی جلد از جلد اس فرسٹریشن جان چھوٹے
 

شمشاد

لائبریرین
اجی دربار کیسا، فی الحال تو پیر صاحب کو ہی پیش کرنا ہے اور وہ پیر میں خود ہی ہوں۔

یہ چونکہ محفل کی رکن ہے اس لیے اسے خاص رعایت دی ہے، ورنہ ساتھ میں ایک ہزار ایک روپے بھی دینے پڑتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس کو خاص رعایت دی ہے کہ اس کی فریسٹریشن ختم ہو جائے۔

ویسے ایک ہزار روپے کی آجکل کے دور میں حقیقت ہی کیا ہے۔
 
فرسٹریشن دراصل شیطانی جذبہ ہے۔ شیطان فرسڑیٹ ہے اور انسان کو فرسڑیٹ کرنا چاہتا ہے۔ ابلیس کے معنی فرسڑیٹ ہی کے ہیں۔ دراصل شیطان اللہ کی رحمت سے بلکل مایوس ہے اور اسی مایوسی کو وہ انسان میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ جب انسان فرسڑیٹ ہوتا ہے تو اس بات کا اشارہ ہے کہ اس کی روحانی طاقت کمزور ہے اور اللہ سے اس کا تعلق کمزور ہے۔ اس صورت میں انسان کو اپنے افعال کو جائزہ لینا چاہیے ۔ ہر وہ بات جس سے اللہ کی ناراضگی کا خدشہ ہو چھوڑ دینا چاہیے اور ہر وقت درود شریف کا ورد کرنا چاہیے۔
ہاں ایک اور بات
جیو نیوز اور محفل کے سیاسی کارنر سے پرہیز بھی کرنا چاہیے۔
 

ساجد

محفلین
ارے بھئی ہم تو آج تک فرسٹریشن کو بہت اچھی چیز سمجھتے رہے کیوں کی اس کی عبارت کے آغاز میں ہی "فرسٹ" ہے اور "ریشن" کو ہم ریٹنگ سے متعلقہ یعنی درجہ بندی کے معانی میں شمار کرتے تھے یا پھر ریشو یعنی تناسب پر محمول کرتے تھے۔ ہمیں کوئی" فرسٹ ریٹد "کہتا تھا تو پھوٌل کر کپا ہو جاتے کہ ہمیں پہلے درجے میں شمار کیا ہے۔ اب ناعمہ کی تحریر کے بعد ان لوگوں کی فہرست مرتب کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں مختلف مواقع پر "فرسٹ ریٹڈ" کہا تھا۔ تا کہ ان کی طرف سےہماری اس "عزت افزائی" کا قرض سُود سمیت لوٹا سکیں۔
ناعمہ آپ کی فرسٹریشن تو شاید دور بھی ہو چکی ہو گی لیکن میں آپ کی تحریر پڑھ کے خو کو "سچی مُچی فرسٹ ریٹڈ" خیال کرنے لگا ہوں۔:)
 

ظفری

لائبریرین
فرسٹریشن دراصل شیطانی جذبہ ہے۔ شیطان فرسڑیٹ ہے اور انسان کو فرسڑیٹ کرنا چاہتا ہے۔ ابلیس کے معنی فرسڑیٹ ہی کے ہیں۔ دراصل شیطان اللہ کی رحمت سے بلکل مایوس ہے اور اسی مایوسی کو وہ انسان میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ جب انسان فرسڑیٹ ہوتا ہے تو اس بات کا اشارہ ہے کہ اس کی روحانی طاقت کمزور ہے اور اللہ سے اس کا تعلق کمزور ہے۔ اس صورت میں انسان کو اپنے افعال کو جائزہ لینا چاہیے ۔ ہر وہ بات جس سے اللہ کی ناراضگی کا خدشہ ہو چھوڑ دینا چاہیے اور ہر وقت درود شریف کا ورد کرنا چاہیے۔
ہاں ایک اور بات
جیو نیوز اور محفل کے سیاسی کارنر سے پرہیز بھی کرنا چاہیے۔
یہ پوسٹ تو لطائف کے زمرے میں پوسٹ ہونی چاہیئے تھی ۔ ;)
 

ظفری

لائبریرین
فریسٹریشن دراصل ہمارے اس عمل کا ردعمل ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا کوئی کام ہمارے حسبِ منشاء نہیں ہورہا ۔ تو ایک جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور جب معاملات ہمارے دائرہ اختیار سے باہر نکل جاتے ہیں تو پھر وہ جھنجھلاہٹ ، مایوسی میں بدل جاتی ہے ۔ جسے ہم فریسٹریشن کہتے ہیں ۔ زندگی میں انسان بہت سے منصوبے بناتا ہے ۔ اور اپنے عقل و فہم کے مطابق ان کی تکمیل میں سرگرداں ہوجاتا ہے ۔ کبھی ان میں‌ کامیابی حاصل ہوجاتی ہے اور کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

دراصل سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ جب ہم کسی منصوبے کا خاکہ اپنے ذہن سے بناتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اس میں کامیابی کے لیئے ہم نے کتنے مواقع پیدا کیئے ۔ کیا تدابیر اختیار کیں ۔ کام کی نوعیت اور اس نوعیت سے جُڑے ہوئے دوسروں کے معاملات کے درمیان ہمارے کام کی ہم آہنگی کا کیا تناسب رہا ۔ دراصل جو مواقع ہم کو ملے اہمیت ان کی نہیں‌ ہوتی بلکہ اہمیت ان مواقع کی ہوتی ہے جو ہم نے خود پیدا کیئے ہوتے ہیں ۔ دیکھنے کی بات نہیں کہ ہم نے آغاز کیسے کیا ۔ بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی منصوبہ بندی میں خود سے پیدا کیئے ہوئے مواقع پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کہاں تک رسائی حاصل کی ۔ انسان جب اپنے کسی کام میں آگے قدم بڑھاتا ہے تو اس کا سامنا بےشک اقتصادی دشواریوں سے بھی پڑتا ہے ۔ بعض معاملات میں تعلیم کی کمی و بیشی بھی اس کی راہ روک لیتی ہے ۔ کبھی کبھی معاشرے کے رسم و رواج بھی آڑے آجاتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم پر جھنجلاہٹ طاری ہوگئی تو ہمارے ہاتھ سے وہ وقت بھی نکل سکتا ہے ۔ جس کے دوران کسی منصوبے کے نعم البدل کا کوئی امکان پیدا ہو رہا ہو ۔ جھنجلاہٹ جب مایوسی میں بدلتی ہے تو انسان کاہلی اور احساسِ کمتری کا بھی شکار ہوجاتا ہے ۔ دراصل ہماری کامرانی کی راہ میں بدقسمتی نہیں بلکہ خود ہماری کمزوریاں سدِ راہ بنتیں ہیں ۔ لہذاٰ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان تمام معاملات میں خود کو پہچانیں ، اپنی عقل کو کام میں لائیں ، اپنی دماغی قوتوں کو یکجا کریں ، اپنے جذباتی ہیجان پر قابو پائیں ۔ اور اپنی خواہشوں اور خواب کو حقیقت بنانے کی جہدوجہد میں جہاں تک ہوسکے اپنی خودی کو اس مقام تک لے کر آئیں کہ :
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے

ہمیں ‌اپنی منزل کا تعین کرنا بھی لازمی ہے ۔ ہمہ وقت ہمیں یہ احساس رہنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بڑی کائنات میں ہماری لیئے بھی جگہ رکھی ہے اور اس سے اللہ کے نزدیک ہماری اہمیت کا بھی احساس ہوجاتا ہے ۔ مقصدیت ہماری زندگی کی اساس ہے ۔ اور ہمارے اندر شعور کی موجودگی ہی ہماری مقصدیت کو ظاہر کردیتی ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی زندگی کو کسی مقصد کی راہ میں ڈالیں ، منزل خود بخود متعین ہوجائے گی ۔ مادیت کا حصول انسان کی فطری تقاضوں کا مرہونِ منت ہے ۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ مگر ہمیں اپنے شعور کو بھی پہچاننا چاہیئے ۔ جس کی مدد سے ہم ہر قسم کی فریسٹریش سے بآسانی بچ سکتے ہیں ۔
 
Top