میرے پاس تو علم نہیں ہے عمل بھی نہیں ہے، مجھے لگتا ہے اگر دنیا میں کوئی بندہ ناکام ہے تو مجھ سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے،
جب ہم اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا کوئی دوسرا شخص ہماری کسی کمی یا کوتاہی کی طرف نشاندہی کرتا ھے تو نارمل سی بات ھے پہلا ردعمل یہ ہوتا ھے کہ ہم منفی سمت میں سوچنے لگتے ہیں اور اپنے آپ کو اپنی کوتاہی کیلئے کوستے ہیں ،،،،جب کوئی انسان اس طرح کی منفی باتیں سوچنے لگتا ھے اور اسی ایک نکتے پہ بار بار سوچتا ھے تو ایک وقت آتا ھے وہ حقیقت میں اس نتیجے پہ پہنچتا ھے کہ وہ بلا ضرورت اس دنیا میں بھیجا گیا ھے اور چونکہ وہ سوسائٹی کی نظر میں پرفیکٹ نہیں ھے لہذا اس سے زیادہ ناکام شخصیت اس دنیا میں دوسری کوئی نہیں ھے ۔ یہاں سے فرسٹریشن کا آغاز ہوتا ھے اور اگر یہ رویہ زیادہ دیر قائم رہے تو انسان حقیقی معنی میں ڈپریشن میں چلا جاتا ھےجو کہ سب بیماریوں کی جڑھے ۔
فرسٹریشن سے نکلنے کیلئے پہلی چیز جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ھے وہ انسان کی اپنی سوچ ہوتی ھے اور اسے تبدیل کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ھے ،،،اس کیلئے ضروری ھے کہ آپ چیزوں کو مثبت پیرائے میں دیکھیں یعنی مثال کے طور پہ اپنے آپ کو لایعنی مخلوق سمجھنے کی بجائے اپنے اندر ان صلاحیتوں کو تلاش کریں جن کے بل بوتے پہ آپ اپنی شخصیت کو گروم کر سکیں ،،اگر کسی مقصد میں ناکامی کا سامنا ھے تو اپنی غلطیوں اور خامیوں کو پہچان کر مثبت انداز میں انہیں خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں ،،،اپنے اندر اتنا قوت ارادی پیدا کریں کہ غیر جانبداری سے اپنا محاسبہ خود کریں تاکہ منفی سوچ کو مثببت رویے میں تبدیل کیا جا سکے ۔ اور سب سے اہم بات کہ کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا ھے بلکہ اپنے تجربات سے سیکھتا ھے اور اس کا تعلق دنیاوی علوم سے بہت کم ھے ،،،یہ ضرور ھے کہ دنیاوی علوم آپ کے شعوری ارتقا میں مددگار ثابت ہوتے ھیں ۔ تمام امور اللہ تعالی کی مرضی سے انجام ضرور پاتے ہیں لیکن میرے خیال میں جو برتر قوت انسان کو حاصل ھے وہ انسانی شعور ھے جس پہ انحصار کر کے ہم اپنے معاملات کو پہچان سکتے ہیں اور بہتر سے بہترین کی طرف جا سکتے ہیں ۔
اس کے باوجود اگر انسان بے چینی محسوس کرتا ھے تو کسی دوست ،،،رشتہ دار یا قابل اعتماد شخص سے ضرور شئیر کرنا چاہیئے اگر یہ بھی ممکن نہیں تو اپنے خیالات کو قلمبند کریں یا کسی ایسی صحتمندانہ ذہنی یا جسمانی ایکٹوٹی کو اپنے معمولات میں شامل کر لیا جائے جس سے فرسٹریشن کا خاتمہ بھی ہو اور دوسرے معاشی یا معاشرتی مقاصد بھی حاصل کیے جا سکیں یا کسی دیرینہ شوق کی تسکین ہو سکے ۔