فیس بُک پر تو خیر ہر پارٹی نے اودھم مچا رکھا تھا جس میں پی ٹی آئی کے جوشیلے دیگر جماعتوں کی نسبت بہت نمایاں تھے اور میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی مسلسل الزام تراشی اور کردار کشی نے ن لیگ کو زبردست فائدہ پہنچایا ، وہ یوں کہ بہت سے سنجیدہ ووٹر ان کی حرکتوں سے زچ ہو کر کنارہ کشی کر گئے۔ میں اس پر ایک تحریر محفل پر بھی لانا چاہتا تھا لیکن یہاں ہمارے پی ٹی آئی کے دوست ایک لفظ سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہ تھے یوں میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔ بہر حال پی ٹی آئی کے ان "دوستوں" نے اپنی ہی جماعت کے ساتھ دشمنی کی اور شاید خود کپتان نے بھی کہ اس کا رویہ بھی جارحانہ ہی رہا۔
رہی بات ن لیگ کی تو میں نے الیکشن سے قبل اپنے ایک تجزیے میں عرض کیا تھا کہ پی ٹی آئی دیہی علاقوں سے غافل ہے اور چند شہری علاقوں کی ایک مخصوص کلاس کی حمایت کو ہی سب کچھ سمجھ کر بلند بانگ دعوے کر رہی ہے ۔ گو کہ میرے اس تجزئے کو برادر
محب علوی نے ناپختہ کہا اور بہن
زرقا مفتی نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا ۔ لیکن آج کے نتیجے اٹھا کر دیکھ لیں جو چیخ چیخ کر آپ کو یہی کہانی سنا رہے ہیں کہ سوائے بالائی پنجاب کے کچھ حصوں کے وسطی اور زیریں پنجاب کے دیہی علاقوں سے پی ٹی آئی کو فتح نہیں مل سکی۔
خیبر پختونخواہ میں اس کے برعکس بھی ہوا کہ وہاں دیہی علاقوں سے بھی پی ٹی آئی کو ووٹ ملے لیکن اس کے اسباب بھی تھے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ وہاں کے لوگ عام طور پریہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ایک پٹھان ہے اور پختونوں کے روایتی قبائلی کلچر کی تناظر میں پی ٹی آئی کو کچھ ووٹ ملے۔ ھالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ عمران ایک روایتی پٹھان نہیں ۔
گو کہ اے این پی والے بھی پختون ہی ہیں لیکن ان کی حکومت میں ، باوجود مرکز کے ساتھی ہونے کے ، وہ جن مشکلات سے دوچار رہے وہ ان کے لئے اے این پی کو ذمہ دار مانتے تھے اور انہوں نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ پھر عمران خان اے این پی کی نسبتا آزاد پالیسی کے برعکس دائیں بازو کے زیادہ قریب ہے اور خیبر پختونخواہ کے زیادہ تر عوام مذہبی بنیاد کو پسند کرتے ہیں لہذا عمران کو وہاں شہری کے علاوہ دیہی علاقوں سے بھی ووٹ ملا۔
بہر حال بات بڑی لمبی ہو جائے گی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے جوشیلے اور عمران جس انداز میں سیاست کو محض نعرہ بازی کے ذریعے آگے بڑھا رہے تھے وہ نا تجربہ کاری و ناپختگی کا منہ بولتا ثبوت تھی اور اسی کا نقصان پی ٹی آئی کو ہوا۔ جبکہ ن لیگ نے ایک تجربہ کار سیاسی جماعت ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا لیکن اس کے باجود میں تحریکِ انصاف کی حاصل کردہ کامیابیوں کی بھرپور پذیرائی کروں گا کہ انہوں نے عوام میں اپنی کافی جگہ بنا لی ہے۔ امید ہے کہ عمران اس الیکشن سے بہت کچھ سیکھے گا اور اگلے الیکشن میں بہتر انداز میں میدان میں پھر موجود ہو گا۔