خرم شہزاد خرم
لائبریرین
م م مغل صاحب کن سے درخواست کر رہے ہیں آپ
1۔ رسول صلعم کی متعدد بار توہین ان کی زندگی میں کی گئی۔ اوجھڑیاں و کوڑا پھینکا گیا۔ پتھر مارے گئے، بری باتیںکہی گئیں۔ رسول اللہ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ کیوں؟؟
جو کچھ آپ نے پیش کیا نا وہ اللہ کا فرمایا ہوا ہے اور نا ہی رحمت للعالمین رسول اکرم کا اسوہ۔ آپ شاتم رسول کو قتل کرنے کی آیت فراہم کیجئے۔ ان مجرمانہ حرکتوں کی پشت پناہی بند کیجئیے۔ سزا کا اختیار صرف اور صرف حکام اور عدالتوں کو ہے۔
رسول پرنور صلعم کا ہر عمل ، قرآن کے مطابق ہے، جس کی گواہی قرآن دیتا ہے۔ ان من گھڑت کہانیوں کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ آپ کی دی ہوئی یہ کہانی کسی 1100 ، 1200 ، 1300 یا 1400 پرانی کتاب میں نہیں دکھا سکتے ہیں ۔
اس عمل کے لئے رسول اللہ نے کیا آیت استعمال کی؟ بھائی یہ انسانی پراپیگنڈہ پڑھ پڑھ کر آپ کے خیالات دیومالائی کہانیوں جیسے ہوگئے ہیں ۔ نہ آپ کے پاس اس کہانی کا کوئی 1400 تو کیا 1000 سالہ پرانا ریفرنس بھی نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے پاس کوئی آیت ہے جو اس کہانی کو سپورٹکرتی ہو۔ خود آپ تحقیق کرتے نہیں ہیں۔ استدعا آپ سے یہ ہے کہ بھائی اگر آپ مسلمان ہونے کے داعی ہیں تو اپنا قرآن جو آپ کے نبی اکرم نے آپ کو پہنچایا، آپ اس کو بھی پڑھ لیں ۔ انشاءاللہ سوچ بہتر ہوجائے گی۔
[AYAH]2:79[/AYAH] پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو لکھتے ہیں تحریر خود اپنے ہاتھوں سے، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ حاصل کریں اس کے بدلے میں حقیر معاوضہ۔ سو تباہی ہے ان کے لیے اس کی بنا پر جو لکھا انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اور ہلاکت ہے ان کے لیے اس کی بنا پر جو وہ کماتے ہیں
جن باتوں سے رسول اللہ کو کوفت ہوتی تھی، ان کے لئے اللہ کا حکم دیکھئے کہ کیسی حکمت رکھتا ہے کہ آپ بس اللہ کی عبادت کرتے رہئے۔ ان لوگوں سے اللہ تعالی خود نمٹ لے گا۔
[AYAH]15:97[/AYAH] ور یقینا ہمیں معلوم ہے کہ سخت کوفت ہوتی ہے تمہارے دل کو اُن باتوں سے جو یہ کہتے ہیں۔
[AYAH]15:98[/AYAH] سو آپ حمد کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کیا کریں اور سجود کرنے والوں میں (شامل) رہا کریں
[AYAH]15:99[/AYAH] اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو (آپ کی شان کے لائق) مقامِ یقین مل جائے (یعنی انشراحِ کامل نصیب ہو جائے یا لمحۂ وصالِ حق)
اب آپ کی پسند ہے کہ اللہ کے احکامات مانیں یا بندوں کی لکھی ہوئی کہانیوں پر عمل کریں۔ مجھ سے آپ جتنا چاہے اختلاف کرلیجئیے لیکن کم از کم اپنے رب کی بات تو پڑھ لیجئیے؟
والسلام
کراچی میں ایک فیکٹری مزدور کو اس کے ساتھ کام کرنے والوں نے پیغمبرِ اسلام کی شان میں مبینہ گستاخی کے الزام میں مار مار کر ہلاک کردیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق منگل کے روز کورنگی انڈسٹریل ایریا کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والے ہندو مزدور جگدیش کو اس کے ساتھ کام کرنے والوں نے پیغمبرِ اسلام کی شان میں مبینہ طور پرگستاخی کرنے کے الزام میں مار مار کر ہلاک کردیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بائیس سالہ جگدیش کی اپنے ساتھی مزدوروں کے ساتھ کسی مذہبی معاملے پر بحث چھڑ گئی جس کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کردی۔ اس پر مسلمان مزدور مشتعل ہوگئے اور لاتیں اور مکے مار کر جگدیش کو ہلاک کر دیا۔
’بات کوئی اور تھی‘
’مجھے پتہ ہے کہ میں آپ کے مذہب کے بارے میں کوئی بات نہیں کروں گا اور اسی طرح آپ لوگ ہمارے مذہب کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے۔ اب ہو سکتا ہے کہ اصل بات کچھ اور ہو لیکن الزام یہ لگادیا ہو کیونکہ اس الزام کی تو تحقیقات بھی نہیں ہوں گی
جگدیش کا رشتہ دار اشوک
کورنگی پولیس کے ایس پی فرخ بشیر نے بی بی سی کو بتایا کہ واقعہ کے بعد اس جگہ تین سے چار ہزار افراد جمع ہوگئے تھے اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ پولیس فوری طور پر موقع پر پہنچی اور لوگوں کو منتشر کرتے ہوئے حالات کو قابو کیا اور جگدیش کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے جناح ہسپتال پہنچایا دیا۔
انہوں نے کہا کہ بظاہر جو وجہ معلوم ہوئی ہے وہ تو یہ ہی ہے کہ جگدیش کو مبینہ گستاخِ رسول قرار دیکر ہلاک کیا گیا ہے تاہم اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد مکمل تحقیقات کی جائے گی اور اس واقعہ میں جو افراد ملوث ہوں گے ان کو گرفتار کیا جائے گا۔
جگدیش
جگدیش کی منگنی ہوچکی تھی اور وہ لیاری جنرل ہسپتال کے قریب مارواڑی محلہ میں رہائش پذیر تھا جبکہ اس کا تعلق ضلع میرپورخاص سے تھا۔
جگدیش کے بہنوئی راجو اپنے بھائی اشوک کے ساتھ جناح ہسپتال پہنچے تھے۔ راجو کا کہنا تھا کہ انہیں کچھ علم نہیں کہ اصل واقعہ کیا ہوا ہے جبکہ ان کے بھائی اشوک کا کہنا ہے کہ رسول کی شان میں گستاخی والی بات تو ہو ہی نہیں سکتی، ہوسکتا ہے کہ بات کوئی اور ہو لیکن الزام یہ لگا کر مار دیا ہو۔
اشوک نے کہا کہ ’مجھے پتہ ہے کہ میں آپ کے مذہب کے بارے میں کوئی بات نہیں کروں گا اور اسی طرح آپ لوگ ہمارے مذہب کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے۔ اب ہو سکتا ہے کہ اصل بات کچھ اور ہو لیکن الزام یہ لگادیا ہو کیونکہ اس الزام کی تو تحقیقات بھی نہیں ہوں گی‛۔
اشوک نے کہا کہ وہ فیکٹری بھی گئے تھے لیکن وہاں فیکٹری کےگیٹ پر دو چوکیدار بیٹھے ہیں جبکہ پولیس بھی موجود ہے تاہم وہاں کام کرنے والا کوئی مزدور نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسا مزدور جو اس وقت وہاں موجود تھا اسی سے پتہ چل سکتا ہے کہ اصل واقعہ کیا ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسے واقعات کا حکومت کی جانب سے تدارک نہیں کیا گیا اور ان کی وجوہات کی تہہ تک نہ پہنچا گیا تو پھر اس ملک میں اقلیتوں کا تحفظ سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔
اگر برطانیہ وامریکہ میں آزادی تحریر وتقریر کےباوجود ملک اور اس کےآئین میں حضرت عیسیٰ اور ملکہ کی توہین جرم ہے
کراچی میں گستاخِ رسول قرار دے کر ہلاک کیے جانے والے ہندو مزدور جگدیش کے اہلِ خانہ نے کہا ہے کہ ذاتی رنجش کو مذہبی رنگ دے کر جگدیش کو ہلاک کیا گیا ہے تاکہ اصل ملزمان قتل کے الزام سے محفوظ رہ سکیں۔
کراچی کے علاقے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں منگل کو جگدیش پر الزام لگایا گیا تھا کہ اُس نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی ہے اور اسے سینکڑوں مزدوروں نے تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا۔ بدھ کو اس کی آخری رسومات اس کے آبائی شہر میرپورخاص میں ادا کی گئیں۔
میرپورخاص سے فون پر جگدیش کے والد پربھو جی سے رابطہ کیا گیا اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے ڈھائی سال قبل اپنے بیٹے کو کراچی بھیجا تھا تاکہ وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بن سکے اور مہنگائی کے اس دور میں خاندان کی کفالت کرسکے۔
پانچ بیٹیوں اور تین بیٹوں کے والد پربھو جی نے کہا کہ ’ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے، میرے بچے کو مار دیا ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی، اگر اس کی جگہ مجھے مار دیتے تو کیا فرق پڑتا، ہم اپنی فریاد کس سے کہاں کریں، ہم تو بس چُپ چاپ رو رہے ہیں۔‘
جگدیش کے بہنوئی اوم پرکاش نے کہا کہ پولیس میں مقدمہ درج کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ایسا کرنے سے تو وہ خود مصیبت میں آجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم کس پر کیس کریں، پولیس تو آپ کو یہاں کی معلوم ہی ہے، ہم غریب آدمی ہیں ہم پھر کہاں جائیں گے اگر کوئی ہم کو ہی موت کی دھمکی دے دے، آپ تحفظ دے سکتے ہیں ہمیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ پاکستان ہماری جنم بھومی ہے، کم از کم انسانیت کا تو خیال کرلیتے، ہمارا دھرم ہمیں یہ ہی سکھاتا ہے – انسانیت، اگر میں انسان صحیح نہیں بن سکا تو میرا ہندو بننے کا کیا فائدہ۔‘
وہاں موجود جگدیش کے ایک اور رشتہ دار اشوک نے کہا کہ جو معلومات انہوں نے جمع کی ہیں ان کے مطابق یہ قتل ذاتی دشمنی کی بناء پر کیا گیا ہے لیکن اس کو مذہبی رنگ دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہاں جگدیش کا ٹھیکیدار سے کچھ کھنچاؤ تھا اور اُس دن جگدیش کے ساتھ کام کرنے والوں نے کہا کہ جلدی نکل جاؤ لیکن اس کو گیٹ کے چوکیدار نے کمرے میں بٹھالیا کہ باہر تمہیں خطرہ ہے۔ پھر کوئی دو گھنٹے میں چار، پانچ سو افراد جمع ہوگئے اور جگدیش کو فیکٹری کے اندر ہی ہلاک کردیا۔
اشوک کے بقول جگدیش کی لاش فیکٹری سے باہر پھینکی گئی تاکہ فیکٹری مالکان پر کوئی بات نہ آسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس قتل کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے مذہبی رنگ دیا گیا ہے تاکہ اس کیس کی تحقیقات ہی نہ ہوسکیں۔
پولیس کے ایس پی فرخ بشیر نے بتایا ہے کہ مقتول کے ورثاء میں سے کوئی بھی مقدمہ درج کرانے نہیں آیا لہذٰا اس واقعہ کے ایف آئی آر پولیس نے اپنی مدعیت میں درج کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دس سے بارہ افراد کی نشاندہی ہوئی ہے تاہم اب تک گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ہے اور پولیس ملزمان کی تلاش میں ہے۔
نبیل صاحب میں نے اپنی سابقہ پوسٹ میں عرض کیا تھایہ تو میری معلومات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ چونکہ حکومت ان لوگوں کو باہر بھجوا دیتی ہے اس لیے اب لوگوں کے پاس خود سے قتل کرنے کا جواز مہیا ہو گیا ہے۔ اس بہانے بازی کی ضرورت کیا ہے؟ یہاں کچھ فتوے بھی پوسٹ ہوئے ہوئے ہیں جن میں 'علما' نے عام آدمی کو قتل پر اکسایا ہوا ہے۔ اس میں کہیں واقعے کی اصل تک پہنچنے یا تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اسلام کے نام پر بنے ہوئے اس ملک میں باقی کچھ اسلام کے مطابق ہو نا ہو، بس غیرت و حمیت کا ڈھونگ ضروری رہ گیا ہے۔
ویسے اسرائیل کے فلسطین میں مظالم کا پاکستان میں اقلیتوں پر مظالم سے کیا تعلق ہے؟ کیا ناموس رسالت کے نام قتل کرکے ہم یہودیوں سے انتقام لے رہے ہیں؟
چنانچہ میں ہر گز یہ نہیں کہتا کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا جائے، تاہم انصاف کی عدم دستیابی کی وجہ ایسا ردعمل ظاہر ہو جاتا ہے۔ یہ انصاف کی ہی عدم دستیابی ہے کہ ہمارا معاشرہ ہر اعتبار سے جارح ہوتا جارہا ہے اگر کوئی ڈاکو لوگوں کے ہاتھ لگ جائے یا کوئی بس ڈرائیور ایکسیڈنٹ کرنے کے بعد پکڑا جائے تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک دیکھنے میں آتا ہے اب اس کا علاج ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا یا جائے۔بہر حال حقیقت میں ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے افراد کے بارے میں قانون تحقیق کر کے ان کوسزا دے
مسئلہ یہاں پر یہ ہے کہ کہ عالمی منافقت، دہرے معیار اور بالخصوص مسلم علاقوں پر مسلسل حملوں کے باعث مقامی مسلم آبادی فرسٹریشن کا شکار ہوگی ہے اور یہی فرسٹریشن خودکش حملوں اور دیگر اسی قسم کے واقعات کی صورت میں نمودار ہورہی ہے
میں سے ہر بات کی مذمت کرنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔خون مسلم کی ارزانی اب اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب مسلمان کو بھی ہر طرف ،ویب پر ٹی وی پر، اخبارات و رسائل میں ہر جگہ صرف اقلیتوں پر ہی ہونے والے مظالم دکھائی دیتے ہیں اور ہر روز بالخصوص اسرائیل ، عراق افغانستان میں جو روز محشر بپا ہوتا ہے ننگی جارحیت رقص کرتی ہے مسلم نوجوان بوڑھے کٹ مرتے ہیں بچوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے وہ نظر نہیں آتا وہ دکھائی نہیں دیتا
میرا یہ دعویٰ ہے ہی نہیں کہ میری تمام باتیں ہر کسی کی سمجھ میں آئیں گی کیونکہ بہت سے لوگ عرب کہاوت اصم عما ساءہ سمیع کے مصداق ہوتے ہیں لہذا سمجھ میں نہ آنے کیصورت میں اس بات پر مٹی ڈالیں۔جی بہت شکریہ۔ منافقت کا یہ جواز مجھ کم عقل کی سمجھ میں خود سے نہیں آ سکتا تھا۔ اس کے لیے کافی تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے اس طرح واقعات میں غیر مسلم ہی نہیں، بیچارے مسلمان بھی اتنی ہی تعداد میں قتل ہو رہے ہیں۔ اور یہ کام نائن الیون سے بہت پہلے کا ہو رہا ہے۔
ایک دوسری عرب کہاوت ہے مصائب قوم عند قوم فوائد یعنی ایک قوم کے مصائب دوسری کے فوائد ہوتے ہیں۔ بھائی یہ معاملات میری قوم سے متعلق ہیں اور میری نظر میں باہم پیوستہ بھی ہیں توہین رسالت توہین قرآن، توہین مسلم، ارزانی خون مسلم یہ سب معاملات میرے نزدیک ایک قسم کے ہیں بس "برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر " والی بات ہے ۔کوشش کیا کریں کہ موضوع پر رہ کر بات کیا کریں۔
حوالہ: مبینہ توہین رسالت پر ہندومزدورہلاک (بی بی سی اردو)
فرزندان توحید کو ایک اور توہین رسالت کے ملزم کی ہلاک مبارک ہو۔ اس فورم پر کچھ دوست ایسے واقعات کے بارے میں تحقیقی مقالہ لکھ رہے تھے۔ وہ اپنے مقالے میں اس واقعے کا اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ ملزم کو ہلاک کرنے والوں کے نام یقیناً تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے مستحق ہیں۔ غازی علم الدین اور عامر چیمہ کے بعد ہماری تاریخ میں چند ایسے اور ناموں کا اضافہ ہو گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ انسانیت کے ناطے اس بے چارے کے ساتھ ظلم ہوا کون جانتا ہے کہ اس نے کچھ کہا بھی تھا یا نہیں؟ کل کو آپ کو کوئی چوک میں پکڑ کر ذبح کر دے اسی قسم کے الزام میں؟ پھر مزدورں کی ذہنی سطح بھی آپ جانتے ہی ہیں انہیں کہا کس نے تھا مذہبی بحث کرنے کو؟
اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی کو ڈاکہ ڈالتے بھی پکڑ لیں تو اس کے ہاتھ کاٹنا آپ کے لیے جائز نہیں یہ حکومت وقت اور خلیفہ کا کام ہے اور یہ سب اس لیےکہ کسی قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔
باقی اگر یہ کہ یہ تو معرفت کی عقیدت کی عشق کی باتیں ہیں تو وہ الگ بات ہے۔
نبیل!
طنز مبارک ہو۔
(۱) اور عرض ہے کہ تاریخ گستاخان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھاکر دیکھ لیجئے۔ گستاخان کو جانوروں نے بھی بحکم خداوندی نہیں چھوڑا۔ بالمقابل صحابہ کی رہنمائی کرنے میں شیر کا واقعہ بھی آتا ہے۔
(۲) کاش اس طنز سے قبل آپ یہ بھی جان لیتے کے معنی شخص کس انداز میں مقالہ لکھ رہا ہے۔
(۳) مقالہ لکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گستاخ نبی کے قتل کے کام کو سراہا جا رہا ہے۔ بلکہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ گستاخ کیوں گستاخی کرتا ہے؟ اور اس مسئلے کا حل!!
(۴) گستاخان کے عقائد ومذاہب یا انکی علاماتِ عقائد پر جب کوئی بات کرتا ہے تو اسکا انجام بھی وہی ہوتا ہے جو مسلمان اپنے نبی کے بارے میں سن کر گستاخ کا کرتا ہے۔
(۵) بات یہ ہے کہ گستاخ نبوت کو لگام کون دے؟ وہ گستاخی کرے ہی کیوں؟ کیا ہم اسے اپنے نبی کے بارے میں اول فول بکنے دیں؟ تاہم براہِ راست قتل پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ تو پھر قانون کے حوالے کریں؟ قانون ہی اگر انصاف نہ دے تو پھر کیا کیا جائے؟ چھوٹ کر گستاخ آجائے پھر وہی حرکت کرے!! کیا اسے گستاخی کرنے کی آزادی ہے؟ ہم ابنے بہن بھائیوں اور آباء واجداد کے بارے میں گستاخی سننے کے روادار نہیں۔۔۔ پھر خاتم الٲنبیاء!!!!!
(۶) اگر آپ کو ان باتوں پر اعتراض ہے آپ براہِ راست کہہ سکتے ہیں کہ حضور ایسی باتیں مقالے نہ لکھیں۔ اور ایک آزادی کا ماحول دینا چاہتے ہیں تو طنز فرمانا ختم کریں۔ ورنہ نبیل جہاں آپ ایک بات پر طنز کرسکتے ہیں وہاں آپکی کئی باتوں پر معنی شخص کیڑے ڈال اور نکال سکتا ہے۔
ایک بار پھر
طنز مبارک ہو