متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تاریخی امن معاہدہ

جاسم محمد

محفلین
اور آج وہ تاریخی دن آگیا جب اسرائیل، امارات اور بحرین وائٹ ہاؤس میں کچھ منٹوں بعد امن معاہدہ پر دستخط کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل کے ساتھ معاہدوں سے مسجداقصی کی تقسیم ممکن ہوگئی، ماہرین
ویب ڈیسک پير 14 ستمبر 2020
2080464-aqsa-1600070964-239-640x480.jpg

امارات اور بحرین کے معاہدوں سے 1967 میں احاطے کی تسلیم شدہ حیثیت تبدیل ہونے کا راستہ نکلتا ہے(فوٹو، فائل)


القدس: قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے خلیجی ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں سے مسجد اقصٰی کی تقسیم کی راہ ہموار ہوگی۔

خلیجی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹیریسٹریئل یروشلم(ٹی جی) نامی این جی او کی ایک خصوصی رپورٹ میں اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدوں میں استعمال کی گئی زبان سے مسجد اقصی کے احاطے پر مسلمانوں کا مکمل اختیار ختم ہونے کی راہ نکلتی ہے۔

1967 میں 35 ایکڑ پر محیط الحرم الشریف یا الاقصی مسجد کے احاطے سے متعلق اسرائیل نے بھی یہ تسلیم کیا تھا کہ یہاں غیر مسلموں کو آنے کی اجازت تو ہوگی تاہم وہ عبادت نہیں کرسکیں گے۔ 2015 میں نتن یاہو نے بھی اسی حیثیت کو تسلیم کرنے کا از سر نو اعلان کیا تھا۔

تاہم رپورٹ کے مطابق 13 اگست کو امریکا، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے جاری کردی مشترکہ اعلامیے میں یہ شق شامل ہے کہ امن کے وژن کے تسلسل کے لیے پُرامن مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے عبادت گزاروں کو الاقصی مسجد اور یروشلم کے دیگر مقدس مقامات میں داخلے کی اجازت ہونی چاہیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل احاطے میں مسجد کی عمارت کے علاوہ دیگر ڈھانچوں کو مقدس عمارتیں قرار دیتا ہے اور یہاں یہودیوں سمیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے داخلے اور عبادت کی اجازت دینے کی بات کررہا ہے۔

اس حوالے سے فلسطینی وکیل خالد زبرقا نے کہا کہ معاہدے میں یہ شق تسلیم کرکے دراصل متحدہ عرب امارات مسجد اقصی پر مسلمانوں کے مکمل اختیار سے دست بردار ہوگیا ہے اور اس پر اسرائیل کا اختیار تسلیم کرچکا ہے۔

خالد زبرقا کا کہنا ہے کہ معاہدے کی یہ شق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور 1967 میں مسجد اقصی کی تسلیم شدہ حیثیت کو غیر قانونی طور پر تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ 1967 میں یہ تسلیم کیا جاچکا ہے کہ اس احاطے پر صرف مسلمانوں کا حق ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ امارات اور بحرین کے ساتھ معاہدے میں شامل اس شق کے الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور مستقبل میں اس سے مسجد الاقصی کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی کا راستہ ہموار ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
امارات اور بحرین نے اسرائیل سے تعلقات کے معاہدے پر دستخط کردیئے
15 ستمبر ، 2020

820736_6061382_israel_updates.jpg

عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے معاہدے پر دستخط کردیئے۔ متحدہ عرب امارات و بحرین کے وزرائےخارجہ اور اسرائیلی وزیراعظم نے معاہدے پر دستخط کیے۔

واشنگٹن میں ہونے والے اس معاہدے پر دستخطوں کی تقریب کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والی عرب ریاستوں کی تعداد اب 4 ہوگئی ہے۔

اس سے قبل مصر 1979 اور اردن 1994 میں اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔

دریں اثنا اسرائیل سے تعلقات کیخلاف فلسطین کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے۔

وفا نیوز ایجنسی کے مطابق رام اللّٰہ، نابلس، جنین، تلکرم اور الخلیل میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔

فلسطینی مظاہرین کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ معاہدے ذلت آمیز ہیں۔

اس سے قبل امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے مزید کئی ممالک تیار ہیں۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ کئی ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات تیار کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 5 یا 6 ممالک ایسے ہیں جو بہت جلد اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرلیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تصویر تاریخ میں امر ہو گئی جب تین عظیم ابراہیمی مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقوام نے امن معاہدہ پر دستخط کئے۔ معاہدہ کا نام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے Abraham Accord رکھا گیا ہے۔
Whats-App-Image-2020-09-15-at-22-54-16.jpg
 
Top