متحدہ کے لئے متفقہ شکریہ ،حسن نثار (5 نومبر جنگ)

عین عین

لائبریرین
میرا حلقہ احباب اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ میں متحدہ قومی موومنٹ کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں کیونکہ صرف یہی ایک پلیٹ فارم ایسا ہے جس کے ذریعہ ملک بھر بالخصوص پنجاب کے متوسط اور محروم طبقات اپنے لٹے ہوئے حقوق حاصل کر کے اقتدار اعلیٰ میں شرکت اور شراکت سے فیض یاب ہو کر عوام کی بھاری اکثریت کو مخصوص اقلیت کے بیرحمانہ استحصال سے نجات دلا سکتے ہیں … بہرحال قصہ مختصر کہ میرے تمام دوست متحدہ کے حق میں میرے تمام تردلائل سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ خاصی حد تک قائل بھی ہو چکے تھے کہ اچانک ”این آر او“ کا شور بڑھا تو سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ایم کیو ایم کسی صورت این آر او کی مخالفت نہیں کر سکے گی اور یوں متحدہ کا یہ فیصلہ اس کے اور پنجاب کے درمیان ”دیوار چین“ بن جائے گا۔ بات میں بظاہر بڑا دم تھا لیکن نجانے کیوں میں نے دو ٹوک انداز میں یہ کیسے کہہ دیا کہ … ”ایسا ہرگز نہیں ہو گا اور ایم کیو ایم کسی قیمت پر این آر او کا ساتھ نہیں دے گی۔“ دوستوں کے دلائل بہت مضبوط، وزنی اور منطقی تھے جبکہ میری دلیل بہت سادہ تھی کہ متحدہ اقتدار کے لئے اتنی بڑی قیمت پر آمادہ نہ ہو گی جو پاکستان سے لے کر پارلیمنٹ تک کے لئے مستقل داغ ندامت بن جائے۔ طویل بحث کے بعد ہمارے درمیان یہ طے پایا کہ اگر متحدہ نے این آر او کو سپورٹ کیا تو میں آئندہ اس کا نام نہ لوں گا اور اگر یہ پارٹی اپنا بہت کچھ داؤ پر لگا کر اس فیصلہ کن گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی تو یونیورسٹی دنوں کے یہ سب دوست محروم اور متوسط طبقہ کی اس اکلوتی روشن خیال پارٹی کو سپورٹ کریں گے۔
پھر جو کچھ ہوا … وہ ”ہسٹری“ ہے جس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں کیونکہ ہر باشعور شخص حتیٰ کہ متحدہ کے بدترین مخالفین بھی اس کے تاریخی کردار کی تعریف کر رہے ہیں جو بذات خود ایک قابل تعریف رویہ ہے کہ اچھے اور مثبت عمل کا مظاہرہ حریف بھی کرے تو اس کی تعریف ہونی چاہئے۔ متحدہ کے روایتی حریفوں کی طرف سے اس کی تعریف بھی ہماری سیاسی و جمہوری قوتوں کے لئے نیک شگون ہے جس پر یہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
افراد ہوں یا پارٹیاں … نہ ہمیشہ سو فیصد درست ہوتے ہیں نہ سو فیصد غلط نہ سو فیصد ”ہیرو“ ہوتے ہیں نہ سو فیصد ”ولن“ سو ان کے بارے میں رائے بھی اسی تناظر میں قائم کی جانی چاہئے یعنی مثبت سوچ اور عمل پر تائید و ستائش اور غلط سوچ اور عمل پر تنقید۔ اسمبلی کے اجلاس سے کچھ ہی دیر پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی طرف سے کئے جانے والے ایک اعلان نے بقول صالح ظافر … ”اس بدنام زمانہ آرڈیننس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا جس کے پیچھے نامی گرامی مجرموں نے پناہ لے رکھی تھی۔ اس اعلان نے میز حکومت پلٹ دی اور پورا منظر نامہ تبدیل کر دیا جبکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی سخت غصے میں تھی۔ تمام گروپس نے بیک زبان کہا کہ این آر او کو گندگی کے ڈھیر کی طرح دفن کر دیا جائے۔ یہ موقع الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کو صحیح معنوں میں، صحیح طور پر قومی دھارے میں لے آیا اور اس نے پوری قوم کو ایک خوشگوار حیرت میں ڈال دیا“
رؤف کلاسرا رپورٹ کی تو سرخی ہی طلسم ہوشربا سے کم نہیں کہ این آر او کے حوالہ سے الطاف حسین کے فون نے زرداری کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔
کسی کا کھیل بنے یا بگڑے … اجڑے یا سنورے … برباد ہو یا آباد ہو لیکن وقت آ گیا کہ اس قوم کے کھیل کو بنایا، سنوارا اور آباد کیا جائے اور اپنے اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر واقعی ہر فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں کیا جائے … میرے دوستوں نے خاص طور پر متحدہ کا رسمی طور پر متفقہ شکریہ ادا کرنے کو کہا ہے … قوم کا بے حد خوشگوار ردعمل بھی سامنے ہے، خود متحدہ کے مخالفین کی شاباش بھی ریکارڈ پر ہے اور صف اول کے رائے سازوں کی رائے بھی ڈھکی چھپی نہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ قومی موومنٹ کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ اس ٹرننگ پوائنٹ کے بعد ان سے وابستہ توقعات کو پورا کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا، ہر فیصلہ ایسا ہی کرنا ہو گا جیسے بدنام زمانہ این آر او کے حوالہ سے کیا گیا۔
 

آفت

محفلین
عین عین بھائی صبح ایسا ہی ایک تھریڈ نبیل بھائی نے لاک کیا ہے کیونکہ ان کے مطابق اسی طرح کے تھریڈ بار بار شروع کیے جا رہے ہیں اب آپ نے پھر حسن نثار کے اسی کالم پر مبنی نیا تھریڈ بنا دیا ہے ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=26390
میرا حلقہ احباب اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ میں متحدہ قومی موومنٹ کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں کیونکہ صرف یہی ایک پلیٹ فارم ایسا ہے جس کے ذریعہ ملک بھر بالخصوص پنجاب کے متوسط اور محروم طبقات اپنے لٹے ہوئے حقوق حاصل کر کے اقتدار اعلیٰ میں شرکت اور شراکت سے فیض یاب ہو کر عوام کی بھاری اکثریت کو مخصوص اقلیت کے بیرحمانہ استحصال سے نجات دلا سکتے ہیں … بہرحال قصہ مختصر کہ میرے تمام دوست متحدہ کے حق میں میرے تمام تردلائل سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ خاصی حد تک قائل بھی ہو چکے تھے کہ اچانک ”این آر او“ کا شور بڑھا تو سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ایم کیو ایم کسی صورت این آر او کی مخالفت نہیں کر سکے گی اور یوں متحدہ کا یہ فیصلہ اس کے اور پنجاب کے درمیان ”دیوار چین“ بن جائے گا۔ بات میں بظاہر بڑا دم تھا لیکن نجانے کیوں میں نے دو ٹوک انداز میں یہ کیسے کہہ دیا کہ … ”ایسا ہرگز نہیں ہو گا اور ایم کیو ایم کسی قیمت پر این آر او کا ساتھ نہیں دے گی۔“ دوستوں کے دلائل بہت مضبوط، وزنی اور منطقی تھے جبکہ میری دلیل بہت سادہ تھی کہ متحدہ اقتدار کے لئے اتنی بڑی قیمت پر آمادہ نہ ہو گی جو پاکستان سے لے کر پارلیمنٹ تک کے لئے مستقل داغ ندامت بن جائے۔ طویل بحث کے بعد ہمارے درمیان یہ طے پایا کہ اگر متحدہ نے این آر او کو سپورٹ کیا تو میں آئندہ اس کا نام نہ لوں گا اور اگر یہ پارٹی اپنا بہت کچھ داؤ پر لگا کر اس فیصلہ کن گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی تو یونیورسٹی دنوں کے یہ سب دوست محروم اور متوسط طبقہ کی اس اکلوتی روشن خیال پارٹی کو سپورٹ کریں گے۔
پھر جو کچھ ہوا … وہ ”ہسٹری“ ہے جس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں کیونکہ ہر باشعور شخص حتیٰ کہ متحدہ کے بدترین مخالفین بھی اس کے تاریخی کردار کی تعریف کر رہے ہیں جو بذات خود ایک قابل تعریف رویہ ہے کہ اچھے اور مثبت عمل کا مظاہرہ حریف بھی کرے تو اس کی تعریف ہونی چاہئے۔ متحدہ کے روایتی حریفوں کی طرف سے اس کی تعریف بھی ہماری سیاسی و جمہوری قوتوں کے لئے نیک شگون ہے جس پر یہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
افراد ہوں یا پارٹیاں … نہ ہمیشہ سو فیصد درست ہوتے ہیں نہ سو فیصد غلط نہ سو فیصد ”ہیرو“ ہوتے ہیں نہ سو فیصد ”ولن“ سو ان کے بارے میں رائے بھی اسی تناظر میں قائم کی جانی چاہئے یعنی مثبت سوچ اور عمل پر تائید و ستائش اور غلط سوچ اور عمل پر تنقید۔ اسمبلی کے اجلاس سے کچھ ہی دیر پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی طرف سے کئے جانے والے ایک اعلان نے بقول صالح ظافر … ”اس بدنام زمانہ آرڈیننس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا جس کے پیچھے نامی گرامی مجرموں نے پناہ لے رکھی تھی۔ اس اعلان نے میز حکومت پلٹ دی اور پورا منظر نامہ تبدیل کر دیا جبکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی سخت غصے میں تھی۔ تمام گروپس نے بیک زبان کہا کہ این آر او کو گندگی کے ڈھیر کی طرح دفن کر دیا جائے۔ یہ موقع الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کو صحیح معنوں میں، صحیح طور پر قومی دھارے میں لے آیا اور اس نے پوری قوم کو ایک خوشگوار حیرت میں ڈال دیا“
رؤف کلاسرا رپورٹ کی تو سرخی ہی طلسم ہوشربا سے کم نہیں کہ این آر او کے حوالہ سے الطاف حسین کے فون نے زرداری کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔
کسی کا کھیل بنے یا بگڑے … اجڑے یا سنورے … برباد ہو یا آباد ہو لیکن وقت آ گیا کہ اس قوم کے کھیل کو بنایا، سنوارا اور آباد کیا جائے اور اپنے اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر واقعی ہر فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں کیا جائے … میرے دوستوں نے خاص طور پر متحدہ کا رسمی طور پر متفقہ شکریہ ادا کرنے کو کہا ہے … قوم کا بے حد خوشگوار ردعمل بھی سامنے ہے، خود متحدہ کے مخالفین کی شاباش بھی ریکارڈ پر ہے اور صف اول کے رائے سازوں کی رائے بھی ڈھکی چھپی نہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ قومی موومنٹ کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ اس ٹرننگ پوائنٹ کے بعد ان سے وابستہ توقعات کو پورا کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا، ہر فیصلہ ایسا ہی کرنا ہو گا جیسے بدنام زمانہ این آر او کے حوالہ سے کیا گیا۔
 

عین عین

لائبریرین
میرے علم میں‌ نہیں‌ ہے یہ بات۔ اور میں‌ یہ محسوس کر رہا ہوں‌ کہ سیاست کافی زوروں‌پر ہے یہاں اس کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ میں اس مضمون سے مطمئن تھا کہ یہ ایک مناسب تحریر ہے اور ایک نام ور صحافی اور تجزیہ کار کی جانب سے کی گئی بات زیادہ بہتر معلوم ہوئی مجھے۔ بہرحال اسے بھی ختم کر دیں‌ اگر مناسب سمجھیں‌ تو۔
 

عین عین

لائبریرین
یہ بہت اچھا فیصلہ ہے ۔ میں اس کی تائید کرتی ہوں اور بقول حسن نثار اگر ایم کیو ایم اپنی زمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اور زاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے مفادات کا خیال رکھے تو یقیناً یہ ایک اچھی پیش رفت ہو گی
۔۔۔۔۔۔۔
اب میں نے دیکھا ہے۔
آپ نے بہت اچھا جواب دیا تھا وہاں۔ ہمیں‌ اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ یہی کہنا درست نہین‌ کہ ایم کیو ایم کوبھتہ نہن‌ مل رہا یا بڑھایا جائے اس لیے حکومت کو بلیک میل کر رہی ہے۔
 
Top