عین عین
لائبریرین
میرا حلقہ احباب اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ میں متحدہ قومی موومنٹ کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں کیونکہ صرف یہی ایک پلیٹ فارم ایسا ہے جس کے ذریعہ ملک بھر بالخصوص پنجاب کے متوسط اور محروم طبقات اپنے لٹے ہوئے حقوق حاصل کر کے اقتدار اعلیٰ میں شرکت اور شراکت سے فیض یاب ہو کر عوام کی بھاری اکثریت کو مخصوص اقلیت کے بیرحمانہ استحصال سے نجات دلا سکتے ہیں … بہرحال قصہ مختصر کہ میرے تمام دوست متحدہ کے حق میں میرے تمام تردلائل سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ خاصی حد تک قائل بھی ہو چکے تھے کہ اچانک ”این آر او“ کا شور بڑھا تو سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ایم کیو ایم کسی صورت این آر او کی مخالفت نہیں کر سکے گی اور یوں متحدہ کا یہ فیصلہ اس کے اور پنجاب کے درمیان ”دیوار چین“ بن جائے گا۔ بات میں بظاہر بڑا دم تھا لیکن نجانے کیوں میں نے دو ٹوک انداز میں یہ کیسے کہہ دیا کہ … ”ایسا ہرگز نہیں ہو گا اور ایم کیو ایم کسی قیمت پر این آر او کا ساتھ نہیں دے گی۔“ دوستوں کے دلائل بہت مضبوط، وزنی اور منطقی تھے جبکہ میری دلیل بہت سادہ تھی کہ متحدہ اقتدار کے لئے اتنی بڑی قیمت پر آمادہ نہ ہو گی جو پاکستان سے لے کر پارلیمنٹ تک کے لئے مستقل داغ ندامت بن جائے۔ طویل بحث کے بعد ہمارے درمیان یہ طے پایا کہ اگر متحدہ نے این آر او کو سپورٹ کیا تو میں آئندہ اس کا نام نہ لوں گا اور اگر یہ پارٹی اپنا بہت کچھ داؤ پر لگا کر اس فیصلہ کن گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی تو یونیورسٹی دنوں کے یہ سب دوست محروم اور متوسط طبقہ کی اس اکلوتی روشن خیال پارٹی کو سپورٹ کریں گے۔
پھر جو کچھ ہوا … وہ ”ہسٹری“ ہے جس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں کیونکہ ہر باشعور شخص حتیٰ کہ متحدہ کے بدترین مخالفین بھی اس کے تاریخی کردار کی تعریف کر رہے ہیں جو بذات خود ایک قابل تعریف رویہ ہے کہ اچھے اور مثبت عمل کا مظاہرہ حریف بھی کرے تو اس کی تعریف ہونی چاہئے۔ متحدہ کے روایتی حریفوں کی طرف سے اس کی تعریف بھی ہماری سیاسی و جمہوری قوتوں کے لئے نیک شگون ہے جس پر یہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
افراد ہوں یا پارٹیاں … نہ ہمیشہ سو فیصد درست ہوتے ہیں نہ سو فیصد غلط نہ سو فیصد ”ہیرو“ ہوتے ہیں نہ سو فیصد ”ولن“ سو ان کے بارے میں رائے بھی اسی تناظر میں قائم کی جانی چاہئے یعنی مثبت سوچ اور عمل پر تائید و ستائش اور غلط سوچ اور عمل پر تنقید۔ اسمبلی کے اجلاس سے کچھ ہی دیر پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی طرف سے کئے جانے والے ایک اعلان نے بقول صالح ظافر … ”اس بدنام زمانہ آرڈیننس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا جس کے پیچھے نامی گرامی مجرموں نے پناہ لے رکھی تھی۔ اس اعلان نے میز حکومت پلٹ دی اور پورا منظر نامہ تبدیل کر دیا جبکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی سخت غصے میں تھی۔ تمام گروپس نے بیک زبان کہا کہ این آر او کو گندگی کے ڈھیر کی طرح دفن کر دیا جائے۔ یہ موقع الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کو صحیح معنوں میں، صحیح طور پر قومی دھارے میں لے آیا اور اس نے پوری قوم کو ایک خوشگوار حیرت میں ڈال دیا“
رؤف کلاسرا رپورٹ کی تو سرخی ہی طلسم ہوشربا سے کم نہیں کہ این آر او کے حوالہ سے الطاف حسین کے فون نے زرداری کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔
کسی کا کھیل بنے یا بگڑے … اجڑے یا سنورے … برباد ہو یا آباد ہو لیکن وقت آ گیا کہ اس قوم کے کھیل کو بنایا، سنوارا اور آباد کیا جائے اور اپنے اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر واقعی ہر فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں کیا جائے … میرے دوستوں نے خاص طور پر متحدہ کا رسمی طور پر متفقہ شکریہ ادا کرنے کو کہا ہے … قوم کا بے حد خوشگوار ردعمل بھی سامنے ہے، خود متحدہ کے مخالفین کی شاباش بھی ریکارڈ پر ہے اور صف اول کے رائے سازوں کی رائے بھی ڈھکی چھپی نہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ قومی موومنٹ کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ اس ٹرننگ پوائنٹ کے بعد ان سے وابستہ توقعات کو پورا کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا، ہر فیصلہ ایسا ہی کرنا ہو گا جیسے بدنام زمانہ این آر او کے حوالہ سے کیا گیا۔
پھر جو کچھ ہوا … وہ ”ہسٹری“ ہے جس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں کیونکہ ہر باشعور شخص حتیٰ کہ متحدہ کے بدترین مخالفین بھی اس کے تاریخی کردار کی تعریف کر رہے ہیں جو بذات خود ایک قابل تعریف رویہ ہے کہ اچھے اور مثبت عمل کا مظاہرہ حریف بھی کرے تو اس کی تعریف ہونی چاہئے۔ متحدہ کے روایتی حریفوں کی طرف سے اس کی تعریف بھی ہماری سیاسی و جمہوری قوتوں کے لئے نیک شگون ہے جس پر یہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
افراد ہوں یا پارٹیاں … نہ ہمیشہ سو فیصد درست ہوتے ہیں نہ سو فیصد غلط نہ سو فیصد ”ہیرو“ ہوتے ہیں نہ سو فیصد ”ولن“ سو ان کے بارے میں رائے بھی اسی تناظر میں قائم کی جانی چاہئے یعنی مثبت سوچ اور عمل پر تائید و ستائش اور غلط سوچ اور عمل پر تنقید۔ اسمبلی کے اجلاس سے کچھ ہی دیر پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی طرف سے کئے جانے والے ایک اعلان نے بقول صالح ظافر … ”اس بدنام زمانہ آرڈیننس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا جس کے پیچھے نامی گرامی مجرموں نے پناہ لے رکھی تھی۔ اس اعلان نے میز حکومت پلٹ دی اور پورا منظر نامہ تبدیل کر دیا جبکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی سخت غصے میں تھی۔ تمام گروپس نے بیک زبان کہا کہ این آر او کو گندگی کے ڈھیر کی طرح دفن کر دیا جائے۔ یہ موقع الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کو صحیح معنوں میں، صحیح طور پر قومی دھارے میں لے آیا اور اس نے پوری قوم کو ایک خوشگوار حیرت میں ڈال دیا“
رؤف کلاسرا رپورٹ کی تو سرخی ہی طلسم ہوشربا سے کم نہیں کہ این آر او کے حوالہ سے الطاف حسین کے فون نے زرداری کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔
کسی کا کھیل بنے یا بگڑے … اجڑے یا سنورے … برباد ہو یا آباد ہو لیکن وقت آ گیا کہ اس قوم کے کھیل کو بنایا، سنوارا اور آباد کیا جائے اور اپنے اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر واقعی ہر فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں کیا جائے … میرے دوستوں نے خاص طور پر متحدہ کا رسمی طور پر متفقہ شکریہ ادا کرنے کو کہا ہے … قوم کا بے حد خوشگوار ردعمل بھی سامنے ہے، خود متحدہ کے مخالفین کی شاباش بھی ریکارڈ پر ہے اور صف اول کے رائے سازوں کی رائے بھی ڈھکی چھپی نہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ قومی موومنٹ کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ اس ٹرننگ پوائنٹ کے بعد ان سے وابستہ توقعات کو پورا کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا، ہر فیصلہ ایسا ہی کرنا ہو گا جیسے بدنام زمانہ این آر او کے حوالہ سے کیا گیا۔