جب کوئی تہذیب جماعت اوّل کے رتبے پر پہنچتی ہے تو اس کے لئے فوری طور پر ستاروں پر پہنچنا ممکن نہیں ہوتا؛ اسے مزید کئی صدیوں تک اسی سیارے پر رہنا ہوتا ہے یہ عرصہ اس سے کافی زیادہ ہے جس میں وہ اپنے ماضی کے باقی بچے ہوئے قومیتوں، بنیاد پرستی، نسلی، اور گروہی قسم کے مسائل سے جان چھڑا سکیں۔ سائنسی قصے لکھنے والوں نے اکثر خلائی سفر اور خلاء میں بستیوں کے قائم کرنے کے بارے میں غلط اندازے لگائے۔ آج زمین کے مدار میں کسی بھی چیز کو رکھنے کے لئے فی پونڈ 10،000 ہزار امریکی ڈالر سے لے کر 40،000 ہزار امریکی ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ (ذرا تصوّر کریں کہ جان گلین ٹھوس سونے سے بنا ہو تب ہی آپ خلائی سفر کی لاگت کے بارے میں صحیح طرح سے ادراک کر سکیں گے) ہر خلائی جہاز کی مہم لاگت میں 80 کروڑ ڈالر کا اضافہ کرتی ہے (اگر ہم تمام خلائی سفر کی لاگت کو لے کر تمام مہمات کے اعداد سے اس کو تقسیم کریں)۔ امید ہے کہ خلائی سفر کی لاگت گرے گی لیکن یہ صرف اگلی چند دہائیوں میں نئے دوبارہ قابل استعمال خلائی گاڑیوں کی آمد کے ساتھ صرف دس گنا ہی کم ہوگی ۔ ان خلائی گاڑیوں کو مہم کو مکمل کرنے کے ساتھ ہی دوسری مہم کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کے زیادہ عرصے تک خلائی سفر انتہائی مہنگا شوق بنا رہے گا جس کی استطاعت صرف دولت مند افراد اور اقوام ہی رکھ سکیں گی۔
(اس کی ایک ہی اِستثنیٰ ہے یعنی "خلائی بالا بر " کو بنا لیا جائے۔ حالیہ نینو ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت سے یہ ممکن ہو سکا ہے کہ فوق مضبوط اور فوق ہلکے وزن کے دھاگے کو کاربن نینو ٹیوب کی مدد سے بنایا جا سکے۔ اصولی طور پر کاربن کے جوہروں کے یہ دھاگے اتنے مضبوط ثابت ہو سکتے ہیں کہ زمین کو ہم گرد زمین سیارچے کے ساتھ زمین سے 20 ہزار میل اوپر جوڑ سکیں۔
جس طرح سے جیک کی بیل آسمان تک جاتی تھی اس طرح سے کوئی ان کاربن نینو ٹیوب کا استعمال کرتے ہوئے خلائے بسیط میں جانے کے لئے کسی قسم کا بالا بر بنا سکتا ہے جس پر آنے والی لاگت جو عام طور پر خلاء میں بھیجے جانے والے خلائی جہازوں پر آنے والی لاگت سے کہیں کم ہوگی۔
تاریخی طور پر خلائی سائنس دان خلائی بالا بر کے خیال کو اس لئے رد کرتے رہے ہیں کیونکہ رسی پر دباؤ اس قدر ہوگا کہ کوئی بھی معلوم ریشہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ بہرحال کاربن نینو ٹیوب کی ٹیکنالوجی اس منظر نامے کو تبدیل کر سکتی ہے۔ ناسا اس ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لئے مالی معاونت کر رہا ہے اور صورتحال کا کچھ برسوں تک قریبی جائزہ لے گا۔ تاہم کیا ایسی ٹیکنالوجی کسی کام کی بھی ہوگی، ایک خلائی بالا بر تو صرف ہمیں زمین کے گرد مدار میں لے کر جائے گا کسی دوسرے سیارے پر نہیں۔)
خلائی بستیوں کا خواب اس وقت چکنا چور ہو جاتا ہے جب ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انسان بردار چاند اور مریخ پر مہمات کی لاگت قریبی زمینی مہمات سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ صدیوں پہلے کولمبس کے زمینی سمندری جہاز اور پہلے کے فرانسیسی کھوجیوں کے برعکس جن کے جہاز کی لاگت اسپین کی خام مقامی آمدن کا معمولی حصّہ ہوتی تھی اور جہاں معاشی فوائد اس لاگت سے کہیں زیادہ ہوتے تھے، چاند اور مریخ پر بستیوں کو قائم کرنے کی لاگت اکثر اقوام کا دیوالیہ نکال دے گی جبکہ ان کو اس سے براہ راست کوئی معاشی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک سادہ انسان بردار مریخ کے سفر کی لاگت سو ارب سے پانچ سو ارب امریکی ڈالر ہو سکتی ہے جبکہ اس کا مالی منافع نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسی طرح انسانی مسافروں کو خلاء میں پیش آنے والے خطرات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ نصف صدی کے بعد کے مائع ایندھن والے راکٹ انجن کے تجربے کے بعد ہمیں معلوم ہے کہ راکٹ کی ناکامی کی شرح 70 میں سے ایک کی ہے۔( حقیقت میں دو المناک خلائی حادثے اسی شرح کے اندر آتے ہیں) ۔ ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ خلائی سفر سیاحت سے مختلف ہوتا ہے۔ دھماکے سے اڑ جانے والے کافی سارے ایندھن اور انسانی زندگی کا سامنا کرنے والے بہت سارے خطروں کے ساتھ خلائی سفر آنے والی دہائیوں میں اسی طرح خطرناک رہے گا۔
کئی صدیوں کے پیمانے پر بہرحال صورتحال بتدریج تبدیل ہوتی جائے گی۔ خلائی سفر کی لاگت میں کمی سست رفتاری سے جاری رہے گی، کچھ خلائی بستیاں بتدریج مریخ پر قائم کی جا چکیں گی۔ اس وقت کے پیمانے پر کچھ سائنس دان تو مریخ کو زمین سے ملتی جلتی شکل دینے کے لئے اختراعی میکانکی طریقہ تجویز کرتے ہیں، جیسا کہ کسی سیارچہ کا رخ موڑنا اور اس کو فضا میں تبخیر ہونے کے لئے چھوڑ دینا تاکہ فضا میں پانی کا اضافہ ہو سکے۔ دوسروں کے خیال میں میتھین گیس کو فضا میں داخل کر دیا جائے تاکہ سرخ سیارے پر مصنوعی نباتاتی خانے کا اثر پیدا کیا جا سکے جس سے درجہ حرارت کو بڑھا کر مریخ کی سطح کے نیچے ہمیشہ سے رہنے والی برف کو پگھلایا جا سکے اور یوں اس کی جھیلیں اور ندیوں کو ارب ہا برسوں کے بعد پہلی مرتبہ بھرا جا سکے۔ کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں زیادہ شدید اور خطرناک جیسا کہ زیر زمین قطبی ٹوپی پر نیوکلیائی بم کو پھاڑ دیں تاکہ برف پگھل جائے (یہ مستقبل کے خلائی نو آبادیاتی لوگوں کی صحت کے لئے انتہائی خطرناک چیز ہوگی)۔ تاہم یہ تجاویز ابھی تک دیوانے کی بڑ سے زیادہ کی چیز نہیں ہیں۔
زیادہ امکان یہی ہے کہ کہ جماعت اوّل کی تہذیب خلائی آباد کاری کو چند صدیوں تک اپنی ترجیحات میں نچلے درجے پر رکھے گی ۔ تاہم لمبے فاصلوں کے بین السیاروی مہمات پر جہاں وقت کا دباؤ زیادہ شدید نہیں ہوگا شمسی / آئن انجن شاید ایک نئے طرح کا انجن ستاروں کے درمیان سفر کرنے کے لئے پیش کر سکتا ہے۔ اس طرح کے آہستہ حرکت کرنے والے کم دھکیل کی قوّت کو پیدا کرتے ہیں تاہم وہ اپنی اس دھکیل کی قوّت کو برسوں تک قائم رکھ سکتے ہیں۔ یہ انجن سورج کی شمسی توانائی پر انحصار کرتے ہیں، سیزم جیسی گیسوں کو گرم کرتے ہیں اور پھر گیس کو خارج کرتے ہیں اس طرح سے ہلکی دھکیل پیدا ہوتی ہے جس کو تقریباً لامتناہی طور پر قائم رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی گاڑیاں شاید بین السیاروی " بین السلطنت شاہراہ نظام" کو جوڑنے کے لئے مثالی ہوں۔
بالآخر جماعت اوّل کی تہذیب شاید کچھ تجرباتی کھوجی قریبی ستاروں تک بھیج سکے۔ کیونکہ کیمیائی راکٹ کی رفتار راکٹ میں موجود گیسوں کی زیادہ سے زیادہ تیزی سے اخراج ہونے والی رفتار پر انحصار کرتے ہیں، طبیعیات دانوں کو مزید اجنبی دھکیلنے کے نظاموں کو ڈھونڈنا ہوگا اگر وہ ان دور دراز ستاروں کے پاس جانے چاہتے ہیں جو سینکڑوں نوری برس کے فاصلے پر ہیں۔
ایک ممکنہ صورت گداختی دو شاخہ راکٹ کا بنانا ہے، ایک ایسا راکٹ جو جو ہائیڈروجن گیس کو بین النجمی خلاء سے اٹھائے اور اس میں گداخت کرے، اس طرح سے اس عمل کے درمیان غیر محدود مقدار میں توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بہرحال خلاء میں خلائی جہاز میں تو اس کے حاصل کرنے کی بات کو چھوڑ دیں، پروٹون پروٹون کی گداخت زمین پر حاصل کرنا بھی بہت ہی زیادہ مشکل کام ہے ۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی مستقبل میں آنے والی دوسری صدی میں ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
جماعت دوم کی تہذیب پورے ستارے کی طاقت کو قابو کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے شاید یہ اسٹار ٹریک سلسلے میں سوائے خمیدہ راستے کو چھوڑ کر سیاروں کی فیڈریشن کے کسی نسخے جیسی ہوگی ۔ وہ ملکی وے کہکشاں کے کچھ حصّے کو آباد کر سکتی ہیں جبکہ ستاروں کو بھی جلا سکتی ہیں پس اس طرح سے وہ ظہور ہوتی ہوئی جماعت دوم کے لئے اہل ہوتی ہیں۔
سورج کی پیدا کی ہوئی توانائی کو پوری طرح استعمال کرنے کے لئے فری مین ڈائیسن نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک جماعت دوم کی تہذیب شاید ایک دیوہیکل کرہ سورج کے گرد قائم کر دے تاکہ اس کی شعاعوں کو جذب کر سکے۔ مثال کے طور پر یہ تہذیب ایک مشتری کے حجم کے سیارے کو ساختیاتی عمل سے گزار کر سورج کے گرد ایک کرہ کی شکل میں لا سکتی ہے۔ حر حرکیات کے قانون کی رو سے کرہ بالآخر گرم ہو جائے گا اور زیریں سرخ اشعاع کی خصوصیات کا حامل بن جائے گا جس کو باہری خلاء سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جاپان کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف سویلائزیشن کے جن جگاکو اور ان کے ساتھیوں نے آسمان فلک میں 80 نوری برس تک کی تلاش کی ہے تاکہ اس طرح کی کسی تہذیب کو دیکھ سکیں تاہم ان کو اس طرح کی اشعاع کے اخراج کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا (اگرچہ یاد رہے کہ ہماری کہکشاں ایک لاکھ نوری برس پر پھیلی ہوئی ہے۔)
جماعت دوم کی تہذیب شاید اپنے نظام شمسی میں کچھ سیاروں کو آباد کر سکے اور بالآخر بین النجمی سفر کرنے کا کوئی منصوبہ شروع کر سکے۔ جماعت دوم کے پاس کیونکہ وسیع وسائل دستیاب ہوں گے لہٰذا وہ ممکنہ طور پر کسی قسم کی اجنبی دھکیلنے کا نظام جیسا کہ ضد مادّہ/ مادّے سے چلنے والا انجن اپنے خلائی جہازوں کے لئے بنا سکتے ہیں جس سے وہ روشنی کی رفتار کی قریبی رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ اصولی طور یہ اس طرح کی توانائی صد فیصد کارگر ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ تجرباتی طور پر جماعت اوّل کے لئے ممکن ہوگی تاہم یہ کافی مہنگی ہو سکتی ہے (اس کے لئے ایک جوہری اسراع گر کو ضد پروٹون کی کرن بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا جس سے ضد جوہر بنائیں جائیں گے۔)
ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح سے جماعت دوم کا سماج کام کرتا ہوگا۔ بہرحال جائیداد، وسائل اور طاقت پر تنازعوں کے طے ہونے میں شاید ایک ہزار برس کا عرصہ لگ جائے ۔ ایک جماعت دوم کی تہذیب کے متعلق اندازہ ہے کہ وہ لافانی ہو سکتی ہے۔ اس کی کافی امید ہے کہ بجز ان کے خود کے معلومہ سائنس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہوگی جو ان کو تباہ کر سکے ۔ وہ سیارچوں اور شہابیوں کا رخ موڑ دے گی، برفیلے دور کو موسمی نمونوں میں تبدیلی کرکے بدل دے گی، یہاں تک کہ وہ اس قابل ہوگی کہ قریبی پھٹنے والے سپرنووا سے پیدا ہونے والے خطرے کو اپنے سیارے کو خالی کرکے اپنی تہذیب کو اس خطرے سے دور منتقل کرکے جان بچا سکے- یا پھر مرتے ہوئے ستارے کے حر مرکزائی انجن کو بھی چھیڑ سکتی ہے۔
اس وقت جب سماج جماعت سوم کی تہذیب تک پہنچے گا تو شاید اس طلسماتی توانائی کے تصوّر کا آغاز ہونا شروع ہو چکا ہوگا جس سے زمان و مکان غیر پائیدار ہو سکتا ہے۔ ہم یاد دلاتے ہیں کہ پلانک توانائی وہ توانائی ہے جس پر کوانٹم کے اثرات کا غلبہ ہوتا ہے اور زمان و مکان "جھاگ" کی طرح بن جاتا ہے جس میں ننھے بلبلے اور ثقب کرم ہوتے ہیں۔ پلانک توانائی آج ہماری پہنچ سے کافی دور ہے تاہم اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم توانائی کو تہذیب 0.7 کے نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت جب کوئی تہذیب جماعت سوم تک پہنچے گی تو تعریف کے لحاظ سے اس کے پاس جو توانائی تک کی رسائی ہوگی وہ آج زمین پر پائی جانے والی توانائی کے مقابلے میں 10 ارب گنا 10 ارب گنا (یا 10^20 ) زیادہ توانائی ہوگی۔
یونیورسٹی کالج ان لندن کے ماہر فلکیات آئین کرافورڈ تہذیب سوم کے بارے میں لکھتے ہیں، " ایک مثالی بستی جو دس نوری برس تک ہو، ایک خلائی جہاز جس کی رفتار روشنی کی رفتار کا دس فیصد ہو اور بستی کو بسانے کے بعد 400 برس کا عرصہ اس کو کہیں اور منتقل ہو کر نئی بستی قائم کرنے کے لئے درکار ہو تو آباد کاری کی یہ لہر ایک برس میں اوسطاً 0.02 نوری برس سے اپنی سرحدوں میں اضافہ کرے گی۔ کیونکہ کہکشاں ایک لاکھ نوری برس پر پھیلی ہوئی ہے لہٰذا تمام کہکشاں میں بستی بسانے کے لئے صرف 50 لاکھ برس کا عرصہ درکار ہوگا۔ ہرچند یہ انسانی تصوّر کے حساب سے کافی لمبا عرصہ ہے تاہم یہ کہکشاں کی عمر کا صرف 0.05 فیصد ہے۔"
سائنس دانوں نے کافی سنجیدہ کوششیں کی ہیں کہ وہ ہماری کہکشاں میں موجود جماعت سوم کی تہذیب کے ریڈیائی اخراج کے ثبوت حاصل کر لیں۔ دیوہیکل اریسبو ریڈیائی دوربین ، پورٹو ریکو میں واقع ہے اس نے کہکشاں کے کافی حصّے میں ہائیڈروجن گیس کے خط کے قریب 1.42گیگا ہرٹز پر ریڈیائی اخراج کی تلاش کی ہے۔ تاہم اسے کسی بھی قسم کا ثبوت کسی بھی قسم کی ریڈیائی اخراج کے بینڈ میں کسی بھی تہذیبی اشاروں کو 10^18 سے لے کر 10^30 واٹس توانائی کے درمیان نہیں ملا (یعنی جماعت اوّل دو سے جماعت دوم چار تک)۔ بہرحال اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے کوئی تہذیب موجود نہیں ہے، جماعت 0.8 سے لیکر جماعت اوّل ایک تک یا ہم سے کافی زیادہ ترقی یافتہ تہذیبوں کی طرح جیسے کہ جماعت دوم پانچ یا اس سے بھی آگے۔ اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ دوسرے قسم کے ذرائع مواصلات کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایک جدید تہذیب اپنے اشارے ریڈیائی لہروں کے بجائے لیزر کا استعمال کرتے ہوئے بھیج سکتی ہے۔ اور اگر وہ ریڈیائی لہروں کا استعمال کرتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ 1.42تعدد ارتعاش کے علاوہ دوسرے تعدد ارتعاش کا استعمال کرتی ہو۔ مثال کے طور پر وہ اپنے اشارے مختلف تعدد ارتعاش پر پھیلا کر ان کو وصول کنندہ مقام پر دوبارہ جوڑتی ہوں۔ اس طرح سے ایک گزرتا ہوا ستارہ یا کونیاتی طوفان تمام پیغام میں داخل اندازی نہیں کرے گا۔ ایسا پھیلا ہوا اشارہ جو کوئی بھی سنے گا اس کو صرف شور ہی سنائی دے گا۔ (ہمارے اپنے برقی خط کئی حصّوں میں ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں جس کا ہر حصّہ ایک مختلف شہر سے گزر کر ہمارے پاس پہنچتا ہے جہاں ہمارا ذاتی کمپیوٹر اس کو دوبارہ سے جوڑتا ہے۔ اسی طرح سے جدید تہذیب فیصلہ کر سکتی ہے کہ اشاروں کو بھیجنے اور وصول کرنے کے لئے پیچیدہ طریقہ کار استعمال کیا جائے۔)
اگر جماعت سوم کی تہذیب کائنات میں موجود ہے تب ان کا سب سے زیادہ زور کہکشاؤں کے درمیان رابطوں کو قائم کرنے میں ہوگا۔ بلاشبہ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا وہ کسی طرح روشنی کی رفتار سے تیز چلنے والی ٹیکنالوجی جیسے کہ ثقب کرم کی حامل بن جائے ۔
اگر ہم فرض کریں کہ ان کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے تو ان کی نشوونما کافی حد تک رک جائے گی۔ طبیعیات دان فری مین ڈائیسن جین مارک لیوی لیبلونڈ کے کام سے اقتباس لے کر رائے قائم کرتے ہیں ایسا سماج شاید ایک "کیرول" کائنات میں رہے گا ۔ اس کا نام لوئس کیرول کے نام پر رکھا ہے۔ ماضی میں ڈائیسن لکھتے ہیں کہ انسانی سماج چھوٹے قبیلوں سے بنا ہے جہاں خلاء تو مطلق تھی تاہم وقت اضافی تھا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مختلف قبیلوں کے درمیان رابطہ ناممکن تھا اور ہم صرف انسانی زندگی میں کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کا جوکھم اٹھا سکتے تھے۔ ہر قبیلہ وسیع مطلق فاصلے کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ تھا۔ صنعتی انقلاب کے آنے کے بعد ہم نیوٹنی کائنات میں داخل ہو گئے جہاں زمان و مکان مطلق بن گئے اور ہمارے پاس جہاز اور پہیے آ گئے جنہوں نے بکھرے ہوئے قبائل کو اقوام کی صورت میں جوڑا۔
بیسویں صدی میں ہم آئن سٹائن کی کائنات میں داخل ہوئے جہاں زمان و مکان دونوں اضافی ہیں، ہم نے یہاں ٹیلی گراف ، ٹیلی فون، ریڈیو، اور ٹی وی بنایا جس کا نتیجہ فوری ابلاغ کی صورت میں نکلا۔ ایک جماعت سوم کی تہذیب واپس کیرول کی کائنات میں کھو جائے گی جہاں خلاء کی بستیاں تو موجود ہوں گے تاہم وہ ایک دوسرے سے وسیع بین النجمی خلاء کی وجہ سے الگ ہوں گی، اور روشنی کی رفتار کی حد کی وجہ سے ایک دوسرے سے رابطہ قائم نہیں کر سکیں گی۔ کیرول کائنات کی اس طرح سے بکھرنے کی صورت سے بچنے کے لئے ایک جماعت سوم کی تہذیب کو ثقب کرم کو لامحالہ طور پر بنانا ہوگا جو ان کو روشنی کی رفتار سے تیز رابطوں کو ذیلی جوہری سطح پر کرنے کے قابل بنائے گا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لندن کے افلاک نما میں لیکچر دے رہا تھا تو وہاں ایک چھوٹا لڑکا میرے پاس آیا اور اسرار کرنے لگا کہ جماعت چہارم کی تہذیب بھی ہوگی۔ جب میں نے اس کو یاد دلایا کہ صرف سیارے ، ستارے اور کہکشائیں موجود ہیں اور یہی وہ جگہیں ہیں جہاں ذہین حیات کی داغ بیل ڈل سکتی ہے ، تو اس نے دعویٰ کیا کہ جماعت چہارم کی تہذیب مسلسلہ کی طاقت استعمال کر سکتی ہے۔
وہ ٹھیک کہہ رہا تھا، مجھے احساس ہو گیا۔ اگر ایک جماعت چہارم کی تہذیب کا وجود ہے تو اس کی توانائی ماورائے کہکشانی ہوگی جس طرح سے تاریک توانائی کو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں، جو کائنات میں موجود مادّے اور توانائی کی کل مقدار کا 73 فیصد تشکیل دیتی ہے۔ ہرچند کہ ممکنہ طور پر توانائی کا ایک عظیم ذخیرہ – کائنات میں سب سے زیادہ سب سے بڑا – یہ ضد ثقلی میدان ہے جو کائنات کی وسیع خالی جگہوں پر پھیلا ہوا ہے لہٰذا کسی بھی نقطہ پر وہ کافی کمزور ہے۔
تھامس ایڈیسن کے رقیب اور برقی اختراعی کا استعمال کرنے والے نیکولا ٹیسلا، نے کافی تفصیل سے لکھا کہ کس طرح سے خالی جگہ کی توانائی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کو یقین تھا کہ خالی جگہ میں بے حساب توانائی موجود ہے۔ اگر ہم کسی طرح سے اس وسیلے کا استعمال کر سکتے تو اس کے خیال میں یہ انسانی سماج میں انقلاب برپا کر دیتا۔ بہرحال اس شاندار توانائی کو حاصل کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ سمندر میں سونے کی تلاش کے بارے میں سوچیں۔ شاید سمندر میں فورٹ ناکس اور دنیا کے دیگر خزانوں سے بھی زیادہ سونا موجود ہے۔ تاہم اتنے بڑے علاقے سے سونے کو نکالنے کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا سمندر میں موجود سونے کو کبھی نکالا نہیں گیا۔ اسی طرح سے تاریک توانائی میں مخفی توانائی ستاروں اور کہکشاؤں کی کل توانائی کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔ بہرحال یہ ارب ہا نوری برس پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کو مرکوز کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ تاہم قوانین طبیعیات کی رو سے اس بات کا اب بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ایک جماعت سوم کی تہذیب جب کہکشاں میں موجود تمام ستاروں کی توانائی کا استعمال کرنے کے بعد کسی طرح سے اس توانائی کو حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے تاکہ جماعت چہارم کی تہذیب کی طرف قدم بڑھا سکے۔
تہذیب کی مزید بہتر درجہ بندی نئی ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر بھی کی جا سکتی ہے۔ کاردیشوف نے اصل درجہ بندی کو 1960ء کے عشرے میں، کمپیوٹر انقلاب، نینو ٹیکنالوجی میں پیش رفت اور ماحول کے انحطاط کے شعور کے احساس ہونے سے پہلے لکھا تھا۔ ان میدانوں میں ہونے والی ترقی کی روشنی میں، ایک جدید تہذیب ممکن ہے تھوڑا الگ طریقے سے ترقی کرے اور اس اطلاعاتی انقلاب کا پورا فائدہ اٹھائے جس کا ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں۔
جیسا کہ ایک جدید تہذیب نہایت تیزی سے ترقی کرے گی لہٰذا ضمنی فالتو وسیع حرارت خطرناک طور سے سیارے کے درجہ حرارت میں اضافہ کر سکتی ہے اور ماحولیاتی مسائل کو پیدا کر سکتی ہے۔ جرثوموں کی بستیاں برق رفتاری سے بطری قاب میں اس وقت تک اپنی تعداد بڑھاتی رہتی ہیں تاوقتیکہ ان کی خوراک کی رسد ختم ہو جائے اور واقعی میں وہ اپنے ہی فضلہ میں غرق ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح کیونکہ خلائی سفر آنے والی صدیوں تک مشکل بنا رہے گا اور قریبی سیاروں کو زمین جیسا بنانا اگر ممکن ہوا تو بھی معاشی اور سائنس چیلنج بنے گایوں ایک جماعت اوّل کی ارتقا پذیر تہذیب ممکنہ طور پر اپنی ہی پیدا کی ہوئی فالتو حرارت میں دم گھٹ کر مر جائے گی یا پھر اس کو اپنی اطلاعات کی پیداوار کو انتہائی مختصر ہموار کرنا ہوگا۔
اس طرح کے مختصر کرنے کے اثر کو دیکھنے کے لئے انسانی دماغ پر غور کریں جس میں 100 ارب عصبانیے (جتنی قابل مشاہدہ کائنات میں کہکشائیں ہیں) ہوتے ہیں اور اس کے باوجود وہ کسی قسم کی حرارت پیدا نہیں کرتا۔ مقابلے کے طور پر اگر آج کے کمپیوٹر انجنیئر کوئی برقی کمپیوٹر بنانے شروع کر دیں جو اس قابل ہو کہ پدم ہا بائٹس فی سیکنڈ پر کام کر سکے جس طرح سے دماغ بظاہر طور پر بڑے مزے سے کام کرتا ہے، تو وہ ممکنہ طور پر حجم میں کئی منزلہ ہوگا اور اس کو ٹھنڈا ہونے کے لئے پانی کا وافر ذخیرہ درکار ہوگا۔ ہنوز ہمارا دماغ زیادہ تر پر شکوہ خیالات پر دھیان پسینہ نکالے بغیر دے سکتے ہے۔
دماغ اس طرح اپنے سالماتی اور خلیاتی ساخت کی بنیاد پر کرتا ہے۔ سب سے پہلے یہ کوئی کمپیوٹر نہیں ہے ( ایک معیاری ٹیورنگ مشین کی طرح ، جس میں ایک دخول کی ٹیپ ہوتی ہے ایک نتیجہ حاصل کرنے کی اور ایک مرکزی عمل کار ہوتا ہے)۔ دماغ میں کسی قسم کا چلانے والا نظام موجود نہیں ہے، نہ ونڈوز ، نہ ہی سی پی یو، نہ کوئی پینٹیم چپ جن کو ہم عام طور پر کمپیوٹر سے جوڑتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی متاثر کن عصبانی جال ہے ایک سیکھنے کی مشین، جہاں پر یادداشت اور خیالات کے نمونے بجائے کسی مرکزی عمل کار یونٹ میں موجود ہونے کے پورے دماغ میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ دماغ کو بہت تیزی سے حساب لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ برقی پیغامات جو عصبانیوں کو بھیجتے ہیں وہ اصل میں کیمیائی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ تاہم یہ اپنی سست رفتاری کا ازالہ اس طرح سے کرتا ہے کہ یہ متوازی عمل کاری کرتا ہے اور نئے کام فلکیاتی رفتار سے سیکھتا ہے۔
برقی کمپیوٹر کی خام کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے سائنس دان کوشش کر رہے ہیں کہ نئے خیالات کا استعمال کریں، ان میں سے اکثر وہ قدرت کے خیالات کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ایک نئی نسل کے مختصر کمپیوٹر بنا سکیں۔ پرنسٹن میں پہلے ہی سائنس دان ڈی این اے کے سالمے کا استعمال کرتے ہوئے حساب کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔(ڈی این اے کو بطور کمپیوٹر ٹیپ کے لے کر انہوں نے ثنائی صفر اور ایک کے چار مرکزائی تیزاب، اے، ٹی، سی، جی ) کو لیا؛ ان کا ڈی این اے کا کمپیوٹر ایک کئی شہروں میں محو سفر فروش کار کے مسائل کو حل کر چکا ہے (یعنی سب سے مختصر راستہ جو "این" شہروں کو جوڑتا ہے۔) اسی طرح سالماتی ٹرانسسٹر کو تجربہ گاہ میں بنا لیا گیا ہے بلکہ پہلا ابتدائی کوانٹم کمپیوٹر (جو انفرادی جوہروں پر حساب کر سکتا ہے) بنا لیا گیا ہے۔
نینو ٹیکنالوجی میں پیش رفت کو دیکھتے ہوئے یہ قرین قیاس ہے کہ ایک ترقی یافتہ تہذیب کافی اثر انگیز طریقے بنا لے گی جس سے وہ فالتو حرارت نہ نکل سکے جو ان کی اپنے ہی وجود کے لئے خطرہ ثابت ہو۔
ساگاں نے ترقی یافتہ تہذیب کی ایک اور طرح سے درجہ بندی کی جو ان کے اطلاعاتی مواد کی نسبت سے ہیں اور جو اس تہذیب کے لئے لازمی ہوں گے جو کائنات کو چھوڑنا چاہ رہی ہوگی۔ مثال کے طور پر جماعت اے کی تہذیب وہ ہوگی جو 10^6 بٹس کی اطلاعات پر عمل کاری کر سکتی ہوگی۔
یہ ایک ایسی قدیمی تہذیب ہوگی جس کے پاس کوئی تحریری زبان نہیں ہوگی تاہم اس کے پاس بولی ضرور ہوگی۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ جماعت کی تہذیب کس قدر اطلاعات کو رکھ سکتی ہے، ساگاں نے بیس سوالات پر مشتمل ایک کھیل کا سہارا لیا، جس میں آپ کو بیس سوالات پوچھ کر ایک پراسرار جسم کی شناخت کرنی ہوتی ہے اور سوالات کا جواب ہاں یا نہ میں ہوتا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سوال کو اس طرح پوچھا جائے جو الفاظ کو دو بڑے ٹکڑوں میں توڑ دے جیسا کہ، "کیا وہ زندہ ہے؟" اس طرح کے بیس سوالات کرنے کے بعد ہم دنیا کو 220 ٹکڑوں یا 10^6 میں تقسیم کر سکتے ہیں جو جماعت اے کا کل اطلاعاتی مواد ہو سکتا ہے۔
ایک مرتبہ تحریری زبان دریافت ہو جائے تو کل اطلاعاتی مواد تیزی سے بڑھے گا۔ ایم آئی ٹی کے طبیعیات دان فلپ موریسن تخمینہ لگاتے ہیں کہ کل تحریری ورثہ جو قدیمی یونانیوں کا باقی رہ گیا ہے وہ لگ بھگ 10^9 بٹس یا کارل ساگاں کی درجہ بندی کے مطابق جماعت سی کی تہذیب ہے۔ ساگاں ہمارے دورحاضر کے اطلاعاتی مواد کا حساب لگاتے ہیں۔ دنیا کے تمام کتب خانوں میں رکھی ہوئی کتابوں کی تعداد (جن کو کروڑوں کی تعداد میں ناپا گیا ہے) اور ہر کتاب کے صفحہ کا اندازہ لگا کر اس کے حساب سے کل مواد 10^13 ہے۔ اگر ہم تصاویر کو بھی شامل کر لیں تو شاید یہ بڑھ کر 10^15 ہو جائے ۔ اس طرح سے ہم جماعت ایچ کی تہذیب بن جاتے ہیں۔ ہماری کم توانائی اور اطلاعاتی پیداوار کو دیکھتے ہوئے ہم ایک جماعت 0.7 ایچ کی تہذیب میں درجہ بند ہو سکتے ہیں۔ اس نے اندازہ لگایا کہ ہمارا پہلا رابطہ کسی ماورائے ارضی تہذیب سے کم از کم 1.5 جے یا 1.8 کی تہذیب تک پہنچنے کے بعد ہوگا کیونکہ اس طرح کی تہذیب پہلے ہی سے بین النجمی سفر کے محرکات کی ماہر ہو چکی ہوگی۔ کم از کم ایسی کوئی بھی تہذیب ہم سے کئی صدیوں سے ہزار صدی تک آگے کی ہوگی۔ اسی طرح ایک کہکشانی جماعت سوم کی تہذیب کو بھی ہر سیارے کے اطلاعاتی مواد کو کہکشاں میں موجود قابل رہائش سیاروں کی تعداد سے ضرب دینے بعد درجہ بند کیا جا سکتا ہے۔ ساگاں کا اندازہ تھا کہ اس طرح کی جماعت سوم کی تہذیب کی قسم کیو کی ہوگی۔ ایک ترقی یافتہ تہذیب جو ارب ہا کہکشاؤں کے اطلاعاتی مواد کو رکھتی ہوگی وہ قابل مشاہدہ کائنات کے کافی بڑے حصّہ کی نمائندہ ہوگی اور وہ قسم زی کے لئے اہل ہوگی ، اس نے قیاس کیا۔
یہ کوئی معمولی درسی مشق نہیں تھی۔ کوئی بھی تہذیب جو کہکشاں کو چھوڑنے کی تیاری کر رہی ہوگا لازمی طور پر دوسری طرف کی کائنات کے حالات کا اندازہ لگائے گی۔ آئن سٹائن کی مساوات بدنامی کی حد تک مشکل ہے کیونکہ خلاء کے خم کا حساب کسی بھی نقطے پر لگانے کے لئے آپ کو کائنات میں موجود تمام اجسام کا محل وقوع معلوم ہونا چاہئے جس میں سے ہر ایک خلاء کے خم میں اپنا کردار ادا کرے گا ۔ آپ کو بلیک ہولز کی کوانٹم کی تصحیحات بھی معلوم ہونی چاہئیں جن کا حساب لگانا فی الوقت ناممکن ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے کمپیوٹروں کے لئے بہت مشکل کام ہے، طبیعیات دان عام طور بلیک ہول کے لئے اندازہ لگاتے ہیں یہ اندازہ کائنات کی تحقیق کرتے ہوئے لگایا جاتا ہے جہاں ایک اکلوتے منہدم ہوتے ستارے کا غلبہ ہے۔ بلیک ہولز کے واقعاتی افق کے اندر یا ثقب کرم کے منہ کے قریب جگہوں کی مزید حقیقی سمجھ بوجھ کے لئے ہمیں لازمی طور پر تمام قریبی ستاروں کا محل وقوع اور توانائی کو معلوم کرکے کوانٹم اتار چڑھاؤ کا حساب لگانا ہوگا۔ یعنی یہ انتہائی مشکل کام ہے۔ پھیلتی ہوئی کائنات میں موجود ارب ہا کہکشاؤں کی تو بات ہی چھوڑ دیں یہ کام تو ایک خالی کائنات میں ایک اکلوتے ستارے کے لئے کرنا انتہائی مشکل کام ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی تہذیب جو ثقب کرم کے ذریعہ سفر کرنے کی کوشش کرے گا اس کے پاس حسابی قوّت ہمارے جیسی 0.7 ایچ تہذیب سے کہیں زیادہ ہونی چاہئے۔ شاید وہ کم سے کم توانائی اور اطلاعاتی مواد جو ایسی کسی سنجیدہ چھلانگ کے لئے لازمی ہوگی وہ جماعت سوم کیو کی تہذیب ہوگی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ذی شعور حیات کاردیشوف کی جماعت بندی سے بھی آگے نکل کر پھیل گئی ہوں۔ جیسا کہ سر مارٹن ریس کہتے ہیں، "اس کا کافی امکان ہے کہ اگر صرف زمین پر ہی حیات موجود ہے، تو یہ بالآخر تمام کہکشاں اور اس سے آگے پھیل جائے گی۔ لہٰذا حیات ہمیشہ کے لئے کائنات کو اپنے آلودہ نشانوں سے پاک نہیں رکھے گی اگرچہ ابھی تو ایسا ہی ہے ۔ حقیقت میں مجھے یہ بات زیادہ قرین قیاس لگتی ہے کہ یہ اگر اس کا اشتراک وسیع پیمانے پر کیا جائے گا تو یہ کافی سود مند ہوگی۔" تاہم وہ خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے،" اگر ہم اپنے آپ کو باہر نکال لیں تو ہم کونیاتی حقیقی صلاحیتوں کو تباہ کر رہے ہوں گے۔ لہٰذا اگر کوئی یہ یقین رکھتا ہے کہ زمین پر ہی حیات انفرادی طور پر موجود ہے، تب اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کائنات میں حیات ہمیشہ ایک معمولی ٹکڑا بن کر رہے گی۔"
کس طرح سے ایک ترقی یافتہ تہذیب اپنی مرتی ہوئی کائنات کو چھوڑے گی؟ اس کے مشکلات کے پہاڑوں کو سر کرنا ہوگا۔
سب سے پہلی مشکل جو اس تہذیب کے سامنے منہ اٹھا کر کھڑی ہوگی جو کائنات کو چھوڑنے کی تیاری میں لگی ہوگی وہ ہے ہر شئے کا نظریئے کا حصول۔ چاہئے وہ اسٹرنگ کا نظریہ ہو یا نہ ہو، ہمیں کسی طرح سے کوئی راستہ ایسا نکالنا ہوگا جس سے آئن سٹائن کی مساوات کے ذریعہ کوانٹم تصحیحات کا حساب قابل اعتبار طریقے سے نکل سکے بصورت دیگر ہمارے دوسرے کوئی بھی نظریات فائدہ مند نہیں ہوں گے۔
خوش قسمتی سے کیونکہ ایک نظریہ کافی تیزی سے ترقی کر رہا ہے، سیارے زمین پر موجود کچھ بہترین دماغ اس سوال پر کام کر رہے ہیں ہم جلد ہی جان جائیں گے کہ یہ واقعی میں کوئی ہر شئے کا نظریہ ہے یا پھر کسی بھی چیز کا نظریہ نہیں ہے۔ اس کے لئے شاید چند عشرے یا شاید اس سے بھی کم وقت درکار ہوگا۔
ایک مرتبہ ہر شئے کا نظریہ یا کوانٹم ثقل کا نظریہ مل جائے تو ہمیں اس نظریئے کے عواقب کی جانچ بذریعہ جدید ٹیکنالوجی کرنی ہوگی۔ بشمول بڑے جوہری تصادم گروں کو بنا کر فوق ذرّات کی پیدا کرنا، یا خلاء میں ایک عظیم ثقلی موجی سراغ رساں بنانے کے کافی امکانات موجود ہیں۔ (چاند لمبے عرصے کے لئے کافی پائیدار ہوتے ہیں، یہ ٹوٹ پھوٹ اور ماحولیاتی دخل در معقولات سے پاک ہوتے ہیں، اس طرح سے ایک ثقلی موجی سراغ رساں کا سیاروی نظام بگ بینگ کی تفصیلات کی کھوج کر سکے گا، اور ان تمام سوالات کا حل پیش کرے گا جو ہم کوانٹم ثقل اور نئی کائنات کی تخلیق کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔)
ایک مرتبہ کوانٹم ثقل کا نظریہ مل جائے اور عظیم الجثہ جوہری تصادم گر اور ثقلی موجی سراغ رساں اس کی درستگی کی تصدیق کر دیں تب ہم آئن سٹائن کی مساوات اور ثقب کرم سے متعلق کچھ ضروری سوالات کے جواب حاصل کرنا شروع ہو جائیں گے:
1۔کیا ثقب کرم مستحکم ہیں؟
جب آپ "کر" کے چکر کھاتے ہوئے بلیک ہول کے پاس سے گزرتے ہیں تو اس میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ آپ کو آئن سٹائن روزن برگ کے پل سے گزر کر ایک مکمل راستہ طے کرنا ہوتا ہے۔ اس کے مستحکم پن کے حساب کو کوانٹم تصحیحات کی روشنی میں دوبارہ سے لگانا ہوگا جو ہو سکتا ہے کہ حساب کو بالکل ہی بدل دے۔
2۔کیا انحرافات موجود ہیں؟
اگر ہم کسی قابل قاطع ثقب کرم سے گزریں جو وقت کے دو ادوار کو جوڑتا ہے تب ثقب کرم کے داخلی راستے کے ارد گرد موجود شعاعیں لامحدود طور پر جمع ہو جائیں گی ، جو انتہائی مہلک ہوں گی۔ (اس کی وجہ یہ ہوگی کہ شعاعیں جو ثقب کرم سے گزریں گے وہ واپس وقت میں پیچھے چلی جائیں گی، اور کئی برس کے بعد واپس ثقب کرم میں دوسری مرتبہ داخل ہونے کے لئے آ جائیں گی۔ یہ عمل لامحدود مرتبہ دہرایا جائے گا جس سے شعاعیں لامتناہی طور پر وہاں جمع ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اس مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے، اس صورت میں جب کثیر جہاں کا نظریہ درست ہو۔ جس میں کائنات ہر مرتبہ اس وقت ٹوٹ جاتی ہے جب اشعاع ثقب کرم سے گزرتی ہیں اس طرح سے شعاعیں لامتناہی طور پر جمع نہیں ہوتیں۔ ہمیں ایک ہر شئے کے نظریئے کی ضرورت ہے تاکہ اس نازک مسئلے سے جان چھوٹے۔)
3۔ کیا ہم بڑی تعداد میں منفی توانائی کو حاصل کر سکتے ہیں؟
منفی توانائی کسی بھی ثقب کرم کو کھولنے اور استحکام بخشنے کے لئے ایک اہم جز ہے، اور ہم پہلے ہی معلوم کر چکے کہ یہ انتہائی کم تعداد میں موجود ہیں۔ کیا ہم مناسب مقدار میں کسی ثقب کرم کو کھولنے اور اس کو استحکام بخشنے کے لائق منفی توانائی کو تلاش کر لیں گے۔ فرض کریں کہ اس سوال کا جواب مل بھی جاتا ہے تب ایک ترقی یافتہ تہذیب شاید سنجیدگی کے ساتھ سوچے گی کہ کس طرح سے کائنات کو چھوڑا جا سکتا ہے یا پھر اس کو معدومیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کئی متبادل موجود ہیں۔
دوسرا قدم: قدرتی طور پر پائے جانے والے ثقب کرم (ورم ہول )اور سفید شگافوں (وائٹ ہول) کی تلاش
ثقب کرم (ورم ہول)، جہتی گزرگاہیں (ڈائمینشن پورٹل)، کونیاتی دھاگے (کاسمک اسٹرنگ ) شاید قدرتی طور پر خلائے بسیط میں موجود ہوں۔ بگ بینگ کے وقت جب عظیم مقدار میں توانائی کائنات میں امڈ رہی تھی، ثقب کرم اور کونیاتی دھاگے قدرتی طور پر بن سکتے تھے۔ شروع کی کائنات کے افراط پذیر ہونے کی وجہ سے شاید یہ ثقب کرم پھیل کر حجم میں کلاں ہو گئے ہوں۔ مزید براں ایک امکان یہ بھی ہے کہ اجنبی مادّہ یا منفی مادّہ قدرتی طور پر خلائے بسیط میں موجود ہوگا۔ اس سے شاندار طور پر اس کوشش میں مدد ملے گی جس میں مرتی ہوئی کائنات کو چھوڑا جا رہا ہوگا۔ بہرصورت اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایسا کوئی جسم قدرتی طور پر وجود بھی رکھتا ہو۔ کسی نے ابھی تک کوئی بھی ایسا جسم نہیں دیکھا، اور تمام ذی شعور حیات کے مقدر کو اس طرح کے قیاس پر چھوڑنا کافی خطرے کی بات ہوگی۔
مزید براں اس بات کا امکان بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ افلاک کی چھان بین کرتے ہوئے "سفید شگاف" کو بھی پانا ممکن ہے۔ ایک سفید شگاف آئن سٹائن کی مساوات کا وہ حل ہے جہاں وقت الٹے دھارے میں بہتا ہے، اس طرح سے سفید شگاف سے اجسام اس طرح سے نکلتے ہیں جس طرح سیاہ شگاف ان کو غڑپ کر لیتے ہیں۔ ایک سفید شگاف کو سیاہ شگاف کے دوسرے کنارے پر پایا جا سکتا ہے، اس طرح سے مادّہ جو بلیک ہولز یا سیاہ شگافوں میں داخل ہوتا ہے وہ بالآخر دوسری طرف سے سفید شگاف سے نکل آتا ہے۔ اب تک ہونے والی تمام فلکیاتی تحقیق میں سفید شگاف کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے ، تاہم ان کا وجود کے اثبات یا ارتداد اگلی نسل کی خلائی سراغ رسانوں کے ذریعہ ہی ہو سکے گا۔
تیسرا قدم: بلیک ہول کے اندر سے کھوجی کو بھیجا جائے
کسی بھی بلیک ہول کے بطور ثقب کرم کرنے کے استعمال کے زبردست فائدے ہوں گے۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ بلیک ہولز کائنات میں کافی وافر مقدار میں موجود ہیں؛ اگر ہم متعدد تیکنیکی مسائل کو حل کر لیں، تو ان کو سنجیدگی کے ساتھ ہماری کوئی بھی ترقی یافتہ تہذیب کائنات سے فرار ہونے کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔ بلیک ہول میں ہم پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگی ہوگی کہ ہم وقت میں اس وقت سے پیچھے نہ جا سکیں جب ٹائم مشین بنی ہے۔' کر' کے چھلے کے مرکز میں موجود ثقب کرم ہماری کائنات کو شاید ایک بالکل مختلف کائنات سے جوڑ سکتا ہے یا ایک ہی کائنات کے مختلف حصّوں کو بھی آپس میں جوڑ سکتا ہے۔ اس کو معلوم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی کھوجی کو تجرباتی طور پر بھیجا جائے اور فوق کمپیوٹر کا استعمال کرکے کائنات میں موجود کمیت کی تقسیم کا حساب لگایا جائے اور ثقب کرم کے ذریعہ آئن سٹائن کی مساوات کے کوانٹم تصحیحات کا حساب لگایا جائے۔
فی الوقت تو زیادہ تر طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بلیک ہول کے ذریعہ کرنے والا سفر انتہائی مہلک ہوگا۔ بہرحال بلیک ہول سے متعلق ہماری سمجھ بوجھ ابھی اپنے عہد طفلی میں ہے اور اس تصوّر کو کبھی جانچا ہی نہیں گیا۔ بحث کرنے کے لئے فرض کرتے ہیں کہ بلیک ہول کے ذریعہ سفر کرنا بالخصوص 'کر' کے گھومتے ہوئے بلیک ہول کے ذریعہ ممکن ہو سکتا ہے ۔ تب کوئی بھی ترقی یافتہ تہذیب بلیک ہول کے اندر جھانکنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرے گی۔
کیونکہ بلیک ہول کے ذریعہ کیا جانے والا سفر یکطرفہ ہوتا ہے اور بلیک ہول کے قریب زبردست خطرات موجود ہوتے ہیں لہٰذا ایک ترقی یافتہ تہذیب کوشش کرے گی کہ کوئی قریبی نجمی بلیک ہول ڈھونڈے اور پہلے اس میں کسی کھوجی کو بھیجے۔ کھوجی سے واپس اہم اطلاعات اس وقت تک حاصل کی جا سکتی ہیں جب تک وہ واقعاتی افق کو پار نہ کرے اس کے بعد تمام روابط ضائع ہو جائیں گے۔ ( واقعاتی افق کو پار کرنے کا سفر بھی کافی مہلک ہوگا کیونکہ اس کے گرد شدید اشعاع موجود ہوں گی۔ بلیک ہول میں گرنے والی روشنی کی شعاعیں نیلی منتقلی کی طرف مائل ہوں گی اور مرکز سے قریب ہوتے ہوئے توانائی کو حاصل کرتی جائیں گی۔) کسی بھی کھوجی کو واقعاتی افق کے قریب بھیجنے سے پہلے مناسب طور پر اس اشعاع کی بوچھاڑ سے بچانے کے لئے حفاظتی ڈھال بنانا ہوگی۔ مزید براں اس سے بلیک ہول بذات خود غیر مستحکم ہو سکتا ہے اس طرح سے واقعاتی افق ہی وحدانیت میں بدل سکتی ہے اور یوں ثقب کرم بند ہو جائے گی۔ کھوجی ممکنہ طور پر درستگی سے اس بات کا تعین کر لے گا کہ واقعاتی افق کے پاس کس قدر اشعاع موجود ہے اور آیا ثقب کرم باوجود تمام وصول ہوتی توانائی کے مستحکم رہے گا بھی یا نہیں۔
کھوجی کے واقعاتی افق میں داخل ہونے سے پہلے وصول کردہ اطلاعات کو قریبی خلائی جہاز تک بھیجا جا سکتا ہے تاہم یہاں ایک اور مسئلہ موجود ہے۔ کسی بھی ایسی خلائی جہاز پر موجود بیٹھے ہوئے شاہد کے لئے کھوجی جوں جوں واقعاتی افق کے قریب پہنچے گا وہ وقت میں آہستہ ہوتا ہوا لگے گا۔ جب وہ واقعاتی افق میں داخل ہوگا تو حقیقت میں تو کھوجی وقت میں رکا ہوا لگے گا۔ اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لئے کھوجی کو اطلاعات واقعاتی افق سے کچھ دور مخصوص فاصلے سے دینی ہوگی ورنہ ریڈیائی اشارے اتنے بری طرح سے سرخ منتقلی کی جانب مائل ہوں گے کہ ان کی شناخت کرنا ممکن نہ ہوگا۔
ایک مرتبہ کھوجیوں کے ذریعہ واقعاتی افق کے قریب کی خصوصیات کا تعین ہو جائے تو اگلا قدم ایک تجرباتی مقصد کے لئے دھیمے سے حرکت کرتے ہوئے بلیک ہول کی تشکیل ہوگی۔ ایک تہذیب سوم کی تہذیب شاید آئن سٹائن کے پیش کئے گئے مقالہ کے نتائج کو دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گی - یعنی کہ بلیک ہول کبھی بھی گھومتی ہوئی دھول اور ذرّات کی قرص سے پیدا نہیں ہو سکتے۔ آئن سٹائن نے کوشش کی تھی کہ وہ ثابت کر سکے کہ ایک گھومتے ہوئے ذرّات کا مجموعہ خود سے کبھی بھی شیوارز چائلڈ کے نصف قطر تک نہیں پہنچ سکے گا ( اور اس طرح سے بلیک ہولز کو بنانا ناممکن ہے)۔
گھومتی ہوئی کمیت بذات خود بلیک ہول میں شاید نہ سکڑ سکے۔ تاہم یہ بات تب بھی ممکن ہے کہ کوئی مصنوعی طریقے سے نئی توانائی اور مادّہ کو گھومتے ہوئے نظام میں آہستہ آہستہ داخل کرے اور کمیت کو مجبور کر دے کہ وہ شیوارز چائلڈ کے نصف قطر میں داخل ہو جائے۔ اس طرح سے تہذیب منضبط طریقے سے بلیک ہول کو بنا سکے گی۔
مثال کے طور پر کوئی یہ قیاس کر سکتا ہے کہ جماعت سوم کی تہذیب نیوٹران ستاروں کو جمع کر لے جو لگ بھگ مین ہٹن کے حجم کے ہوں گے تاہم ان کی کمیت ہمارے سورج سے بھی زیادہ ہوگی اور ان مردہ گھومتے ہوئے ستاروں کا مجموعہ بنا لے ۔ قوّت ثقل بتدریج ان ستاروں کو ایک دوسرے کے قریب کرنا شروع کر دے گی۔ تاہم وہ کبھی ہی شیوارز چائلڈ کا نصف قطر حاصل نہیں کر سکیں گے جیسا کہ آئن سٹائن نے ثابت کیا۔ اس نقطے پر پہنچنے کے بعد اس ترقی یافتہ تہذیب کے سائنس دان بہت ہی محتاط طور پر اس مجموعہ میں نیا نیوٹران ستارے کو داخل کریں گے۔ یہ شاید توازن کو بگاڑنے کے لئے کافی ہو اور نیوٹران ستاروں کی گھومتی ہوئی کمیت کو شیوارز چائلڈ کے نصف قطر میں لے آئیں ۔ نتیجتاً ستاروں کا مجموعہ گھومتے ہوئے چھلے - کر بلیک ہول میں منہدم ہو جائے گا۔ مختلف نیوٹران ستاروں کی رفتار اور نصف قطر کو قابو کرتے ہوئے ایسی تہذیب کر کا بلیک ہول بنا لے گی جو اس کی خواہش کے مطابق آہستہ سے کھلے گا۔
یا ایک جدید تہذیب شاید کوشش کرے کہ چھوٹے نیوٹران ستاروں کو ایک ساکن کمیت میں جمع کر لے تاوقتیکہ وہ حجم میں 3 شمسی کمیت تک نہ پہنچ جائیں جو لگ بھگ چندرا شیکھر نیوٹران ستارے کی حد ہے۔ اس حد کے بعد ستارہ خود سے اپنی قوّت ثقل کے زیر اثر بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے گا۔ (ایک جدید تہذیب کو کافی احتیاط کرنی ہوگی تاکہ بلیک ہول بنانے کی کوشش میں وہ کہیں سپرنووا کی طرح پھٹ نہ جائے۔ بلیک ہول کو بنانے کے لئے ستارے کو بتدریج اور انتہائی درست طریقے سے سکیڑنا ہوگا۔)
بلاشبہ واقعاتی افق سے گزرنے والے کسی چیز کے لئے یہ لازمی طور پر یک طرفہ سفر ہوگا۔ تاہم ایک جدید تہذیب جو معدومیت کا سامنا کرنے جا رہی ہوگی اس کے لئے یک طرفہ سفر ہی شاید واحد حل ہوگا۔ ہنوز جب کوئی واقعاتی افق کے پاس سے گزرے گا تو شعاعوں کا مسئلہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔ روشنی کی کرنیں جو واقعاتی افق میں ہمارے ساتھ ہوں گی وہ مزید طاقتور ہو جائیں گی کیونکہ ان کا تعدد ارتعاش بڑھ جائے گا۔ اس کی وجہ سے اشعاع کی بارش ہوگی جو کسی بھی خلا نورد کے لئے مہلک ثابت ہوگی جو واقعاتی افق سے گزرنے کی کوشش کرے گا۔ کسی بھی جدید تہذیب کو اس طرح کی شعاعوں کا انتہائی درستگی کے ساتھ حساب لگانا ہوگا اور ان سے بھننے سے بچنے کے لئے مناسب حفاظتی انتظام کرنا ہوگا۔
آخری مسئلہ استحکام حاصل کرنے کا ہوگا۔ 'کر' چھلے کے مرکز میں موجود بلیک ہول اتنے مستحکم ہوں گے کہ ان میں سے آسانی سے گزرا جا سکے؟ سوال ریاضیاتی طور پر مکمل واضح نہیں ہے ، کیونکہ ہمیں کوانٹم ثقلی نظریئے کا استعمال مناسب حساب لگانے کے لئے کرنا ہوگا۔ ایسا معلوم ہوا ہے کہ کر چھلا مخصوص پابند شرائط کے ساتھ اس وقت مستحکم ہو سکتا ہے جب مادّہ ثقب کرم میں گرے۔ اس مسئلہ کو احتیاط کے ساتھ کوانٹم ثقلی ریاضی اور بلیک ہول پر کئے جانے والے تجربات سے حل کرنا ہوگا۔
مختصراً بلیک ہول میں سے گزرنا بلاشبہ انتہائی مشکل اور جان جوکھم میں ڈالنے والا سفر ہے۔ نظری طور پر اس کو اس وقت تک رد نہیں کیا جا سکتا تاوقتیکہ جامع تجربات کئے جائیں اور مناسب طور پر تمام کوانٹم تصحیحات کا حساب لگایا جائے۔
شاعر صرف " ستاروں سے آگے جہاں او ر بھی ہیں" کی بات کرتا ہے۔ یہ تو منطقی ہوتا ہے جو اسے ان جہانوں کا احساس دلاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس احساس کو دلاتے ہوئے اس کے اپنے دماغ کی چولیں ہل جاتی ہیں۔
جی کے چیسٹر سن
جب میں چھوٹا تھا تو اس وقت میرے اپنے مذہبی عقیدے سے کچھ ذاتی اختلافات ہو گئے تھے۔ میرے والدین بدھ مت کے پیرو کار تھے۔ تاہم میں ہر ہفتے دینی مدرسے ("اتوار کے اسکول")جاتا تھا جہاں مجھے انجیل کے قصّے سننا بہت پسند تھے جو وہیل ، کشتیوں، نمک کے ستونوں، پسلیوں اور سیبوں کے بارے میں ہوتے تھے۔ میں عہد نامہ قدیم کی حکایات سے بہت زیادہ متاثر ہوتا تھا اور مدرسے میں میری سب سے زیادہ دلچسپی اسی حصّے میں ہوتی تھی۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ عظیم سیلاب، جنگل کی آگ ، اور دریا میں پانی کو چیر کر راستہ بنانا، بدھ مت کے بھجنوں اور مراقبوں سے کہیں زیادہ دلچسپ ہیں۔ درحقیقت یہ جانبازی اور المناکی کی قدیمی کہانیاں جو نہایت واضح انداز میں خیر و شر اور اخلاقیات کو بیان کرتی ہیں ساری زندگی میری ہمدم بنی رہیں۔
مدرسے میں ایک دن ہم توریت کا پہلا باب "کتاب پیدائش" پڑھ رہے تھے۔ آسمان سے خدا کی آتی ہوئی گرج ، "روشن ہو جا !" نروانا کے خاموش مراقبے کے مقابلے میں کافی ڈرامائی لگتی ہے۔ اپنی معصومانہ جاننے کی جستجو کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن میں نے مدرسے کی معلمہ سے پوچھ ہی لیا ، "کیا خدا کی ماں ہے ؟" گہرے اخلاقی سبق دینے کے علاوہ عام طور پر وہ سوال کے جواب کاٹ کھانے کے انداز سے دیتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ اس سوال کو سن کر وہ حیرت میں پڑھ گئیں۔ نہیں ، انہوں نے تذبذب سے جواب دیا۔ شاید خدا کی کوئی ماں نہیں ہے۔" تو پھر خدا کہاں سے آیا ؟" میں نے پوچھا۔ انہوں نے منمناتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں وہ منتظم سے پوچھ کر ہی بتا سکتی ہیں۔
مجھے اس بات کا احساس نہیں تھا کہ حادثاتی طور پر میں نے علم الہیات کا عظیم سوال پوچھ لیا تھا۔ میں حیران تھا کیونکہ بدھ مت میں تو کوئی خدا تھا ہی نہیں بس وقت سے ماورا کائنات تھی جس کی نہ تو ابتدا تھی نہ ہی انتہا۔ بعد ازاں جب میں نے دنیا کے عظیم علم الاساطیر کا مطالعہ کرنا شروع کیا ، تو مجھ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ مذہب میں دو طرح کے کائنات سے متعلق نظریئے موجود ہیں۔ ایک کی بنیاد اس لمحے پر ہے جب خدا نے کائنات کو تخلیق کیا جبکہ دوسرا نظریہ اس بات پر کھڑا ہے کہ کائنات ابد سے ہے اور ازل تک رہے گی۔
یہ دونوں کیسے صحیح ہو سکتے ہیں۔ میں نے سوچا۔
بعد ازاں مجھ پر یہ بات آشکار ہونا شروع ہوگئی کہ یہ دونوں نظریئے باقی ثقافتوں میں بھی ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر چینی دیومالائی کہانیوں میں ابتدا میں ایک کائناتی انڈا تھا۔ نوزائیدہ دیوتا "پان کو " لگ بھگ ہمیشہ سے اس انڈے کے اندر تھا جو ایک بے شکل خلائے بسیط کے سمندر میں تیر رہا تھا۔ جب انڈے سے مکمل طور پر دیوتا نکلنے کے لئے تیار ہو گیا ، تو پان کو بہت تیزی سے بڑھنے لگا ، اس کے بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دس فٹ فی دن تھی ، اس طرح سے انڈے کا اوپری آدھا چھلکا آسمان بن گیا جبکہ نچلا آدھا حصّہ زمین بن گیا۔ ١٨ ہزار برسوں کے بعد، وہ ہماری زمین کو جنم دینے کے بعد مر گیا : اس کا خون ہمارے دریا بن گئے ، جبکہ اس کی آنکھیں سورج اور چاند اور آواز آسمانی بجلی کی گرج بن گئی۔ کئی طرح سے ، پان کو کا دیومالائی قصّہ دوسرے مذاہب اور قدیمی دیومالائی قصّوں کا ہی عکس ہے ، یعنی کہ کائنات "عدم سے اچانک " ہی وجود میں آ گئی۔ یونانی داستانوں میں ، کائنات خلائے بسیط کی حالت میں شروع ہوئی (درحقیقت لفظ "خلائے بسیط " یونانی زبان سے آیا ہے جس کا مطلب "تحتالثریٰ" ہے )۔ یہ شکل و صورت سے بے نیاز خلاء اکثر ایک سمندر کے طور پر بیان کی جاتی ہے مثلاً بابلی اور جاپانی داستانوں میں اسے ایسے ہی بیان کیا جاتا ہے۔ قدم مصری داستانوں کا مرکزی خیال بھی ایسے ہی پایا جاتا ہے جہاں پر سورج دیوتا "را " تیرتے ہوئے انڈے سے نکلتا ہے۔ پولی نيشِيائی داستان میں انڈے کے چھلکے کو ناریل کے خول سے بدل دیا گیا۔ مایا والوں کا عقیدہ اس کہانی سے کچھ الگ ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق کائنات ہر پانچ ہزار سال بعد پیدا ہوتی اور فنا ہوتی ہے۔ اور بار بار زندہ ہونے کے لئے وجود و فنا کا یہ چکر بار بار دہرا کر ایک نا ختم ہونے والے سلسلے کی طرح جاری رہتا ہے۔
عدم سے وجود میں آنے کا عقیدہ بدھ مت اور ہندوؤں کے فرقوں کے عقائد کے برخلاف ہے۔ ان کی داستانوں کے مطابق کائنات وقت سے ماورا ہے جس کی نہ تو کوئی ابتدا ہے نہ ہی کوئی انتہا۔ وجود کے کئی مرحلے ہو سکتے ہیں جن میں سب سے بلند مقام نروانا ہے جو ابدی ہے اور صرف پاکیزہ ریاضت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہندوؤں کے مہاپرانا میں یہ لکھا ہوا ہے ، "اگر خدا نے جہاں کو بنایا ہوتا تو وہ تخلیق سے پہلے کہاں تھا ؟۔۔۔ یہ بات معلوم تھی کہ دنیا اور وقت بذات خود بنا نہیں ہے، بغیر کسی شروعات اور انجام کے۔"یہ داستانیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ،اور ان کے درمیان کو بظاہر مفاہمت ہوتی بھی نظر نہیں آتی ہے۔ دونوں میں سے ایک بات ہی ہو سکتی ہے یا تو کائنات کی ابتدا تھی یا پھر ایسا نہیں تھا۔ دونوں کے بیج کسی قسم کا راستہ نظر نہیں آتا۔
آج بہرحال ان دونوں کے درمیان بالکل ایک نئی سمت سے مفاہمت ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہ نئی سمت سائنس کی دنیا ہے۔ یہ ان نتائج کا حاصل ہے جو نئے نسل کے طاقتور سائنسی آلات سے حاصل کئے ہیں جو خلائے بسیط میں بلندی پر بھیجے گئے۔ قدیمی دیومالائی قصّے کہانی بیان کرنے والے کےان فلسفیانہ افکار کی تشریح ہوتے تھے جو وہ ہماری کائنات کے ماخذ کے بارے میں لگاتے تھے۔ آج سائنس دان خلائی سیارچوں کی فوج ظفر موج ، لیزر ، ثقلی موجی سراغ رساں ، تداخل پیما ، تیز رفتار سپر کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کا استعمال کائنات کے متعلق ہمارے فہم میں انقلاب بپا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور ہمیں اب تک کی حاصل ہونے والی کائنات کی تخلیق سے متعلق پر زور دلیلیں دے رہے ہیں۔
ابھی تک کے حاصل ہونے والے مواد سے جو چیز بتدریج نمودار ہو رہی ہے وہ ان دونوں مخالف نظریوں کا وسیع تناظر میں ہم آہنگ ہونا ہے۔ شاید سائنس دان اس بات کا گمان کر رہے ہیں کہ تخلیق بار بار نروانا کے وقت سے ماورا سمندر میں واقع ہوتی ہے۔ اس نئے تناظر میں ہماری کائنات بڑے سمندر میں تیرتے ہوئے ایک بلبلے کی مثل ہے۔ اس سمندر میں نئے بلبلے ہمہ وقت بنتے رہتے ہیں۔ اس نظریئے کے مطابق ، کائنات، ابلتے پانی میں بنتے بلبلوں ، کی طرح مسلسل تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہے۔ کائنات کا یہ کھیل کا میدان جہاں وہ تیر رہی ہے وہ نروانا کی گیارہ جہتوں کا اضافی خلاء ہے۔ طبیعیات دانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کو بیان کرتی ہے کہ اصل میں ہماری کائنات ایک عظیم انفجار کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے جس کو بگ بینگ کا نام دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دوسری کائناتوں کے ازلی سمندر کے موجود ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو بگ بینگ آپ کی ان سطروں کو پڑھتے ہوئے بھی واقع ہو رہا ہوگا۔
دنیا بھر کے طبیعیات دان اور ماہر فلکیات اب ان قیاس آرائیوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کہ متوازی دنیائیں دیکھنے میں کیسے لگتی ہوں گی۔ یہ کن قوانین کے تابع ہوں گی ، یہ کیسے پیدا ہو کر آخر میں اختتام پذیر ہوں گی۔ ممکن ہے کہ یہ متوازی جہان اجاڑ اور ویران ہوں جہاں پر حیات کی بنیادی اجزا ہی موجود نہ ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ہماری کائنات جیسے ہی ہوں اور یہ کسی کوانٹمی واقعے کے نتیجے میں ہماری کائنات سے الگ ہو گئے۔ کچھ طبیعیات دان تو یہاں تک قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ ایک دن جب حیات ہماری موجودہ کائنات میں اس کی بڑھتی عمر اور ٹھنڈ کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں ہوگی تو وہ کسی دوسری کائنات کی جانب فرار ہو جائے گی۔ ان نظریوں کو پھلنے پھولنے کا موقع اس وسیع مواد سے ملا ہے جو خلاء میں موجود خلائی سیارچے تخلیق کے باقی بچے ہوئے حصّوں کی تصاویر لے کر بہم پہنچا رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سائنس دان اب بگ بینگ سے صرف تین لاکھ اسی ہزار سال کے بعد کے اس عرصے تک میں تاکا جھانکی کر سکتے ہیں جب تخلیق نے کائنات کو پہلے پہل اپنی جھلک دکھا کر لبریز کر دیا تھا۔ شاید سب سے پراثر اس تخلیق کے عمل سے پیدا ہونے والی شعاع ریزی کی تصویر جو ہم نے حاصل کی ہے وہ ڈبلیو میپ کی ہے۔