ابد سے متعدد کائناتیں اناڑی پن سے بنائی جا رہی ہوں گی، اس سے پہلے کہ یہ نظام بند ہوتا کافی محنت ضائع ہو گئی، کافی بے ثمر کوششیں کی گئی ہوں گی، اور ایک سست لیکن ہمہ وقت بہتری لامحدود دور میں دنیا کو بنانے میں کی گئی ہو گی۔
ڈیوڈ ہیوم
جب میں دوسری جماعت میں پڑھنے والا بچہ تھا، میری معلمہ نے ایک ایسی بات کہہ دی جس کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس نے کہا، "خدا زمین سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس نے اس کو سورج سے بالکل مناسب فاصلے پر رکھا ہے۔" ایک چھ برس کے بچے کے طور پر میں اس سادہ لیکن زبردست دلیل کو سن کر سکتے میں آگیا تھا۔ اگر خدا زمین کو سورج سے دور رکھتا، تب سمندر جم چکے ہوتے۔ اگر وہ زمین کو کافی قریب رکھتا، تب سمندر ابل چکے ہوتے۔ اس کا مطلب معلمہ کے لئے نہ صرف یہ تھا کہ خدا وجود رکھتا ہے، بلکہ وہ مہربان بھی ہے، زمین کو اتنا پیار کرتا ہے کہ اس نے اسے سورج سے بالکل مناسب فاصلے پر رکھا ہے۔ اس بات نے مجھ پر کافی گہرا اثر ڈالا۔
آج سائنس دان کہتے ہیں کہ زمین گولڈی لاکس زون میں موجود ہے ، اتنی دور جہاں مائع پانی "کائناتی محلول" حیات کے لئے ضروری کیمیا کو بنانے کے لئے وجود رکھتا ہے۔ اگر زمین سورج سے دور ہوتی، تو شاید یہ مریخ کی طرح، ایک منجمد صحرا بن جاتی جہاں درجہ حرارت سطح کو سخت اور بنجر بنا دیتا ، ایک ایسی بنجر سطح جہاں پانی بلکہ کاربن ڈائی آکسائڈ بھی اکثر منجمد ہو کر ٹھوس ہو جاتی ہے۔ بلکہ مریخ کی مٹی کے نیچے تو مستقلاً منجمد سطح - ایک مستقل جمی ہوئی پانی کی پرت- ہوتی ہے۔
اگر زمین سورج سے قریب ہوتی تو ممکن ہے کہ وہ زہرہ کی طرح بن جاتی، جو لگ بھگ زمین ہی کے حجم کا ہے لیکن "نباتاتی خانے کے اثر" کے سیارے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیونکہ زہرہ سورج سے کافی قریب ہے اور اس کا کرہ فضائی کاربن ڈائی آکسائڈ سے بنا ہوا ہے، لہٰذا جو توانائی زہرہ سورج سے حاصل کرتا ہے وہ درجہ حرارت کو ٩٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچا دیتا ہے۔ اس وجہ سے، زہرہ نظام شمسی میں اوسطاً سب سے گرم سیارہ سیارہ ہے۔ گندھک کے تیزاب کی بارش کے ساتھ ، فضائی دباؤ زمین سے سینکڑوں گنا زیادہ ہوتا ہے اور درجہ حرارت آسمان سے باتیں کرتا ہے، اس وجہ سے شاید زہرہ ہمارے نظام شمسی میں سب سے زیادہ جہنم سے قریب سیارہ ہے۔ اور اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ سورج سے زمین کی بہ نسبت قریب ہے۔
میرے اسکول کی دوسری جماعت کی معلمہ کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد ، سائنس دان یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اس کی یہ دلیل اصول بشر کی ایک مثال ہے، جو یہ بات بیان کرتی ہے کہ قوانین قدرت اس طرح سے ترتیب میں ہیں کہ حیات اور شعور کا ممکن ہونا ہو سکے۔ بھلے قوانین کی یہ ترتیب کسی عظیم خالق نے کی ہو یا یہ کسی حادثاتی نتیجے میں حاصل ہوئی ہے یہ موضوع کافی گرما گرم مباحثوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ بالخصوص حالیہ برسوں میں کافی تعداد میں ملنے والے "حادثات" یا اتفاقات کی وجہ سے جو حیات اور شعور کو بنا سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ ایک ایسے معبود کا ثبوت ہے جس نے جان بوجھ کر قوانین قدرت کو اس طرح سے ترتیب دیا ہے کہ حیات اور انسانوں کی تخلیق ممکن ہو سکے۔ لیکن کچھ دوسرے سائنس دانوں کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ہم نیک حادثات کے سلسلے کی ضمنی پیداوار ہیں۔ اور شاید کچھ لوگ افراط اور ایم نظریئے کی شاخ در شاخ بڑھوتری پر یقین رکھتے ہیں یعنی کہ ان کے مطابق کثیر کائناتیں موجود ہیں۔
ان دلائل کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لئے پہلے ان اتفاقات کو دیکھنا ہوگا جس نے زمین پر حیات کو ممکن بنایا ہے۔ نہ صرف ہم سورج کے گولڈی لاکس زون میں رہتے ہیں بلکہ ہم دوسری قسم کے گولڈی لاکس زونوں میں بھی رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارا چاند زمین کے مدار کو پائیداری فراہم کرنے کے لئے بالکل صحیح حجم کا ہے، اگر چاند اس سے چھوٹا ہوتا تو زمین کے محور میں ہونے والا خفیف سا اضطراب بھی زمین کے مدار کو بتدریج آہستہ آہستہ کروڑوں برس کے عرصے میں جا کر تباہ کن طور سے ڈگمگا دیتا اور ماحول میں ایسی خطرناک تبدیلیاں پیدا کرتا جس سے حیات کا وجود ناممکن الوقوع ہو جاتا۔ کمپیوٹر پروگرام ہمیں بتا رہے ہیں کہ ایک بڑے چاند (زمین کے حجم کے ایک تہائی ) کے بغیر ، زمین کا محور شاید ٩٠ ڈگری تک کروڑ ہا برسوں میں جا کر تبدیل ہو جاتا۔ کیونکہ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ڈی این اے کی تخلیق کے لئے کروڑ ہا برسوں کے پائیدار ماحول کی ضرورت تھی، لہٰذا ایک ایسی زمین جو وقتاً فوقتاً اپنے محور پر اتھل پتھل ہو وہ ماحول میں اس قسم کی تبدیلی لا سکتی تھی جس سے ڈی این اے کی تخلیق ناممکن ہو جاتی۔ خوش قسمتی سے ہمارا چاند بالکل ٹھیک اسی حجم کا ہے جو زمین کے مدار کو پائیداری فراہم کرنے کے ضروری ہے اس لئے اس طرح کو کوئی ایسی تباہی نہیں پھیلے گی۔ (مریخ کے چاند اتنے بڑے نہیں ہیں کہ وہ اس کے محور ی گردش کو پائیداری فراہم کریں۔ نتیجتاً مریخ نے آہستگی کے ساتھ ایک اور غیر پائیدار دور میں داخل ہونے کی شروعات کردی ہے۔ ماہرین فلکیات کو یقین ہے کہ ماضی میں مریخ اپنی محور پر ٤٥ ڈگری تک ڈگمگا یا ہوگا۔)
چھوٹی مد و جزر کی قوّتوں کی وجہ سے چاند زمین سے ہر سال چار سینٹی میٹر دور ہو رہا ہے، دو ارب سال بعد یہ زمین سے اس قدر دور ہو جائے گا کہ یہ زمین کی محوری گردش کو پائیداری فراہم نہیں کر سکے گا۔ یہ زمین پر موجود حیات کے لئے انتہائی تباہ کن بات ہوگی۔ آج سے ارب ہا برس بعد نہ صرف رات کا آسمان چاند کے بغیر ہوگا بلکہ ہم ایک بالکل ہی مختلف قسم کے برج دیکھ رہے ہوں گے کیونکہ زمین اپنے مدار پر لڑکھڑا رہی ہوگی۔ زمین پر موجود ماحول ناقابل پہچان ہو چکا ہوگا اور حیات کا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ماہر ارضیات پیٹر وارڈ اور ماہر فلکیات ڈونلڈ براؤنلی لکھتے ہیں ، " بغیر چاند کے زمین پر کوئی چاندنی نہیں ہوگی، نہ قمری مہینہ، نہ دیوانگی، نہ اپالو پروگرام، کم شاعری اور ایک ایسی دنیا جہاں ہر رات تاریک اور افسردہ ہوگی۔ چاند کے بغیر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہ کوئی پرندہ، نہ تاڑ کا درخت، نہ وہیل مچھلی، نہ سہ لختہ دار بحری جانور، اور نہ ہی کسی قسم کی پیچیدہ حیات کبھی زمین پر قدم رنجہ فرما سکے گی۔"
اسی طرح سے ہمارے نظام شمسی کے کمپیوٹر نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے نظام شمسی میں مشتری جیسے سیارے کی موجودگی زمین پر موجود حیات کے لئے ایک خوش قسمت چیز ہے۔ کیونکہ اس کی شاندار قوّت ثقل سیارچوں کو خلائے بسیط میں اٹھا کر پھینک دیتی ہے۔ ان سیارچوں کی صفائی جو نظام شمسی کی تشکیل کے بعد گرد و غبار اور سیارچوں کی صورت میں بچ گئے تھے ایک ارب برس کا طویل عرصہ لگا تھا جو آج سے ساڑھے تین ارب برس سے لے کر ساڑھے چار ارب سال پہلے کے عرصے پر محیط تھا جس کو "سیارچوں کا دور" کہتے ہیں۔ اگر مشتری کافی چھوٹا ہوتا اور اس کی قوّت ثقل کم ہوتی تب بھی ہمارا نظام شمسی اب تک سیارچوں سے بھرا ہوا ہوتا جو زمین پر حیات کے وجود کو ناممکن بنا دیتے۔ لہٰذا مشتری بھی بالکل موزوں جسامت کا ہے۔
ہم سیاروں کے حجم کے گولڈی لاکس زون میں رہ رہے ہیں۔ اگر زمین تھوڑی سی چھوٹی ہوتی، تو اس کی قوّت ثقل کمزور ہوتی جو آکسیجن کو پکڑ کر نہیں رکھ سکتی تھی۔ اگر یہ تھوڑی بڑی ہوتی تو یہ ان ابتدائی زہریلی گیسوں کو پکڑ لیتی جو حیات کی نمو کو ناممکن بنا دیتی۔ زمین کا حجم بالکل موزوں ہے جو ماحولیاتی ترتیب کو حیات کے لئے مفید رکھتا ہے۔ ہم مباح سیاروی مداروں کے گولڈی لاکس زون میں رہتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سوائے پلوٹو کے دوسرے تمام سیاروں کے مدار قریباً دائروی ہیں، مطلب سیاروں کا ٹکراؤ ہمارے نظام شمسی میں نہایت ہی نایاب ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین گیسی دیوہیکل سیاروں کے قریب نہیں آئی گی جن کی قوّت ثقل آسانی سے زمین کے مدار کو تہس نہس کر سکتی ہے۔ دوبارہ ہم وہی بات کہیں گے کہ یہ حیات کے لئے اچھی بات ہے جس کو نمو کے لئے کروڑ ہا برس کی پائیداری درکار ہوتی ہے۔
اسی طرح سے زمین ملکی وے کہکشاں کے گولڈی لاکس زون میں موجود ہے، جو مرکز سے دو تہائی دور ہے۔ اگر نظام شمسی کہکشانی مرکز سے کافی قریب ہوتا، جہاں بلیک ہولز گھات لگائے بیٹھے ہیں، تو اشعاع کے میدان اس قدر شدید ہوتے کہ حیات کا ہونا ناممکن الوقوع ہوتا۔ اور اگر نظام شمسی کہکشاں سے کافی دور ہوتا، تو بھاری عناصر اتنی تعداد میں نہیں ہوتے جو حیات کے جز کے لئے ضروری ہیں۔
سائنس دان زمین کے دسیوں ہزار قسم کے گولڈی لاکس زون میں ہونے کی ایسی کئی مثالیں دے سکتے ہیں۔ ماہر فلکیات وارڈ اور براؤن لی دلیل دیتے ہیں کہ ہم اس قدر زیادہ بہت ہی نازک گولڈی لاکس زونوں میں رہتے ہیں جو ذی شعور حیات کا زمین پر ممکن الوقوع ہونا ملکی وے کہکشاں میں تو دور کی بات کائنات میں بھی کافی انوکھا ہو سکتا ہے۔ یہ اس شاندار فہرست کو دہراتے ہیں جس میں زمین کو موزوں اور مناسب چیزیں ملی ہیں جن میں، سمندر، ارضی سختائے ہوئے حصّے، آکسیجن کی مقدار، حرارت کی مقدار، محور کے گرد جھکاؤ، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں جن کی مقدار بالکل موزوں و مناسب ہے۔ اگر زمین ان میں سے کسی بھی نازک بند کے باہر ہوتی تو ہم یہاں اس بات کو زیر بحث کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
کیا زمین ان تمام گولڈی لاکس زونوں کے عین درمیان اس لئے ہے کہ خدا بہت رحیم ہے؟ شاید۔ لیکن ہم ایک ایسے نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں جس کی بنیاد الوہیت پر نہیں ہوگی۔ شاید کروڑ ہا مردہ سیارے خلاء میں ایسے موجود ہیں جو اپنے مرکزی سیارے سے انتہائی نزدیک ہیں، جن کے چاند بہت چھوٹے ہیں، جن کے مشتری جیسے سیارے چھوٹے ہیں یا جو اپنی کہکشانی مرکز کے کافی نزدیک ہیں۔ زمین کی مناسبت سے گولڈی لاکس زونوں کے وجود کا مطلب لازمی طور پر یہ نہیں ہے کہ خدا نے ہم پر خاص رحمت کی ہے؛ یہ اتفاقی بات بھی ہو سکتی ہے، خلاء میں موجود کروڑ ہا مردہ سیاروں میں سے ایک نایاب مثال جو گولڈی لاکس زونوں کے باہر موجود ہیں ۔
یونانی فلسفی دمقراط جس نے جوہر کے وجود کا قیاس کیا تھا لکھتا ہے ، " لامحدود تعداد اور مختلف حجم کی دنیائیں موجود ہیں۔ کچھ میں تو نہ تو سورج ہے نہ ہی چاند۔ دوسروں میں ایک سے زیادہ چاند اور سورج ہیں۔ جہانوں کے درمیان فاصلے غیر یکساں ہیں، کچھ سمت میں وہ کافی زیادہ ہیں۔۔۔ ان کی تباہی ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی صورت میں ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ جہاں بد نصیب ہیں جن میں نہ تو جانور ہیں نہ ہی پودے اور نہ ہی کسی قسم کی نمی۔"
2002ء تک اصل میں ماہرین فلکیات نے ایک سو سے زائد ماورائے شمس سیارے تلاش کر لئے ہیں جو دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ ماورائے شمس سیارے ہر دو ہفتہ میں ایک سیارے کی شرح سے دریافت ہو رہے ہیں۔ کیونکہ ماورائے شمس سیاروں کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی، ماہرین فلکیات کو انہیں ڈھونڈنے کے لئے مختلف بالواسطہ طریقوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان کو تلاش کرنے کا سب سے معتبر طریقہ یہ ہے کہ مرکزی ستارے میں ہونے والی ڈگمگا ہٹ کو دیکھا جائے جو اس وقت ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جب مشتری کے حجم جتنے سیارے اس کے قریب سے گزرتے ہیں۔ ڈگمگاتے ستارے سے نکلتی روشنی کے ڈوپلر منتقلی کے اثر کی جانچ کے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر تیز حرکت کر رہا ہے اور پھر بعد میں نیوٹن کے قوانین کا استعمال کرکے اس کی کمیت کا معلوم کیا جا سکتا ہے۔
آپ ستارے اور بڑے سیارے کو محو رقص ساتھی سمجھ سکتے ہیں جو گھومتے ہوئے ایک دوسرے کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو پکڑے ہوئے ہیں۔ باہر کی جانب چھوٹا ساتھی ایک بڑے دائرے میں زیادہ فاصلے پر حرکت کر رہا ہے، جبکہ بڑا اندرونی ساتھی صرف اپنا پیر بہت ہی چھوٹے دائرے میں ہلا رہا ہے۔ بہت ہی چھوٹے اندرونی دائرے میں ہونے والی حرکت ایک ڈگمگاہٹ ہے جو ہم ان ستاروں میں دیکھتے ہیں،"کارنیجی انسٹیٹیوشن کے کرس مکارتھی کہتے ہیں ۔ یہ عمل اب اس قدر درست ہے کہ ہم سینکڑوں نوری برس دور ستارے کی سمتی رفتار میں تین میٹر فی سیکنڈ کی خفیف سی تھرتھراہٹ کا بھی سراغ لگا سکتے ہیں۔
ایک اور زبردست طریقہ پیش کیا گیا ہے جس سے مزید سیارے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ سیارے کو اس وقت دیکھنا ہوتا ہے جب وہ اپنے ستارے کو گہن لگائے، اس وقت ستارے کی روشنی میں ہلکی سی کمی ہوتی ہے کیونکہ سیارہ ستارے کے سامنے سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اور صرف پندرہ سے بیس برسوں کے درمیان ناسا تداخل پیمائی کا خلائی سیارچہ مدار میں بھیجے گا جو اس قابل ہوگا کہ زمین جیسے چھوٹے سیاروں کو خلائے بسیط میں ڈھونڈ نکالے۔(کیونکہ مرکزی ستارے کی تابانی سیارے کو چھپا دیتی ہے ، یہ سیارچہ تداخل پیما کو استعمال کرتے ہوئے ستارے کی روشنی کا زبردست ہالہ زائل کر دے گا، اور اس طرح سے زمین جیسے سیارے واضح ہو جائیں گے۔)
سر دست کوئی بھی مشتری جیسا ماورائے شمس سیارہ جس کو ہم نے دریافت کیا ہے زمین سے نہیں ملتا اور ممکنہ طور پر تمام کے تمام مردہ ہیں۔ ماہرین فلکیات نے انھیں بہت ہی زیادہ بیضوی مداروں میں یا اپنے مرکزے ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے پایا ہے ان دونوں صورتوں میں زمین جیسے سیارے کا گولڈی لاکس زون میں پایا جانا ممکن نہیں ہے ۔ ان نظام ہائے شمسی میں مشتری کے حجم کے سیارے نے گولڈی لاکس زون کو پار کرتے ہوئے زمین جیسے کسی سیارے کو خلائے بسیط میں دھکیل دیا ہوگا اور اس طرح سے ہماری جانی پہچانی حیات کو نمودار ہونے سے پہلے ہی روک دیا ہوگا۔
بہت ہی زیادہ بیضوی مدار خلاء میں کافی عام ہیں یہ درحقیقت اتنے عام ہیں کہ جب کوئی عام نظام شمسی خلاء میں دریافت ہوا تو اس نے ٢٠٠٣ء میں شہ سرخیوں میں جگہ پائی۔ ریاست ہائے متحدہ اور آسٹریلیا کے ماہرین فلکیات دونوں نے ایک ستارے HD 70642 کے گرد گردش کرنے والے مشتری کے حجم کے سیارے کی دریافت کا ڈھنڈورا پیٹا ۔ اس سیارے (جو حجم میں لگ بھگ مشتری سے دگنا تھا) میں عجیب چیز تھی وہ یہ سیارہ دائروی مدار میں تھا اور اس کا اپنے مرکزی سورج سے فاصلے کی نسبت بھی لگ بھگ مشتری جتنی ہی تھی۔
مستقبل میں ماہرین فلکیات تمام قریبی ستاروں کے نظام ہائے شمسی کی فہرست بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ "ہم تمام ٢٠٠٠ کے لگ بھگ سورج جیسے ستاروں کی فہرست مرتب کرنے پر کام کر رہے ہیں، وہ تمام سورج جیسے ستارے جو ١٥٠ نوری برس کے فاصلے پر موجود ہیں۔" کارنیگی انسٹیٹیوشن آف واشنگٹن کے پال بٹلر کہتے ہیں، جو ١٩٩٥ءمیں پہلے ماورائے شمس ستارے کی دریافت کرنے والوں میں شامل تھے۔ "ہمارا دہرا مقصد ہے – ابتدائی معائنہ فراہم کرنا - پہلی گنتی – خلاء میں موجود ہمارے قریبی پڑوس کی اور وہ اوّلین اعداد و شمار کی فراہمی ہے جو اس بنیادی سوال کا جواب دے گا کہ ہمارا اپنا نظام شمسی کائنات میں کس قدر عام یا خاص ہے،" وہ کہتے ہیں ۔
حیات کی تخلیق کرنے کے لئے ہمارے سیارے کو نسبتاً کروڑ ہا برس تک پائیداری درکار تھی ۔ لیکن ایسی دنیا جو کروڑ ہا برس تک پائیدار ہو اس کو بنانا حیرت ناک طور پر کافی مشکل ہے۔
شروع اس طریقے سے کرتے ہیں جس میں جوہر کی تخلیق ہوتی ہے، یہ بات دھیان میں رہے کہ پروٹون کی کمیت نیوٹران کی کمیت سے تھوڑی کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیوٹران کو بالآخر انحطاط پذیر ہو کر پروٹون میں بدلنا ہوگا جو توانائی کی پست حالت رکھتا ہے۔ اگر پروٹون صرف ایک فیصد بھاری ہوتا، تو وہ انحطاط پذیر ہو کر نیوٹران میں بدل جاتا، اور تمام مرکزے غیر پائیدار ہو کر پاش پاش ہو جاتے۔ جوہر بکھر جاتے اور حیات ممکن نہ ہو پاتی۔
ایک اور کائناتی حادثہ جو حیات کو ناممکن بنا سکتا ہے وہ یہ کہ پروٹون پائیدار ہوتے لیکن انحطاط پذیر ہو کر ضد الیکٹران میں نہیں بدلتے۔ تجربات نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ پروٹون کی حیات اصل میں فلکیاتی پیمانے پر ہے، یعنی کہ کائنات کی حیات سے بھی لمبی۔ پائیدار ڈی این اے کی تخلیق کے لئے پروٹون کو کم از کم کروڑ ہا برس تک پائیدار ہونا چاہئے تھا۔
اگر مضبوط قوّت تھوڑی سی بھی کمزور ہوتی، ڈیوٹیریئم جیسے مرکزے بکھر جاتے، اور کائنات میں موجود کوئی بھی عنصر ستاروں کے اندرونی قلب میں تالیف نہیں ہو پاتا ۔ اگر نیوکلیائی قوّت ذرا بھی زیادہ مضبوط ہوتی تو ستارے اپنا نیوکلیائی ایندھن جلد پھونک دیتے، اور حیات کا ارتقا نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر ہم کمزور قوت کی طاقت میں تغیر کریں تب بھی ہمیں یہی معلوم ہوگا کہ حیات کا وجود پانا اس صورت میں بھی ناممکن ہے۔ نیوٹرینو ز جو کمزور نیوکلیائی قوّت کے ذریعہ عمل کرتے ہیں وہ پھٹتے ہوئے سپرنووا سے توانائی کو باہر نکالنے کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ یہ توانائی ہی اصل میں لوہے سے بھاری عناصر کو بنانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اگر کمزور قوّت تھوڑی سے بھی زیادہ کمزور ہوتی تو نیوٹرینوز بمشکل ہی تعامل کر پاتے مطلب سپرنووا لوہے سے بھاری عناصر کو نہیں بنا سکتے تھے ۔ اگر کمزور قوّت تھوڑی سے بھی مضبوط ہوتی، تو نیوٹرینوز ستارے کے قلب سے صحیح طور سے فرار نہیں ہو پاتے اور نتیجتاً ان بھاری عناصر کی تخلیق نہیں ہو پاتی جس سے ہمارے جسم اور ہماری دنیا بنی ہے ۔
اصل میں تو سائنس دانوں نے ایک لمبی فہرست اس طرح کے " خوش گمان کائناتی حادثات" کی بنائی ہوئی ہے۔ جب اس متاثر کن فہرست کا سامنا کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ جان کر کافی جھٹکا لگتا ہے کہ کتنے سارے شناسا کائناتی مستقلات ایسے ہیں جن کی مقدار اتنی نپی تلی ہے جس کی وجہ سے ہی حیات کی نمو ممکن ہو سکی ہے۔ اگر اس میں سے کسی بھی ایک بھی حادثے کو تبدیل کر دیا جائے، تو ستارے کبھی تشکیل ہی نہ پا سکتے ، کائنات بکھر جاتی، ڈی این اے کبھی وجود نہیں پاتے، ہماری جانی پہچانی زیست ناممکن ہو جاتی، زمین پلٹ یا منجمد ہو جاتی علیٰ ہذا القیاس ۔
ماہر فلکیات ہو روس اس بات پر زور دینے کے لئے کہ یہ صورتحال کس قدر شاندار طور پر حیرت انگیز ہے ، بوئینگ 747 ہوائی جہاز سے اس کا موازنہ کرتے ہیں جو کسی کباڑ خانے میں طوفان سے ٹکرانے کے بعد خود سے وجود میں آ جائے۔
مذکورہ بالا دلائل کو دوبارہ سے بشری اصول میں یکجا کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں کافی مختلف آرا ہیں جو اس متنازعہ بشری اصول پر موجود ہیں۔ میری دوسری جماعت کی معلمہ کے مطابق ان خوش گمان حادثوں کا مطلب ایک عظیم تخلیق یا منصوبہ ہے۔ جیسا کہ طبیعیات دان فری مین ڈیسن نے ایک مرتبہ کہا تھا، " ایسا لگتا ہے جیسے کہ کائنات کو معلوم تھا کہ ہم آرہے ہیں۔" یہ اصول بشری کی ایک مضبوط مثال ہے، یعنی کہ یہ خیال کہ طبیعیاتی مستقلات کی اس قدر موزونیت اصل میں کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔(کمزور بشری اصول کا سادہ مطلب یہ ہے کہ کائنات کے طبیعیاتی مستقلات اس طرح کے ہیں جنہوں نے حیات و شعور کی تخلیق کو ممکن بنایا۔)
طبیعیات دان ڈان پیج بشری اصول کی برسوں میں پیش کی جانے والی بہت سی صورتوں کا خلاصہ کرتے ہیں:
کمزور بشری اصول:" ہم کائنات کے متعلق جو مشاہدہ کرتے ہیں وہ بطور شاہد ہمارے وجود سے پابند ہے۔"
مضبوط کمزور بشری اصول: " کم از کم ایک جہاں میں ۔۔۔ کثیر جہانوں کی کائنات میں ، حیات کو لازمی طور پر نمو پانا تھا۔"
مضبوط بشری اصول ، "کائنات میں لازمی طور پر کسی وقت میں حیات کے نمو کی خاصیت ہونا ضروری ہے۔"
حتمی بشری اصول: "شعور کو کائنات میں لازمی پیدا ہونا ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔"
ایک طبیعیات دان جو مضبوط بشری اصول کو نہایت سنجیدگی سے لیتی اور دعویٰ کرتی ہیں کہ یہ خدا کے وجود کا اشارہ ہے وہ ویرا کستیاکووسکی ہیں جو ایم آئی ٹی کی طبیعیات دان بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، "طبیعیاتی دنیا میں ہماری سائنسی سمجھ بوجھ نے جو ترتیب میں نزاکت کو پایا ہے اس کو خدائی ایزدی کہتے ہیں۔" ایک اور سائنس دان جو ان کے خیال سے متفق ہیں وہ ذرّاتی طبیعیات دان جان پولنگ ہارن ہیں جو کیمبرج یونیورسٹی میں اپنی نوکری کو چھوڑ کر چرچ آف انگلینڈ میں پادری بن گئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ کائنات صرف "کوئی عمر رسیدہ دنیا" نہیں ہے بلکہ یہ خاص اور حیات کے لئے انتہائی موزوں بنائی گئی ہے کیونکہ یہ خالق کی تخلیق کردہ ہے جس کی مرضی سے یہ ایسی ہے۔" اصل میں تو آئزک نیوٹن خود بھی ، جس نے غیر متغیر قوانین کو متعارف کروایا تھا جو سیاروں اور ستاروں کی رہنمائی بغیر کسی ربانی مداخلت کے کرتے ہیں، اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ ان قوانین کی نفاست خدا کے وجود کی گواہی دے رہی ہے۔
لیکن طبیعیات دان اور نوبیل انعام یافتہ اسٹیون وائن برگ اس بات سے قائل نہیں ہیں۔ وہ بشری اصول کے میلان کو تسلیم کرتے ہیں : "اس بات پر یقین رکھنا انسانوں کے لئے انتہائی پرکشش ہے کہ ہمارا کائنات سے ایک خاص رشتہ ہے، انسانی حیات صرف کم و بیش اس مضحکہ خیز پے در پے حادثات کا نتیجہ نہیں ہے جو بگ بینگ کے پہلے تین منٹوں سے شروع ہوتے ہیں، بلکہ ہماری تخلیق تو ابتداء ہی سے کر لی گئی تھی۔" بہرحال یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں مضبوط بشری اصول " پراسرار باطل معبود سے تھوڑا زیادہ" ہے ۔
دوسرے بشری اصول کی طاقت سے کچھ زیادہ متاثر نہیں ہیں۔ آنجہانی طبیعیات دان ہینز پجیلز شروع میں بشری اصول سے متاثر تھے لیکن بالآخر اس میں ان کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی کیونکہ اس کی کوئی قابل پیشن گوئی طاقت نہیں ہے۔ نظریہ نہ تو قابل جانچ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ موجود ہے جو اس سے نئے اطلاعات کو حاصل کر سکے۔ اس کے بجائے یہ ہمیں خالی خولی تکرار کا سمندر بہاتا ہوا نظر آتا ہے۔ یعنی کہ ہم یہاں اس لئے ہیں کہ ہم یہاں ہیں۔
گتھ بھی بشری اصول کو رد کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں ، "مجھے اس بات پر یقین کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کہ کوئی بھی کبھی بھی بشری اصول کو اس وقت استعمال کر سکے گا اگر اس کے پاس اس سے کوئی بہتر توجیح ہو۔ مجھے اب بھی اس مثال کو سننا ہے کہ دنیا کی ایک بشری اصول کی تاریخ ہے ۔۔۔ بشری اصول ایک ایسی چیز ہے جس پر لوگ اس لئے یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے بہتر وہ نہیں سوچ سکتے۔"
دوسرے سائنس دان جیسا کہ کیمبرج یونیورسٹی کے سر مارٹن ریس سمجھتے ہیں کہ یہ کائناتی حادثات کثیر کائنات کا ثبوت ہیں۔ ریس اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صرف ایک ہی طریقہ ہے جس میں اس بات کو حل کیا جا سکتا ہے کہ ہم ناقابل تصوّر سینکڑوں موزوں ترین اتفاقات کے ساتھ رہ رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کروڑ ہا متوازی کائناتوں موجود ہیں۔ ان کثیر کائناتوں کی دنیا میں، زیادہ تر کائناتیں مردہ ہیں۔ پروٹون پائیدار نہیں ہیں۔ جوہر کبھی تکثیف ہی نہیں ہوئے۔ ڈی این اے بنے ہی نہیں۔ کائنات پہلے ہی منہدم ہو گئی یا فوراً ہی منجمد ہو گئی، اور ایسا ضروری نہیں ہے کہ اس لئے ہوا ہوگا کہ خدا نے چاہا ہے بلکہ اس کی وجہ اوسطوں کا قانون ہے۔
ایک طرح سے، سر مارٹن ریس وہ آخری شخص تھے جن سے شاید اس بات کی امید تھی کہ وہ متوازی کائناتوں کے نظریئے پر آگے بڑھیں گے۔ وہ انگلستان کے شاہی ماہر فلکیات ہیں اور ان پر اس بات کی کافی ذمہ داری ہے کہ وہ کائنات سے متعلق محکمہ کے نقطۂ نظر کو بیان کریں۔ بالوں میں چاندنی لئے ، ممتاز بے عیب لباس پہنے ہوئے ، ریس عوامی معاملات پر بھی ایسی ہی فصاحت سے بولتے ہیں جتنا کہ عجوبہ کائنات پر۔
یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ یہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات بہت باریک بینی سے بنی ہے تاکہ یہاں حیات کی نمو ہو سکے۔ کائنات کے لئے کافی سارے حادثات لازمی طور پر ہونے چاہئے تھے جو تمام چیزوں کو حیات کے لئے اتنی موزونیت فراہم کرتے۔ "بظاہر کائنات کی نوک پلک کا درست ہونا جس پر ہمارے وجود کا انحصار ہے ایک اتفاق بھی ہو سکتا ہے،" ریس لکھتے ہیں۔ " میں پہلے ایسے سوچتا تھا۔ لیکن یہ خیال اب بہت ہی تنگ نظر لگتا ہے۔۔۔ایک مرتبہ ہم اس بات کو تسلیم کر لیں، تو کائنات کے کافی ظاہری مخصوص خصائص - جن کو کبھی الہیات دان تخلیق کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے تھے – کا وقوع ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔"
ریس کوشش کرتے ہیں کہ اپنی اس دلیل میں وزن ڈالیں اور اس کے لئے وہ کچھ باتوں کا تعین کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایسا لگاتا ہے کہ کائنات پر چھ اعداد کی حکمرانی ہے ۔ جن میں سے ہر ایک قابل پیما اور انتہائی باریک بینی سے درست کیا ہوا ہے۔ ان چھ اعداد کو حیات کی شرائط کا پورا کرنا لازمی ہوگا ورنہ مردہ کائنات پیدا ہوگی۔
پہلا ایپسلون ہے ، جس کو بقدر 0.007 کے ہونا چاہئے ، یہ ہائیڈروجن کی وہ نسبتی مقدار ہے جو بگ بینگ کے وقت بذریعہ گداختی عمل کے ہیلیئم میں تبدیل ہوگی۔ اگر یہ عدد 0.007 کے بجائے 0.006 ہوگا تو یہ نیوکلیائی طاقت کو کمزور کر دے گی، اور پروٹون اور نیوٹران آپس میں بندھ نہیں سکیں گے۔ ڈیوٹیریئم (ایک پروٹون اور ایک نیوٹران پر مشتمل عنصر ) نہیں بن سکے گا، لہٰذا بھاری عناصر کبھی بھی ستاروں میں نہیں بن سکیں گے، ہمارے جسم کے جوہر کبھی نہیں تشکیل پا سکیں گے، اور تمام کائنات ہائیڈروجن میں تحلیل ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ نیوکلیائی قوّت میں تھوڑی سی بھی کمی دوری جدول میں موجود عناصر میں عدم استحکام پیدا کر دے گی ، اور حیات کو خلق کرنے کے لئے بہت ہی کم پائیدار عناصر بن سکیں گے۔
اگر ایپسیلان0.008 ہوتا، تب گداخت کا عمل اس قدر تیز ہوتا کہ بگ بینگ سے بننے والی ہائیڈروجن بچتی ہی نہیں، اور آج ستارے سیاروں کو توانائی فراہم کرنے کے لئے نہیں ہوتے۔ یا شاید دو پروٹون آپس میں بندھ باندھ لیتے نتیجتاً ستاروں میں عمل گداخت کا ہونا ممکن نہ رہتا ۔ ریس اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو فریڈ ہوئیل نے ڈھونڈی تھی کہ صرف نیوکلیائی قوّت میں ہونے والی چار فیصد تبدیلی بھی ستاروں کے قلب میں کاربن کی تخلیق کو مشکل بنا دیتی اور اس طرح سے حیات کا نمو پانا ممکن نہ ہوتا۔ ہوئیل نے معلوم کرلیا تھا کہ اگر نیوکلیائی طاقت میں ہلکا سا بھی رد و بدل ہوتا تو بیریلیئم اس قدر غیر مستحکم ہوتی کہ کاربن کے جوہروں کو بننے کے لئے پل کا کام سرانجام نہیں دے سکتی تھی۔
دوسرا N ہے جس کی قوّت 1036 کی ہے ۔ یہ برقی طاقت کی قوّت کو قوّت ثقل سے تقسیم کرنے کی مقدار ہے۔ جو اس بات کو بیان کرتی ہے کہ قوّت ثقل کس قدر کمزور ہے۔ اگر قوّت ثقل اس سے بھی کمزور ہوتی، تو ستارہ تکثیف ہو کر وہ زبردست درجہ حرارت حاصل نہیں کر سکتے تھے جو عمل گداخت کے لئے ضروری ہے۔ لہٰذا ستارے کبھی نہ چمکتے اور سیارے ظلمت کے اندھیرے میں ڈوبے رہتے۔
لیکن گر قوّت ثقل تھوڑی سی بھی زیادہ طاقتور ہوتی تو یہ ستاروں کو جلد گرما دیتی اور وہ اپنا ایندھن اتنی تیزی سے خرچ کرتے کہ حیات شروع ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ مزید براں طاقتور قوّت ثقل کا مطلب ہوتا کہ کہکشائیں جلد بن جاتیں اور کافی چھوٹی ہوتیں۔ ستارے کافی گنجان ہوتے نتیجتاً مختلف ستاروں اور سیاروں میں تباہ کن تصادم ہو جاتے۔
تیسرا اومیگا ہے، یعنی کہ کائنات کی اوسط کمیت۔ اگر اومیگا کافی چھوٹا ہوتا تب کائنات بہت تیزی سے پھیلتی ہوئی ٹھنڈی ہو جاتی۔ اگر اومیگا کافی بڑا ہوتا تب کائنات حیات کے شروع ہونے سے پہلے ہی منہدم ہو جاتی۔ ریس لکھتے ہیں، " بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے بعد اومیگا اس اتفاق سے 1015 کے بقدر ایک حصّے کے بھی مختلف نہیں ہو سکتا تھا ۔ کیونکہ کائنات دس ارب سال بعد اب بھی پھیل رہی ہے اور اومیگا کی قدر یقینی طور پر اس اتفاق سے مختلف نہیں ہے۔"
چوتھی چیز لمبڈا یعنی کہ کائناتی مستقل ہے، جو کائنات کے اسراع کا تعین کرتا ہے۔ اگر یہ صرف چند گنا بڑا ہوتا تو اس سے پیدا ہونے والی ضد قوّت ثقل کائنات کو اڑا کر بکھیر دیتی، اور اس کا انجام ایک عظیم انجماد کی صورت میں ہوتا، جو حیات کو ناممکن بنا دیتا۔ لیکن اگر کائناتی مستقل منفی ہوتا تو کائنات سکڑ کر ایک عظیم چرمراہٹ میں ختم ہو جاتی۔ بالفاظ دیگر اومیگا جیسے کائناتی مستقل کو بھی انتہائی نپے تلے انداز میں حیات کی نمو کے لئے ہونا چاہئے تھا۔
پانچواں Q ہے پس منظر کی کائناتی خرد موجی امواج میں ہونے والی بے قاعدگیاں کا حد ارتعاش جس کی مقدار 10-5 ہے ۔ اگر یہ نمبر تھوڑا چھوٹا ہوتا تب کائنات حد درجے یکساں ہوتی، حیات سے خالی گیس اور گرد کا ڈھیر جو کبھی آج نظر آنے والے ستاروں اور کہکشاؤں میں نہیں ڈھلتی۔ کائنات اندھیری، یکساں ، بغیر شکل اور حیات کے ہوتی۔ اگر Q بڑا ہوتا تو مادّہ کائنات کی تاریخ میں جلد ہی فوق جھرمٹ ساختوں میں تکثیف ہو جاتا۔
"مادّے کے یہ عظیم لوتھڑے جسیم بلیک ہولز میں بدل جاتے، " ریس کہتے ہیں۔ یہ بلیک ہول کہکشاؤں کے جھرمٹ سے بھی بھاری ہوتے۔ گیس کے اس عظیم جھرمٹ میں جس قسم کے ستارے بھی بنتے وہ اس قدر گنجان ہوتے کہ سیاروی نظام کا بننا ممکن نہیں ہوتا۔
آخری D ہے ، امکانی جہتوں کی تعداد۔ ایم نظریئے میں دلچسپی کی وجہ سے طبیعیات دان اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں کہ آیا حیات کا ہونا بلند یا پست جہتوں میں ممکن ہے۔ اگر خلاء یک جہتی ہوتی، تو حیات ممکنہ طور پر ممکن نہیں ہوتی کیونکہ کائنات بہت ہی ناکارہ ہوتی۔
عام طور پر جب طبیعیات دان کوانٹم نظریہ کا اطلاق ایک جہت والی کائنات پر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ذرّات ایک دوسرے میں سے بغیر تعامل کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات ممکن ہے کہ ایک جہت میں وجود رکھنے والی کائنات حیات کو سہارا نہیں دے سکتی کیونکہ ذرّات آپس میں پیچیدہ اجسام بنانے کے لئے جڑ نہیں سکتے۔
دو جہتی مکان میں بھی مسئلہ ہوتا کیونکہ حیات بنتے ہی پاش پاش ہو جاتی۔ ذرا دو جہتی چپٹی ہستیوں کا تصوّر کریں، جو چپٹے رہائشی کہلاتے ہیں اور لٹو کے اوپر رہتے ہیں۔ ذرا انھیں کھاتے ہوئے تصوّر کریں۔ وہ راستہ جو ان کے منہ سے ہوتا ہوا پیچھے کی طرف جاتا ہے وہ دو حصّوں میں بٹ جائے گا اور وہ الگ ہو جائیں گے۔ لہٰذا اس بات کا تصوّر کرنا مشکل ہے کہ کس طرح سے چپٹی ہستیاں بطور پیچیدہ مخلوق کے بغیر ریزہ ریزہ ہوئے یا بکھرے ہوئے وجود قائم رکھ سکتی ہیں ۔
حیاتیات کی طرف سے دی جانے والی ایک اور دلیل اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ذہانت تین سے کم جہتوں میں وجود نہیں رکھ سکتی۔ ہمارا دماغ ایسے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے عصبانیوں پر مشتمل ہے جو وسیع برقی جال سے جڑا ہوا ہے۔ اگر کائنات ایک یا دو جہتی ہوتی تو پیچیدہ عصبانیے کے جال کو بنانا مشکل ہوتا، بالخصوص اگر وہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوتے تو ان میں شارٹ سرکٹ ہو جاتا۔ کم جہتوں میں ہم بری طرح سے کافی ساری پیچیدہ منطقی سرکٹوں اور عصبانیوں کو چھوٹی سی جگہ میں رکھ سکنے میں محدود ہو جاتے۔ مثال کے طور پر ہمارا اپنا دماغ ہی ایک کھرب عصبانیوں پر مشتمل ہے ، یہ تعداد لگ بھگ ملکی وے کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد جتنی ہی ہے، ہر عصبانیہ دوسرے دس ہزار عصبانیوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح کی پیچیدہ ساخت کو کم جہتوں میں بنانا کافی مشکل ہے۔
چار جہتی مکان میں ایک مسئلہ ہے ، سیارے سورج کے گرد اپنے مداروں میں پائیداری سے چکر نہیں لگا سکتے ۔ نیوٹن کا قانون معکوس مربع ، قانون معکوس مکعب سے بدل جاتا ہے ، اور ١٩١٧ء، پال اہرن فیسٹ نے جو آئن سٹائن کا قریبی رفیق تھا اندازہ لگایا کہ طبیعیات دوسری جہتوں میں کیسی ہوگی ۔ اس نے جس مساوات کی جانچ کی وہ پوئی سن لاپلاس مساوات کہلاتی ہے (یہ مساوات نہ صرف سیاروی اجسام کی حرکت پر لاگو ہوتی ہے بلکہ جوہروں پر برقی بار پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے) اس نے معلوم کیا کہ مدار چار یا اس سے زائد جہتوں میں مستحکم نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ الیکٹران اور سیارے ناگہانی ٹکراؤ کا شکار ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ممکنہ طور پر جوہر اور نظام ہائے شمسی اضافی جہتوں میں وجود قائم نہیں رکھ سکتے۔ بالفاظ دیگر تین جہتیں خاص ہیں۔
ریس کے لئے بشری اصول کثیر کائناتوں کے لئے دی جانے والی سب سے قائل کر دینے والی دلیل ہے۔ بلکہ اسی طرح جس طرح سے زمین کے لئے گولڈی لاکس زون میں ہونا دوسرے ماورائے شمس سیاروں کے لئے ہے ، بعینہ کائنات کا گولڈ لاکس زون میں ہونا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ متوازی کائناتیں موجود ہیں۔ ریس تبصرہ کرتے ہیں، "اگر کپڑوں کا اک ڈھیر موجود ہو ، اور اس میں سے کوئی آپ کے ناپ کا ہو تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ اگر کافی کائناتیں موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے قاعدے قوانین الگ ہیں ، تو ہم ان میں سے ایک میں ہیں۔" بالفاظ دیگر ہماری کائنات کسی عظیم خالق کی خلق کردہ کائنات نہیں ہے بلکہ کثیر کائناتوں میں موجود کائناتوں کے قانون اوسط کی وجہ سے ایسی ہے۔
وائن برگ اس نقطۂ نظر سے متفق ہوتا نظر آتا ہے۔ اصل میں تو وائن برگ کو کثیر کائنات کا تصوّر ہی از روئے دانش خوشگوار لگتا ہے۔ اسے یہ خیال کبھی پسند نہیں رہا کہ وقت اچھل کر یکایک بگ بینگ سے نکل آیا اور اس سے پہلے وقت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ کثیر کائناتوں میں ہمارے پاس ابد تک کائناتیں تخلیق ہوتی رہیں گی۔
اس بات کی ایک اور سخن ساز وجہ ہے کہ آیا ریس کیوں کثیر کائناتوں کا تصوّر پسند کرتا ہے۔ اس کے مطابق کائنات میں بہت ہی تھوڑی سی "بدصورتی" موجود ہے۔ مثال کے طور پر زمین کا مدار ہلکا سے بیضوی ہے۔ اگر یہ مکمل بے عیب ہوتا تو الہیات دانوں کی طرح کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ ربّانی مداخلت کی ضمنی پیداوار ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ گولڈی لاکس زونوں کے نپے تلے انداز میں کچھ اٹکل پچو پن موجود ہے۔ اسی طرح سے کائناتی مستقل مکمل طور پر صفر نہیں ہے بلکہ اس کی قدر کم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کائنات اب "کوئی ایسی خاص نہیں ہے جس کو ہماری ضرورت ہے۔" یہ تمام باتیں اس بات سے ہم آہنگ ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ کائنات اٹکل پچو میں حادثے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔
فلسفی کے بجائے ماہر فلکیات ریس کہتے ہیں کہ سو بات کی ایک بات یہ کہ تمام نظریات کو جانچا جانا باقی ہے۔ اصل میں یہی وجہ ہے کہ آیا وہ کیوں پراسرار نظریات سے مقابلے کرنے کے بجائے کثیر کائناتوں کے تصوّر کے حق میں ہے۔ ان کو یقین ہے کہ کثیر کائنات کا نظریہ اگلے بیس برسوں میں قابل جانچ ہو جائے گا۔
کثیر کائناتوں کے نظریہ میں سے تو اصل میں ایک آج بھی قابل جانچ ہے۔ طبیعیات دان لی اسمولین تو ریس سے بھی آگے چلے گئے ہیں اور اس بات کو فرض کرتے ہیں کہ کائنات کا ارتقا وقوع پذیر ہو رہا ہے اور اس کا مقابلہ وہ ڈارونی ارتقا سے کرتے ہیں ، اس ارتقا کے نتیجے میں کائناتیں بالآخر ہماری کائنات جیسی ہو جائیں گی۔ مثال کے طور پر انتشاری افراط زدہ نظریے میں بچہ کائنات کا طبیعیاتی مستقل اس کی مورث کائنات کے طبیعیاتی مستقل سے تھوڑا سے الگ ہوگا۔ اگر کائنات بلیک ہول سے نکلتی ہے جیسا کہ کچھ طبیعیات دان یقین رکھتے ہیں تو کثیر کائناتوں میں اس کائنات کا غالبہ ہوگا جس میں زیادہ بلیک ہولز موجود ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جیسا کہ جانوروں کی دنیا میں ہوتا ہے ، جو کائنات زیادہ بچے دے گی وہی بالآخر اپنے جینی اطلاع - قدرت کے طبیعیاتی مستقل - کو پھیلانے میں کامیاب ہوگی۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو ماضی میں ہماری کائنات کے شاید لامحدود تعداد میں آباؤ اجداد ہوں گے اور ہماری کائنات شاید قدرتی چناؤ کے دسیوں کھرب ہا برسوں پر مشتمل ماضی کی ضمنی پیداوار ہوگی۔ بالفاظ دیگر ہماری کائنات بقائے اصلاح کی ضمنی پیداوار ہوگی یعنی کہ یہ اس کائنات کی اولاد ہوگی جس میں سب سے زیادہ بلیک ہولز موجود ہوں گے۔
ہرچند کائناتوں کے درمیان ڈارونی ارتقا عجیب اور نیا تصوّر ہے، اسمولین یقین رکھتے ہیں کہ اس کو صرف بلیک ہولز کی تعداد کو شمار کرکے جانچا جا سکتا ہے۔ ہماری کائنات بلیک ہولز کو پیدا کرنے کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہوگی۔ (بہرحال اس بات کو اب بھی ثابت کرنا ہے کہ زیادہ بلیک ہولز والی کائنات وہی ہیں جو ہماری جیسی حیات کو سہارا دیتی ہیں۔)
کیونکہ خیال قابل جانچ ہے لہٰذا مخالف مثالوں کو بھی زیر غور لایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قیاسی طور پر کائنات کے پیرامیٹر میں رد و بدل کرکے یہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ بلیک ہولز ان کائنات میں فوری پیدا ہوتے ہیں جو حیات سے خالی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی بھی اس بات کا مظاہرہ کر سکتا ہے کہ ایک کائنات جس میں مضبوط نیوکلیائی قوّت کافی توانا ہو وہ ستاروں کو تیزی سے جلا کر کافی تعداد میں سپرنووا پیدا کر سکتی ہے جو بعد میں منہدم ہو کر بلیک ہولز کی تشکیل کریں گے۔ ایسی کائنات میں نیوکلیائی قوّت کی طاقت میں اضافے کا مطلب ہوگا کہ ستاروں کا دور حیات کافی مختصر ہوگا لہٰذا حیات شروع ہی نہیں ہو سکے گی ۔ لیکن اس کائنات میں ہو سکتا ہے کہ زیادہ بلیک ہولز موجود ہوں، لہٰذا وہ اسمولین کے خیال کو رد کرتے ہیں۔ اس خیال کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو جانچا ، دہرایا اور رد کیا جا سکتا ہے( جو کسی بھی سچے سائنسی نظریہ کا طرہ امتیاز ہے )۔ یہ تو وقت ہے بتائے گا کہ یہ تصوّر باقی رہ سکے گا یا نہیں۔
ہرچند کہ ثقب کرم ، سپر اسٹرنگ، اور اضافی جہتیں ہماری حالیہ تجرباتی بساط سے باہر ہیں ، نئے تجربات کیے جا رہے ہیں اور مستقبل کے تجربات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جو اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا یہ نظریات درست ہیں کہ نہیں۔ ہم سائنسی تجربات کے انقلابی دور کے عین درمیان ہیں ، ہمارے پاس سیارچوں کی مکمل قوّت ہے، خلائی دوربینیں ہیں، ثقلی موجوں کے سراغ رساں ہیں اور لیزر ہیں جو ہم ان سوالات کی جانچ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان تجربات کی فصل سے حاصل ہونے والے فوائد جلد ہی کونیات کی کچھ گہری چیزوں سے پردہ اٹھائیں گے۔
غیر معمولی دعووں کے لئے غیر معمولی ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
- کارل ساگاں
متوازی کائناتیں، جہتی گزرگاہیں، اضافی جہتیں جتنی بھی شاندار ہوں ، اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لئے شہادتوں کی متقاضی ہیں۔ جیسا کہ خلا نورد کین کراس ویل کہتے ہیں، " دوسری کائناتیں مخمور کن ہو سکتی ہیں: آپ ان کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کبھی بھی اس وقت تک غلط ثابت نہیں ہوں گے جب تک خلا نورد ان کو دیکھ نہ لیں۔" اپنے پرانے تجرباتی آلات کو دیکھتے ہوئے ماضی میں ایسے اندازوں کو مایوس کن حد ناقابل جانچ سمجھا جاتا تھا۔ بہرصورت کمپیوٹر، لیزر اور سیارچوں کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی حالیہ پیش رفت نے ایسے کافی سارے نظریات کو تجرباتی جانچ کے کافی قریب کر دیا۔
ان نظریات کی براہ راست جانچ تو حد درجے مشکل کام ہوگا لیکن شاید بالواسطہ جانچ ہماری پہنچ میں ہے۔ اکثر اوقات ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ فلکیات میں زیادہ تر کام بالواسطہ طور پر ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے ابھی تک سورج یا کسی ستارے کا دورہ نہیں کیا ، باوجود اس کے ہم ان منور اجسام سے آتی ہوئی روشنی کی بدولت جانتے ہیں کہ یہ ستارے کس چیز سے بنے ہوئے ہیں۔ ستارے کی روشنی کے اندر موجود طیف کو دیکھتے ہوئے ہم نے بالواسطہ طور پر یہ بات جان لی ہے کہ ستارے بنیادی طور پر ہائیڈروجن اورتھوڑی ہیلیئم سے بنے ہیں۔ اسی طرح کسی نے بلیک ہول کو نہیں دیکھا، اور درحقیقت بلیک ہول تو غیر مرئی ہیں اور ان کو براہ راست نہیں دیکھا جا سکتا۔ تاہم ان کے وجود کا بالواسطہ ثبوت تہ دار ٹکیوں کو اور ان مردہ ستاروں کی ضخامت کو دیکھ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ ان تمام تجربات میں ہم ستاروں اور بلیک ہولز کی نوعیت کو معلوم کرنے کے لئے ان سے آتی ہوئی "گمگ" یا "گونج" کو دیکھتے ہیں۔ بعینہ ایسے گیارہویں جہت ہماری براہ راست پہنچ سے دور ہے، لیکن کچھ ایسے طریقے ہیں جن کے ذریعہ افراط زدہ دور یا سپر اسٹرنگ نظریئے کو جانچا جا سکتا ہے اس جانچ میں ہمیں نئے انقلابی آلات کا استعمال مدد دے سکتا ہے۔
جی پی ایس اور اضافیت
سب سے سادہ مثال جس میں سیارچوں نے اضافیت میں ہونے والی تحقیق میں انقلاب پربا کر دیا وہ عالمی مقامی نظام ہے جس میں24 سیارچے ہمہ وقت زمین کے گرد مدار میں چکر لگاتے ہوئے انتہائی درستگی و یگانگت کے ساتھ ضربیں خارج کرتے ہیں جو سیارے پر موجود کسی بھی چیز کے محل وقوع کا نہایت درستگی سے نقشہ بنا دیتیں ہیں۔ عالمی مقامی نظام راستوں کے نظام، تجارت یہاں تک کہ جنگوں کی بھی اہم خصوصیت بن چکا ہے۔ کار میں موجود کمپیوٹرائزڈ نقشوں سے لے کر بین البراعظمی میزائلوں تک ہر چیز کا انحصار اشاروں کو ایک سیکنڈ کے 50 اربویں حصّے کے اندر ہم آہنگ کرنے اور زمین پر 15 گز کے اندر موجود کسی بھی شے کو تلاش کرنے کی قابلیت پر ہی ہے۔ لیکن اس ناقابل تصوّر ضمانت دینے کے لئے سائنس دانوں کو نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون میں اضافیت کی وجہ سے تھوڑی تصحیحات کرنا ہوں گی جو کہتی ہیں کہ ریڈیائی موجوں کا تعدد ارتعاش اس وقت تھوڑا سے منتقل شدہ ہوگا جب سیارچے بیرونی خلاء میں جائیں گے۔ در حقیقت اگر ہم بیوقوفوں کی طرح اضافیت کی وجہ سے ہونے والی تصحیح کو خاطر میں نہ لائیں تو جی پی ایس گھڑی روزانہ ایک سیکنڈ کے ٤٠ ہزار ارب حصّے کے جتنا آگے ہو جائے گی اور تمام نظام غیر یقینی بن جائے گا۔ اضافیت کا نظریہ اس لئے تجارت اور مسلح افواج کے لئے لازمی ہے۔ طبیعیات دان کلفرڈ ول جنہوں نے ایک مرتبہ یو ایس فضائی فوج کے جنرل کو آئن سٹائن کے نظرئیے کی وجہ سے کی جانے والی جی پی ایس تصحیحات کے بارے میں بتایا تھا انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ وہ جانتے تھے کہ اضافیت کے نظرئیے کو ایک دن اس جگہ پر آنا ہے جہاں پینٹاگون کے سینیئر افسروں کو اس کے بارے میں بتانا پڑے گا۔
اب تک ہم فلکیات کے بارے میں جو کچھ بھی جانتے تھے وہ ہم نے برقی مقناطیسی اشعاع کی صورت میں حاصل کیا ہے چاہے اس میں خلائے بسیط سے آتی ہوئی ستاروں کی روشنی ہو یا ریڈیائی اشعاع ہویا خرد امواج ہوں۔ اب سائنس دان سائنسی دریافتوں کے لئے پہلی مرتبہ ایک نیا ذریعہ استعمال کرنے جا رہے ہیں یعنی قوّت ثقل کو بذات خود۔ " ہر دفعہ جب ہم آسمان کو ایک نئے طریقے سے دیکھتے ہیں، تو ہمیں ایک نئی کائنات نظر آتی ہے،" کالٹک اور ثقلی موجی منصوبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر گیری سینڈرس کہتے ہیں۔
یہ آئن سٹائن تھا جس نے سب سے پہلے 1916ء میں پہلی مرتبہ ثقلی موجوں کی موجودگی کا تصوّر پیش کیا تھا۔ ذرا غور کریں کہ اس وقت کیا ہوگا جب سورج یکایک غائب ہو جائے گا۔ بستر پر خم ڈالتی ہوئی گیند کی مثال کو یاد کریں ؟ یا ایک ترپال کے جال کا سوچیں؟ اگر گیند کو اچانک ہٹا لیا جائے تو ترپال کا جال واپس اچھل کر اپنے پرانے مقام پر آئے گا جس سے صدماتی موجیں پیدا ہوں گی جو ترپال کے ساتھ باہر کی جانب لہریں پیدا کریں گی۔ اگر گیند کو سورج سے بدل دیں تو ہم دیکھیں گے کہ ثقلی موجیں ایک مخصوص رفتار یعنی روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ ہر چند یہ کہ آئن سٹائن نے بعد میں اپنی اس مساوات کا بالکل درست حل نکال لیا تھا جس میں ثقلی موجیں بھی موجود تھیں تاہم اسے اپنی زندگی میں اس پیش گوئی کی تصدیق ہوتے دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ ثقلی موجیں حد درجہ کمزور ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ منہدم ہوتے ہوئے ستاروں سے پیدا ہوتی ہوئی صدماتی موجیں بھی اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ دور حاضر کے تجربات ان کو ناپ سکیں۔
فی الوقت ثقلی موجوں کا سراغ بالواسطہ طور پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ دو طبیعیات دان، رسل ہلس اور جوزف ٹیلر جونیئر ایک نظریہ پیش کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ چکر لگاتے ہوئے ایک دوسرے کا پیچھا کرتے ثنائی نیوٹران ستاروں کا تجزیہ کریں تو ہر ستارہ ثقلی موجوں کی لہروں کا اخراج کر رہا ہوگا بعینہ ایسے جس طرح سے چکر لگاتا ہوا شیرا کرتا ہے کیونکہ ان کے مدار بتدریج انحطاط پذیر ہوتے ہیں۔ انہوں نے دو نیوٹران ستاروں کی موت کے ناچ کا تجزیہ کیا جس میں وہ آہستہ آہستہ ایک دوسرے کی طرف خم کھاتے ہوئے آرہے تھے۔ ان کا زیر تفتیش ثنائی ستارہ PSR 1913 +16 تھا جو زمین سے ١٦ ہزار نوری برس کے فاصلے پر موجود تھا ۔ یہ ستارے ایک دوسرے کے گرد ہر 7 گھنٹے 45 منٹ میں ایک چکر پورا کر رہے تھے اور اس عمل کے دوران ثقلی امواج کو خارج کر رہے تھے۔
آئن سٹائن کے نظریئے کا استعمال کرتے ہوئے انھیں معلوم ہوا کہ دونوں ستاروں کو ہر چکر کے بعد ایک دوسرے کے ایک ملی میٹر قریب آنا چاہئے۔ ہرچند کہ یہ ایک بہت ہی صغیر فاصلہ ہے، ایک برس میں یہ ایک گز تک کا ہو جائے گا کیونکہ 435 ہزار میل کا مدار فاصلے میں آہستہ سے کم ہوگا۔ ان کے اس اوّلین کام نے بتایا کہ مدار بعینہ ایسے ہی انحطاط پذیر ہوگا جیسا کہ آئن سٹائن کے نظریئے نے ثقلی موجوں کی بنیاد پر پیش گوئی کی تھی ۔ ( حقیقت میں آئن سٹائن کی مساوات نے پیش گوئی کی تھی کہ ستارے 24 کروڑ برس میں بالآخر ایک دوسرے میں گر پڑیں گے اور اس کی وجہ ثقلی موجوں کی صورت میں اپنی توانائی کو خلاء میں کھونا ہوگا۔) اپنے اس کام پر انہوں نے 1993ء میں نوبیل انعام جیتا۔
ہم پیچھے جا کر اس تجربے کی کسوٹی پر بذات خود عمومی اضافیت کی صحت کو بھی ناپ سکتے ہیں۔ جب حساب کو الٹا لگایا جاتا ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عمومی اضافیت کم از کم 99.7 فیصد درست ہے۔
تاہم ابتدائی کائنات سے قابل استعمال معلومات حاصل کرنے کے لئے ہمیں بالواسطہ کے بجائے بلاواسطہ ثقلی موجوں کا مشاہدہ کرنا ہوگا۔ ٢٠٠٣ء میں پہلا کام کرنے کے لائق ثقلی سراغ رساں لیگو ( لیزر تداخل پیما ثقلی موجی رصدگاہ - Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory) میدان عمل میں آیا جس نے ایک دہائی پر مشتمل ثقلی موج کے ذریعہ کائنات کے اسرار کو جاننے کے پرانے خواب کی تعبیر فراہم کی۔ لیگو کا مقصد کونیاتی واقعات کا سراغ لگانا تھا جن کو دیکھنا یا ڈھونڈنا زمینی دوربینوں کے لئے ان کے بہت زیادہ فاصلہ پر ہونے یا بہت ہی زیادہ خفیف ہونے کی وجہ سے ممکن نہ تھا مثلاً منہدم ہوتے بلیک ہولز یا نیوٹران ستارے۔
لیگو دو دیوہیکل لیزروں پر مشتمل ہے ، ایک ہنفورڈ، واشنگٹن میں ہے جبکہ دوسری لیونگاسٹون پیرش ، لوزیانا میں ہے۔ دونوں جگہ دو پائپ ہیں، ہر ایک کی لمبائی 2.5 میل کی ہے ، یہ پائپ ایک ایل کی شکل کی عظیم الجثہ سرنگ بناتے ہیں۔ ہر سرنگ میں ایک لیزر کو داغا جاتا ہے۔ ایل کے جوڑ پر دونوں لیزر کی شعاعیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور ان کی موجیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ عام طور پر اگر کوئی مسئلہ نہ ہو تو دونوں موجیں آپس میں ہم آہنگ ہو جاتی ہیں اس طرح سے ایک دوسرے کا اثر زائل کر دیتی ہیں۔ تاہم جب کوئی چھوٹی سی بھی ثقلی موج کسی منہدم ہوتے ہوئے بلیک ہولز یا نیوٹران ستاروں سے خارج ہوتی ہے اور اس آلے سے ٹکراتی ہے تو یہ ایک بازو کو سکیڑتی اور دوسرے کو بازو کو مختلف انداز سے پھیلاتی ہے۔ یہ اثر اتنا ہوتا ہے کہ لیزر کی شعاعوں کی نازکی پر اثر انداز ہو جائے۔ نتیجتاً دونوں شعاعوں بجائے ایک دوسرے کو زائل کریں ایک موج جیسے تداخلی نمونے کی خاصیت کو پیدا کرتی ہیں جس کا تجزیہ کمپیوٹر کے ذریعہ مفصل طور پر کیا جا سکتا ہے۔ جتنی بڑی ثقلی موج ہوگی اتنا ہی بڑا دونوں لیزر کی شعاعوں کے درمیان ہونے والی موزونیت میں فرق ہوگا اور تداخلی نمونہ بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔ لیگو ایک انجینئرنگ کا معجزہ ہے۔ کیونکہ ہوا کے سالمات لیزر کی روشنی کو جذب کر سکتے ہیں، لہٰذا سرنگ میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ فضائی دباؤ کو ایک کھرب گنا کم کیا جائے۔ ہر سراغ رساں 3 لاکھ کیوبک فٹ کی جگہ گھیرتا ہے مطلب کہ دنیا میں سب سے بڑا خلاء لیگو میں موجود ہے۔ لیگو کو یہ حساسیت دینے میں ایک بڑا حصّہ آئینوں کے استعمال کا ہے جن کو چھوٹے مقناطیسوں سے قابو کیا جاتا ہے ، یہ تعداد میں چھ ہیں اور ہر ایک کا حجم چیونٹی کے جتنا ہے۔ آئینوں کو اتنا چمکایا جاتا ہے کہ یہ ایک انچ کے 30 ارب حصّے میں سے بقدر ایک کے درست ہوتا ہے۔ "ذرا تصوّر کریں کہ اگر زمین اتنی ہموار ہو تو پہاڑوں کی اوسط اونچائی ایک انچ سے زیادہ نہیں ہوگی۔" گیری لن بلنگسلے کہتے ہیں جو آئنوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ اتنے حساس ہیں کہ ان کو ایک میٹر کے دس لاکھویں حصّے سے بھی کم حرکت دی جا سکتی ہے اس طرح سے لیگو کے یہ آئینے دنیا کے سب سے زیادہ حساس آلات بن جاتے ہیں۔ "اکثر نظام کو منضبط کرنے والے انجینیروں کا منہ اس وقت کھلا رہ جاتا ہے جب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہم کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔" لیگو کے سائنس دان مائیکل ذکر کہتے ہیں۔
کیونکہ لیگو کو انتہائی نفاست کے ساتھ توازن میں رکھا گیا ہے لہٰذا یہ کبھی کبھار غیر متوقع ذرائع سے آنے والی بن بلائی ارتعاشوں کی وجہ سے متاثر ہو جاتا ہے۔ لوزیانا میں موجود سراغ رساں کو دن میں نہیں چلایا جا سکتا کیونکہ دن میں اس جگہ سے 1500 فٹ کے فاصلے پر درختوں کی کٹائی جاری ہوتی ہے۔( لیگو اس قدر حساس ہے کہ اگر درختوں کی کٹائی ایک میل دور بھی ہو رہی ہو تب بھی اس کو دن کے وقت نہیں چلایا جا سکتا۔) یہاں تک کہ رات میں اور صبح ٦ بجے بھی مال گاڑیوں کے پاس سے گزرنے کی وجہ سے بھی لیگو کے پاس مسلسل کام کرنے کے لئے بہت ہی قلیل وقت ہی بچتا ہے۔ یہاں تک کہ میلوں دور ساحل سے ٹکرانے والی لہر بھی نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ سمندری لہریں شمالی امریکا کے ساحل سے اوسطاً ہر چھ سیکنڈ میں ٹکراتی ہیں اور اس کی وجہ سے پست غراہٹ پیدا ہوتی ہے جس کو لیزر پکڑ لیتی ہے۔ شور کا تعداد ارتعاش اس قدر کم ہوتا ہے کہ اصل میں یہ زمین میں سے بھی گزر جاتی ہے۔ "اس کا احساس گرج کی طرح ہوتا ہے۔ لوزیانا کے سمندری طوفانوں کے موسم میں یہ صحیح کا سر درد بنی رہتی ہیں۔" ذکر اس مدو جذر کے شور پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ لیگو چاند اور سورج کی وجہ سے زمین پر پیدا ہونے والے مدو جذر سے بھی متاثر ہوتی ہے جس سے ایک انچ کے دسیوں لاکھوں حصّے میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
ان ناقابل تصوّر چھوٹے تداخلوں سے بچنے کے لئے لیگو کے انجنیئروں نے آلے کو ماحول سے الگ تھلگ رکھنے کے لئے غیر معمولی کاوشیں کی ہیں۔ ہر لیزر کا نظام چار بے داغ اسٹیل کے پلیٹ فارم کے اوپر رکھا ہوا ہے ، یہ ایک کے اوپر ایک رکھے ہوئے ہیں، ہر سطح کو اسپرنگ کی مدد سے الگ کیا ہوا ہے تاکہ کسی بھی قسم کے ارتعاش کو ختم کر دے۔ حساس بصری آلات میں سے ہر ایک کے پاس اپنا خود کا لرزش سے بچنے کا نظام موجود ہے، فرش کو ٣٠ انچ موٹے کنکریٹ سے بنایا گیا ہے جس کو دیواروں سے نہیں جوڑا گیا۔
لیگو اصل میں ایک بین الاقوامی شراکت ہے جس میں پیسا ، اٹلی میں واقع فرانسی – اطالوی سراغ رساں مشین ورگو، ٹوکیو سے باہر جاپانی سراغ رساں ٹاما، اورہین اور جرمنی میں واقع برطانوی - جرمن سراغ رساں GEO600 شامل ہے۔ کل ملا کر لیگو کو بنانے کی حتمی لاگت ٢٩ کروڑ ٢٠ لاکھ امریکی ڈالر (جبکہ ٨ کروڑ امریکی ڈالر اس کو بہتر کرنے میں خرچ ہوں گے) یوں یہ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کا سب سے مہنگا منصوبہ بن گیا ہے۔
اپنی تمام تر حساسیت کے باوجود اکثر سائنس دان سمجھتے ہیں کہ لیگو اس قدر حساس نہیں ہے کہ یہ اپنے حیاتی دور میں حقیقی قسم کے واقعات کی کھوج کر سکے۔ لیگو دوم 2007ء میں بنانے کی منصوبہ بندی ہے بشرطیکہ اس کے لئے پیسے مل جائیں۔ اگر لیگو کسی قسم کی ثقلی موجوں کا سراغ نہیں لگا پاتی تو شاید لیگو دوم لگا لےگی۔ لیگو کے سائنس دان کینتھ لبریچٹ کا دعویٰ ہے کہ لیگو دوم میں حساسیت کو ایک ہزار گنا زیادہ بہتر کرلیا جائے گا: " آپ دس برسوں میں ایک واقعہ (کے سراغ لگانے) سے چلے ہیں جو بہت ہی تکلیف دہ بات ہے تاہم آپ اس سے ہر تین دن میں کسی واقعہ کا سراغ لگا لیں گے جو کافی اچھی بات ہے۔"
لیگو کے لئے دو بلیک ہولز کے تصادم (30 کروڑ نوری برس کے اندر) کے سراغ لگانے کے لئے ایک سائنس دان کو ایک برس سے ایک ہزار برس تک کا انتظار کرنا ہوگا۔ کافی سائنس دان لیگو کے ذریعہ واقعات کی تفتیش کے بارے میں دوسرے طریقے سے سوچتے ہیں یعنی ان کے پڑ پوتے کے پڑ پوتے شاید اس واقعہ کا مشاہدہ کر سکیں۔ تاہم جیسا کہ لیگو سائنس دان پیٹر سولسن کہتے ہیں ، " لوگ اس طرح کے تیکنیکی مسائل سے نمٹے میں سرور حاصل کرتے ہیں بعینہ جیسے کہ قرون وسطیٰ کے کلیسا کو بنانے والے اس بات کو جاننے کے باوجود کہ یہ اس کو مکمل ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکیں گے اس کو بنانا جاری رکھتے ہیں۔ تاہم اگر میری زندگی میں ثقلی موجوں کو دیکھنے کا کوئی موقع نہیں ہے تو میں اس میدان میں نہیں آتا۔ یہ کوئی شریفانہ بخار نہیں ہے ۔۔۔۔۔ جس درستگی کو حاصل کرنے کے لئے ہم جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اگر آپ اس کو جاری رکھیں گے تو آپ صحیح راہ پر ہیں۔" لیگو دوم کے ساتھ امید ہے کہ ہم ایک اصلی دلچسپ واقعہ کو اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیں گے۔ لیگو دوم شاید منہدم ہوتے ہوئے بلیک ہولز کا سراغ 6 ارب نوری برس کے بڑے فاصلے سے بھی دس واقعات فی دن سے لے کر دس واقعات فی برس کی شرح سے لگا لے گا۔ تاہم لیگو دوم اس قدر طاقتور نہیں ہوگا کہ وہ تخلیق کے فوراً بعد سے خارج ہوتی ہوئی ثقلی موجوں کا سراغ لگا سکے۔ اس کے لئے ہمیں پندرہ سے بیس برس تک لیزا کا انتظار کرنا ہوگا۔
لیزا (لیزر تداخل پیما خلائی انٹینا - Laser Interferometry Space Antenna ) ثقلی موجی سراغ رساں کی اگلی نسل ہے۔ لیگو کے برعکس یہ بیرونی خلاء میں موجود ہوگا۔ 2010ء کے آس پاس ناسا اور یورپین خلائی اسپیس ایجنسی کا منصوبہ خلاء میں تین سیارچوں کو چھوڑنے کا ہے؛ یہ سورج کے گرد زمین سے لگ بھگ 3 کروڑ میل کے فاصلے پر چکر لگائی گی۔ تین لیزر سراغ رساں مساوی الا ضلا ع مثلث خلاء میں (ہر طرف 5لاکھ کلومیٹر کا) بنائیں گے۔ ہر سیارچےمیں دو لیزر ہوں گی جو مسلسل دوسرے سیارچوں سے رابطہ میں رہیں گی۔ ہر چند کہ ہر لیزر ایک ایسی شعاع کو داغے گی جس کی طاقت صرف آدھے واٹ کی ہوگی، تاہم وصول کنندہ بصری آلات اس قدر حساس ہوں گے کہ وہ ثقلی موجوں سے آنے والی تھرتھراہٹ کا سراغ ایک ارب کھرب حصّہ میں بقدر ایک کے درستگی کے ساتھ لگا لیں گے (یہ چیز ایک جوہر کے سویں حصّے کے برابر ہے)۔ لیزا ثقلی موجوں کا سراغ 9 ارب نوری برس کے فاصلے تک سے لگا سکے گی یعنی قابل مشاہدہ کائنات کا کافی بڑے حصّے کو کور کر لے گی۔ لیزا اس قدر درستگی کے ساتھ پیمائش کر سکے گی کہ یہ بگ بینگ سے نکلنے والی ثقلی موجوں کا بھی سراغ لگا سکتی ہے۔ اس کے ذریعہ ہمیں اب تک کی سب سے زیادہ درستگی کی حامل تخلیق کے لمحے کی تصویر حاصل ہوگی۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو لیزا اس قابل ہوگی کہ بگ بینگ کے بعد پہلے سیکنڈ کے ایک کھربویں حصّے تک کے وقت میں جھانک سکے۔ اس طرح سے یہ تمام کونیاتی آلات میں اب تک بنایا جانے والا سب سے زیادہ طاقتور آلہ ہوگا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید لیزا اس قابل ہو کہ وہ وحدتی میدانی نظریئے یعنی ہر شئے کے نظریئے کے بارے میں پہلے تجرباتی اعداد و شمار کو حاصل کر سکے۔
لیزا کا ایک اہم مقصد افراط زدہ نظریئے کا ناقابل تردید ثبوت حاصل کرنا ہے۔ اب تک افراط زدہ نظریہ تمام کونیاتی اعداد و شمار (چپٹا پن، کائناتی پس منظر میں اتار چڑھاؤ علی ہذالقیاس ) سے مطابقت رکھتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نظریہ درست ہے۔ نظریئے کو مستحکم کرنے کے لئے سائنس دان ثقلی موجوں کو جانچنا چاہتے ہیں جس کو افراط زدہ عمل نے پیدا کیا تھا۔ "بگ بینگ کے وقت پیدا ہونے والی ثقلی موجوں کے نشان افراط زدہ نظریہ یا اس کے مخالف نظریہ کے درمیان فرق کو بیان کریں گے۔ کالٹک کے کپ تھورن سمجھتے ہیں کہ لیزا اس قابل ہوگی کہ ہمیں بتا سکے کہ اسٹرنگ نظریئے کے کونسے نسخے درست ہیں۔ جیسا کہ میں نے ساتویں باب میں بیان کیا تھا کہ افراط زدہ کائناتی نظریہ کہتا ہے کہ بگ بینگ سے پیدا ہونے والی ثقلی موجیں ابتدائی کائنات کے سریع رفتار پھیلاؤ کی وجہ سے کافی شدید ہونی چاہیں جبکہ ایکپروٹک نمونہ کافی نفاست کے ساتھ پھیلاؤ کا بتاتا ہے جس کے ساتھ ہموار ثقلی موجیں نکلیں۔ لیزا لازمی طور پر بگ بینگ کی مخالف نظریات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی اور اسٹرنگ نظریئے کی اہم جانچ بھی کر لے گی۔
کائنات کو جاننے کا ایک اور طاقتور آلہ ثقلی عدسے اور آئن سٹائن کے چھلے ہیں۔ 1801ء میں برلن کے فلکیات دان جوہان جارج وان سولڈنر اس قابل ہوا کہ سورج کی روشنی کی وجہ سے ستاروں کی روشنی پر پڑنے والے خم کا ناپ سکے۔ (اگرچہ سولڈنر نے سختی کے ساتھ نیوٹنی قوانین کا استعمال کیا تھا لہٰذا اس کے نتائج میں غلطیوں کا اندیشہ دوگنا تھا۔ آئن سٹائن لکھتا ہے، "آدھے سے زیادہ خم تو نیوٹن کے سورج کے ثقلی میدانوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں، جبکہ دوسرے خلاء کی جیومیٹری کی صورت میں سورج کی ہونے والی تبدیلی ['خم'] کی وجہ سے تھے۔")
1912ء میں عمومی اضافیت کو مکمل کرنے سے پہلے آئن سٹائن نے اس خم کے استعمال کا بطور عدسے کا تصوّر پیش کیا تھا بعینہ جیسے آپ کی عینک کے عدسے روشنی کو آپ کی آنکھ تک پہنچنے سے پہلے موڑ دیتے ہیں۔ 1936ء میں ایک چک انجنیئر روڈی منڈل نے آئن سٹائن کو لکھا اور پوچھا آیا کہ ثقلی عدسے قریبی ستارے کی روشنی کو بڑھا سکتے ہیں۔ جواب ہاں میں تھا تاہم یہ اس کا سراغ لگانا اس وقت کے ٹیکنالوجی کے بس کی بات نہیں تھی۔
بالخصوص آئن سٹائن کو اس بات کا احساس ہوگا تھا کہ آپ بصری سراب دیکھیں گے ، مثلاً ایک ہی جسم کی دو تصویریں ، یا چھلے کی طرح روشنی کا بگاڑ ۔دور دراز سے آنے والی کہکشاں سے روشنی سورج کے پاس سے گزرتے وقت دائیں اور بائیں جانب سے گزرتے ہوئے دوبارہ مل کر ہماری آنکھوں تک پہنچے گی۔ جب ہم دور دراز کی کہکشاں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں چھلے جیسا نمونہ ملتا ہے ایک اضافیت کے سراب کی وجہ سے بنتا ہے۔ آئن سٹائن نے نتیجہ اخذ کیا کہ " اس مظہر کو براہ راست نہیں دیکھا جا سکتا۔" اصل میں اس نے لکھا کہ "اس کام کی اہمیت بہت کم ہے، تاہم یہ اس غریب لڑکے [منڈل] کو خوش کرے گا۔" چالیس برس بعد ١٩٧٩ء میں اس مظہر کا پہلا جزوی ثبوت انگلینڈ کی جورڈل بینک رصدگاہ کے ڈینس والش کو حاصل ہوا جنہوں نے دہرےکوزار Q0957+561 کو دریافت کیا ۔1988ء میں پہلا آئن سٹائن کا چھلا ایک ریڈیائی منبع MG1131+0456 سے مشاہدہ کیاگیا۔ ١٩٩٧ء میں ہبل خلائی دوربین اور یو کے کی مارلن ریڈیائی دوربینی قطار نے پہلا مکمل آئن سٹائن کا چھلا ایک دور دراز کی کہکشاں 1938+666 میں دیکھتے ہوئے آئن سٹائن کے نظریئے کی ایک مرتبہ پھر تصدیق کردی۔ (چھلا کافی چھوٹا تھا یوں سمجھ لیں کہ دو میل دور سے کسی سکے کو دیکھنا۔) ماہرین فلکیات اس تاریخی واقعہ کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنا جوش و خروش بیان کرتے ہیں: " پہلی نظر میں، یہ مصنوعی لگتا تھا تاہم بعد میں احساس ہوا کہ ہم آئن سٹائن کا ایک مکمل چھلا دیکھ رہے ہیں!" یونیورسٹی آف مانچسٹر کے آئین براؤن کہتے ہیں۔
آج آئن سٹائن کے چھلے فلکی طبیعیات کے ہتھیاروں میں سے ایک ہیں۔ لگ بھگ چونسٹھ دہرے ، تہرے اور کثیر کوزار (آئن سٹائن کے عدسوں کی وجہ سے بننے والے سراب) بیرونی خلاء میں دیکھے جا چکے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہر پانچ سو کوزار میں سے ایک ایسا دیکھا گیا۔ یہاں تک کہ غیر مرئی مادّے کی شکل مثلاً تاریک مادّہ کو بھی اس کی وجہ سے روشنی کی موجوں میں پڑنے والے خلل کی چھان بین کرکے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے ہمیں کائنات میں تاریک مادّے کی تقسیم کا "نقشہ" حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آئن سٹائن عدسے کی وجہ سے پڑنے والا خلل کہکشانی جتھوں کو (بجائے چھلے کے ) بڑے قوس کی طرح دکھاتا ہے لہٰذا ان جتھوں میں موجود مرتکز تاریک مادّے کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔ 1986ء میں پہلی عظیم الجثہ کہکشانی قوس نیشنل آپٹیکل ایسٹرو نومی آبزر ویٹری ، اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور میدی پیرینیث آبزر ویٹری فرانس کے ماہرین فلکیات نے سب سے ڈرامائی جھرمٹ آبیل 2218 میں دیکھی۔
آئن سٹائن کے عدسے کو کائنات میں موجود ماچو کی مقدار( جو عام مادّے مثلاً مردہ ستارے، بھورے بونے ستارے اور گرد کے بادل پر مشتمل ہیں) کو ناپنے کے لئے بھی بطور الگ طریقے کے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ 1986ء میں پرنسٹن کے بوہدان پیکزنسکی کو احساس ہوا کہ اگر ماچو کسی ستارے کے سامنے سے گزرے گا تو وہ اس کی روشنی میں اضافہ کرتے ہوئے اس کی دوسری تصویر بنا دے گا۔
1990ء کی ابتدائی دہائی میں مختلف سائنس دانوں کی ٹیموں (مثلاً فرانس کی ایروس، امریکی آسٹریلیوی ماچو اور پولینڈ امریکی اوگل ) میں ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں اس طریقہ کا اطلاق کیا اور پانچ سو سے زائد خرد عدسے والے واقعات کو پایا (یہ امید سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھا کیونکہ اس میں سے کچھ مادّہ تو کم کمیت والے ستاروں پر مشتمل تھا اور وہ اصل ماچو نہیں تھے۔ )یہی طریقہ دوسرے ستاروں کے گرد ماورائے شمسی سیاروں کو ڈھونڈنے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ کیونکہ سیارے کم تاہم قابل سراغ ثقلی اثر اپنے مرکزی ستارے پر ڈالتے ہیں، آئن سٹائن کا عدسہ اصولی طور پر ان کا سراغ لگانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ کو استعمال کرکے پہلے ہی کافی ماورائے شمسی سیاروں کے امیدواروں کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔ ان میں سے کچھ تو ملکی وے کہکشاں کے قلب میں ہی واقع ہیں۔
یہاں تک کہ ہبل کا مستقل اور کونیاتی مستقل کو بھی آئن سٹائن کے عدسے کے ذریعہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ہبل کا مستقل لطیف مشاہدہ کرکے ناپا جا سکتا ہے۔ کوزار وقت کے ساتھ روشن اور مدھم ہوتے ہیں کوئی بھی یہ امید کر سکتا ہے کہ دہرا کوزار جو ایک ہی جسم کی دو تصویریں ہوتی ہیں ایک ہی شرح سے جھولتا رہے گا۔ درحقیقت ان جڑواں کوزاروں کو ہم آہنگی کے ساتھ جھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مادّہ کی معلوم تقسیم کے ساتھ فلکیات دان وقت میں تاخیر کو اس کے زمین تک کے پہنچنے کے کل وقت سے تقسیم کرکے نکال لیتے ہیں ۔ دہرے کوزار کے روشن ہونے کے وقت میں تاخیر کو ناپ کر کوئی بھی اس کا زمین سے فاصلہ ناپ سکتا ہے۔ اس کی سرخ منتقلی کا معلوم کرنے کے بعد کوئی بھی ہبل کا مستقل معلوم کر سکتا ہے۔ (اس طریقہ کا اطلاق کوزار Q0957+561 پر کیا گیا جو زمین سے لگ بھگ ١٤ ارب نوری برس دور ہے۔ تب سے ہبل کے مستقل کو دوسرے 7 کوزاروں کی جانچ کرنے کے بعد معلوم کیا گیا ہے۔ غلطی کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اعداد و شمار معلوم نتائج کے مطابق ہیں۔ اصل دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ طریقہ ستاروں کی روشنی پر انحصار نہیں کرتا جیسا کہ قیقاؤسی اور جماعت Ia کے سپرنووا اس طرح سے ان سے ایک آزادانہ طور پر نتائج کی تصدیق ہو جاتی ہے۔)
کونیاتی مستقل جو ہماری کائنات کے مستقبل کا راز اپنے سینے میں دفن کئے ہوئے ہے اس طریقہ کی مدد سے ناپا جا سکتا ہے۔ اس سے لگائے گئے حساب کافی خام ہیں تاہم یہ دوسرے طریقوں سے میل کھاتا ہے۔ کیونکہ کائنات کی تمام مقدار آج سے ارب ہا برس پہلے کم تھی لہٰذا آئن سٹائن کے چھلوں کو بناتے ہوئے کوزار کو ڈھونڈنے کا امکان ماضی میں کافی زیادہ ہے۔ اس طرح سے دہرے کوزار کی تعداد کو کائنات کے ارتقاء کے مختلف وقتوں میں ناپ کر کوئی بھی کائنات کی کل مقدار کو ناپ سکتا ہے اور اس طرح سے کونیاتی مستقل کو بھی جو کائنات کے پھیلاؤ کا سراغ لگانے میں مدد کرتا ہے۔ 1998ء میں ہارورڈ اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹروفزکس کے خلاء نوردوں نے پہلی مرتبہ کونیاتی مستقبل کا خام اندازہ لگایا اور نتیجہ نکالا کہ شایدکائنات کا کل مادّہ/ توانائی 62 فیصد سے زیادہ نہیں ہے (ڈبلیو میپ سے حاصل کردہ نتائج 73 فیصد بتاتے ہیں)۔
تاریک مادّہ اگر کائنات میں سرایت کرتا ہے تو نہ صرف یہ ٹھنڈی خلاء کی جگہ میں موجود ہوگا بلکہ اس کو آپ کے کمرے میں بھی موجود ہونا چاہئے۔ آج کافی تحقیقاتی ٹیمیں اس جستجو میں لگی ہوئی ہیں کہ دیکھیں کہ تجربہ گاہ میں کون پہلے تاریک مادّے کے ذرّے کو تلاش کرتا ہے۔ کام بہت بڑا ہے جس ٹیم کے سراغ رساں پہلی مرتبہ تاریک مادّے کے ذرّات کا سراغ لگائیں گے وہ دو ہزار برسوں میں پہلی مرتبہ مادّہ کی ایک نئی قسم کی دریافت ہوگی۔
اس تجربے کے پیچھے جو خیال ہے اس میں ایک خالص مادّہ کا بڑا ٹکڑا (جیسا کہ سوڈیم آئیو ڈائٹ ، ایلومینیم آکسائڈ ، فری آن، جرمینیم یا سلیکان ) لینا ہے جن کے ساتھ شاید تاریک مادّہ باہمی عمل کرے گا۔ کبھی کبھار تاریک مادّے کا ذرّہ جوہر کے مرکزے سے ٹکرا کر انحطاطی نمونے کی طرح ظاہر کر سکتا ہے۔ اس انحطاط میں شامل ہونے والے ذرّات کی تصاویر لے کر سائنس دان تاریک مادّہ کے وجود کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
تجربات کافی رجائیت پسندانہ ہیں کیونکہ ان کے آلات کی حساسیت ان کو تاریک مادّے کا مشاہدہ کرنے کے لئے بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ ہمارا نظام شمسی ملکی وے کے مرکز میں موجود بلیک ہول کے گرد 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چکر لگا رہا ہے۔ نتیجتاً ہمارا سیارہ تاریک مادّہ کی کافی بڑی تعداد میں سے گزرتا ہے۔ طبیعیات دانوں کے تخمینہ جات کے مطابق ایک ارب تاریک ذرّات فی مربع میٹر فی سیکنڈ بشمول ہمارے جسموں کے ہماری زمین سے گزرتے ہیں ۔
ہر چند کہ ہم " تاریک مادّے کی ہوا" میں رہتے ہیں جو ہمارے پورے نظام شمسی میں چلتی رہتی ہے ، تاہم تجربہ گاہ میں تاریک ذرّات کا سراغ لگانے کے تجربات انتہائی دشوار گزار ہیں کیونکہ تاریک مادّہ عام مادّے کے ساتھ انتہائی کمزوری کے ساتھ باہمی تعامل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سائنس دان امید کرتے ہیں کہ تاریک مادّے کے واقعات 0.01 سے لے کر 10 واقعات فی برس تک تجربہ گاہ میں رکھے ایک کلوگرام کے مادّہ میں وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ کو انتہائی احتیاط کے ساتھ مادّے کی بڑی مقداروں پر کئی برسوں تک نظر رکھنی پڑے گی تاکہ تاریک مادّے کے تصادم کو دیکھ سکیں۔
لہٰذا اب تک کے ہونے والے تجربے برطانیہ کے یو کے ڈی ایم سی میں،کنفرانک ، اسپین کے آر او ایس ای بی یو ڈی میں، رسٹرل فرانس کے سمپل میں، اور ایڈلویس فریجوس ، فرانس میں ، کسی بھی قسم کی کوئی ایسا واقعہ کا سراغ نہیں لگا سکے۔ روم کے باہر ایک تجربہ جس کو ڈ اما کہا گیا تھا اس نے 1999ء میں اس وقت شور شرابہ پیدا کیا جب سائنس دانوں نے تاریک ذرّات کو دیکھا۔ کیونکہ ڈاما 100 کلوگرام سوڈیم آئیو ڈائٹ استعمال کرتا ہے لہٰذا یہ دنیا کا سب سے بڑا سراغ رساں ہے۔ تاہم جب دوسرے سراغ رسانوں نے ڈاما کے نتائج کو حاصل کرنے کے لئے تجربات دہرائے تو ان کو کچھ نہ ملا اور یوں ڈاما کے نتائج پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
طبیعیات دان ڈیوڈ بی کلائین کہتے ہیں، " اگر سراغ رساں نے اشاروں کو درج کرکے ان کی تصدیق کردی ہوتی تو یہ اکیسویں صدی کی عظیم دریافتوں میں سے ایک ہوتی۔۔۔۔۔ جدید فلکی طبیعیات کے اس اسرار سے جلد ہی پردہ اٹھ جائے گا۔"
اگر تاریک مادّہ جلد ہی دریافت ہو گیا جیسا کہ اکثر طبیعیات دان اس کی امید کرتے ہیں تو یہ فوق تشاکل (اور ممکنہ طور پر وقت گزرنے کے ساتھ سپر اسٹرنگ نظریئے ) کی تصدیق کے عمل میں معاون ثابت ہوگا۔
فوق تشاکل کے پیش کردہ ذرّات پر ایک نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ کافی امیدوار ایسے ہیں جن کی تعریف صرف تاریک مادّے سے ہی ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک نیوٹرالینو ہے، ذرّات کے خاندان کا وہ رکن جو فوٹون کا فوق رفیق ہے۔ نظری طور پر نیوٹرالینو اعداد و شمار میں فٹ بیٹھتا نظر آتا ہے۔ نہ صرف یہ معتدل بار رکھتا ہے بلکہ اسی وجہ سے یہ غیر مرئی بھی ہوتا ہے اور ضخیم بھی (لہٰذا اس پر قوّت ثقل کا ہی اثر ہوتا ہے) اور یہ پائیدار بھی ہے۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس خاندان میں کسی بھی ذرّے کے مقابلے میں سب سے کم کمیت رکھتا ہے لہٰذا یہ انحطاط پذیر ہو کر کسی دوسرے ذرّے میں تبدیل نہیں ہوتا۔) آخری تاہم سب سے اہم بات کائنات کو نیوٹرالینو سے لبریز ہونا چاہئے، جس کی وجہ سے یہ تاریک مادّے کے لئے ایک مثالی ذرّہ ہے۔
نیوٹرالینو کا ایک زبردست فائدہ بھی ہے ، یہ اس بھید سے بھی پردہ فاش کر سکتے ہیں کہ آیا کیوں تاریک مادّہ ، مادّے اور توانائی کی کل مقدار کا 23 فیصد ہے جبکہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم صرف 4 فیصد ہیں۔
یاد کریں کہ جب کائنات صرف 380 ہزار برس کی تھی تو درجہ حرارت اتنا گر گیا تھا کہ جوہر بگ بینگ سے پیدا ہوئی شدید حرارت کی وجہ سے ہونے والے تصادموں سے مزید ریزہ ریزہ نہیں ہو رہے تھے۔ اس وقت پھیلتی ہوئی آگ کی گیند ٹھنڈی ، کثیف اور پائیدار ہو کر مکمل جوہر بنانا شروع ہو گئی تھی۔ آج جوہروں کی فراوانی لگ بھگ اسی زمانہ سے تعلق رکھتی ہے۔ سبق یہ ملا کہ کائنات میں مادّے کی مقدار اسی وقت سے تعلق رکھتی ہے جب کائنات اتنی ٹھنڈی ہو گئی تھی کہ مادّہ پائیدار ہو سکتا تھا۔
یہی دلیل نیوٹرالینو کی فراوانی کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ بگ بینگ کے تھوڑی عرصے بعد درجہ حرارت اتنا جھلسا دینے والا گرم تھا کہ نیوٹرالینو بھی تصادم کی وجہ سے تباہ ہو رہے تھے۔ تاہم جب کائنات ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی تو کسی وقت درجہ حرارت اتنا گر گیا کہ نیوٹرالینو تباہ ہوئے بغیر باقی رہ گئے۔ نیوٹرالینو کی فراوانی اسی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ جب ہم یہ حساب لگاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نیوٹرالینو کی فراوانی جوہروں سے کہیں زیادہ تھی اور اصل میں یہ لگ بھگ آج تاریک مادّے کی فراوانی کے ہی قریب ہے۔ فوق تشاکل ذرّات اس لئے توجیح پیش کرتے ہیں کہ آیا کیوں کائنات میں تاریک مادّے کا غلبہ ہے۔
اکیسویں صدی میں سیارچوں کے آلات میں کافی جدت طرازی ہوئی تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم زمین سے ہونے والی بصری اور ریڈیائی دوربینوں کے ذریعہ تحقیق کو نظر انداز کر دیں۔ حقیقت میں ڈیجیٹل انقلاب نے بصری اور ریڈیائی دوربینوں کے استعمال کے طریقے کو بدل کر رکھ دیا اور ہم اس قابل ہو گئے کہ سینکڑوں ہزارہا کہکشاؤں کا شماریاتی تجزیہ کر سکیں۔ دوربینی ٹیکنالوجی ، ٹیکنالوجی میں ہونے والی یکدم تبدیلی کی وجہ سے ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔
تاریخی طور پر ماہرین فلکیات دنیا کی بڑی دوربینوں پر کام کرنے کے لئے ملنے والے وقت پر لڑتے تھے۔ وہ ان آلات پر ملنے والے قیمتی وقت کی حفاظت کرتے اور پوری رات کئی گھنٹے ٹھنڈ اور بے کیف کمروں میں گزارتے تھے۔ اس طرح کا دقیانوسی مشاہداتی طریقہ بہت ہی ناکارہ ہوتا تھا اور اکثر اس سے ان ماہرین فلکیات کے درمیان کشیدگی پیدا ہو جاتی تھی جو یہ سمجھتے تھے کہ دوربین پر کام کرنے والے کچھ ماہرین فلکیات کی اجارہ داری قائم ہے۔ یہ تمام چیزیں انٹرنیٹ اور تیز رفتار کمپیوٹر کے آنے کے بعد سے تبدیل ہو گئیں۔ آج زیادہ تر دوربینیں مکمل طور پر خود مختار ہیں اور ہزار ہا میل دور مختلف براعظموں میں بیٹھے ہوئے ماہرین فلکیات ان کو اپنے مطابق پروگرام کرنے کے قابل ہیں۔ اس طرح کے زبردست ستاروں کے سروے کو ڈیجیٹلائیز کر کے انٹرنیٹ پر رکھا جا سکتا ہے جہاں طاقت ور فوق کمپیوٹر اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل طریقے کی ایک اچھی مثال سیٹی ایٹ ہوم ہے جو برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کا منصوبہ ہے ۔ اس کا مقصد ماورائے ارضی دانش کا سراغ لگانا ہے۔ آریسبو ریڈیائی دوربین جو پورٹوریکو میں واقع ہے وہ اطلاعات کو چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر دنیا بھر میں موجود ذاتی کمپیوٹرز پر شوقیہ افراد کو بذریعہ انٹرنیٹ بھیجتی ہے۔ ایک سافٹ ویئر پروگرام اس وقت اشاروں کا تجزیہ کرتا ہے جب کمپیوٹر پر فارغ ہوتا ہے۔ اس طریقہ کا استعمال کرکے گروپ نے دنیا کا سب سے بڑا کمپیوٹر جال بنا لیا ہے جس میں دنیا کے ہر خطے کے لگ بھگ ٥٠ لاکھ کمپیوٹر جڑے ہوئے ہیں۔
کائنات کے کھوج کی آج کی سب سے نمایاں ڈیجیٹل مثال سلون اسکائی سروے ہے جو رات کے آسمان کا اب تک ہونے والا سب سے بلند حوصلہ سروے ہے ۔ پہلے کے پالومار اسکائی سروے کی طرح جو ضخیم اطلاعات کو پرانے طریقے کی ضیائی پلیٹوں کا استعمال کرتے ہوئے ذخیرہ کرتا تھا، سلون اسکائی سروے آسمان کے فلکی اجسام کا ایک درست نقشہ بنائے گا۔ سروے دور دراز کی کہکشاؤں کا ایک سہ جہتی پنچ رنگی نقشہ بنائے گا جس میں دس لاکھ سے زیادہ کہکشاؤں کی سرخ منتقلی بھی شامل ہوگی۔ سلون اسکائی سروے کا نتیجہ کائنات کی بڑی ساختوں کے نقشے کی صورت میں حاصل ہوگا جو پرانی کوششوں کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ بڑا ہے۔ یہ آسمان کے چوتھائی حصّے کے نقشے کو کافی مفصل انداز میں مرتب کر لے گا ساتھ ساتھ یہ دس کروڑ فلکی اجسام اور ایک لاکھ کوزار کا محل وقوع کا بھی تعین کرے گا۔ اس سروے سے حاصل ہونے والی کل معلومات 15ٹیرا بائٹ ہوگی یہ اطلاعات کا وہ بھنڈار ہے جس کا مقابلہ صرف لائبریری آف کانگریس ہی کر سکتی ہے۔
سلون اسکائی سروے کا دل 2.5 میٹر دوربین ہے جو جنوبی نیو میکسیکو میں واقع ہے اس میں اب تک کے سب سے جدید کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ اس میں تیس نازک برقی روشنی حساسئے لگے ہوئے ہیں جن کو سی سی ڈی (بار والے جوڑی دار آلات ) کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک ٢ مربع انچ کا ہوتا ہے جس کو خلائی جگہ میں بند کیا ہوتا ہے۔ ہر حساسئے کو منفی 80 سینٹی گریڈ پر مائع نائٹروجن کی مدد سے ٹھنڈا رکھا جاتا ہے اس میں ہر ایک میں 40 لاکھ تصویری عناصر موجود ہوتے ہیں۔ دوربین میں جمع ہوتی تمام روشنی فی الفور ہی سی سی ڈی کے ذریعہ ڈیجیٹلائیز ہو جاتی ہے اور براہ راست کمپیوٹر پر عمل کاری کے لئے منتقل ہو جاتی ہے۔ صرف 2 کروڑ ڈالر سے بھی کم لاگت سے یہ سروے کائنات کی ایک مبہوت کر دینے والی تصویر پیش کرتا ہے اس کی لاگت ہبل خلائی دوربین کے مقابلے میں سو گنا کم ہے۔
یہ سروے پھر کچھ ڈیجیٹلائیز اطلاعات کو انٹرنیٹ پر شایع کرتا ہے جہاں تمام دنیا کے ماہرین فلکیات اس کے مطالعہ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سے ہم دنیا کے سائنس دانوں کی ذہانت کا استعمال نہایت اچھے طریقے سے کر لیتے ہیں۔ ماضی میں تیسری دنیا کے لوگ تازہ ترین دوربینی اطلاعات اور تازہ سائنسی جریدوں تک رسائی نہیں رکھ سکتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہاں موجود لوگوں کی سائنسی فطانت ضائع ہو رہی تھی۔ اب انٹرنیٹ کی وجہ سے وہ آسمانی سروے کے اعداد و شمار حاصل کر سکتے ہیں ساتھ ساتھ وہ انٹرنیٹ پر چھپنے والے مضامین بھی پڑھ سکتے ہیں بلکہ اپنے مضامین کو بھی انٹرنیٹ پر روشنی کی رفتار سے شایع کر سکتے ہیں۔
سینکڑوں ہزارہا کہکشاؤں کے تجزیے سے حاصل کردہ نتائج جو چند برس پہلے تک حاصل کرنا ممکن نہ تھے اب حاصل کرنا ممکن ہو گئے تھے ،سلون اسکائی سروے نے فلکیات میں کام کرنے کے طریقے کو بدل دیا ہے۔ مثال کے طور پر مئی 2003ء میں اسپین ، جرمنی، اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اس بات کا اعلان کیا کہ انہوں نے 250 لاکھ کہکشاؤں کا تجزیہ تاریک مادّے کے ثبوت کو حاصل کرنے کے لئے کیا۔ اس بڑے عدد میں سے انہوں نے تین ہزار ایسی کہکشاؤں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جہاں ستاروں کے جھرمٹ ان کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ ان سیارچوں کی حرکت کا نیوٹن کے قانون حرکت کی مدد سے تجزیہ کرنے کے بعد انہوں نے تاریک مادّے کی مقدار کا حساب لگایا جس کو لازمی طور پر مرکزی کہکشاں کے گرد ہونا چاہئے تھا۔ اس سے پیش تر یہ سائنس دان مخالف نظریے کو رد کر چکے تھے۔ (ایک متبادل نظریہ جس کو پہلی مرتبہ 1983ء میں پیش کیا گیا تھا اس میں کہکشاؤں میں موجود ستاروں کے مداروں میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلی کو نیوٹن کے قوانین میں تبدیلی کرکے بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ شاید تاریک مادّہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتا ہو بلکہ یہ سب صرف نیوٹن کے قانون میں موجود کسی غلطی کا شاخسانہ ہو۔ سروے سے حاصل کردہ اطلاعات نے اس نظریے پر شبہات ڈال دیئے۔)
جولائی 2003ء میں جرمنی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک اور سائنس دانوں کی ٹیم نے اعلان کیا کہ انہوں نے 120 ہزار قریبی کہکشاؤں کا تجزیہ سلون اسکائی سروے کو استعمال کرتے ہوئے کیا تاکہ ان میں موجود بلیک ہولز کا تعلق ان سے بیان کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ کون پہلے آیا، بلیک ہول یا وہ کہکشاں جس میں وہ رہتے ہیں؟ اس تجزیہ نے اس جانب اشارہ کیا کہ کہکشاں اور بلیک ہول کی پیدائش میں بہت ہی گہرا تعلق ہے اور شاید یہ دونوں ایک ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ان ایک لاکھ بیس ہزار کہکشاؤں میں سے 20 ہزار کہکشائیں ایسی ہیں جن کے بلیک ہولز اب بھی نشو نما پا رہے ہیں (ملکی وے کہکشاں کے برعکس جس کا بلیک ہول کافی خاموش لگتا ہے)۔ نتائج نے بتایا کہ ان کہکشاؤں میں جن کے بلیک ہولز اب بھی بڑھتے جا رہے ہیں وہ ملکی وے کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑے ہیں اور وہ کہکشاں کی ٹھنڈی گیس کو ہضم کرکے بڑھ رہے ہیں۔
ایک اور طریقہ ہے جس میں بصری خوردبین نے لیزر کے استعمال کے ذریعہ کرۂ فضائی میں ہونے والے بگاڑ کی تلافی کی ہے۔ ستارے اس لئے نہیں جھلملاتے کہ وہ مرتعش ہیں؛ ستاروں کے جھلملانے کی اہم وجہ کرۂ فضائی میں ہونے والے چھوٹے یا معمولی اتار چڑھاؤ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیرونی خلاء میں کرۂ فضائی سے دور ستارے ہمارے خلا نوردوں کو مسلسل گھورتے رہتے ہوں گے۔ ہرچند کہ ستاروں کے اس جھلملانے سے ہی رات کے آسمان کی خوبصورتی قائم ہے تاہم فلکیات دانوں کے لئے یہ ایک بھیانک خواب کی طرح ہے جس کی وجہ سے ان کو فلکی اجسام کی دھندلی تصاویر حاصل ہوتی ہیں۔( جب میں بچہ تھا مجھے یاد ہے کہ میں سیارہ مریخ کی دھندلی تصویر کو دیکھتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ کوئی ایسا طریقہ ہو جس کے ذریعہ اس کی واضح اور صاف تصویر حاصل ہو سکے۔ صرف اگر کرۂ فضائی سے ہونے والے خلل کو روشنی کی کرنوں کو ازسرنو ترتیب دے کر ختم کر دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ ماورائے ارضی حیات کا راز شاید حل ہو سکتا ہے۔)
اس دھندلاہٹ کو ختم کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ لیزر اور تیز رفتار کمپیوٹر کا استعمال اس خلل کو ختم کرنے کے لئے استعمال کیا جائے ۔ یہ طریقہ "توافقی بصریات" کا استعمال کرتا ہے۔ جس کو میرے ہارورڈ کے ہم جماعت رفیق کار کلیئر میکس اور دیگر نے عظیم الجثہ(دنیا کی سب سے بڑی) ڈبلیو ایم کیک دوربین ہوائی اور ایک چھوٹی تین میٹر شین دوربین جو کیلی فورنیا کی لک رصدگاہ میں موجود ہے ، کو استعمال کرکے بنایا ہے۔ مثال کے طور لیزر کی ایک کرن کو خلاء میں پھینک کر ہم کرۂ فضائی کا درجہ حرارت ناپ سکتے ہیں۔ بعد ازاں اس اطلاع کو کمپیوٹر کے ذریعہ جانچ سکتے ہیں اور پھر دوربین کے عدسوں میں تھوڑی سی موافقت پیدا کرکے ستاروں کی روشنی میں پیدا ہونے والے خلل کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ اس طرح سے کوئی بھی کرۂ فضائی میں موجود زیادہ تر شور کو ختم کر سکتا ہے۔
اس طریقے کو کامیابی کے ساتھ 1996ء میں جانچا گیا اور تب سے یہ سیاروں، ستاروں اور کہکشاؤں کی بالکل صاف تصاویر پیش کر رہا ہے۔ اس نظام میں ایک ہم آہنگ رنگی لیزر کی شعاع آسمان میں داغی جاتی ہے جو 18 واٹ کی قوّت استعمال کرتی ہے۔ اس لیزر کو ایک 3 میٹر کی دوربین کے ساتھ منسلک کیا ہوتا ہے جس کے بگڑے ہوئے عدسے فضائی خلل سے موافقت پیدا کرنے کے لئے صحیح کئے جاتے ہیں۔ تصویر سی سی ڈی کیمرے پر لی جاتی ہے اور پھر اس کو ڈیجیٹلائیز کر دیا جاتا ہے۔ معقول لاگت کے ساتھ اس نظام سے حاصل کردہ تصاویر کا معیار ہبل خلائی دوربین سے حاصل ہونے والی تصاویر جیسا ہے۔ کوئی بھی اس کے ذریعہ بیرونی سیاروں کو باریکی سے یہاں تک کہ اس طریقہ کا استعمال کرکے کوئی کوزار کے قلب میں بھی جھانک سکتا ہے۔ اس طرح سے بصری دوربینوں کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔
اسی طریقے سے کیک دوربین سے حاصل ہونے والی تصاویر کے معیار کو دس گنا زیادہ بہتر کیا گیا ہے۔ کیک رصدگاہ ہوائی کے غیر متحرک آتش فشاں مونا کیا کی چوٹی پر سمندر کی سطح سے لگ بھگ 14 ہزار فٹ اوپر دو جڑواں دوربینوں پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک کا وزن 270 ٹن ہے۔ ہر آئینہ 10میٹر 394 انچ) پر پھیلا ہوا ہے جو 36 مسدسی ٹکڑوں سے مل کر بنا ہے ، ان میں سے ہر انفرادی حصّے کو الگ سے کمپیوٹر کے ذریعہ چلایا جا سکتا ہے۔ 1999ء میں ایک توافقی بصریات کا نظام کیک دوم میں لگایا گیا جو چھوٹے قابل توافق آئینے تھے جو اپنی ساخت کو 670 مرتبہ فی سیکنڈ بدل سکتے تھے۔ اس سے قبل اس نظام نے ملکی وے کہکشاں کے قلب میں موجود بلیک ہول کے گرد چکر لگانے والے ستاروں، نیپچون کی سطح، اور ٹائٹن (زحل کا ایک چاند) یہاں تک کہ ایک ماورائے شمسی سیارے جو اپنے مرکزی ستارے کو گہن لگا رہا تھا اور زمین سے 153 نوری برس کے فاصلے پر موجود تھا کی تصاویر حاصل کی تھیں۔ ستارے HD 209458 سے آتی ہوئی روشنی اسی طرح مدھم ہوئی جیسا کہ اندازہ لگایا گیا تھا کیونکہ سیارہ ستارے کے سامنے حرکت کر رہا تھا۔
ریڈیائی دوربینوں میں کمپیوٹر کے انقلاب کے ساتھ دوبارہ نئی روح پھونک دی گئی ہے۔ ماضی میں ریڈیائی دوربینوں کی قرص کے حجم کے وجہ سے ایک حد تک ہوتی تھی۔ جتنی بڑی قرص ہوتی اتنا زیادہ ہی ریڈیائی اشارے خلاء سے حاصل ہو کر ان کا تجزیہ کیا جا سکتا تھا۔ تاہم جتنی بڑی قرص ہوتی یہ اتنی ہی مہنگی ہوتی چلی جاتی۔ اس مسئلے سے جان چھڑانے کے لئے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کافی قرصوں کو ملا کر ایک فوق ریڈیائی دوربین کی نقل کی جائے ۔( جوڑ کر سب سے بڑی ریڈیائی دوربین جو زمین پر بنائی جا سکتی ہے اس کا حجم زمین کے جتنا ہو سکتا ہے)۔ جرمن، اٹلی اور ریاست ہائے متحدہ میں جوڑ کر ریڈیائی دوربینیں بنانے کی کوشش جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔
اس طریقے میں جو ایک مسئلہ ہے وہ یہ کہ کافی ریڈیائی دوربینوں سے آنے والے اشاروں کو لازمی طور پر درستگی کے ساتھ ملا کر کمپیوٹر میں ڈالنا ہوتا ہے۔ ماضی میں یہ کام جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ تاہم انٹرنٹ اور سستے تیز رفتار کمپیوٹر کی آمد کے بعد اس کی لاگت کافی زیادہ کم ہو گئی ہے۔ آج زمین کے حجم کی ریڈیائی دوربین بنانا کوئی دیوانے کی بڑ نہیں ہے۔
ریاست ہائے متحدہ میں سب سے زیادہ جدید آلہ جو اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے وہ ولبا (بہت لمبی خطی قطار - Very Long Basline Array) ہے جو دس مختلف جگہوں پر موجود ریڈیائی اینٹینوں کا مجموعہ ہے ۔ یہ دس انٹینے نیو میکسیکو، ایریزونا، نیو ہیمپشائر، واشنگٹن، ٹیکساس ، ورجن آئی لینڈ اور ہوائی میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ولبا اسٹیشن میں ایک دیوہیکل 82 فٹ نصف قطر کی قرص لگی ہوئی ہے جس کا وزن 240 ٹن ہے اور یہ اتنا بلند ہے جتنی کہ ایک دس منزلہ عمارت بلند ہو سکتی ہے۔ ریڈیائی اشارے ہر سائٹ پر انتہائی احتیاط سے ٹیپ پر درج ہوتے ہیں جن کو پھر سوکورو آپریشن سینٹر ، نیو میکسیکو میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں پر ان کو ایک دوسرے کے مطابق بنا کر تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس نظام نے 1993ء سے کام کرنا شروع کیا ہے اور اس پر لاگت 8 کروڑ 50 لاکھ کی آئی ہے۔
ان دس قرصوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار میں مطابقت پیدا کر کے یہ ایک ایسی موثر ، دیوہیکل ریڈیائی دوربین بناتی ہے جو 5 ہزار میل پر پھیلی ہوئی ہو اور زمین پر کچھ بہترین تصاویر بنا سکتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ آپ اس کے ذریعہ نیو یارک میں بیٹھ کر لوس اینجیلس میں رکھا ہوا اخبار پڑھ سکتے ہیں۔ ولبا کونیاتی دھاروں اور سپرنووا دھماکوں کی فلم بنا چکی ہے اور ملکی وے سے باہر موجود ایک جسم کا فاصلہ اتنی درستگی کے ساتھ ناپا ہے کہ اس سے پہلے کسی نے اتنی درستگی کے ساتھ نہیں ناپا تھا۔
مستقبل میں بصری دوربینیں بھی تداخل پیما کی طاقت کا استعمال کر سکیں گی ہرچند روشنی کی چھوٹی طول موج کی وجہ سے ایسا کرنا انتہائی مشکل کام ہوگا۔ ایک منصوبہ موجود ہے جس میں ہوائی میں موجود کیک رصدگاہ کی دو دوربینوں سے حاصل کردہ بصری اطلاعات کو لے کر ان میں مداخلت کرکے ایک ایسی دیوہیکل دوربین بنائی جائے گی جو ان دونوں سے کہیں زیادہ بڑی ہوگی۔
تاریک مادّے اور بلیک ہولز کی تلاش کے ساتھ طبیعیات دانوں کے لئے جو سب سے حیرت انگیز تلاش ہے وہ مکان و زمان کی بلند جہتوں کی ہے۔ بولڈر میں واقع یونیورسٹی آف کولوراڈو میں قریبی کائنات کے وجود کی تصدیق کی ایک جرات مند کوشش کی جاچکی ہے۔ وہاں پر سائنس دانوں نے نیوٹن کے مشہور قانون معکوس مربع میں ہونے والے انحراف کو ناپنے کی کوشش کی ہے۔
نیوٹن کے قوّت ثقل کے قانون کے مطابق دو اجسام کے درمیان قوّت کشش ان کو الگ کرنے کے فاصلے کے مربع سے کم ہوگی۔ اگر آپ سورج کا زمین سے فاصلہ دوگنا کر دیں تو قوّت ثقل چار گنا کم ہو جائے گی۔ اس کا استعمال کرتے ہوئے خلاء کی جہتوں کو ناپا جا سکتا ہے۔
اب تک نیوٹن کی قوّت ثقل کا قانون کہکشاؤں کے بڑے جھرمٹوں کے فلکیاتی فاصلوں پر بالکل ٹھیک کام کر رہا ہے۔ تاہم کسی نے اسے صغیر پیمانے پر اس لئے مناسب طور سے نہیں جانچا کیونکہ ایسا کرنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ کیونکہ قوّت ثقل اتنی کمزور طاقت ہے کہ چھوٹا سا خلل بھی تجربہ کو خراب کر سکتا ہے۔ یہاں تک کے قریبی گزرتی ہوئی گاڑیوں سے ہونے والی ارتعاش بھی اس قدر ہوگی کہ وہ دو چھوٹے اجسام کے درمیان قوّت ثقل کو زائل کر دے گی۔
کولوراڈو میں طبیعیات دانوں نے ایک انتہائی نازک آلہ بنایا ہے جس کو بلند تعدد ارتعاش مضراب کا نام دیا گیا ہے یہ اس قابل ہے کہ قوّت ثقل کو ایک ملی میٹر کے دسویں حصّے تک ناپ سکے ۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس کو اتنے چھوٹے پیمانے پر کیا جا سکتا ہے۔ ایک سرکنڈے کو ایک حاضر فی چکر کے تعدد ارتعاش پر مرتعش کیا جاتا ہے جو غوطہ لگانے والے تختے کی طرح لگتا ہے۔ طبیعیات دان پھر اس ارتعاش کو دیکھتے ہیں جو خالی جگہ سے ہوتے ہوئے دوسرے سرکنڈے کی طرف ارسال ہوتے ہیں ۔ آلہ اس قدر حساس ہے کہ یہ دوسرے سرکنڈے میں ہونے والی حرکت کا اتنا سراغ لگا سکتا ہے جو ایک ریت کے ذرّے سے پیدا ہونے والی قوّت کا ایک اربواں حصّہ کا ہو۔ اگر نیوٹن کے قوّت ثقل کے قانون میں ذرا سا بھی انحراف ہوتا تو دوسرے سرکنڈے میں ہونے والا ہلکا سا انحراف بھی درج ہو جانا چاہئے تھا۔ بہرحال فاصلے کو ایک میٹر کے دس کروڑ اسی لاکھ حصّے تک کم کرنے کے باوجود بھی طبیعیات دانوں نے اس طرح کا کوئی انحراف نہیں درج کیا۔ "اب تک نیوٹن تو میدان میں جما ہوا ہے ،" اٹلی کی یونیورسٹی آف ٹرینٹو کے سی ڈی ہوئیل کہتے ہیں جنہوں نے نیچر جریدے کے لئے اس تجربہ کا تجزیہ کیا تھا۔
یہ نتیجہ منفی نکلا، تاہم اس نے طبیعیات دانوں کی اشتہاء کو بڑھایا ہے جو اب نیوٹن کے قانون کو خرد بینی سطح پر لے کر جانچنا چاہتے ہیں۔
ایک اور تجربہ پرڈیو یونیورسٹی میں کرنے کا منصوبہ ہے۔ طبیعیات دان نیوٹن کی قوّت ثقل کے قانون میں انحراف ملی میٹر سطح کے بجائے جوہری پیمانے پر ناپنا چاہتے ہیں۔ ان کا منصوبہ نینو ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے نکل ٥٨ اور نکل ٦٤ کے درمیان فرق کو ناپنا ہے۔ یہ دونوں ہم جا ایک جیسی برقی اور کیمیائی خصوصیات رکھتے ہیں تاہم ایک ہم جا کا دوسرے کے مقابلے میں ٦ نیوٹران زیادہ ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر ان دونوں ہم جاؤں میں فرق صرف ان کے وزن کا ہے۔
یہ سائنس دان کیسمیر آلہ بنانے کا سوچ رہے ہیں جو دو معتدل پلیٹوں کے جوڑوں پر مشتمل ہوگی جن کو ان دونوں ہم جاؤں سے بنایا گیا ہوگا۔ عام طور پر جب یہ پلیٹ ایک ساتھ رکھی جاتی ہیں تو بار نہ ہونے کی وجہ سے کچھ وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ تاہم اگر ان کو ایک دوسرے کے بہت ہی قریب کیا جائے تو کسیمیر اثر وقوع پذیر ہوگا اور دونوں پلیٹیں ہلکا سا ایک دوسرے پر کشش ڈالیں گی یہ ایک ایسا اثر ہوگا جس کو تجربہ گاہ میں ناپا جا سکتا ہے۔ تاہم کیونکہ ہر متوازی پلیٹس کا جوڑا مختلف نکل کے ہم جاؤں سے مل کر بنتا ہے لہٰذا یہ تھوڑا سا مختلف طریقے سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوں گی جس کا انحصار ان کی قوّت ثقل پر ہوگا۔
کسیمیر اثر کو افزودہ کرنے کے لئے پلیٹوں کو ایک دوسرے کے انتہائی قریب کرنا ہوگا ۔ (اثر کو فاصلے کی مربع کی قوّت نما چار کی طاقت کی نسبت سے ہونا چاہئے، لہٰذا اثر کو اس وقت تیزی سے بڑھنا چاہئے جب یہ پلیٹ ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہوں گی۔ پر ڈیو کے طبیعیات دان نینو ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے تاکہ پلیٹوں کو جوہری پیمانے کے فاصلے پر الگ کر سکیں۔ اس کام کے لئے وہ اختراعی خرد برقی میکانکی مروڑی جھولا استعمال کریں گے تاکہ پلیٹوں کے درمیان ہلکے جھولوں کو ناپ سکیں۔ نکل 58 اور نکل 64 کے درمیان کوئی بھی فرق قوّت ثقل کی وجہ سے ہی ہوگا۔ اس طرح سے وہ امید کرتے ہیں کہ نیوٹن کے قانون حرکت میں ہونے والے انحراف کو جوہری پیمانے پر ناپ سکیں گے۔ اگر انہوں نے نیوٹن کے مشہور زمانہ قانون معکوس مربع میں ہونے والے انحراف کو اس اختراعی آلے کی بدولت ناپ لیا تو یہ ایک طرح سے بلند جہتوں والی کائنات کی موجودگی کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جو ہماری کائنات سے جوہروں کے پیمانے پر الگ ہے۔
پی ڈی ایف تو نہیں تاہم ایم ایس ورڈ کی فائل ہے وہ ارسال کرتا ہوں۔ ابھی دوسرے کمپیوٹر سے لاگ ان ہوں۔
ویسا اچھا ہوا کہ آپ نے خود ہی فائل کا کہہ دیا ورنہ میں خود کہنا چاہ رہا تھا کہ جس طرح سے ناممکن کی طبیعیات پر آپ نے نظر ثانی کی ہے اس کتاب پر بھی کردیجئے گا ۔