مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اصلاح کے بعد۔

مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

آیا ہے لوٹ کر جو، وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

اُتری نہیں تھی پچھلے سفر کی ابھی تھکان
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے
 

اشرف علی

محفلین

یاسر شاہ

محفلین
@الف عین ، @یاسر شاہ
السلام علیکم روفی بھائی

مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

دوسرے مصرع کے مقابلے میں پہلا مصرع کمزور لگ رہا ہے -جبکہ مطلع کا مصرع اولیٰ غزل کے عنوان کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ غزل کا نظم کی طرح الگ سے کوئی عنوان نہیں ہوتا -مصرع کے کمزور ہونے کی دلائل درج ذیل ہیں -

وسوسے ڈالنا ،کسی کے دل میں وسوسے ڈالنا وغیرہ تو فصیح ہے مگر کسی کو وسوسوں میں ڈال دینا میری نا قص رائے میں غیر فصیح ہے اگر آپ نے کہیں شعرا کے ہاں پڑھا ہو تو ضرور پیش کیجیے گا تاکہ سیکھنے سکھانے کا سلسلہ چلے -پھر :مرے چارہ گر: میں :مرے : زائد از ضرورت ہے کہ یہ تو ظاہر ہے کہ آپ اپنے ہی چارہ گر سے مخاطب ہو کر شکوہ کر رہے ہیں -ایک اور مزاحیہ نکتہ یہ ہے کہ آپ نے یوں لگتا ہے :شیطان : کو چارہ گر بنا رکھا ہے کہ وسوسے ڈالنا تو اسی کا کام ہے یا پھر چارہ گر شیطانیاں کر رہا ہے -

یوں بھی شعر کی ایک ممکنہ صورت ہو سکتی ہے :

شب سے بھی نا امید نہ کر چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے
=======

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

واہ صاحب ما شاء الله -یعنی کہ دوری سے گھبرانا کیسا ، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگیں گے ،آنسوؤں میں اپنا خون جگر پیش کریں گے ان شاء الله منزل آسان ہو جائے گی -
==============
جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

:عمروں: ذوق کو کھٹک رہا ہے ،:فاصلوں: میں جو ایک عمومیت ہے وہ :عمروں :میں نہیں -ہاں :مدتوں : میں ایسی عمومیت ہے -دیکھیے یہ ایک صورت :

ایسے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
ہیں مدتوں کے فاصلے بھی مختصر مجھے

آپ: ایسے: کی جگہ :جب سے : بھی رکھ سکتے ہیں -
خیال بھی خوب ہے -ایک ساتھی سے بات ہو رہی تھی ،کہہ رہے تھے وقت بھی کس تیزی سے گزر رہا ہے، کل ہی کی بات لگتی ہے کہ جوان تھے ،آج ہمارے بچے جواں ہو گئے ہیں اور ہم بوڑھے ،تو میں نے ان سے کہا دیکھیے وقت کے تیزی سے گزرنے میں جہاں ایک پہلو غم کا ہے وہاں خوشی کا بھی تو ہے کہ ہم جیسے تیسے گناہ گار ہی سہی ہمارے الله تعالیٰ سے ملاقات کے دن قریب آ رہے ہیں-الله تعالیٰ قیامت کی رسوائیوں سے ہمیں محفوظ رکھے -آمین
=================
لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

یہاں پہلے مصرع میں ذوق :بھی : کا متلاشی ہے کہ ہم کہا ہی کرتے ہے کہ میاں جانور :بھی: اپنے مالک کا خیال کرتا ہے تم تو انسان ہو اشرف المخلوق-پھر :شکم سیر: کہنا بھی اضافی بات ہے،اپنے قاری کو کند ذہن نہ سمجھیں کہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے ،پرندے صبح خالی پیٹ گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر ہی لوٹتے ہیں -اسی طرح دوسرے مصرع میں: لیکن: بھی اضافی ہے کہ آپ ایک مصرع میں پرندے اور دوسرے مصرع میں انسان کا تقابلی جائزہ ہی پیش کر رہے ہیں -ان الفاظ کی جگہ کچھ اور معنی خیز لفظ سوچے جا سکتے ہیں -ایک صورت یہ دیکھیے :

لوٹ آتے ہیں پرندے بھی ہر شام اپنے گھر
دائم تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

اب پردیس کا غم ذرا اور واضح ہو گیا کہ ایک تو گھر سے دوری یعنی در بدری اور پھر وہ بھی دائمی -
=======================

آیا ہے لوٹ کر جو، وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

واہ -بہت خوب -ما شاء الله
=========================

اُتری نہیں تھی پچھلے سفر کی ابھی تھکان
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے

واہ -خوب -بس :اتری نہیں تھی : کی جگہ :اتری نہ تھی : ہونا چاہیے ،ایسا کرنے کے لیے آپ کو : پچھلے : کی جگہ :گزشتہ : لانا پڑے گا اور :تھکن : ہی مناسب ہے -
یا پھر یہ صورت بھی ہو سکتی ہے مصرع کی :اتری کہاں تھی ایک سفر کی ابھی تھکن :
 

La Alma

لائبریرین
اصلاح کے بعد۔

مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

آیا ہے لوٹ کر جو، وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

اُتری نہیں تھی پچھلے سفر کی ابھی تھکان
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے
بہت خوب!
عمدہ کاوش ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
السلام علیکم روفی بھائی

مت ڈال وسوسوں میں مرے چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے

دوسرے مصرع کے مقابلے میں پہلا مصرع کمزور لگ رہا ہے -جبکہ مطلع کا مصرع اولیٰ غزل کے عنوان کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ غزل کا نظم کی طرح الگ سے کوئی عنوان نہیں ہوتا -مصرع کے کمزور ہونے کی دلائل درج ذیل ہیں -

وسوسے ڈالنا ،کسی کے دل میں وسوسے ڈالنا وغیرہ تو فصیح ہے مگر کسی کو وسوسوں میں ڈال دینا میری نا قص رائے میں غیر فصیح ہے اگر آپ نے کہیں شعرا کے ہاں پڑھا ہو تو ضرور پیش کیجیے گا تاکہ سیکھنے سکھانے کا سلسلہ چلے -پھر :مرے چارہ گر: میں :مرے : زائد از ضرورت ہے کہ یہ تو ظاہر ہے کہ آپ اپنے ہی چارہ گر سے مخاطب ہو کر شکوہ کر رہے ہیں -ایک اور مزاحیہ نکتہ یہ ہے کہ آپ نے یوں لگتا ہے :شیطان : کو چارہ گر بنا رکھا ہے کہ وسوسے ڈالنا تو اسی کا کام ہے یا پھر چارہ گر شیطانیاں کر رہا ہے -

یوں بھی شعر کی ایک ممکنہ صورت ہو سکتی ہے :

شب سے بھی نا امید نہ کر چارہ گر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے
=======

منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے

واہ صاحب ما شاء الله -یعنی کہ دوری سے گھبرانا کیسا ، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگیں گے ،آنسوؤں میں اپنا خون جگر پیش کریں گے ان شاء الله منزل آسان ہو جائے گی -
==============
جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
عمروں کے فاصلے بھی لگیں مختصر مجھے

:عمروں: ذوق کو کھٹک رہا ہے ،:فاصلوں: میں جو ایک عمومیت ہے وہ :عمروں :میں نہیں -ہاں :مدتوں : میں ایسی عمومیت ہے -دیکھیے یہ ایک صورت :

ایسے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
ہیں مدتوں کے فاصلے بھی مختصر مجھے

آپ: ایسے: کی جگہ :جب سے : بھی رکھ سکتے ہیں -
خیال بھی خوب ہے -ایک ساتھی سے بات ہو رہی تھی ،کہہ رہے تھے وقت بھی کس تیزی سے گزر رہا ہے، کل ہی کی بات لگتی ہے کہ جوان تھے ،آج ہمارے بچے جواں ہو گئے ہیں اور ہم بوڑھے ،تو میں نے ان سے کہا دیکھیے وقت کے تیزی سے گزرنے میں جہاں ایک پہلو غم کا ہے وہاں خوشی کا بھی تو ہے کہ ہم جیسے تیسے گناہ گار ہی سہی ہمارے الله تعالیٰ سے ملاقات کے دن قریب آ رہے ہیں-الله تعالیٰ قیامت کی رسوائیوں سے ہمیں محفوظ رکھے -آمین
=================
لوٹ آتے ہیں پرندے شکم سیر شام کو
لیکن تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

یہاں پہلے مصرع میں ذوق :بھی : کا متلاشی ہے کہ ہم کہا ہی کرتے ہے کہ میاں جانور :بھی: اپنے مالک کا خیال کرتا ہے تم تو انسان ہو اشرف المخلوق-پھر :شکم سیر: کہنا بھی اضافی بات ہے،اپنے قاری کو کند ذہن نہ سمجھیں کہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے ،پرندے صبح خالی پیٹ گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر ہی لوٹتے ہیں -اسی طرح دوسرے مصرع میں: لیکن: بھی اضافی ہے کہ آپ ایک مصرع میں پرندے اور دوسرے مصرع میں انسان کا تقابلی جائزہ ہی پیش کر رہے ہیں -ان الفاظ کی جگہ کچھ اور معنی خیز لفظ سوچے جا سکتے ہیں -ایک صورت یہ دیکھیے :

لوٹ آتے ہیں پرندے بھی ہر شام اپنے گھر
دائم تلاشِ رزق رکھے دربدر مجھے

اب پردیس کا غم ذرا اور واضح ہو گیا کہ ایک تو گھر سے دوری یعنی در بدری اور پھر وہ بھی دائمی -
=======================

آیا ہے لوٹ کر جو، وہ جیسے ہو کوئی اور
حیرت سے تک رہے ہیں یوں دیوار و در مجھے

واہ -بہت خوب -ما شاء الله
=========================

اُتری نہیں تھی پچھلے سفر کی ابھی تھکان
پھر اک ستارہ دے گیا اذنِ سفر مجھے

واہ -خوب -بس :اتری نہیں تھی : کی جگہ :اتری نہ تھی : ہونا چاہیے ،ایسا کرنے کے لیے آپ کو : پچھلے : کی جگہ :گزشتہ : لانا پڑے گا اور :تھکن : ہی مناسب ہے -
یا پھر یہ صورت بھی ہو سکتی ہے مصرع کی :اتری کہاں تھی ایک سفر کی ابھی تھکن :
بہت بہتر یاسر بھائی، آپ کی توجہ کا بے حد شکریہ، میں تبدیلیوں کے بعد دوبارہ پیش کرتا ہوں۔
 

مقبول

محفلین
بہت شکریہ صابرہ بہن ، خوش رہیں۔
آپ بھی اب چپ کا روزہ توڑیں اور کچھ سنائیں 🙂
لگتا ہے محمد عبدالرؤوف صاحب کے گھر میں آج کل شانتی ہی شانتی ہے اس لیے صابرہ امین صاحبہ سے کچھ سننا چاہتے ہیں 😄😄
از اراہِ مذاق کہا، سنجیدہ لینے کی کوشش نہ کی جائے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
لگتا ہے محمد عبدالرؤوف صاحب کے گھر میں آج کل شانتی ہی شانتی ہے اس لیے صابرہ امین صاحبہ سے کچھ سننا چاہتے ہیں 😄😄
از اراہِ مذاق کہا، سنجیدہ لینے کی کوشش نہ کی جائے
مقبول بھائی، بہت ہی زیادہ شانتی ہے۔ ایسا کریں کہ کچھ آپ بھی سنا ہی دیں۔۔۔ 😄
 
Top