فارسی شاعری مثنوی مولانا روم کے دفتر چہارم کا اردو ترجمہ

سید رافع

محفلین
'بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اے ضیاء الحق حسام الدین توئی
اے ضیاء الحق حسام الدین تم ہی ہو

کہ گزشت ازمہ بنورت مثنوی
جن سے مثنوی چاند پر سبقت لے گئی
❋❋❋

ہمت عالی تو اے مرتجے
تیری بلند ہمت اے امید دلانے والے

می کشد این را خدا داند کجا
اس کو کہاں تک لے جائے گی خدا ہی جانے
❋❋❋

گردن این مثنوی رابستہء
اس مثنوی کی گردن کو تو نے باندھ لیا ہے

می کشی آں سو کہ تو دانستہء
اسکو جدھر تجھے معلوم ہے کھینچے لیے جاتا ہے
❋❋❋

مثنوی پویاں کشندہ ناپدید
مثنوی دوڑی جاتی ہے اسکو کھنچنے والا غیر ظاہر ہے

ناپدید از جاہلے کش نیست دید
اس نادان ہی کے لیے غیر ظاہر ہے
❋❋❋

مثنوی راچوں تومبدء بودہ
جب مثنوی کی ابتداء تم سے ہوئی ہے

گر فزوں گردد تواش افزودہ
اگر وہ زیادہ ہو جائے تو تم نے اسکو زیادتی بخشی ہے
❋❋❋

تو چنیں خواہی خدا خواہد چنیں
تم ایسا چاہتے ہو تو خدا بھی ایسا چاہتا ہے

می دہد حق آرزوئے متقیں
حق تعالیٰ پرہیزگاروں کی آرزو پوری کرتا ہے
❋❋❋

کان للہ بودہ درما مضےٰ
چنانچہ تم عہد ماضی میں اللہ کے ہو چکے

تاکہ کان اللہ لہ آمد جزا
حتٰی کہ اس کی جزا یہ ٹہری کہ اللہ تمہارا ہو گیا
❋❋❋

 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
مثنوی از تو ہزاراں شکر داشت
مثنوی تمہارا ہزارہا بار شکر ادا کرتی تھی

در دعا و شکر کفہا برفراشت
دعا و شکر کے لیے ہاتھ اٹھاتی تھی
❋❋❋

در لب و گفتش خدا شکرِ تو دید
اس کے لب و گفتار میں اللہ تعالیٰ نے تمہارا شکریہ دیکھا

فضل کردو لطف فرمود و مزید
تو اس نے فضل کیا، مہربانی فرمائی اور زیادتی کی
❋❋❋

زانکہ شکر را زیادت وعدہ است
کیونکہ شاکر کے لیے فراوانی کا وعدہ ہے

آنچنانکہ قرب مزدِ سجدہ است
جیسے کہ سجدہ کی جزاء قرب ہے
❋❋❋

گفت و سجد و اقترب یزدانِ ما
ہمارے اللہ نے فرمایا کہ سجدہ کرو اور قرب حاصل کرو

قربِ جان شد سجدہ ابدانِ ما
ہمارے جسموں کا سجدہ روح کے قرب کا باعث بن گیا
❋❋❋

گر زیادت می شود زیں روبود
اگر مثنوی کے اشعار میں کثرت ہے

نز برائے بوش وہای و ہوبود
تو اسکی وجہ تم ہو نہ کہ اسکا شعری کروفر
❋❋❋

باتو ماچوں رزبتابستاں خوشیم
ہم تمھارے ساتھ اسطرح خوش ہیں جیسے انگوروں کی بیل موسم ربیع میں

حکم حراری ہیں بکش تامی کشیم
تم حکم دیتے ہوں ہاں! کھینچو تو ہم کھینچتے چلے جاتے ہیں
❋❋❋

خوش بکش این کارواں راتابہ حج
اس قافلے کو حج تک بخوبی لے جاؤ

اے امیر الصبر مفتاح الفرج
اے امیر صبر کشائش کی کنجی ہے
❋❋❋

حج زیارت کردنِ خانہ بود
حج خانہ کعبہ کی زیارت ہے

حجِ رب البیت مردانہ بود
پروردگار کا حج مردانہ کام ہے
❋❋❋

زاں ضیا گفتم حسام الدین ترا
اے حسام الدین میں نے تم کو اس لحاظ سے ضیاء الحق کہا

کہ تو خورشیدی و این دو صفہا
کہ تم سورج ہو اور تمہارے یہ دونوں وصف حسام و ضیاء
❋❋❋
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
اے ضیاء الحق حسام الدین توئی
اے ضیاء الحق حسام الدین تم ہی ہو

کہ گزشت ازمہ بنورث مثنوی
جن سے مثنوی چاند پر سبقت لے گئی
❋❋❋

ہمت عالی تو اے مرتجے
تیری بلند ہمت اے امید دلانے والے

می کشد این را خدا داند کجا
اس کو کہاں تک لے جائے گی خدا ہی جانے
پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں بنورث نہیں بنورت ہوگا یعنی تیرے نور سے۔
دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں مرتجے نہیں مرتجا یا مرتجیٰ ہوگا۔ مثنوی میں شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
کاین حسام و این ضیا یک است ہیں
کیوں یہ حسام اور ضیا ایک ہی چیز ہیں

تیغ خورشید از ضیا باشد یقیں
یاد رکھو سورج کی تلوار یقینا ضیا سے ہوتی ہے
❋❋❋

نور ازانِ ماہ باشدویں ضیا
نور چاند کا حصہ ہے

آنِ خورشید ایں فروخواں ازنبا
یہ ضیا سورج کے ساتھ خاص ہے
❋❋❋

شمس را قرآن ضیا خواند اے پدر!
اے بزرگوار! قرآن نے سورج کو ضیا قرار دیا

واں قمر را نورِ خواند این رانگر
اور ادھر چاند کو نور کہا اس پر غور تو کرو
❋❋❋

شمس چوں عالی تر آمد خود زماہ
آفتاب چونکہ چاند سے عالی مرتبہ ہے

پس ضیا از نورِ عالی داشت جاہ
پس ضیا کا درجہ نور سے بلند ہوا
❋❋❋

بس کس اندر نورِ مہ منہج ندید
بہت سے لوگ چاند کی روشنی میں راستہ نہیں دیکھ سکتے


چوں برآمد آفتاب آں شد پدید
جب سورج چڑھتا ہے وہ نمایاں ہو جاتا ہے
❋❋❋

آفتاب اعراض را کامل ندید
سورج وضع بخوبی دیکھاتا ہے

لاجرم بازارہا در روز بود
اسی لیے بازار دن میں لگتے ہیں
❋❋❋

تاکہ قلب و نقد نیک آید پدید
تاکہ کھوٹی کھری چیز صاف سوجھ پڑے

تا بود غبن و از حیلہ بعید
تاکہ دھوکہ کھانے اور دھوکہ دینے سے دور رہے
❋❋❋

تاکہ نورش کامل آید برزمین
حتٰی کہ کامل نور شمس زمین پر آتا ہے

تاجراں را رحمہ للعلمین
تاجروں کے لیے رحمۃ للعالمین بن کر
❋❋❋

لیک برقلاب مبغوض ست سخت
لیکن قلب ساز کو سخت ناگوار ہے

زاں کزوشد کا سد او را نقد و رخت
کیونکہ اس سے اس کی نقدی کھوٹی ثابت ہوئی
❋❋❋
 

فہد اشرف

محفلین
زانکہ شکر را زیارت وعدہ است
کیونکہ شاکر کے لیے زیادتی کا وعدہ ہے
زیادت اور زیادت کا ترجمہ اردو میں زیادتی تھوڑا عجیب سا لگتا ہے کیونکہ اردو میں زیادتی منفی معنی میں مستعمل ہے اس لیے اس کی جگہ اضافہ، کشادگی یا فراوانی زیادہ بہتر معنی دیں گے۔
 

سید رافع

محفلین
پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں بنورث نہیں بنورت ہوگا یعنی تیرے نور سے۔
دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں مرتجے نہیں مرتجا یا مرتجیٰ ہوگا۔ مثنوی میں شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔

میرے نسخے میں بنورث ہی ہے۔ آن لائین فرہنگ میں یہ الفاظ ملے نہیں۔ سو صحت کے لیے فی الحال نسخے پر ہی تو کل کر رہا ہوں۔
 

سید رافع

محفلین
زیادت اور زیادت کا ترجمہ اردو میں زیادتی تھوڑا عجیب سا لگتا ہے کیونکہ اردو میں زیادتی منفی معنی میں مستعمل ہے اس لیے اس کی جگہ اضافہ، کشادگی یا فراوانی زیادہ بہتر معنی دیں گے۔

بہت بہت شکریہ! میں نے تصیح کر دی ہے۔
 

سید رافع

محفلین
پس عدّوِ جان صرّاف ست قلب
پھر کھوٹا سکّہ صراف کا جانی شمن ہے

دشمنِ درویش کہ بود غیرِ کلب
اور درویش کا دشمن سوائے کتے کے کون
❋❋❋


انبیا بادشمناں برمے تنند
انبیا اپنے دشمنوں کے مقابلے پر آرہے ہیں

پس ملائک رَبّ سَلم میزنند
اس لیے فرشتے انکے لیے الہی انکو سلامت رکھ کرتے ہیں
❋❋❋

کایں چراغے را کہ ہست او نور دار
اس چراغ کو جو نور رکھتا ہے

از پف ود مہائے دزداں دور دار
چوروں کی پھونک اور دم سے محفوظ رکھ
❋❋❋

دزد و قلاب ست خصمِ نورو بس
چور اور قلب ساز روشنی کے دشمن ہیں اور کوئی نہیں

زیں دو اے فریاد رس فریاد رس
ان دونوں کے خلاف ہماری فریاد کو پہنچ اے فریاد سننے والے
❋❋❋

روشنی بر دفتر چارم بریز
دفتر چہارم پر انوار ڈال دے

کافتاب از چرخ چارم کرد خیز
کیونکہ آفتاب چوتھے آسمان سے طلوع ہو رہا ہے
❋❋❋

ہیں زچارم نوردہ خورشید وار
ہاں ہاں چوتھے سے آفتاب کی طرح نور عطا فرما

تابتابد بربلا دو بر دیار
تاکہ اس سے ملک اور علاقے درخشاں ہوں
❋❋❋


ہرکِش افسانہ بخواند افسانہ ایست
جس شخص نے اسکو کہانی پڑھا مہمل ہے

وانکہ دیدش نقدِ خود مردانہ ایست
اور جس نے اسکو اپنی حالت کی تصویر پایا وہ جوانمرد ہے
❋❋❋

آبِ نیل ست و بقبطی خود نمود
نیل کا پانی ہے اور قبطی کو دکھائی دیا

قوم موسیٰ را نہ خوں بود آب بود
موسی کی قوم کے لیے خون نہیں پانی ہی تھا
❋❋❋
 

سید رافع

محفلین
پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں بنورث نہیں بنورت ہوگا یعنی تیرے نور سے۔
دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں مرتجے نہیں مرتجا یا مرتجیٰ ہوگا۔ مثنوی میں شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔

نظر کرم کا بہت بہت شکریہ۔ میں نے تصیح کر دی ہے۔
 

سید رافع

محفلین
دشمن ایں خرف ایں دم در نظر
اس تحریر کا دشمن اس وقت ہماری نظر میں

شد ممثل سرنگوں اندر سقر
اسی طرح سرنگوں ہو کر دوزخ میں گیا
❋❋❋


دیدہ غیبت چوں غیب ست اوستاد
تمہاری غیب کی آنکھ عالم غیب کی طرح اوستاد ہے

کم مبادا زیں جہاں ایں دید و داد
یہ مشاہدہ و تصرف دنیا سے ناپید نہ ہو
❋❋❋

آں حکایت را کہ نقدِ وقتِ ماست
اس حکایت کو جو ہمارے وقت کا موجودہ شغل ہے

گرتمامش میکنی اینجا رواست
اگر یہاں پوری کر دو تو اچھا ہے
❋❋❋

ناکساں را ترک کن بہرِ کساں
نالائق لوگوں کو لوگوں کے لیے رہنے دو

قصہ را پایاں برو مخلص رساں
تم قصہ کو خاتمہ پر پہنچاؤ اور خلاصہ پیش کرو
❋❋❋

ایں حکایت گرنشد آنجا تمام
یہ کہانی اگر وہاں پوری نہ ہوسکی تو

چار میں جلدست آرش در نظام
چوتھا دفتر شروع ہے اب اسکو کو ترتیب وار بیان کر دو
❋❋❋
 

سید رافع

محفلین
اندراں بودیم کاں شخص از عسس
ہم اس ذکر میں تھے کہ اس شخص نے کوتوال کے خوف سے

راند اندر باغ از خوفے فرس
باغ کے اندر اپنا گھوڑا داخل کر لیا
❋❋❋

بود اندر باغ آں صاحب جمال
وہ حسینہ اسی باغ میں تھی

کزغمش ایں در عنا بُد پشت سال
جس کے غم کے باعث یہ آٹھ سال تکلیف میں رہا
❋❋❋

سایہ او را نبود امکان دید
اسکے سایہ کا دیدار بھی ممکن نہ تھا

ہمچو عنقا وصف او را می شنید
عنقا کی طرح اسکا وصف ہی سنا کرتا تھا
❋❋❋

جزیکے لُقیہ کہ اول از قضا
سوائے ایک نظر سے جو اتفاق سے اس پر پڑگئی

بروے افتاد و شد اورا دل رُبا
اور وہ اسکی دلربا بن گئی
❋❋❋

بعد ازاں چندانکہ میکوشید او
اس کے بعد وہ شخص ہر چند کوشش کرتا

خو مجالش می نداد آں تُند خو
مگر وہ تُندخو اسکو موقع نہ دیتی
❋❋❋

نے بلابہ چارہ بودش نے بمال
نہ خوشامد کام نکلتا تھا نہ مال سے

سیر چشم و بے طمع بود آں نہال
کیونکہ وہ بوٹا سیر چشم اور بے طمع تھی
❋❋❋

عاشق ہر پیشہ و ہر مطلبے
ہر فن اور ہر مراد کا عاشق

حق بیالود اول کارش لبے
حق تعالٰی اول اسکے لب کو مراد سے آلودہ کر دیتا ہے
❋❋❋

چوں در افتادند اندر جستجو
جب عاشق تلاش میں پڑ جاتے ہیں

بعدازاں دربست و کابیں جُست اُو
تو وہ در بند کر لیتا ہے اور مہر کا مطالبہ کرتا ہے
❋❋❋
 

سید رافع

محفلین
چوں در آں آسیب در جست آمدند
جب عاشق اس کشمکش میں تڑپنے لگتے ہیں

پیشِ پاشاں می نہد ہر روز بند
تو ہر روز ان کے پاؤں میں زنجیر ڈال دیتا ہے
❋❋❋

ہم برآں بومی تنند و میروند
سراغ کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور چلے جاتے ہیں

ہر دمے راجی و آئس می شوند
اور ہر لمحہ امیدوار و ناامید ہوتے رہتے ہیں
❋❋❋

ہر کسے راہست امید برے
ہر شخص کو کچھ نہ کچھ پھل کی امید ہے

کہ کشادندش دراں روزے درے
حتٰی کہ اسکے لیے اس کے متعلق دروازہ کھول دیا جاتا ہے
❋❋❋

باز دربستندش وآں در پرست
پھر اس دروازہ کھلنے کا منتظر پر دروازہ بند کر لیتے ہیں

برہماں امید آتش پا شداست
اور وہ اسی امید بے قرار کہ پاوں کے نیچے آگ ہو
❋❋❋

چوں در آمد خوش در آں باغ آں جواں
جب وہ جوان باغ میں اس خوشی میں آیا تو

خود فروشد یا بگنجش ناگہاں
خوش قسمتی سے اسکا کو پاؤں خزانے میں اتر گیا
❋❋❋

مرعسس را ساختہ یزداں سبب
اللہ تعالٰی نے کوتوال کو سبب بنا دیا

تا ز بیم او رود در باغ شب
تاکہ اسکے خوف سے رات کو باغ میں بھاگ جائے
❋❋❋

بیند آں معشوقہ را او با چراغ
وہ اس معشوقہ کو چراغ کے ساتھ دیکھتا ہے

طالب انگشتری در جوئے باغ
جو اپنی انگوٹھی باغ میں تلاش کر رہی ہے
❋❋❋
 

سید رافع

محفلین
پس قریں میکرد از ذوق آں نفس
پس اس وقت وہ ذوق سے

باثنائے حق دعائے آں عسس
حق تعالٰی کی حمد کے ساتھ کوتوال کو شامل دعا کرتا ہے
❋❋❋


کہ زیاں کردم عسس را از گریز
کہ میں نے بھاگ کر کوتوال کا نقصان کر دیا

ہیست چنداں سیم و زر بروے بریز
اب تو بیس گنا سونا چاندی اس پر ڈال دے
❋❋❋

ازغوانی مرد را آزاد کن
اس کو کوتوالی کی ملازمت سے آزاد کر دے

آنچنانکہ شادم او را شادکن
جس طرح میں خوش ہوں اسکو بھی خوش نصیب کر
❋❋❋

سعد دارش ایں جہاں و آں جہاں
اس کو اِس جہاں اور اُس جہاں میں خوش نصیب رکھ

ازغوانی و سگی اش وارہاں
اسکو کوتوالی اور کتے کی سی زندگی سے نجات دے
❋❋❋

گرچہ خوے آں عوان ہست ایخدا
الہٰی اس کوتوال کی خصلت یہ ہے

کہ ہما رہ خلق را خواہد بلا
کہ ہمیشہ مخلوق کے لیے بلا چاہتا ہے
❋❋❋

گر خبر آید کہ شہ جُرمے نہاد
اگر خبر آئے کہ بادشاہ نے فلاں جرم قرار دیا ہے

برمسلماناں شود او زفت شاد
وہ بڑا خوش ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا
❋❋❋

ور خبر آید کہ شہ رحمت نمود
اور خبر آئے کہ بادشاہ نے رحم کیا

از مسلماناں فگند آں را بُجود
اس کو کرم کی بدولت مسلمانوں سے رفع کیا
❋❋❋

ماتمے در جانِ او افتد ازاں
اس کی جان پر سوگ برپا ہو جاتا ہے

گیردش قولنج ازیں غم در زمان
اور اسی وقت اس غم سے اسکی آنتوں میں گرہ پڑ جاتی ہے
❋❋❋

صد چنیں ادبارہا دارد عواں
کوتوالی میں اس قسم کی سینکڑوں خرابیاں ہیں

زیں بلا فریاد رس اے مستعاں
اے مدد فرمانے والے اس بلا پر ہماری فریاد سن لے
❋❋❋

او عواں را در دعا در میکشید
وہ کوتوال کو اپنی دعا میں شریک کر رہا تھا

کزعون او را چناں راحت رسید
کیونکہ کوتوال سے اسکو ایسی خوشی حاصل ہوئی
❋❋❋
 
Top