پیاسا
معطل
آج کل کچھ لو گ TV پر آ کر عجیب وغریب باتیں کرتے ہیں اور احمقانہ نظریات پھیلاتے ہیں۔ وہ مسلم امہ کے متعلق ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے وہ سارے حقائق سے آشنا ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ان لوگوں کا اس کے سواء کوئی اور کام نہیںکہ مجاہدین کے خلاف زہر اگلیں، ان کو بدنا م کریں، ان پر الزامات لگائیں اور ان کو غدار ثابت کریں۔
ایسے لوگ تعداد میں بڑھ رہے ہیں اور ان کی الزام تراشیاں دوگنی ہو رہی ہیں۔ یہ اپنے الزاما ت کو مثبت تنقید اور مخلص نصےحت سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسے نرم الفاظ استعمال کرتے ہیں جس کے پیچھے ان کی نفرت، دشمنی ، شیطانی چال اور جاہلیت چھپی ہوتی ہے۔
یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ پیچھے رہنے والے ، مجاہدین پر تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جہاد پر جانے والے غلط اور گمراہ ہیں ۔
تم کون ہوتے ہو مجاہدین کے بارے میں ایسی باتیں کرنے والے؟
یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین جو کچھ کر رہے ہیں، ہمارے نزدیک ٹھیک نہیں ہے۔ ان کو جہاد کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر ہی نہیں ہے۔ مجاہدین نے صرف جہاد کو سارا دین بنا رکھا ہے نہ ہی یہ تبلیغ کرنا جانتے ہیں اور نہ ہی کارخانے لگانا جانتے ہیں تو پھر یہ ایک قوم اور ملک کو کس طرح منظم کرکے چلا ئیںگے۔ ان کا سروکار صرف جہاد سے ہے ۔یہ بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں اور اس زمانے کی سمجھ بوجھ تو بالکل نہیں رکھتے۔ اور یہ تو صرف جبر و تشدد کی زبان جانتے ہیں۔
P اور تم کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے کہ کیا ٹھےک ہے اور کیا جائز ہے ؟
تم کون ہو؟ وہ جو پیچھے رہ گئے ہیں؟ تم تو وہ ہو جس نے اﷲکے حکم کی نا فرمانی کی اور جہاد کے فر یضے کو ترک کیاہے۔اب بھی اگر تمہیں شرم نہیں آتی تو پھر کرو جو تمہارا دل چاہے۔
ان کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بھی بندے کو شرم آتی ہے جبکہ کفار کے مردہ لاشیں ہم سب کے سامنے ہیں جن کا برا حشر ان مجاہدین نے کیا ہوتا ہے۔ کیا ان مردہ لاشوں کی تصویریں خود نہیں بول رہی ہیں؟ اگر ہمیں کچھ سادہ لوح لوگوں کے گمراہ ہونے کا شبہ نہ ہوتا تو ہم ان احمقوں کے الزامات کا جواب ہی نہیں دیتے۔اس لئے کہ اگر سواری بوڑھی ہو تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس پر سواری کی جائے۔
تو آ یئے ان تنقید نگاروں کے ساتھ قدم بہ قدم چلتے ہیں اور ان کے ہر سوال کا جواب دیتے ہیں جو صرف سادہ اور جاہل لوگو ں کو دھوکہ دینے کے لئے ہوتے ہیں۔
الزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین ایک ادارہ تک قائم نہیں کر سکتے تو یہ ملک کیسے چلائیں گے؟
P اور تمہیں یہ کس نے بتا یا ہے کہ مجاہدین جہاد کے لئے اس لئے نکلے ہیں کہ ادارے قائم کریں؟ وہ تو اس لئے نکلے ہیں کہ کفار کے گلے کاٹیں اور ان کے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کریں۔ وہ تو اس لئے نہیں نکلے کہ ایک سکول بنائیں یا ثقافتی تنظیمیں بنائیں۔ مجاہدین تو لڑنے والے لوگ ہیں جو صرف حملہ کرنا جانتے ہیں۔
تمہیں پتہ ہے جنگ کیا ہوتی ہے؟میرے خیال میں نہیں کیونکہ تم سب میں سے کسی نے ابھی تک چوہےپر بھی گولی نہیں چلائی ہو گی، کفار کے خلاف توپ چلانا تو دُور کی بات ہے۔کیا تم اسلامی سلطنت (افغانستان) کو بھول گئے جس نے چند سالوں میں ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ لوگوں میں کیسے امن اور بھائی چارہ قائم کیا اور منشیات کے کاروبار کا خاتمہ کیا۔ بتوں کو تباہ کیا اور صرف ایک اﷲ کی عبادت ہونے لگی۔ اور یہ سب اس کے باوجود کہ وہ تعداد میں کم تھے، دوستوں نے ان کے ساتھ غداری کی اور دشمنوں کے ساتھ مسلسل حالت جنگ میں تھے۔ اس سے اچھا ملک کون سا ہے؟یا ملک کے اچھا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں قحبہ خانے ہوں، عیاشی کے اڈے ہوں، شراب خانے ہوں اور نشر و اشاعت کے کفریہ ادارے موجود ہوں؟جہا ں پر غیر اﷲ کا قانون ہو اور وہاں کے حکمران چور اور لٹیرے ہو۔ کیا اس کو ملک بناناکہتے ہیں؟
الزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین کو سیاست کی سمجھ نہیں ہے۔
P کفار کے گلے کاٹنے ، ان کے ٹکڑے کرنے اور ان کے لئے تیار رہنے اور ہر کافر کو ختم کرنے سے اچھی سیاست اور کیا ہو سکتی ہے۔ کیا یہ سیاست ویسے ہی غلط ہے جیسے کفار سے دشمنی کرنا، اور ان کے ملکوں سے ہجرت کرنا، ان کے عورتوں اور بچوں کو قیدی بنانا اور ان کے مردوں کو مارنا؟ یہ تو ایسے صحیح ہے جیسے ایک مسلمہ کے لئے اپنے آپ کو غیر محرم سے چھپانا اور ان سے دور رہنا۔ کیا مرد کے لئے لمبی داڑھی رکھنا اور گھٹنوں سے اوپر شلوار پہننا جدید مسلمانوں کی نظر میں غلط ہیں؟
الزام : یہ کہتے ہیں مجاہدین جبرسے کام لیتے ہیں۔
P ایسے لگتا ہے جیسے یہ الفاظ ایک گوری کے منہ سے نکلے ہوں جو پاکدامنی کا دعوی کرتی ہو۔ اور کہتی ہو کہ سورج نے اسے ابھی تک نہیں دیکھا اور ہوا نے اسے ابھی تک نہیں چھوا ہے۔ تم مجاہدین سے کس چیز کی تو قع کرتے ہو؟ کیا یہ مجاہد ین کی گمراہی ہے؟
اﷲ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
» یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ ٰامَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُم مِّنَ الکُفَّارِ وَلیَجِدُوا فِیکُم غِلظَۃً وَّ اعلَمُوآ اَنَّ اﷲَ مَعَ المُتَّقِینَ« ]التوبہ ۳۲۱[
’’اے ایمان والوں! ان کافروں سے جو تمہارے آس پاس رہتے ہیں، جنگ کرو، اور چاہئے کہ وہ تم میں سختی پائے۔اور جان لو کہ اﷲ پرہیزگاروں کے ساتھ ہیں۔‘‘
اور الراغب (مفردات الفاظ القرآن ) میں لکھتے ہیں کہ سختی سے مراد کٹھن پن ہے۔ تو کیا درشتگی اور سختی میں کوئی فرق ہے؟ اے تو تو میں میں کرنے والے اﷲ نے ا یسی سختی کرنے والوں کو متقی کا لقب دیا ہے۔ تو پھر اﷲ نے کفار اور منافقین کے خلاف پستی، عاجزی اور جھکائو رکھنے والوں کو کس لقب سے پکارا ہے؟اس شخص کا کیا انجام ہے جو کہتا ہے کہ میں سختی پریقین نہیں رکھتا، جس کا ذکر سورئہ بقرئہ میں ہو ا ہے:
»ثُمَّ اَنتُم ھٰٓؤُلااَآءِ تَقتُلُونَ اَنفُسَکُم وَ تُخرِجُونَ فَرِیقًا مِّنکُم مِّن دِیَارِہِمز تَظٰہَرُونَ عَلَیہِم بِالاِثمِ وَ العُدوَانِط وَ اِن یَاتُوکُم اُسٰرٰی تُفٰدُوہُم وَ ہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیکُم اِخرَاجُہُمط اَفَتُٶمِنُونَ بِبَعضِ الکِتٰبِ وَ تَکفُرُونَ بِبَعضٍج فَمَا جَزَآئُ مَن یَّفعَلُ ذٰلِکَ مِنکُم اِلَّا خِزیٌ فِی الحَیٰوۃِ الدُّنیَاج وَیَومَ القِیٰمَۃِ یُرَدُّونَ اِلٰٓی اَشَدِّ العَذَابِط وَ مَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعمَلُون«َ]البقرہ ۵۸[
’’پھر تم وہ لوگ ہو جو اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ایک فرےق کو گناہ اور دشمنی سے ان کے خلاف مدد دے کر ان کے گھروں سے نکالتے ہو۔ لیکن اگر وہ تمہارے پاس قیدی ہو کر آئےں تو فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے ہو، حالانکہ تم پر ان کا نکالنا یہ حرام تھا۔ کیا تم کتا ب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کا انکا ر کرتے ہو؟ ہا ں تم میں جو ایسا کرتا ہے اس کا بدلہ دنیا کی زندگی میں صرف رسوائی ہے، اور قیامت کو انہیں سخت عذاب کی طرف موڑ دیا جائے گا، اور اﷲتمہارے کاموں سے غافل بھی نہیں۔‘‘
تو میں اس تو تو میں میں کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک امریکی اس کے گھر میں داخل ہوتا ہے اور اس کی بیوی کی بے عزتی کرتا ہے اور یہ جناب ان کے پائوں میں بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ، امریکیوں یہ ٹھیک نہیں ہے، یہ تو جبر اور سختی ہے۔ آپ جبر سے کام نہ لیں۔
اﷲ نے اپنے نبی کو سورئہ التحریم آیت:۹ میں حکم فرمایا:
»یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الکُفَّارَ وَ المُنفِقِینَاٰا وَاغلُظ عَلَیہِمط وَ مَاواٰاہُم جَہَنَّمُط وَ بِئسَ المَصِیرُ«
’’اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سخت ہو جائو اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اور وہ کیا برا ٹھکانہ ہے۔ ‘‘
کیا تم اس کا یقین کرتے ہو؟
نبیجسے ساری کائنات کے لئے رحمت بنا کربھیجاگیا۔ جسے امن، اسلام اور محبت کے ساتھ تما م بنی نوع انسان کے لئے مبعوث فرما یا ۔ اسے اپنے رب کی طرف سے یہ حکم ملتا ہے۔ مجاہدین اسی سے دلیل لیتے ہیں اور اسی راہ پر چلتے ہیں۔ اور وہ اس حکم کے سواء کسی اور چیز کی پرواہ نہیں کرتے اور اگر ہم ان کے ساتھ سو سال بھی گزارے اور یہ کہیں کہ سختی سے کا م نہ لیں تو وہ ہمارا نہیں مانیں گے جب تک کہ جبرائیل u ایک نئی کتاب کے ساتھ نہیں آتے۔ مگر وہ تو کویت میں پہلے سے نئی کتاب کے ساتھ اتر چکے ہیں اور امریکی فوج اسے کویت کے خاص چنے ہوئے لوگوں میں پھیلا رہی ہے۔ وہ لوگ جو صرف تو تو میں میں کرنا جانتے ہیں۔
الزام :یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین کو موجودہ حالات کا پتہ نہیں ہے ۔
P یہ الفاظ پہلی بار کچھ اخوانیوں اور کچھ سلفیوں نے استعمال کیے تھے۔ جب مختلف الزامات سے مجاہدین بری ہو گئے تو پھر ان پر یہ الزام لگنے لگا۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ الزام ان لوگوں کے ذہن میں اس طرح بیٹھاہے کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ہلکا کرنے لئے مجاہدین پر اس کو چپکا دیں۔
تما م تعریفیں اﷲکے لئے ہیں ۔ اوہ اپنے گھروں میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ آرام سے بیٹھنے والوں ، آپ کو حالات کازیادہ پتہ ہے یا ان کو جو روزانہ اسی میں جی رہے ہیں اور اس میں رہ رہے ہیں۔ اصل حقیقت میدان جنگ ہے۔ تمہیں کچھ پتہ ہے اس حقیقت کا؟ تم کدھر ہو اس حقیقت میں؟ کیا صرف سننا ، اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے برابر ہو سکتا ہے؟ مجاہدین نے آپ لوگوں کے لئے کیپسول، جمبالیااور بشمل پیچھے چھوڑ کے گئے ہیں۔ سو مگن رہو اپنے اس حال میں جب کہ مجاہدین نے اپنے آپ کو کسی اور حقیقت میں مصروف کئے رکھا ہے۔
الزام :یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔
P ہمارے لئے معصوم کی تعریف ذرا دلیل کے ساتھ کی جائے تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ آخر یہ کون سے معصومین ہیں جن کو مجاہدین قتل کر رہے ہیں۔ اگر معصوم سے مراد یہود اور نصاری کے دوست ہیںاور وہ جو ان کے لئے تیل اور ان کے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیںتو پھر اﷲ ایسے معصومین کو نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی مجاہدین ان کو چھوڑیں گے۔ جہاں تک حقیقی معصوموں کا تعلق ہے تو ہم یہ پوچھتے ہیں کہ مجاہدین اپنا گھر بار کس لئے چھوڑ کے گئے ہیں؟ کیا ان معصوموں کی حفاظت کے لئے نہیں ۔ وہ بھی تو آپ لوگوں کی طرح کفار کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مال اور اثر و رسوخ جمع کر سکتے ہیں۔ اور تمہاری طرح TV پر آ کر بیانات دے سکتے ہیں۔ لیکن انھوں نے کمزوری کی جگہ مردانگی کوفوقیت دی اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے گھر بار چھوڑ دیا۔
آئےے اب اپنے ذہنوں کہ استعمال کرتے ہوئے ایک لمحہ کے لئے سوچئے کہ کیا ہم حالت جنگ میں نہیں ہے؟ کیا ہمارا دشمن ہمیں دھوکہ نہیں دے رہا ہے۔ کیا ہمارا دشمن بے گنا ہ لوگوں کو مار کر اس کا الزام مجاہدین پر نہیں لگا رہا ہے۔ کیا یہ دشمن بھائیوں کے درمیان لڑائی کو ہوا نہیں دے رہا ہے، تاکہ ان کی طاقت کم ہو جائے۔ کتنی دفعہ مجاہدین نے انگریزوں ، امریکیوں اور ان کے غلاموں کو پکڑا ہے جو عوامی جگہوں کو بموں سے اڑانا چاہتے تھے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ حکومت نے بھی انگریز وں کو پکڑا جو بے گناہ لوگوں کو قتل کر کے اس کا الزام مجاہدین پر لگانا چاہتے تھے۔ لیکن حکومت نے ان کو چھوڑدیا کیونکہ انگریز ان کے پرانے دوست ہیں ۔
یہ لوگ کب یہ بات سمجھیں گے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور دھوکہ جنگ کا حصہ ہے۔ یہ مکاری اور دھوکہ اتحاد کو پارہ پارہ اور کوششوں کو زائل کرتی ہے۔ ہم کب اپنے قرآن اور اپنے نبی eکی سنت سے ، اور آپ eکے اسوئہ حسنہ سے اور صحابہ کرام کی زندگیوں سے سیکھیں گے۔
او ر جو کوئی بھی مجاہدین کے حملوں میں بے گناہ مارا جاتا ہے تو اس طرح کی غلطی ہر جنگ میں ہوتی ہے جس کا اعتراف سارے قابل اور ذہین لوگ کرتے ہیں۔
صحےح بخاری میں عائشہ ؓسے روایت ہے
کہ احد کے روز (پہلے )مشرکین کوشکست فاش ہوئی ۔اس کے بعد ابلیس نے آواز لگائی کہ اللہ کے بندو! پیچھے …اس پراگلی صف پلٹی اور پچھلی صف سے گتھ گئی ۔حذیفہ tنے دیکھا کہ ان کے والد یمان tپر حملہ ہورہا ہے ۔وہ بولے :اللہ کے بندو!میرے والد ہیں ۔لیکن خدا کی قسم لوگوں نے ان سے ہاتھ نہ روکا ۔یہاں تک کہ انہیں مار ہی ڈالا۔حذیفہ tنے کہا :اللہ آپ لوگوں کی مغفرت کرے ۔حضرت عروہ کا بیان ہے کہ بخدا حضرت حذیفہ tمیں ہمیشہ خیر کا بقیہ رہا یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملے۔
یہ صحابہ کرام تھے جنہوں نے ایک آدمی کے باپ کو نبیکے موجودگی میں قتل کیا۔ صحابہ تلوار او ر نیزوں سے لڑتے تھے۔ جب ان سے یہ سرزد ہو سکتا ہے، تو پھر آج کل کی جنگ جو بم اور میزائل سے لڑی جاتے ہیں کیونکر ناممکن ہے۔
الزام :۔یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین کے پاس شرعی علم نہیں ہوتا۔
P اوہ !کامیابی پانے والوں اور آپ لوگوں نے اپنے علم کا کیاکیا؟ کیا آپ نے اپنی یونیورسٹی میں اﷲ کی یہ بات نہیں پڑھی:
»یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ ٰامَنُوا مَا لَکُم اِذَا قِیلَ لَکُمُ انفِرُوا فِی سَبِیلِ اﷲِ اثَّاقَلتُم اِلَی الاَرضِط اَرَضِیتُم بِالحَیٰوۃِ الدُّنیَا مِنَ الاٰخِرَۃِج فَمَا مَتَاعُ الحَیٰوۃِ الدُّنیَا فِی الاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیلٌ(۸۳) اِلَّا تَنفِرُوا یُعَذِّبکُم عَذَابًا اَلِیمًالا۵ وَّ یَستَبدِل قَومًا غَیرَکُم وَ لااَا تَضُرُّوہُ شَیئًاط وَ اﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرٌ(۹۳)«]التوبہ ۸۳ ۔ ۹۳[
’’اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اﷲ کی راہ میں نکلو تو تم زمین کی طرف گر جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہو؟ مگر دنیا کی زندگی کا ساما ن توآخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اگر تم نہیں نکلو گے تو وہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری بجائے کسی اور قوم کو بدل کر لے آئے گا، اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکوگے، اور اﷲ ہر بات پر قادر ہے۔ ‘‘
تم لوگوں کے لئے سخت عذاب کی وعید ہے۔ اور اﷲ نے تم لوگوں کے جن کے پاس ڈگری ہے، بغیر ڈگری والوں کو چن لیا ہے۔ جن کو اﷲ اپنی ڈگری دے گا اور تم لوگوں سے اپنا کیا ہوا وعدہ نبھائے گا۔
اے ڈگری والے کیا تو نے اﷲ کا یہ فرمان نہیں پڑھا:
» قُلنَا ٰینَارُکُونِی بَردًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی اِبرَاہِیمَلا(۹۶)« ]سورہ انبیائ۹۶[
’’ہم نے کہا، اے آگ ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی بن جا۔ ‘‘
سعدی فرماتے ہیں کہ جو اﷲ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، وہ اﷲ کی راہ میں ہجرت کرتے ہیں، اور اﷲ کے دشمنوں سے لڑتے ہیں اور جتنا بھی ہو سکے اﷲ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ اﷲ انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے اور انہیںکامیابی عطا کرتا ہے، کےونکہ وہ نیک عمل ہوتے ہیں اور اﷲ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
ابن عباس فرماتے ہیں کہ نیک سے یہاں مراد جو اﷲ کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسرے کہتے ہیں کہ اس سے مراد مجاہدین ہیں۔
ابن مبارک فرماتے ہیں کہ جب کوئی مسئلہ پیچیدہ ہو جاتا ہے تو بندے کو چاہےیے کہ وہ مجاہدین کے پاس حل کے لئے جائے اس لئے کہ اﷲ نے فرمایا ہے کہ ہم ان کو سیدھی راہ دکھائیں گے۔
اے ڈگری والے کیا تم ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہو جن کی رہنمائی کا وعدہ اﷲ نے اپنی کتاب میں کیا ہے؟
الزام :یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین کو جہاد کے علاوہ کسی اور چیز سے سروکار نہیں ہے۔انہوں نے سارے دین کو جہاد بنا دیا ہے۔
P اس طرح کی سوچ اور عقل رکھنے والوں کو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ آئیے ان کو ان کی عقل کے مطابق جوا ب دیتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں علماء کس چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں؟ حج کے موقع پر علماء کس چیز کا ذکر کرتے ہیں۔ جب علماء چندہ جمع کرتے ہیں تو ۔کس چیز کا ذکر کرتے ہیں ۔ ہر موقع پر اس کے مطابق بات کی جاتی ہے۔ اب جہاد کا وقت ہے، تو وہ کس کے بارے میں بات کریں گے۔ وہ مجاہدین ہیں اور یہ جہاد کا وقت ہے ، تو کیاوہ مریخ پر قبلہ کی طرف منہ کرنے کے مسائل بیان کریں گے۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ ایک لکڑہاراجراحی کرنے لگے۔ یا تم ان سے توقع کرتے ہو کہ ان معاملات میں بولیں جن کا انہیں علم نہیں، جس طرح تم ان کے خلاف بول رہے ہو حالانکہ تم جہاد کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ مجاہد ین کا یہ کام نہیں کہ ادارے بنائیں ، ویب سائٹس بنائیں ، لوگوں کو ازدواجی زندگی کے مسائل سمجھائیں اور اس کی وجہ سے جہاد کو ترک کر دیں۔
الزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین سے غلطیاں ہو رہی ہیں
P اس عمدہ تجزیے اور اعلیٰ سوچ کے لئے ماشاء اﷲ۔ ےہ کبھی کسی نے کہا ہے کہ مجاہدین فرشتے ہیں؟کیا آدم کی اولاد سے غلطیاں سرزد نہیں ہوتیں؟ہم پوچھتے ہیں کہ مجاہدین سے کتنی غلطیاں سرزد ہوئی ہے؟ہم کہتے ہیں کہ کسی کے اچھا ہونے کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ اس کی غلطیاں گنی جا سکتی ہوں۔ تم کس طرح مجاہدین کی غلطیوں کی بات کر سکتے ہو جب کہ تمہا را کھانا ، پینا ، سونا ، اٹھنا اور بیٹھناسارا گناہوں کا ایک دلدل ہے جس میں تم دھنسے ہوئے ہو کیونکہ تم نے جہاد کو ترک کر دیا ہے۔ جب کہ مجاہد کا جہاد میں ہر قدم، اس کا اٹھنا بیٹھنا، سونا ، رونا ، ہنسنا، کھانا پیناسارا نیک عمل ہے۔ تو کیا ان کی غلطیاں ان کے اچھائی کے سمندر میں ڈوب نہیں جائے گی؟ جس طرح کہ پیچھے رہنے والوں کی باتیں ان کے گناہوں کے سمندر میں شامل ہو جاتی ہے۔
ٰالزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین مسلمانوں کہ تکفیر کرتے ہیں۔
P مجاہد ین کا اس کے علاوہ اور کیا مقصد ہے مگر کہ مسلمانوں کی حفاظت کریں۔ وہ کس طرح مسلمانوں کو غیر مسلم کہہ سکتے ہیں جب کہ دوسری طرف ان کی حفاظت ، مذہب ا ور آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ کیا کوئی بھی عقل رکھنے والا انسان اس الزام کو مان سکتا ہے؟ یا مسلمان سے تمہارا مقصد کفار، یہود اور نصاری کے دوست ہیں؟ مجاہدین نے تو انہیں غیر مسلم نہیں کہا، لیکن اﷲ نے انہیں غیر مسلم کہا ہے۔ سورئہ المائدہ ۱۵ میں اﷲ کا فرما ن ہے۔
»یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ ٰامَنُوا لااَا تَتَّخِذُوا الیَہُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَولِیَآئَاوقفلازموقفمنزلوقفغفران بَعضُہُم اَولِیَآئُ بَعضٍط وَ مَن یَّتَوَلَّہُم مِّنکُم فَاِنَّہ مِنہُمط اِنَّ اﷲَ لااَا یَہدِی القَومَ الظّٰلِمِینَ(۱۵)«
’’اے ایمان والو! یہود و نصاری کو ساتھی نہ بنائو، وہ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ اور تم میں سے جو انہیں ساتھی بنائے گا وہ انہی میں سے ہو گا۔ بے شک اﷲ زیادتی کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
اس لئے مجاہدین کہتے ہیں کہ یہ ہم میں سے نہیں بلکہ ان میں سے ہیں۔ اگر تم ان کی بات کرتے ہو تو پھر ہم اﷲ سے دعا کرتے ہیں کہ سارے مسلمان تکفیری بن جائے اور ان کی تکفیر کریںجن کی تکفیر اﷲنے قرآن میں کی ہے۔ اگر مجاہدین مسلمانوں کو غیر مسلم مانتے ہیں تو پھر و ہ کیوں لڑ رہے ہیں اور کس کے لئے لڑ رہے ہیں؟اور غیر مسلموں کے لئے اپنی زندگیاں خطرے میں کیوں ڈال رہے ہیں۔
الزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین حکمرانوں کی تکفیرکرتے ہیں۔
P حکمرانوں سے تمہاری مراد وہ ہیں جو اسلام کے خلاف صلیبی جنگ میں بش کے جھنڈےے تلے جمع ہوئے ہیں؟ یا تمہارا مقصد وہ ہیں جو فرانسیسی احکام کو مانتے ہیں اور نافذکرتے ہیں۔ یا وہ ہیں جو امریکہ کو پیسہ ، زمین، فوج، خلاء، تیل، ادویات اور معلومات دیتے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کو آرام سے قتل کر سکیں۔ یا وہ ہیں جو مجاہدین کو قتل کر رہے ہیں، ان کو جیلوںمیں ڈالتے ہیں اور امریکہ کے حوالے کرتے ہیں۔
اگر ان لوگوں کو تم حکمران مانتے ہو تو پھر ہم اﷲ کو گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ یہ سب غیر مسلم ہیں اور جو ان کو غیر مسلم نہیں مانتا وہ اپنے دین و عقائدسے جاہل اور مسلمانوں کے موجودہ حالات سے ناواقف ہے۔
یہ کیسے کافر نہیں ہونگے جب کفر کی ساری نشانیاں ان میںجمع ہو گئی ہیں اور ہم سب پر عیاں ہو گئی ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جو صبح اور شام اپنے کفر کا اظہار تمام مخلوق کے سامنے کرتے ہیں۔ ان الزامات لگانے والوں کے اگر کان اور آنکھیں ہوتی، تو یہ ان کے کفر کو سن لیتے اور دیکھ لیتے۔ اور اگر ان کے پاس عقل ہوتی تو یہ ان کے کفر کو جان لیتے۔ اور اگر ان کی زبان ہوتی تو یہ ان حکمرانوں کے کفر کو بیان کرتے لیکن یہ گونگے ہیں، بہرے ہیں، اندھے ہیں اور انہیں کچھ سمجھ نہیں۔
الزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین لوگوں کو حکمرانوں کے خلاف بغاوت پراکساتے ہیں۔
P اوپر بیان کردہ باتیں جس حکمران میں ہوتی ہیں تو علماء کے مطابق اس کے خلاف نکلنا واجب ہے۔ اور جہاں تک تعداد کی بات ہے تو اس سے کوئی بھی بری نہیں ہے۔ ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت سلف کی کتابوں میں واضح ہے۔ مجاہدین تو کبھی کسی کو بغاوت پرنہیں اکساتے لیکن صرف وہ بات بیان کرتے ہیں جو سلطان کے علماء چھپاتے ہیں۔ جہاد کے امیر بھی لوگوں کو بغاوت پر نہیں اکساتے ، لیکن یہ بات ضرور کرتے ہیں کہ ان حکمرانوں نے دین کو چھوڑ دیا ہے اس لئے ان کی تابعداری نہ کی جائے اور ان کا حکم نہ مانا جائے۔ اور ان کے خلاف بغاوت کا حکم بھی بہت جلد آ جائے گا۔ اور جو لوگ اپنی حدوں کو پھلانگتے ہیںبہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔
الزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین شہریوں کو قتل کرتے ہیں۔
RP ہم پوچھتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں شہری کسے کہتے ہیں جس کی جان اور مال محفوظ ہوتی ہے۔کیا نبی اور صحابہ نے مکہ کے شہریوں کو جنگ بدر ، خندق اور احد میں قتل نہیں کیا؟ انہوں نے تو مدینہ کے منافق شہرےوں کو بھی قتل کیا جنہوں نے کفار کا ساتھ دیا اور ان کے امیر کی مدد کی ۔ نبی eکے رشتہ دار اور صحابہ کے بھائےوں کا قتل صحےح ہے لیکن آپ لوگوں کے شہرےوں کا قتل غلط ہے۔ قرآن میں شہری اور غیر شہری کا فرق کدھر ہے؟ ہم اپنے دین کو سلف کی نسبت سے سیکھتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ عزت دار ہے اور باقی سب ایک جےسے ہیں۔ شریعت نے لوگوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا ہے:
1 مسلمان،
2 وہ لوگ جو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ میں ہو اور اس کی پاسداری کرے۔اور
3 وہ جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں جن کا مال اور جان حلال ہے،
جہاں کہیں بھی وہ ملے۔ جو ہمارے قریب ہو ہم پہلے ان کو مارتے ہیں اور اس میں شہری اور غیر شہری کی تمیز نہیں کرتے۔ تو کیا اگر جبریل شہری والی آیت لے کر آئے ہیں تو پھر وہ آپ ہم سے کیوں چھپاتے ہیں؟
الزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین اپنی علاقوںکی بجائے دوسرے علاقوں میں لڑتے ہیں۔
یہ توآپ کو نبیسے کہنا چاہئے ، آپ eمکہ میں نہیں لڑے اور اپنے علاقے کو چھوڑکر مدینہ میں لڑے۔اور یہ توآپ کو صحابہسے کہنا چاہیے جنہوں نے حجاز کو چھوڑ دیا، اور شام، عراق، خراسان، مصر، الجیریا اور سوڈان میں لڑے۔ آج کل ہم ایک عجیب بات سنتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں، عراق میں عرب مجاہدین۔ یہ بات یہ صرف اس لئے کہتے ہیں کہ مجاہدین کو تقسیم کریں۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ عراقی مجاہد ہے، اور وہ عرب مجاہد ہے۔ میں جب بھی یہ بات سنتا ہوں اپنی ہنسی روک نہیں پاتا۔ کیا ایک عراقی ہندوستانی ہے؟کیا وہ عرب نہیں ہے؟ اگر یہ بات افغانستان ، چیچنیا یا کشمیر میں یا دوسرے غیر عرب ملکوں میں کہی جائے تو پھر بھی ٹھیک ہے لیکن عراق میں اس کا کیا معنی اور مقصد ہے ۔ یا شاید عراق کے آبائو اجداد وق الواق سے ہیں۔
الزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہد ین زمین پر فتنہ اور فساد پھیلاتے ہیں۔
P ہم آ پ کا ذہن سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مجاہدین آخر کدھر جہاد کریں۔ اگر وہ اپنے ملک میں جہاد کرتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ اپنے ملکوں میں لڑرہے ہیں۔ اور اگر وہ اپنے ملک سے باہر لڑتے ہیں توآپ کہتے ہیں کہ ملک سے باہر لڑتے ہیں۔ آپ ان کے لئے چاند پر ایک محاذ کھول لیں تاکہ وہ وہاں جا کر جہاد کریں۔
آیئے اس بات کو آپ کے لئے آسان کر دیتے ہیں۔ اورمجھے امید ہے کہ آپ لوگ کھلے ذہن سے اسے سنیں گے تاکہ جو بات آپ کے بوڑھے ذہن سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو آپ جیسے بڑے فلسفیوں کے سمجھ سے باہر ہے۔ اس بات کو غور سے سنوجو بہت واضح الفاظ میں ہے۔ میں جو بات کہنے والا ہوں یہ تھوڑی مشکل ہے آپ لوگوں کے سمجھنے کے لئے۔ آپ تیا ر ہیں؟ کہیں آپ لوگوں کا عقل اور فلسفہ آپ کو دھوکہ نہ دے دے۔ احتیاط کے ساتھ سنیں!
جہاں دشمن ہے، وہاں لڑائی ہوگی۔ میں اﷲسے دعاکرتا ہوں کہ یہ بات آپ کہ سمجھ میں آجائے۔ سلیمان uکو بصیرت دینے والے رب ان کے ذہن میں یہ بات بٹھادے۔
الزام : یہ کہتے ہیں کہ مجاہد ین اپنے آپ خود ہی جنگ مسلط کرتے ہیں۔
P یہ بات آپ نے افغانستان میں بھی کی تھی اور مجاہدین فاتح رہے روس کے خلاف جو اس وقت کی سب سے بڑی فوجی طاقت تھی۔ یہ بات آپ نے صومالیہ میں کی تھی اور مجاہدین نے امریکہ کو شکست دی جو اس وقت کی سب سے بڑی فوجی طاقت تھی۔ ےہ بات آپ نے بوسنیا میں بھی کی تھی اور مجاہدین نے سرب اور کروٹس کو شکست دی اس کے باوجود کہ سارے ےورپ نے ، روس اور یہودیوں نے ان کی مدد کی اور پھر امریکہ نے آ کر عیسائیوں کو مسلمانوں کے پنجوں سے چھڑایا۔ یہ بات تم نے عراق میں بھی کی اور مجاہدین کو ایک کے بعد دوسری فتوحات حاصل ہو رہی ہیں، جبکہ سارے کفار ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس لشکر میں سارے عیسائی ممالک، عرب حکومتیں، بدھ مت کے پیروکار اور ہندو شامل ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ مجاہد ین بہت سادہ ہیں کیونکہ وہ اﷲ کی اس بات کو مانتے ہیں۔
S»فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالجُنُودِلا قَالَ اِنَّ اﷲَ مُبتَلِیکُم بِنَہَرٍج فَمَن شَرِبَ مِنہُ فَلَیسَ مِنِّیج وَ مَن لَّم یَطعَمہُ فَاِنَّہ مِنِّیٓ اِلَّا مَنِ اغتَرَفاَاغُرفَۃًم بِیَدِہٖج فَشَرِبُوا مِنہُ اِلَّا قَلِیلااًا مِّنہُمط فَلَمَّا جَاوَزَہ ہُوَ وَ الَّذِینَ ٰامَنُوامَعَہلا قَالُوا لااَا طَاقَۃَ لَنَا الیَومَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِہٖط قَالَ الَّذِینَ یَظُنُّونَ اَنَّہُم مُّلٰقُوا اﷲِلا کَم مِّن فِئَۃٍ قَلِیلَۃٍ غَلَبَت فِئَۃً کَثِیرَۃًم بِاِذنِ اﷲِط وَ اﷲُ مَعَ الصّٰبِرِینَ(۹۴۲)« ] سورہ بقرہ :۹۴۲[
E’’پھر جب طالوت فوجوں کو لے کر نکلا تو اس نے کہا، اﷲ تمہیں ایک دریا پر آزمائے گا گو جس نے اس سے پی لیا وہ میرا نہیں۔ اور جس نے اسے نہ چکھا وہ میرا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی اپنے ہاتھ سے چلو بھر لے۔ پھر ان میں تھوڑوں کو چھوڑ کر سب نے اس سے پی لیا۔ پھر جب وہ اور اس کے ساتھ ایمان والے اس (دریا) کے پار ہوئے تو لوگ کہنے لگے ، آج ہم میں جالوت اور اس کی فوجوں کے مقابلے کی طاقت نہیں۔ جو لوگ خیا ل کرتے تھے کہ وہ اﷲ سے ملنے والے ہیں کہنے لگے، کتنے ہی چھوٹے چھوٹے دستے اﷲ کی اجازت سے بڑے دستوں پر غالب آجاتے ہیں، اور اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتاہے۔ ‘‘
وہ اس بات کو پوری ،صاف اور سادہ نیت سے قبول کرتے ہیں۔ ان کا اس بات پر ےقین ہے کہ فتح صرف اﷲ کی طرف سے ہوتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ کہ اﷲ کے دین کی خدمت جہاد کے ذریعے کی جائے۔ ےہ مجاہدین کا طریقہ ہے۔ شاید یہ سوچ آپ لوگوں کی نظر میں سادہ اور بے معنی ہو، کیونکہ اس میں سیاست، علم و دانش، سماجی ، سائنسی، اور اداروں کو قائم کرنے کی سوچ شامل نہیں ہے۔ لیکن آپ کو ان کو الزام نہیں دینا چاہئے کیونکہ وہ آ پ کی طرح بڑی بڑی ےونیورسٹیوں میں نہیں پڑھے۔ اور ان کے پاس آپ کی طرح ڈگری اور سرٹیفیکےٹ نہیں ہے۔ اور آپ کی طرح اور آپ کے بڑے بڑے مفتےوں کی طرح TV پر آکر بڑی بڑی باتیں نہیں کرتے۔ وہ صرف یہ بات جانتے ہیں جو اﷲ نے سورہ محمد آیت ۷ میں کی ہے۔
» یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ ٰامَنُوآ اِن تَنصُرُوا اﷲَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدَامَکُم«
’’اے ایمان والو! اگر تم اﷲ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہا رے پائوں جماکر رکھے گا۔ ‘‘
اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اﷲ پر ایمان ہے اور ہم اﷲ کے دین کی مدد کریںگے اور ہم فتح صرف اﷲ سے مانگتے ہیں۔ اس سادگی اور معصومیت پر ذرا غور کیجیے جس نے روس کو شکست دی، امریکہ کو ششدر کیا، اور ےورپ کے تخت کو لرزا دیا۔
ہم جانتے ہیں کہ آپ میں بہت بڑے بڑے ڈگری والے، سیاستدان، تجزیہ نگار اور مقرر ہیں لیکن پھر بھی ان سادہ لوگوں پر آپ کی بات اثر نہیں کرتی۔ ہم تو تھک گئے ہیں مجاہدین کو کہتے کہتے کہ ان فلسفیوں کی کتابوں کو پڑھیںاور اﷲ کی کتاب اور حدیث کی کتابوں کو ایک طرف رکھ دیں، لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ قرآن اور سنت کے علاوہ کسی اور بات کو نہیں مانتے۔ ہم اﷲ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کو سیدھی راہ دکھائے۔
ان میں سے ایک عقل مند نے کہا کہ اسلحہ رکھنے والے جاہل ہیں اور ان کا مقصد بے معنی ہے۔