لاحول ولا قوۃ۔ شراب کو مختلف حیلے بہانوں سے حلال ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ذکر تو آپ نے چھ دفعہ کا کر دیا لیکن حوالہ ایک بھی نہیں دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں قادسیہ کی جنگ ہوئی تھی جو کہ بہت ہی زبردست جنگ تھی۔ مخالف فوج کو رستم لڑا رہا تھا۔ واقعہ ذرا لمبا ہے، میں مختصر اقتباس پیش کرتا ہوں :
"
جس وقت لڑائی کا ہنگامہ گرم تھا، ابو محجن ثقفی جو ایک مشہور بہادر شاعر تھے اور جن کو شراب پینے کے جرم میں سعد نے قید کر دیا تھا۔ قید خانے کے دریچے سے لڑائی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اور شجاعت کے جوش میں بے اختیار ہوتے جاتے تھے۔ آخر ضبط نہ کر سکے، سلمٰی (سعد کی بیوی) کے پاس گئے کہ خدا کے لیے اس وقت مجھ کو چھوڑ دو۔ لڑائی سے جیتا بچا تو خود آ کر بیڑیاں پہن لوں گا۔ سلمٰی نے انکار کیا۔ یہ حسرت کے ساتھ واپس آئے اور بار بار پردرد لہجہ میں یہ اشعار پڑھتے تھے۔
کفی حزناً ان تردی الخیل بالقنا و اترک مشدوداً علی و تالیا
" اس سے بڑھ کر کیا غم ہو گا کہ سوار نیزہ بازیاں کر رہے ہیں، اور میں زنجیروں میں بندھا ہوا ہوں۔"
اذا قمت عنا فی الحدید و اغلفت مصاریع من دونی لصم المنادیا
"جب کھڑا ہونا چاہتا ہوں تو زنجیر اٹھنے نہیں دیتی، اور دروازے اس طرح بند کر دیئے جاتے ہیں کہ پکارنے والا پکارتے پکارتے تھک جاتا ہے۔"
ان اشعار نے سلمٰی کے دل پر یہ اثر کیا کہ خود آ کر بیڑیاں کاٹ دیں۔ انہوں نے فوراً اصطبل میں جا کر سعد کے گھوڑے پر جس کا نام بلقا تھا زین کسا اور میدان جنگ پہنچ کر بھالے کے ہاتھ نکالتے ہوئے ایک دفعہ میمنہ سے میسرہ تک کا چکر لگایا۔ پھر اس زور و شور سے حملہ کیا کہ جس طرف نکل گئے صف کی صف الٹ دی۔ تمام لشکر متحیر تھا کہ یہ کون بہادر ہے۔
سعد بھی حیران تھے اور دل میں کہتے تھے کہ حملہ کا انداز ابو محجن کا ہے۔ لیک وہ قید خانے میں قید ہے۔ شام ہوئی تو ابو محجن نے آ کر خود بیڑیاں پہن لیں۔ سلمٰی نے یہ تمام حالات سعد سے بیان کئے۔ سعد نے اسی وقت ان کو رہا کر دیا اور کہا " خدا کی قسم مسلمانوں پر جو شخص یوں نثار ہو میں اس کو سزا نہیں دے سکتا۔"
ابو محجن نے کہا " بخدا میں بھی آج سے پھر کبھی شراب کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ (کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ 1۔"
حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اتنی عقل نہ آئی کہ ایک ایک بندہ لڑائی کے لیے اہم تھا پھر بھی شرابی پینے کے جرم میں انہیں قید رکھا۔
جیل خانہ کی ایجاد
اس صیغے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جیل خانے بنوائے ورنہ ان سے پہلے عرب میں جیل خانے کا نام و نشان نہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ سزائیں سخت دی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اول مکہ معظمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار درہم پر خریدا اور اس کو جیل خانہ بنایا (مقریزی جلد دوم صفحہ 187) اور اضلاع میں بھی جیل خانے بنوائے۔ علامہ بلاذری کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ کا جیل خانہ نرسل سے (فتوح البدان صفحہ 463) بنا تھا۔ اس وقت تک صرف مجرم قید خانے میں رکھے جاتے تھے۔ اور جیل خانے میں بھجواتے تھے۔
جیل خانہ تعمیر ہونے کے بعد بعض سزاؤں میں تبدیلی ہوئی۔ مثلاً ابو محجن ثقفی بار بار شراب پینے کے جرم میں ماخوذ ہوئے تو اخیر دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو حد کی بجائے قید کی سزا دی۔
جلا وطنی کی سزا
جلا وطنی کی سزا بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایجاد ہے۔ چنانچہ ابو محجن کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سزا بھی دی تھی۔ اور ایک جزیرہ میں بھیج دیا تھا (اسد الغلبہ ذکر ابو محجن ثقفی)۔
حیرت ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شراب پینے پر ایسی سزائیں دیں جب کہ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ میں کیا جانو شراب پی کر اس کا اور اللہ کا معاملہ۔
میرے بھائی شراب اُم الخبائث ہے۔
میں نے حوالے لکھے ہیں۔ آپ بھی حوالے دے دیں، میں کہیں سے بھی بخاری شریف لا کر دیکھ لوں گا۔