شاکرالقادری
لائبریرین
کسی شاعر نے کہا ہے :
بہ تیرہ بختی آئینہ حیرتی دارم
ترا کشود درآغوش و آفتاب نہ شد
﴿مجھے آئینے کی تیرہ بختی یعنی سیاہ نصیبی پر حیرت ہے کہ اس نے تجھے آغوش میں سمیٹ لیا لیکن آفتاب نہ بنا﴾
یعنی آئینہ کو چاہیئے تھا کہ وہ محبوب کے جلووں کو اس طرح اپنے اندر سمیٹ لیتا کہ اس کی اپنی علیحدہ شناخت برقرار نہ رہتی اور وہ محض آفتاب کا عکس گیر نہ رہتا بلکہ خود آفتاب بن جاتا﴾
اس شعر کو جب میں نے پڑھا تو ایک خیال کے تحت یہ شعر کہہ دیا:
کوئی فسانہء تنزیل حسن کیا جانے
جو آئنے پہ گزرتی ہے آئینہ جانے
حسن کے جلووں کو اپنی آنکھوں سے سمیٹنا لیکن از خود رفتہ نہ ہونا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔۔ آئینہ جب علس رخ یار کو اپنی آغوش دل میں سمیٹتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے وہ آئنہ ہی جانتا ہے یہ آئنہ کی تیرہ بختی نہیں بلکہ یہ اس کی بلند ہمتی ہے کہ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھتا ہے
موسی ز ہوش رفت بہ یک جلوہ صفات
تو عین ذات می نگری در تبسمی
﴿موسی تو محض ایک صفاتی جلوہ سے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عین ذات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور حالت تبسم میں ہیں﴾
مازاع البصر و ما طغی
اور نہ تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ درماندہ ہوئی اور نہ حد ادب سے آگے بڑھی
مجذوب کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جمال یار کا مشاہدہ کرنے پر اپنے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو جاتا ہے اور اسی از خود رفتگی کی بنا پر نہ تو وہ شریعت کا مکلف رہتا ہے اور نہ شریعت کسی کو اس کی اتباع کا مکلف کرتی ہے مجذوبوں کے معاملہ میں احتیاط کا تقاضا ہے کہ:
نہ تو ان کو حقیر جان کر ان کی بے توقیری کی جائے
اور نہ ہی ان کے قریب جاکر ا کے احترامات بجا لائے جائیں
اور نہ ہی ان کی پیروی کی جائے کیوں کہ وہ از خود رفتگی کی وجہ سے
کسی کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں
==========
اب رہا یہ سوال کہ
کیا حصور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی مجاذیب موجود تھے
تو جناب گزارش ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے مرشد کامل کی راہنمائی میں تربیت پانے والے لوگ حسن یار کو دلوں میں سمیٹتے تھے لیکن تربیت رسول انہیں از خود رفتہ نہیں ہونے دیتی تھی
ورنہ موسی علیہ السلام کا کوہ طور پر از خود رفتہ ہونا
اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دنی فتدلی کے مقام پر دیدار الہی کرتے ہوئے بھی اپنے حواس میں رہنا از روئے قرآن ثابت ہے
بہ تیرہ بختی آئینہ حیرتی دارم
ترا کشود درآغوش و آفتاب نہ شد
﴿مجھے آئینے کی تیرہ بختی یعنی سیاہ نصیبی پر حیرت ہے کہ اس نے تجھے آغوش میں سمیٹ لیا لیکن آفتاب نہ بنا﴾
یعنی آئینہ کو چاہیئے تھا کہ وہ محبوب کے جلووں کو اس طرح اپنے اندر سمیٹ لیتا کہ اس کی اپنی علیحدہ شناخت برقرار نہ رہتی اور وہ محض آفتاب کا عکس گیر نہ رہتا بلکہ خود آفتاب بن جاتا﴾
اس شعر کو جب میں نے پڑھا تو ایک خیال کے تحت یہ شعر کہہ دیا:
کوئی فسانہء تنزیل حسن کیا جانے
جو آئنے پہ گزرتی ہے آئینہ جانے
حسن کے جلووں کو اپنی آنکھوں سے سمیٹنا لیکن از خود رفتہ نہ ہونا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔۔ آئینہ جب علس رخ یار کو اپنی آغوش دل میں سمیٹتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے وہ آئنہ ہی جانتا ہے یہ آئنہ کی تیرہ بختی نہیں بلکہ یہ اس کی بلند ہمتی ہے کہ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھتا ہے
موسی ز ہوش رفت بہ یک جلوہ صفات
تو عین ذات می نگری در تبسمی
﴿موسی تو محض ایک صفاتی جلوہ سے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عین ذات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور حالت تبسم میں ہیں﴾
مازاع البصر و ما طغی
اور نہ تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ درماندہ ہوئی اور نہ حد ادب سے آگے بڑھی
مجذوب کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جمال یار کا مشاہدہ کرنے پر اپنے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو جاتا ہے اور اسی از خود رفتگی کی بنا پر نہ تو وہ شریعت کا مکلف رہتا ہے اور نہ شریعت کسی کو اس کی اتباع کا مکلف کرتی ہے مجذوبوں کے معاملہ میں احتیاط کا تقاضا ہے کہ:
نہ تو ان کو حقیر جان کر ان کی بے توقیری کی جائے
اور نہ ہی ان کے قریب جاکر ا کے احترامات بجا لائے جائیں
اور نہ ہی ان کی پیروی کی جائے کیوں کہ وہ از خود رفتگی کی وجہ سے
کسی کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں
==========
اب رہا یہ سوال کہ
کیا حصور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی مجاذیب موجود تھے
تو جناب گزارش ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے مرشد کامل کی راہنمائی میں تربیت پانے والے لوگ حسن یار کو دلوں میں سمیٹتے تھے لیکن تربیت رسول انہیں از خود رفتہ نہیں ہونے دیتی تھی
ورنہ موسی علیہ السلام کا کوہ طور پر از خود رفتہ ہونا
اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دنی فتدلی کے مقام پر دیدار الہی کرتے ہوئے بھی اپنے حواس میں رہنا از روئے قرآن ثابت ہے