فہیم رفیق فہیم
محفلین
السلام علیکم !
امید ہے تما م اہلیان اردو محفل خیریت سے ہوں گے۔
عرض یہ ہے کہ مجھے کبھی اس طرح کے محفل میں جانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔۔اور نہ ہی کہیں پر مجھے اپنی تعارف کرانی پڑی ہے۔ اس لئے اگر مجھ سے کوئی کوتاہی ہو تو اس کے لئے پیشگی معذرت !
نام تو معلوم ہو گیا ہے۔ فہیم رفیق ۔ جی میں ایک طالب علم ہوں۔اس وقت اپنی میکاٹرونکس (الیکٹریکل اور مکنیکل کے میلان سے بنا ہوا شعبہ اور لفظ) کی بچلر ڈگری کے نصف مراحل طے کر چکا ہوں۔اور امید ہے کہ اس کے بعد زندگی کا یہ سفر بھی آسان ہو جائے گا۔ دراصل سٹوڈنٹ ایک کیفیت کا نام ہے ۔آپ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہوں اگر آپ کہیں باقاعدہ طور پر درس گاہ میں جاتے ہیں تو وہ کیفیت آپ میں رہتی ہے۔یہ کیفیت ایسی ہے کہ اس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن کم از کم میں اس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
اردو ادب سے کوئی خاص رشتہ داری نہیں۔ نہ کسی شاعر کو مکمل پڑھا اور نہ ہی کسی نے پڑھایا۔ ہمارے ایک استاد محترم سر شمشاد خان صاحب (ہیں)تھے۔وہ ایک مصرعہ اکثر کہتے تھے۔ دراصل وہ ہمارے کلاس میں کچھ طلباء کے رویے پر کہتے تھے کہ
پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
ایک ایسے درد سے کہتے تھے کہ دل میں بھونچال سا آجاتا تھا اور وہ 2،3 منٹ تک بلکل خاموش ہو جاتے تھے ۔تو ایک دن جب انھوں نے یہ فرمایا تو میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ یار! یہ کیا بات ہے اس سے آگے کیا ہے۔۔تو جناب یہی ابتدا ء تھی اس شعبہ ادب سے دل کا تعلق ہونے کی۔۔ اس کے بعد اقبال کو سمجھنے کی کوشش کی اور کرتا ہوں لیکن اکثر اوقات ان کی سمجھ نہیں آتی جب آ جاتی ہے تو رونا بھی آتا ہے کہ ہم نے اقبال کے شاہین کا کیا حال کر دیا اور خودی کو کس بے خودی نے دبوچا اور ثریا سے زمیں تک کا سفر کیونکر کیا ؟
میرے پسندیدہ شعراء میں میر تقی میرصاحب، مصحفی صاحب، ناصر کاظمی صاحب ، مولانا حسرت موہانی کی جوانی کا دور اور علامہ محمد اقبال (رحمتہ اللہ علیہ) شامل ہیں۔ ہاں قدر اور عزت میں ہر اس شاعر کی کرتا ہوں جس نے ایک شعر بھی دل سے کہا ہو۔ چاہے وہ مجازی ہو یا حقیقی۔
اور نثر میں "نکلے تیری تلاش میں" بہت پسند آئی۔ لگتا ہے کہ زیادہ ہو گیا ہے۔ خیر آپ سے کہہ دیا تھا کہ نا بلد ہوں اس تعارف سے۔۔
امید ہے تما م اہلیان اردو محفل خیریت سے ہوں گے۔
عرض یہ ہے کہ مجھے کبھی اس طرح کے محفل میں جانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔۔اور نہ ہی کہیں پر مجھے اپنی تعارف کرانی پڑی ہے۔ اس لئے اگر مجھ سے کوئی کوتاہی ہو تو اس کے لئے پیشگی معذرت !
نام تو معلوم ہو گیا ہے۔ فہیم رفیق ۔ جی میں ایک طالب علم ہوں۔اس وقت اپنی میکاٹرونکس (الیکٹریکل اور مکنیکل کے میلان سے بنا ہوا شعبہ اور لفظ) کی بچلر ڈگری کے نصف مراحل طے کر چکا ہوں۔اور امید ہے کہ اس کے بعد زندگی کا یہ سفر بھی آسان ہو جائے گا۔ دراصل سٹوڈنٹ ایک کیفیت کا نام ہے ۔آپ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہوں اگر آپ کہیں باقاعدہ طور پر درس گاہ میں جاتے ہیں تو وہ کیفیت آپ میں رہتی ہے۔یہ کیفیت ایسی ہے کہ اس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن کم از کم میں اس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
اردو ادب سے کوئی خاص رشتہ داری نہیں۔ نہ کسی شاعر کو مکمل پڑھا اور نہ ہی کسی نے پڑھایا۔ ہمارے ایک استاد محترم سر شمشاد خان صاحب (ہیں)تھے۔وہ ایک مصرعہ اکثر کہتے تھے۔ دراصل وہ ہمارے کلاس میں کچھ طلباء کے رویے پر کہتے تھے کہ
پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
ایک ایسے درد سے کہتے تھے کہ دل میں بھونچال سا آجاتا تھا اور وہ 2،3 منٹ تک بلکل خاموش ہو جاتے تھے ۔تو ایک دن جب انھوں نے یہ فرمایا تو میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ یار! یہ کیا بات ہے اس سے آگے کیا ہے۔۔تو جناب یہی ابتدا ء تھی اس شعبہ ادب سے دل کا تعلق ہونے کی۔۔ اس کے بعد اقبال کو سمجھنے کی کوشش کی اور کرتا ہوں لیکن اکثر اوقات ان کی سمجھ نہیں آتی جب آ جاتی ہے تو رونا بھی آتا ہے کہ ہم نے اقبال کے شاہین کا کیا حال کر دیا اور خودی کو کس بے خودی نے دبوچا اور ثریا سے زمیں تک کا سفر کیونکر کیا ؟
میرے پسندیدہ شعراء میں میر تقی میرصاحب، مصحفی صاحب، ناصر کاظمی صاحب ، مولانا حسرت موہانی کی جوانی کا دور اور علامہ محمد اقبال (رحمتہ اللہ علیہ) شامل ہیں۔ ہاں قدر اور عزت میں ہر اس شاعر کی کرتا ہوں جس نے ایک شعر بھی دل سے کہا ہو۔ چاہے وہ مجازی ہو یا حقیقی۔
اور نثر میں "نکلے تیری تلاش میں" بہت پسند آئی۔ لگتا ہے کہ زیادہ ہو گیا ہے۔ خیر آپ سے کہہ دیا تھا کہ نا بلد ہوں اس تعارف سے۔۔
آخری تدوین: