عائشہ عزیز
لائبریرین
آج میری دو فرینڈز کا برتھ ڈے تھا، ڈیسائیڈ یہ ہوا کہ آج فرائی چکس پر جا کر کھانا کھائیں گے ۔ مجھے پرسنلی یوں بغیر کسی بڑے کے جانا پسند نہیں تھا اور میں کبھی گئی بھی نہیں تھی بس امی جان کے ساتھ یوں ہی شہر میں شاپنگ کے دوران چھوٹی موٹی شاپس پر کھانا کھا لیتے تھے ہم لوگ ۔۔پہلے تو میں نے ان لوگوں کو کافی تنگ کیا کہ مجھے گھر سے پرمیشن نہیں ملے گی حالانکہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات بھی نہیں تھی کہ امی جان اجازت نہ دیتیں اور وہ مان بھی گئیں فوراً۔۔۔ہی ہی ہی بڑی ویلیو ہے ناں
صبح پہلے مجھے سب کی ڈانٹ سننا پڑی کہ ہمیں خواہ مخواہ پریشان کیے رکھا تم نے ساری رات دعائیں مانگتے رہے کہ آنٹی پرمیشن دے دیں
سارے لیکچرز اٹینڈ کرکے چھٹی وقت ہم لوگ نکلے ۔۔ہماری کالج سے تھوڑی سی دوری پر دو تین ہوٹل ہیں جہاں اکثر کالج کی لڑکیاں بھی چلی جاتی ہیں۔۔ پیدل چلنے کا فیصلہ ہوا اور جیسے جیسے ہم قریب جا رہے تھے گھبراہٹ ہو رہی تھی اور کچھ فرینڈز کے تو ہاتھ بھی ٹھنڈے ہو رہے تھے۔۔ جو فرینڈ سب سے زیادہ انسسٹ کر رہی تھی وہی سب سے زیادہ گھبرا رہی تھی میں نے کہا اب پتا چلا نہ بچو اور مناؤ ہوٹل میں سالگرہ۔۔
دو سڑکیں ناپ کر جب ہم ہوٹل پہنچے تو ایسے کہ یونیفارم میں تھے اور کالج شوز مٹی سے اٹے تھے، ہوٹل سامنے اور ہم سوچیں کون سب سے پہلے داخل ہوگا
خیر ایک فرینڈ داخل ہوئیں اور پھر میں اور باقی لوگ۔۔۔ اور اب سامنے نظر آنے والے ٹیبلز میں سے کسی کے گرد اتنی کرسیاں نہیں تھیں جتنے ہم لوگ تھے ۔۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھاکہ اب؟
اوہ اوپر بھی تو جا سکتے ہیں ناں میں نے اشارہ کیا اور شکر ہے وہ ہوٹل کے اسٹاف کے لوگ بھی کھڑے تھے وہ بولے آپی آپ اوپر چلے جائیں
اوپر سامنے ہی ایک ٹیبل مل گئی جس پر ہم سب لوگ بیٹھ سکیں۔۔کچھ سکون آیا کہ چلو اب اندر آگئے اور بیٹھ بھی گئے کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ کالج کے بچے ہوٹل میں کیا کرنے آئے ہیں
دو تین منٹ ہوگئے بیٹھے ہوئےنہ تو ٹیبل پر کوئی مینو کارڈ اور نہ ہی کوئی آرڈر لینے آیا ، خیر میں نے اور ایک فرینڈ نے ہمت کرکے ایک اسٹاف کے بھائی کو بلایا اور ان سے مینو کارڈ کا پوچھا ، انہوں نے بتایا کہ کوئی آرڈر لینے نہیں آئے گا بلکہ ریسیپشن پر جا کر آرڈر لانا پڑے گا۔
اففف ایک اور مشکل کام۔۔ہم سب ایسے بچے جو کبھی شادیوں پر بھی خود اٹھ کر کھانا لینے نہیں جاتے ، امی جان سب کو کھانا لا کر دیتی ہیں یا بڑی بہنا۔۔ نیچے جا کر خودکھانا لائیں۔۔دو تین فرینڈز تو کہتیں نہ بابا ہم نہیں جا رہے۔۔
مینو کارڈ تو مل گیا اب ہم ڈیسائیڈ کرنے لگے زیادہ تر فرائیڈ چکن تھا برگر اور فرائیڈ رائس تھے ہم لوگوں نے چار ڈیلز سیلیکٹ کیں اور سارے لوگ ایک دوسرے سے کہیں تم جاؤ ناں ۔۔نہیں تم جاؤ اپنے ساتھ اس کو لے جاؤ۔۔نہ بابا میں نہ جاؤں، تم جاؤ
خیر میں نے کہا ٹھیک میں چلی جاتی ہوں ساتھ میں میری ایک اور فرینڈ آگئی اور ایک فرینڈ کو ہم زبردستی لے آئے ۔۔ نیچے ریسپشن پر آکر کر کھڑے آئے تو وہاں پہلے سے ہی بہت سارے انکل لوگ کھڑے تھے ۔۔اور بتاؤں کافی دیر تو کوئی ہماری طرف دیکھے بھی نہ کہ ان کو کچھ لینا ہوگا۔۔سارے انکل لوگوں سے آرڈر لیے جائیں حالانکہ ہمارا آرڈر ان سے مہنگا تھا مجھے بعد میں پتا چلا۔۔
اللہ اللہ کرکے انکل لوگ تھوڑے کم ہوئے تو وہ بھائی کہتے جی میم آرڈر لکھوائیں۔۔میں نے سوچا ہیں ابھی تو ہم لوگ اسٹوڈنٹ ہیں میم تو نہیں بنے۔۔میم توہم اپنی ٹیچرز کو بولتے ہیں۔۔ ان بھائی کو آرڈر لکھوا کر پیسے ادا کیے تو ہمیں کہا گیا کہ پانچ منٹ میں ہماری ڈیل ریڈی ہوگی
ہم نے سوچا اتنی دیر یہیں رہتے ہیں کیا اوپر جائیں اور پھر واپس آئیں ۔۔ ہم لوگ آئس کریم دیکھنےلگے اور میں نے کہا ہم آئس کریم ضرور کھانے والے ہیں بعد میں۔۔ پانچ منٹ بعد بھی دو تین بار ہم نے ان بھائی کو بولا اور بتاؤں وہ اتنی تیز تیز بولتے تھے ۔۔کہ کچھ سمجھ ہی نہ آئے بندے کو۔۔ادھر بولتے اور ادھر کسی دوسرے سے بولتے اور بولتے رہتے بس
ہماری ٹرے آگئی ۔۔اور ہم نے دل میں سوچا اتناااا سب کچھ کون کھائے گا مینو کارڈ پر تو یہ کھانا تھوڑا سا لگ رہا تھا
اپنی ٹیبل پر آکر ہم کھانے لگے تو پتا چلا کہ وہ سب لوگ جو پہلے بھوک بھوک چلا رہے تھے سب کی بھوک آدھی رہ گئی ہے ۔۔چاول چونکہ سب کو پسند تھے اس لیے وہ ختم ہوگئے لیکن فرائیڈ چکن بچ گیا اور وہ کھایا بھی کیسے جاتا۔۔۔اتنا اا زیادہ تھا
ہم سوچا اس کو پیک کروا لیں گے۔۔اور بتاؤں ہم نے کھانا کھاتے ہوئے بالکل بچوں کی طرح اپنی ٹیبلز پرکھانا گرا یا ہوا تھا ۔۔میں نے کہا پھر کیا ہوا سارا عملہ تو یہاں صفائی کا ہے خود ہی صفائی کریں گے ۔۔ہیں بھئی ہمیں کیا
یوں بچا ہوا کھانا لے کر ہم اٹھے اور واپسی پر ہنستے ہنستے ہوٹل سے باہر نکلے وہاں پاس ہی سے رکشہ مل گیا ، رکشے میں بیٹھتے ہی جو باتیں شروع ہوئیں تو گھر آنے کا احساس ہی نہیں ہوا
ایک مزیدار، خوشگوار دن کا اختتام ۔۔اور گھر آتے ہی امی جان اور شاکر بھائی کچن میں ہی مل گئے اور میں نے بیگ بھی رکھنے سے پہلے ساری روداد سنانا شروع کر دی ۔۔ وہ بھی خوب ہنسے!
صبح پہلے مجھے سب کی ڈانٹ سننا پڑی کہ ہمیں خواہ مخواہ پریشان کیے رکھا تم نے ساری رات دعائیں مانگتے رہے کہ آنٹی پرمیشن دے دیں
سارے لیکچرز اٹینڈ کرکے چھٹی وقت ہم لوگ نکلے ۔۔ہماری کالج سے تھوڑی سی دوری پر دو تین ہوٹل ہیں جہاں اکثر کالج کی لڑکیاں بھی چلی جاتی ہیں۔۔ پیدل چلنے کا فیصلہ ہوا اور جیسے جیسے ہم قریب جا رہے تھے گھبراہٹ ہو رہی تھی اور کچھ فرینڈز کے تو ہاتھ بھی ٹھنڈے ہو رہے تھے۔۔ جو فرینڈ سب سے زیادہ انسسٹ کر رہی تھی وہی سب سے زیادہ گھبرا رہی تھی میں نے کہا اب پتا چلا نہ بچو اور مناؤ ہوٹل میں سالگرہ۔۔
دو سڑکیں ناپ کر جب ہم ہوٹل پہنچے تو ایسے کہ یونیفارم میں تھے اور کالج شوز مٹی سے اٹے تھے، ہوٹل سامنے اور ہم سوچیں کون سب سے پہلے داخل ہوگا
خیر ایک فرینڈ داخل ہوئیں اور پھر میں اور باقی لوگ۔۔۔ اور اب سامنے نظر آنے والے ٹیبلز میں سے کسی کے گرد اتنی کرسیاں نہیں تھیں جتنے ہم لوگ تھے ۔۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھاکہ اب؟
اوہ اوپر بھی تو جا سکتے ہیں ناں میں نے اشارہ کیا اور شکر ہے وہ ہوٹل کے اسٹاف کے لوگ بھی کھڑے تھے وہ بولے آپی آپ اوپر چلے جائیں
اوپر سامنے ہی ایک ٹیبل مل گئی جس پر ہم سب لوگ بیٹھ سکیں۔۔کچھ سکون آیا کہ چلو اب اندر آگئے اور بیٹھ بھی گئے کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ کالج کے بچے ہوٹل میں کیا کرنے آئے ہیں
دو تین منٹ ہوگئے بیٹھے ہوئےنہ تو ٹیبل پر کوئی مینو کارڈ اور نہ ہی کوئی آرڈر لینے آیا ، خیر میں نے اور ایک فرینڈ نے ہمت کرکے ایک اسٹاف کے بھائی کو بلایا اور ان سے مینو کارڈ کا پوچھا ، انہوں نے بتایا کہ کوئی آرڈر لینے نہیں آئے گا بلکہ ریسیپشن پر جا کر آرڈر لانا پڑے گا۔
اففف ایک اور مشکل کام۔۔ہم سب ایسے بچے جو کبھی شادیوں پر بھی خود اٹھ کر کھانا لینے نہیں جاتے ، امی جان سب کو کھانا لا کر دیتی ہیں یا بڑی بہنا۔۔ نیچے جا کر خودکھانا لائیں۔۔دو تین فرینڈز تو کہتیں نہ بابا ہم نہیں جا رہے۔۔
مینو کارڈ تو مل گیا اب ہم ڈیسائیڈ کرنے لگے زیادہ تر فرائیڈ چکن تھا برگر اور فرائیڈ رائس تھے ہم لوگوں نے چار ڈیلز سیلیکٹ کیں اور سارے لوگ ایک دوسرے سے کہیں تم جاؤ ناں ۔۔نہیں تم جاؤ اپنے ساتھ اس کو لے جاؤ۔۔نہ بابا میں نہ جاؤں، تم جاؤ
خیر میں نے کہا ٹھیک میں چلی جاتی ہوں ساتھ میں میری ایک اور فرینڈ آگئی اور ایک فرینڈ کو ہم زبردستی لے آئے ۔۔ نیچے ریسپشن پر آکر کر کھڑے آئے تو وہاں پہلے سے ہی بہت سارے انکل لوگ کھڑے تھے ۔۔اور بتاؤں کافی دیر تو کوئی ہماری طرف دیکھے بھی نہ کہ ان کو کچھ لینا ہوگا۔۔سارے انکل لوگوں سے آرڈر لیے جائیں حالانکہ ہمارا آرڈر ان سے مہنگا تھا مجھے بعد میں پتا چلا۔۔
اللہ اللہ کرکے انکل لوگ تھوڑے کم ہوئے تو وہ بھائی کہتے جی میم آرڈر لکھوائیں۔۔میں نے سوچا ہیں ابھی تو ہم لوگ اسٹوڈنٹ ہیں میم تو نہیں بنے۔۔میم توہم اپنی ٹیچرز کو بولتے ہیں۔۔ ان بھائی کو آرڈر لکھوا کر پیسے ادا کیے تو ہمیں کہا گیا کہ پانچ منٹ میں ہماری ڈیل ریڈی ہوگی
ہم نے سوچا اتنی دیر یہیں رہتے ہیں کیا اوپر جائیں اور پھر واپس آئیں ۔۔ ہم لوگ آئس کریم دیکھنےلگے اور میں نے کہا ہم آئس کریم ضرور کھانے والے ہیں بعد میں۔۔ پانچ منٹ بعد بھی دو تین بار ہم نے ان بھائی کو بولا اور بتاؤں وہ اتنی تیز تیز بولتے تھے ۔۔کہ کچھ سمجھ ہی نہ آئے بندے کو۔۔ادھر بولتے اور ادھر کسی دوسرے سے بولتے اور بولتے رہتے بس
ہماری ٹرے آگئی ۔۔اور ہم نے دل میں سوچا اتناااا سب کچھ کون کھائے گا مینو کارڈ پر تو یہ کھانا تھوڑا سا لگ رہا تھا
اپنی ٹیبل پر آکر ہم کھانے لگے تو پتا چلا کہ وہ سب لوگ جو پہلے بھوک بھوک چلا رہے تھے سب کی بھوک آدھی رہ گئی ہے ۔۔چاول چونکہ سب کو پسند تھے اس لیے وہ ختم ہوگئے لیکن فرائیڈ چکن بچ گیا اور وہ کھایا بھی کیسے جاتا۔۔۔اتنا اا زیادہ تھا
ہم سوچا اس کو پیک کروا لیں گے۔۔اور بتاؤں ہم نے کھانا کھاتے ہوئے بالکل بچوں کی طرح اپنی ٹیبلز پرکھانا گرا یا ہوا تھا ۔۔میں نے کہا پھر کیا ہوا سارا عملہ تو یہاں صفائی کا ہے خود ہی صفائی کریں گے ۔۔ہیں بھئی ہمیں کیا
یوں بچا ہوا کھانا لے کر ہم اٹھے اور واپسی پر ہنستے ہنستے ہوٹل سے باہر نکلے وہاں پاس ہی سے رکشہ مل گیا ، رکشے میں بیٹھتے ہی جو باتیں شروع ہوئیں تو گھر آنے کا احساس ہی نہیں ہوا
ایک مزیدار، خوشگوار دن کا اختتام ۔۔اور گھر آتے ہی امی جان اور شاکر بھائی کچن میں ہی مل گئے اور میں نے بیگ بھی رکھنے سے پہلے ساری روداد سنانا شروع کر دی ۔۔ وہ بھی خوب ہنسے!
مدیر کی آخری تدوین: