محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
مجھ سے نفرت تھی انھیں ، پر میری خلوت سے نہیں
یہ پتا مجھ کو چلا ، لیکن کہاں؟ کیوں؟ اور کب؟
ان کے قدموں کی اب آہٹ سن رہا ہوں سَرسَری!
جبکہ مجھ کو دفن کرکے جاچکے ہیں لوگ سب
جزاکَ اللہ خیرا۔بہت عمدہ۔
بہت شکریہ حضرت! سچی بات یہ ہے کہ میں اس قطعہ کے مفہوم کو نہیں پا سکا۔ مزمل شیخ بسمل صاحب سے راہنمائی کی درخواست ہے۔
مجھ سے نفرت تھی انھیں ، پر میری خلوت سے نہیںیہ پتا مجھ کو چلا ، لیکن کہاں؟ کیوں؟ اور کب؟ان کے قدموں کی اب آہٹ سن رہا ہوں سَرسَری!جبکہ مجھ کو دفن کرکے جاچکے ہیں لوگ سب
گو کہ اشعار میں مطلب مبہم ہے۔ مگر غور سے دیکھا جائے تو دونوں اشعار کا ربط بہت گہرا محسوس ہوتا ہے۔مجھ سے نفرت تھی مگر میری خلوت سے نہ تھی۔ خلوت کونسی کہاں کی؟ اور کیسی؟
بہت شکریہ جناب مزمل شیخ بسمل صاحب۔
یہ تو کھل گیا کہ وہ قبر پر آتے ہیں، خلوت اور قبر؛ مراعات النظیر میں آ گیا۔ یہ تعلق تو واضح ہے۔
مجھ سے نفرت تھی، میری تنہائی سے نفرت نہیں تھی۔ تنہائی میں بھی تو میں ہی ہوں بلکہ صرف میں ہوں؛ میری تنہائی سے نفرت نہ ہونا چہ معنی دارد؟ یا تو یہ ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ سب مجھے چھوڑ دیں اور میں تنہا رہ جاؤں؟ اس سے زیادہ نفرت اور کیا ہو گی؟ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ وہ چاہتے ہوں کہ میں تنہا ہو جاؤں تو وہ مجھ سے ملیں (اکیلے میں)؛ مجھ سے وہ ملیں تو کیوں کر کہ مجھ سے تو نفرت تھی!
میں تو اسی میں الجھا ہوا ہوں۔
جزاکِ اللہ خیرا۔ خوش رہیں۔بہت خوب۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
داد دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کا بہت بہت شکریہ جناب محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب!بہت خوب اسامہ سَرسَری بھائی۔ بہت داد قبول فرمائیے۔
علامہ صاحب، ناراض نہیں ہونا بھائی۔
علامہ صاحب، ناراض نہیں ہونا بھائی۔
نہیں نہیں جناب والا!شاعر اپنا۔ ناقد اپنا۔ استاد جی اپنے۔ اردو بھی اپنے۔ اشعار بھی اپنے۔ تو ناراض کیوں ہونگے علامہ صاحب۔ ؟
کیوں اسامہ بھائی؟ آپ ناراض ؟
گو کہ اشعار میں مطلب مبہم ہے۔ مگر غور سے دیکھا جائے تو دونوں اشعار کا ربط بہت گہرا محسوس ہوتا ہے۔
مجھ سے نفرت تھی مگر میری خلوت سے نہ تھی۔ خلوت کونسی کہاں کی؟ اور کیسی؟
اگلے شعر میں کہا گیا کہ وہ خلوت در حقیقت موت ہے۔ میں قبر میں جا دفن ہوا۔ اب وہ آتے ہیں ۔
مزمل شیخ بسمل بھائی! اللہ آپ سے راضی ہوجائے، خوشی ہوئی آپ کے ان مراسلوں سے۔ظاہر ہے حقیقی معنی تو فی البطن شاعر ہی ہے۔ یہ ریت نجانے کب سے ہے !! شاید غالب سے یا اس سے بھی پہلے کی ہے۔ کہ شعر سنو! خود ہی سمجھو اور کہو واہ واہ!! اسی میں خیر ہے کیوں کہ اگر نہ سمجھے تو بد ذوق ٹھہرے۔ اس لئے معاملہ یوں ہے کہ: شعر سن لیا؟ اب سوال نہیں کرنا۔ نہ جواب دینا۔ کیونکہ تم سمجھ گئے نا تمہی با ذوق ہو!
خیر بات دوسری جانب چلی گئی۔
شاعر نے در اصل محبوب کے حوالے سے لکھا کہ خلوت سے مراد محبوب موت لیتا ہے۔ اور وہ میری موت سے ہی محبت کرتا ہے۔ اسی لئے شاعر پہلے شعر میں سوال کر رہا ہے محبوب سے کہ بتاؤ آخر وہ کونسی خلوت ہے جس سے تمہیں محبت ہے؟ وہ خلوت آخر کہاں ہوگی؟ کب ہوگی؟ وغیرہ۔ پھر اگلے شعر میں جواب دیا ہے بعدِ مردن!!!!
اسے کہتے ہیں نقاد جن پر شاعروں کی دنیا قائم ہے
استاد محترم! میں نے اسی الجھن کا شکار ہوکر یہ قطعہ لکھا ہے۔بہت شکریہ جناب مزمل شیخ بسمل صاحب۔
یہ تو کھل گیا کہ وہ قبر پر آتے ہیں، خلوت اور قبر؛ مراعات النظیر میں آ گیا۔ یہ تعلق تو واضح ہے۔
مجھ سے نفرت تھی، میری تنہائی سے نفرت نہیں تھی۔ تنہائی میں بھی تو میں ہی ہوں بلکہ صرف میں ہوں؛ میری تنہائی سے نفرت نہ ہونا چہ معنی دارد؟ یا تو یہ ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ سب مجھے چھوڑ دیں اور میں تنہا رہ جاؤں؟ اس سے زیادہ نفرت اور کیا ہو گی؟ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ وہ چاہتے ہوں کہ میں تنہا ہو جاؤں تو وہ مجھ سے ملیں (اکیلے میں)؛ مجھ سے وہ ملیں تو کیوں کر کہ مجھ سے تو نفرت تھی!
میں تو اسی میں الجھا ہوا ہوں۔
مجھے تو بہت مزہ آرہا ہے اپنے گھسے پٹے اشعار کی اتنی معنی خیز تشریحات پڑھ کر۔