مہ جبین
محفلین
مجھ پہ جب لطفِ شہِ کون و مکاں ہو جائے گا
چرخ سا نا مہرباں بھی مہرباں ہوجائے گا
نامِ نامی آپ کا وردِ زباں ہوجائے گا
دور ہر اندیشہء سود و زیاں ہو جائے گا
شوقِ دل تنہا چلا ہے جانبِ طیبہ مگر
ہوتے ہوتے ایک دن یہ کارواں ہو جائے گا
اوج بخشے گا مجھے ذکرِ شہِ لوح و قلم
ایک دن عجزِ سخن حسنِ بیاں ہو جائے گا
جب مِرے دل کی زمیں پر آپ رکھیں گے قدم
اس زمیں کا ذرہ ذرہ آسماں ہو جائے گا
گامزن ہوگا زمانہ اسوہء سرکار پر
راستے کا ذرہ ذرہ کہکشاں ہو جائے گا
ذہن کیا مدحت کرے ممدوحِ داور کی ایاز
بند کیا کوزے میں بحرِ بیکراں ہو جائے گا؟
ایاز صدیقی