محبتوں میں نظر سے سلام ہوتے ہیں ۔۔۔

شوکت پرویز

محفلین
"وصال" شادی سے پہلے کی بات ہے بیگم
کہ بعد شادی کے دس اور کام ہوتے ہیں

بہت خوب امجد بھائی!
آپ نے واقعی کم وقت میں کافی شائستہ مزاحیہ غزل کہ ڈالی۔
بہت سی داد قبول ہو۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
الشفاء کلام کا تخیل بہت خوب ہے باقی تکنکی رہنمائی ممبئی سے محفل کے نئے رکن شوکت پرویز نے بہت عمدی کی جس سے محفل کے استاد محترم الف عین صاحب بھی متفق ہیں بہت عمدہ کاوش ملا لباس شرف جن سے نوع انساں کو
وہی تو خیر بشر خیرالانام ہوتے ہیں

تخیل پسند فرمانے پر ممنون ہوں @سیدزبیر صاحب۔۔۔
بہت بہت شکریہ ذرہ نوازی کا۔۔۔
 

شوکت پرویز

محفلین
جناب امجد علی راجا صاحب، اور جناب شوکت پرویز صاحب ۔
میری رائے بلکہ سفارش مندرجہ ذیل وزن کے حق میں ہے:
فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن : اس میں آخری فاعلتن کے مقابل فاعلتان، مفعولن، مفعولات بلااِکراہ جائز ہے۔
یہ بحرِ مجتث مثمن دائرہ متوافقہ کی پانچویں بحر ہے۔ یاد رہے کہ پانچویں دائرے (مختلفہ) سے بحرِ مجتث مسدس نکلتی ہے۔

ہمارے روایتی عروض سے شغف رکھنے والے احباب اس کا متن ’’مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن‘‘ (فعلن کے دونوں اعراب: فِعْلُن اور فَعِلُن) قرار دیتے ہیں۔ خطی تشکیل میں ’’فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن‘‘ اور ’’مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَعِلُن‘‘ باہم متماثل ہیں، سو، یہاں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔


میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ’’مفعلن‘‘ کتابت میں سہو کا نتیجہ ہے۔

حاصل یہ ہوا کہ جس کو جو اوزان مانوس تر لگتے ہیں، ان میں تقطیع کر لے۔ ہم بھی خوش، یار بھی خوش

چونکہ میں نے بحروں کے متعلق آپ کی کتاب "فاعلات" سے سیکھا ہے، اس لئے میرا بھی یہی نظریہ بن گیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ آپ نے فاعلات میں ایک جگہ غالب کی اسی بحر کے درج ذیل شعر کی تقطیع کی ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
پھر جب سے ہی یہ افاعیل زبان پر چڑھ گئے ہیں، پھر وہ چاہے
فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن ہو،
یا
فاعلن فاعلات مفعولن ہو

شکریہ!!
 
چونکہ میں نے بحروں کے متعلق آپ کی کتاب "فاعلات" سے سیکھا ہے، اس لئے میرا بھی یہی نظریہ بن گیا ہے۔​

آپ کی اس حوصلہ افزائی نے میرا خون سیروں بڑھا دیا ہے۔ شوکت پرویز !
تاہم ایک بات ضرور کہوں گا۔ نظام وہی ہے، اصل وہی ہے! جہاں کہیں مجھے ایک چیز مشکل لگی میں نے سوچا اوروں کو بھی مشکل لگی ہو گی۔ سو، جہاں سے جو آسانی ملی اختیار کر لی۔ اور آسانیوں سے ایسے مانوس ہوئے کہ مشکل مشکل تر لگنے لگی۔

خوش رہئے۔
 
جناب امجد علی راجا صاحب، اور جناب شوکت پرویز صاحب ۔
خموش لب ہیں دلوں سے کلام ہوتے ہیں
محبتوں میں نظر سے سلام ہوتے ہیں
میری رائے بلکہ سفارش مندرجہ ذیل وزن کے حق میں ہے:
فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن : اس میں آخری فاعلتن کے مقابل فاعلتان، مفعولن، مفعولات بلااِکراہ جائز ہے۔
یہ بحرِ مجتث مثمن دائرہ متوافقہ کی پانچویں بحر ہے۔ یاد رہے کہ پانچویں دائرے (مختلفہ) سے بحرِ مجتث مسدس نکلتی ہے۔

ہمارے روایتی عروض سے شغف رکھنے والے احباب اس کا متن ’’مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن‘‘ (فعلن کے دونوں اعراب: فِعْلُن اور فَعِلُن) قرار دیتے ہیں۔ خطی تشکیل میں ’’فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن‘‘ اور ’’مفاعلن فعلاتن مفاعلن فَعِلُن‘‘ باہم متماثل ہیں، سو، یہاں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔


میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ’’مفعلن‘‘ کتابت میں سہو کا نتیجہ ہے۔

حاصل یہ ہوا کہ جس کو جو اوزان مانوس تر لگتے ہیں، ان میں تقطیع کر لے۔ ہم بھی خوش، یار بھی خوش!۔
دیکھا دوستو! اس لئے کہتے ہیں کسی بھی کام کے لئے استاد کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میں اپنی خوشنصیبی سمجھتا ہوں کہ استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہیں
 
امجد علی راجا صاحب ۔۔ ساری میٹھی میٹھی باتیں سمیٹ کر محفوظ کر لیجئے،
مجھے ’’تلخ نوائی‘‘ کے لئے ابھی وقت نہیں ملا۔ پھر کسی وقت حاضر ہوں گا، ان شاء اللہ۔
زہے نصیب! آپ کی "تلخ نوائی" کی ہی تو سخت ضرورت ہے۔ ہمیں رگڑا ملے گا تو ہی چمکیں گے نا :)
میں پلکیں بچھائے آپ کی راہ دیکھ رہا ہوں۔
 
"وصال" شادی سے پہلے کی بات ہے بیگم
کہ بعد شادی کے دس اور کام ہوتے ہیں

بہت خوب امجد بھائی!
آپ نے واقعی کم وقت میں کافی شائستہ مزاحیہ غزل کہ ڈالی۔
بہت سی داد قبول ہو۔۔
شوکت بھیا! تعریف کے لئے شکریہ۔
غزل آپ کو پسند آئی، میری محنت وصول ہوئی۔ آپ کی داد بصد شکریہ قبول
 
عجیب رسم ہے "درگاہ" کے فقیروں کی
جو "چرس" پیتے ہیں وہ ہی امام ہوتے ہیں
ہوئی ہے آپ کو پولیس جی غلط فہمی
"شراب" کہتے ہو جس کو، یہ "جام" ہوتے ہیں
:great::best::zabardast1:

یوسف بھیا! آپ کی تعریف کرنے کا انداز ہی اتنا پیارا ہے کہ میں خود بھی خوب لطف اٹھاتا ہوں :)
غزل کی تعریف کے لئے شکریہ۔ خوش رہیں سلامت رہیں
 
واہ جی واہ۔۔۔ امجد علی راجا بھیا، آپ نے تو واقعی میں غزل " جڑ " دی ۔:p۔

زبردست ہے جی، مزے کی بات یہ ہے کہ جب ہم نے دوسرا شعر کہا تھا تو ہمارے ذہن میں بھی مجنوں کا خیال آیا تھا۔ اور اسی شعر میں آپ کو بھی مجنوں کا خیال آتا ہے۔:) کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔۔۔

تعریف کے لئے شکریہ بھیا، سہرا آپ کے سر جاتا ہے جنہوں نے مزاحیہ غزل "جڑ" نے کی فرمائش کی تھی :)
یہ مجنوں کا خیال دونوں کو ہی آنا کوئی حادثاتی بات نہیں ہو سکتی، اس کے پسِ منظر میں ضرور کوئی راز چھپا ہوگا۔ میں نے پتہ کروایا ہے، میری تو رشتےداری نکل آئی مجنوں سے، میرے بزرگوں کے کزن ہوا کرتے تھے، آپ بھی پتہ کروا لیں، ہو سکتا ہے آپ بھی میرے رشتے دار ہی نکل آئیں :)
اگر کوئی لنک نہ ملا تو پھر یہ تو ثابت ہے کہ آپ بھی میری طرح، یا شاید میں آپ کی طرح محبت میں مجنوں بن جانے والے لوگ ہیں :)
 

شوکت پرویز

محفلین
انہی میں خشکی و تر کے امام ہوتے ہیں
ملا لباس شرف جن سے نوع انساں کو

میں نے اپنی پہلی پوسٹ (#3) میں اس لفظ کو غیر موزوں کہا تھا، لیکن:
فرہنگ آصفیّہ میں لفظ "شرف" دونوں وزن پر ہے، "شر+ف" اور "ش+رف"۔
نیچے غالب کا اشعار جن میں "ش+رف" باندھا گیا ہے۔
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مرگیا ہے تو جنگل اُداس ہے
اور
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
اس بناء پر میں اس لفظ کی بابت خاموشی اختیار کر رہا ہوں یہاں تک کہ اساتذہ کرام اس بارے میں واضح نہ کر دیں۔
لہٰذا میرے اس لفظ پر کی گئی بات کو نظر انداز کیا جائے۔
الشفاء
الف عین
امجد علی راجا
محمد یعقوب آسی

شکریہ!!
 
شرف
شان الحق حقی نے ’’فرہنگِ تلفظ‘‘ میں اس کو شَرَف لکھا ہے۔
نقل (صفحہ 660)
شَرَف فت ش ر ا مذ ۔ عزت، حرمت، بڑائی، برتری ۔۔ ۔۔
وغیرہ

علامات کی تشریح
فت ش ر : فتحہ ش، فتحہ ر
ا : اسم
مذ : مذکر

غالب کے منقولہ بالا شعروں میں بھی اس کے مطابق ہے۔
 
شرف

مصباح اللغات (عربی سے اردو): صفحہ 428 کالم 3
مادہ: ش ر ف
الشَرَف (مصدر) عزت و بزرگی، شرافت۔
اس میں ال تعریف کا ہے، اور شین مفتوح، راء مفتوح۔

غالب اور شان الحق حقی کے ہاں اس سے مطابقت پائی گئی ہے۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔
مرا شرف کہ تو مجھے جوازِ افتخار دے
فقیرِ شہرِ علم ہوں زکٰوۃ ِ اعتبار دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افتخار عارف​
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن​

مِ را ش رَف (مفاعلن) ۔۔۔۔۔ کہ تو مجھے ۔۔ جوازِ اِف ۔۔ تخار دے
فقیرِ شہ ۔۔ رِ علم ہوں ۔۔ زکاتِ اِع ۔۔ تبار دے
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
مطابق منقولہ بالا
 

الف عین

لائبریرین
عزیزی شوکت پرویز کی دونوں مثالوں میں غالب نے شرف بر وزن فعو ہی استعمال کیا ہے۔ اور یہی تلفظ درست ہے میرے خیال میں بھی۔
 

الف عین

لائبریرین
خموش لب ہیں دلوں سے کلام ہوتے ہیں
محبتوں میں نظر سے سلام ہوتے ہیں
//درست

میں تیرے در سے ذرا دور بھی نہیں جاتا
تری گلی میں مرے صبح و شام ہوتے ہیں
//درست

زباں پہ لا نہ سکیں ذکر جن کا "محفل" میں
کچھ ایسے لوگ دلوں میں دوام ہوتے ہیں
درست

نماز روزے سے جاں جاتی ہے مگر یہ لوگ
افطار بوفے میں حاضر تمام ہوتے ہیں
//افطار تو وزن میں ہی نہیں آتا، اس شعر کو نکال دینا ہی بہتر ہے۔

تُساں کی پوسٹ میں ہوتے ہیں تیر طنزوں کے
اساں کی پوسٹ میں لکھے سلام ہوتے ہیں
//اس کی اصلاح کی جائے یا محض دل لگی ہے؟

تو دیکھتا ہے حقارت سے جن فقیروں کو
انہی میں خشکی و تر کے امام ہوتے ہیں
//درست، بلکہ خوب

ملا لباس شرف جن سے نوع انساں کو
وہی تو خیر بشر خیرالانام ہوتے ہیں
//دوسرا مصرع پٹری سے اتر گیا نا!!
وہ لوگ دہر میں خیر الانام ہوتے ہیں

کتاب عشق حقیقی کی لُغتیں ہیں دگر
نہ مے یہ مے ہے نہ دراصل جام ہوتے ہیں
//تھوڑی سی تبدیلی سے بہتر ہو سکتا ہے
کتاب عشق حقیقی کی لُغتیں ہیں الگ
نہ مے وہ مے ہے نہ وہ جام جام ہوتے ہیں
مزید بہتری کے لئے ’لعنتیں‘ کی جگہ بھی کچھ اور ہم وزن لفظ ہو تو سوچو۔

بھرا کچھ اور ہی ہوتا ہے ان پیالوں میں
چھُپا کے رکھنے کو اوپر یہ نام ہوتے ہیں
//دوسرا مصرع کچھ روانی چاہتا ہے، مثال کے طور پر
بھلے ہی سطح پہ لکھے یہ نام ہوتے ہیں

کچھ ایسے الجھے ہیں لائف کی کشمکش میں شفا
جو ختم کرتے ہیں دس، دس اور کام ہوتے ہیں
//لائف لانے کی کوئی خاص وجہ؟
کچھ ایسے الجھے ہیں ہستی کی کشمکش میں شفا
نمٹتا ایک ہے، دس اور کام ہوتے ہیں
 

الشفاء

لائبریرین
خموش لب ہیں دلوں سے کلام ہوتے ہیں
محبتوں میں نظر سے سلام ہوتے ہیں
//درست

میں تیرے در سے ذرا دور بھی نہیں جاتا
تری گلی میں مرے صبح و شام ہوتے ہیں
//درست

زباں پہ لا نہ سکیں ذکر جن کا "محفل" میں
کچھ ایسے لوگ دلوں میں دوام ہوتے ہیں
درست

نماز روزے سے جاں جاتی ہے مگر یہ لوگ
افطار بوفے میں حاضر تمام ہوتے ہیں
//افطار تو وزن میں ہی نہیں آتا، اس شعر کو نکال دینا ہی بہتر ہے۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔

تُساں کی پوسٹ میں ہوتے ہیں تیر طنزوں کے
اساں کی پوسٹ میں لکھے سلام ہوتے ہیں
//اس کی اصلاح کی جائے یا محض دل لگی ہے؟

سر ،تھی تو دل لگی۔۔۔ لیکن مہ جبین باجی نے یوں کہہ کے اس کو دل کی لگی بنا دیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے۔۔۔
تمہاری پوسٹ میں ہوتے ہیں تیر طنزوں کے
ہماری پوسٹ میں لکھے سلام ہوتے ہیں۔

تو دیکھتا ہے حقارت سے جن فقیروں کو
انہی میں خشکی و تر کے امام ہوتے ہیں
//درست، بلکہ خوب
بہت شکریہ جناب۔

ملا لباس شرف جن سے نوع انساں کو
وہی تو خیر بشر خیرالانام ہوتے ہیں
//دوسرا مصرع پٹری سے اتر گیا نا!!
وہ لوگ دہر میں خیر الانام ہوتے ہیں
جی بہتر۔۔۔ویسے خیر کی ر کے نیچے زیر ہے۔ جو میں ڈال نہیں پایا۔ کیا اس سے بھی مصرعہ پٹڑی پر نہیں چڑھے گا؟

کتاب عشق حقیقی کی لُغتیں ہیں دگر
نہ مے یہ مے ہے نہ دراصل جام ہوتے ہیں
//تھوڑی سی تبدیلی سے بہتر ہو سکتا ہے
کتاب عشق حقیقی کی لُغتیں ہیں الگ
نہ مے وہ مے ہے نہ وہ جام جام ہوتے ہیں
مزید بہتری کے لئے ’لعنتیں‘ کی جگہ بھی کچھ اور ہم وزن لفظ ہو تو سوچو۔
ٹھیک ہے سر۔۔۔ ویسے یہ لُغت کی جمع لُغتیں ہیں۔ یعنی زبانیں۔ اور آخر میں دیگر والا دگر ہے، دال کے نیچے زیر۔ کیا ایسے چل سکتا ہے۔

بھرا کچھ اور ہی ہوتا ہے ان پیالوں میں
چھُپا کے رکھنے کو اوپر یہ نام ہوتے ہیں
//دوسرا مصرع کچھ روانی چاہتا ہے، مثال کے طور پر
بھلے ہی سطح پہ لکھے یہ نام ہوتے ہیں
بہت ہی اچھا سر۔۔۔

کچھ ایسے الجھے ہیں لائف کی کشمکش میں شفا
جو ختم کرتے ہیں دس، دس اور کام ہوتے ہیں
//لائف لانے کی کوئی خاص وجہ؟
کچھ ایسے الجھے ہیں ہستی کی کشمکش میں شفا
نمٹتا ایک ہے، دس اور کام ہوتے ہیں
یہ زبردست ہے جناب۔۔۔


بہت بہت شکریہ محترم الف عین صاحب۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
’’جی بہتر۔۔۔ ویسے خیر کی ر کے نیچے زیر ہے۔ جو میں ڈال نہیں پایا۔ کیا اس سے بھی مصرعہ پٹڑی پر نہیں چڑھے گا؟‘‘
خیر الانام کا تلفظ پٹری پر نہیں آتا۔خیرآم یا خیرنام آتا ہے۔ درست محض ’خیر الانا‘ مستفعلن ہے

’’تاب عشق حقیقی کی لُغتیں ہیں الگ
نہ مے وہ مے ہے نہ وہ جام جام ہوتے ہیں
مزید بہتری کے لئے ’لعنتیں‘ کی جگہ بھی کچھ اور ہم وزن لفظ ہو تو سوچو۔
ٹھیک ہے سر۔۔۔ ویسے یہ لُغت کی جمع لُغتیں ہیں۔ یعنی زبانیں۔ اور آخر میں دیگر والا دگر ہے، دال کے نیچے زیر۔ کیا ایسے چل سکتا ہے۔‘‘
اوہو، لغتیں کا تلفظ بھی تو غلط ہے، اس کو لغت میں دیکھو!! ’دیگر‘ تو سمجھ گیا تھا، اور دِگر درست تقطیع ہوتا ہے۔
 
Top