سخی سید بلاول شاہ نورانی المعروف جئے شاہ
شاہ جی آپ نے ان کا ذکر خیر کرہی دیا تو میں بھی بتاتا چلوں کچھ ، گوکہ اب میں مادیت پر زیادہ رکھتا ہوں حتیٰ کہ یقین بھی مادی شکل میں ہی آئے تو مانتا ہوں پر جوانی کے چند تجربات شیئر کرتا ہوں آپ سے ۔۔
میری پیدائش تو پنجاب کی ہے پر پلا بڑھا میں کراچی میں ، میرے کچھ سیانا ہونے پر ( 22،23) سال کی عمر تھی میری جب والد صاحب نے نوکری کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کا ارادہ کیا اور اندرون سندھ چند ایکڑ پر بنا پان کے پتے کا فارم ٹھیکے پر لیا ۔
اہلیان کراچی جانتے ہوں گے کہ پان کی منڈی کراچی میں لیمارکیٹ اور مراد میمن گوٹھ میں ہے ، تو میں اپنے فارم کا مال مہینے میں ایک بار لیمارکیٹ دیتا تھا ورنہ میمن گوٹھ دیتا تھا کیوں کہ وہ مجھے قریب پڑتا تھا ۔
ہوا یوں کہ ایک دن میں کچھ پیسوں کی ریکوری کرکے گھر واپس جانے کیلئے بس کے انتظار میں تھا تو وہاں ایک بندہ لمبی سی بس کے پاس کھڑا شاہ نورانی شاہ نورانی کی آوازیں لگا رہا تھا ، میں جیب تھپ تھپائی تو پیسوں کی گرمی نے کہا کہ چل پر سیر ہوجائے ۔ موبائل اس زمانے میں امراء پاس ہوتا تھا سو قریبی پی سی او سے گھر فون کرکے چھوٹے بھائی کو اطلاع دی کہ امی کو تب بتانا جب وہ پوچھیں اور بس میں بیٹھ گیا اوائل نومبر تھا تو ایک گرم چادر خریدلی تین چار پیکٹ سگریٹ کے لیئے پانی کی بوتل لی اور سوار ہوگیا بس میں ۔
بس یہ ایکسائٹمنٹ تھی کہ نئی جگہ دیکھی جائے اور ہمارے ننھیال میں اکثر چکر لگانے والے ایک درویش بابا اللہ رکھا سے ملا جائے ۔ خیر جی بس چلی اور منگھوپیر دربار کے پاس سے ہوتی ہوئی پکی سڑک پر آگے جاکر اچانک ہی کچے راستے پر مڑگئی ۔ یوں ایک دم راستہ نیا ہوگیا ۔
خیر بس میں سیٹوں پر اناج اور سبزی کی بوریاں تھی اور ان بوریوں پہ ہم بیٹھے تھے ۔ چرس دھڑادھڑ پی جارہی تھی اور ہر تھوڑی دیر کوئی نہ کوئی نعرہ مار دیتا تھا کہ بولو بولو بولو جئے شاہ ، اور سب مرد و زن ہم آواز جواب دیتے تھےکہ جبل بہ شاہ ۔
کراچی سے اس وقت تقریباً چھہ گھنٹے لگتے تھے شاہ نورانی پہنچنے پر راستے میں ناگن چڑھائی نامی بدنام زمانہ سڑک کا حصہ بھی دیکھا جہاں اکثر و بیشتر جان لیوا حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔۔ خیر اللہ اللہ کرکے شاہ نورانی پہنچے جہاں بس سے اتارے وہاں سامنے کسی محبت فقیر نامی ہستی کا مرقد تھا ۔ معلوم پڑا کہ پہلے یہاں حاضری اور پھر کیکڑے (پرانے زمانے کی ٹرک نما سواری جو ریگستان و پہاڑی علاقوں یکساں کارآمد ہے) میں سوار ہوکر شاہ نورانی کے مرقد پر جانا ہوگا ۔ مرتے کیا نہ کرتے حاضری دی کیکڑے میں سوار ہوئے اور چند لمحوں میں وہاں پہنچ گئے ۔
شاہ نورانی کا علاقہ بنجر بیاباں خشک سیاہ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے جہاں دن کو سورج آگ برساتا ہے اور رات کو پہاڑ گرمی خارج کرتے ہیں پر میں چونکہ نومبر میں گیا تھا تو کافی زیادہ ٹھنڈ ہوگئی تھی ۔
خیر جی وہاں رونق ہی الگ تھی بجلی وہاں ہے نہیں تو ڈیزل جنریٹرز کی ڈھگ ڈھگ نے شور مچایا ہوا تھا ۔ ساتھ میں ہوٹلوں پر لکڑی کی آگ پر بنتے کھانوں کی مہک اور گیلی لکڑی کے دھوئیں نے آنکھوں کو خوب سزا دی پر شہر سے دور یہ ماحول بہت اچھا لگا ۔ اتنے میں ایک بندے نے آکر اعلیٰ کوالٹی کی چرس کی آفر کی تو میں نے کہا کہ بھائی میں مکہ سے تو آیا نہیں پر اتنا بھی بے عقل و شعور نہیں کہ جگہ جن سے منسوب ہے ان کا احترام نہ کروں تو وہ مجھے پاگل سمجھنے والی نظر سے دیکھتا ہوا چلا گیا ۔ خیر سب سے پہلے پیٹ پوجا کی پھر لکڑی کی آگ پہ بنی چائے کے دو تین کپ پیئے پھر صاحب کے مرقد پہ حاضری دی فاتحہ پڑھی اور ملحقہ مسجد کے صحن میں آکر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔
مجھے دراصل قدرت کی آواز سننے کا اسے محسوس کرنے کا شوق تھا اور مجھے لگتا بھی تھا میں ایسا کرسکتا ہوں ۔
اور وہاں قدرت وافر میسر تھی اونچے اونچے کالے ہیبت ناک پہاڑ ان سے اوپر انتہائی صاف شفاف تاروں بھرا آسمان ایسا لگتا تھا جیسے یہ تارے آپ کے اوپر چھارہے ہوں نزدیک آتے جارہے ہوں ۔ خیر اتنے میں ٹھنڈ چادر کی برداشت سے بھی باہر ہوگئی اور نیند نے بھی کہا میں آگئی ہوں مجھ سے ملو ۔
سوچا کسی سے مدد لی جائے کیوں کہ وہاں بہت لوگ تھے فیملیز تھیں ان سے کوئی بستر چادر مانگنے کا ارادہ کیا تھا کہ ایک بندے نے کہا بھائی سردی اور بڑھ جائے گی جاؤ ہوٹل سے بستر کرائے پر لو اور کہیں بچھاکر سوجاؤ یہ سنتے ہی ہوٹل کی جانب بھاگا پہلے بستر کرائے پر لیا جو مختلف اقسام کی بدبوؤں اور خوشبوؤں کے امتزاج کامرکز تھا اسے قبضہ میں کرکے پھر چائے پی اور پھر جگہ کی تلاش میں نکلا کوشش تھی کہ کسی ہوٹل کے چھپر تلے جگہ مل جائے تاکہ سردی سے بچ سکوں پر وہاں پہلے ہی نشئی حضرات کا قبضہ ہوچکا تھا ۔
پھر مسجد کی طرف نکلا تو وہاں اندر کیا باہر صحن میں بھی جگہ نہ تھی اتنے میں مسجد کے صحن سے ملحق چھوٹے سے قبرستان پر نظر پڑی تو دیکھا وہاں قبروں کے درمیان جگہوں پر بھی لوگ بستر بچھا سوئے ہوئے تھے لہذا ڈرتے ڈرتے میں نے بھی دو قبور کے درمیان جگہ ڈھونڈی اور جو منہ میں آیا پڑھتے ہوئے سونے کیلئے لیٹ گیا اور یقین کیجیئے بہت سکون کی نیند آئے مردے بالکل تنگ نہیں کرتے نا خراٹے لیتے ہیں نا کروٹ لیتے ہیں بالکل خاموشی اور سکون سے سونے دیتے ہیں ۔
اب آتا ہوں اس بات کی طرف جو مجھے آج بھی Fantasies کرتی ہے ۔وہ یہ کہ صبح صادق کا وقت تھا اندھیرا اجالا آپس میں باہم پیوست تھے اور ایک دوسرے سے الوداعی معانقہ کررہے تھے ۔ بڑا افسانوی سا ماحول تھا اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی جیسے انتہائی خاموشی نے مجھے سرگوشی کرکے جگادیا ایک بار تو مجھے لگا جیسے خواب سا ہے کیونکہ میں کبھی کھلے آسمان تلے نہیں سویا اور یہاں تو کھلے آسمان تلے دو قبور کے درمیان تیسرا مردہ میں تھا جو کہ قبر سے باہر تھا ۔
خیر میں چت لیٹا آسمان کو گھور رہا تھا کہ اچانک ہی قریب کہیں کوئی جنگلی مور بولنا شروع ہوا اور اس قدر گہری خاموشی میں اس آواز نے سب کچھ ڈھانپ لیا اور صرف قدرت کی آواز پہاڑوں میں گونجتی رہی کچھ دیر تک بولنے کے بعد وہ پھڑپھڑاتا ہوا کہیں پہاڑوں میں غائب ہوگیا اور پھر سکوت طاری ہوگیا ۔
اتنے میں مسجد کے اسپیکر میں پہلے کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور چند لمحوں بعد پہلے مؤذن نے درود سلام پڑھا پھر اذان دی ، سچی بات یہ ہے کہ اس اذان کا فسوں بھی نہیں بھولنے والا خیر میں لیٹا رہا قدرت کو محسوس کرتا رہا ۔ وہ صوفی حضرات کیا کہتے ہیں کہ ایک نماز مسجد میں ہورہی تھی وہیں ایک اور نماز کہیں اندر باطن میں ہورہی تھی
اور پھر جب کسی نعت خواں نے سندھی میں بہت خوبصورت طرز پہ نعت پڑھی تو میں بے اختیار اٹھ کر بیٹھ گیا اور جیسے نشئی حالت نشے میں ڈوبتا ابھرتا ہے ویسی حالت ہوگئی ۔
کچھ دیر بعد تیز چبھنے والی دھوپ نکلی تو اٹھنا پڑا ۔
بستر سمیٹا ہوٹل والے کو واپس کیا پھر مسجد جاکر وضوخانے سے منہ ہاتھ دھویا یخ ٹھنڈے پانی سے اور ہوٹل آکر انڈہ پراٹھا اور چائے کا ناشتہ کیا پھر سگریٹ سلگاکر سوچا کہ واپسی کی جائے اتنے میں یاد آیا کہ بابا اللہ رکھا سے ملنا ہے جو لاہوت لامکاں نامی مقام پر جاتے ہوئے کہیں مل جائیں گے جن کے ذمے وہاں سیمنٹ کی سیڑھیاں بنوانا تھا کیونکہ لاہوت لامکاں جاتے ہوئے سات پہاڑ کراس کرنے ہوتے ہیں اور راستہ بلاشبہ کافی خطرناک تھا خیر جی اٹھا اور ہولیا لاہوتیوں کے راستے پر اور دن کی روشنی میں وہاں کا قدرتی حسن دیکھا ۔
اونچے کالے پہاڑوں کے بیچ ایک چھوٹی بستی ، کسی ہستی کا مزار ، مسجد ، چھوٹے بڑے چھپر ہوٹل ، مزار کے پیچھے کی طرف ایک احاطہ جہاں بڑا سا الاؤ روشن ہوتا ہے وہیں پر جو عجیب بات مجھے لگی وہ یہ سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں اور ایسی سیڑھیاں بنانا کوئی انسانی کام نہیں لگ رہا تھا اور اگر انسانی تھا بھی تو کام نہیں کارنامہ ہی تھا خیر وہاں سے کچھ اوپر ایک غار تھا جہاں بقول بیان کردہ قصے کے مطابق کسی گوکل نامی دیو کو صاحب مزار نے پریوں کو تنگ کرنے کی پاداش میں بند کیا ہوا تھا میں وہاں گیا اور غار کے سامنے موجود پتھر پہ کان رکھا تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور تمام حسیات ایک جگہ سمٹ آئیں ( یہ دراصل اس بارے سنے ہوئے قصے کی وجہ سے ہوا تھا )
واپس آتا ہوں بابا اللہ رکھا سے ملاقات پہ تو لاہوتیوں کے رستے پہ ہولیا پہلے پہاڑ پر موجود راستے پہ قدم رکھا اور کچھ دیر چلنے کے بعد پتہ چلا کہ بھائی یہ لاہوتی راستہ تو ہرگز نہیں کوئی چھوٹا موٹا پل صراط قسم کا ہے اور وہاں بلوچی کھیڑی پہننے کا فائدہ بھی پتہ چلا کہ ٹائر سول کی بھاری چپل کتنی کارآمد ہے پہاڑوں پہ ۔ تو میں چلتا رہا پسینہ نکلتا رہا حتیٰ کہ کندھوں پہ موجود چادر ، تن کے کپڑے اور خود اپنا آپ بوجھ محسوس ہونے لگا تھکن سے اور راستہ تھا کہ ختم نہیں ہورہا تھا اور بابا اللہ رکھا مل نہیں رہا تھا کہ خیال آیا کسی درویش یا مست سے ہی پوچھ لوں شاید پتہ مل جائے تو کافی دیر بعد ایک ملنگ ملا اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو فوراً کہنے کہ وہ لمبا سا پنجابی ہرے کپڑے پہنتا ہے ننگے پاؤں پھرتا ہے ، یہ سن جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے کہ چلو بابا اللہ رکھا کے پاس بیٹھ کر چائے پیوں گا کھانا کھاؤں گا اور پھر واپس ۔
میں نے فوراً اقرار میں سر ہلا دیا تو اس نے کہا کہ بس تھوڑا آگے ہی بیٹھا ہوا ہوگا (وہ تھوڑا آگے آدھے سے کچھ ہی کم تھا) خیر جی میں پہنچ بابا اللہ رکھا کے پاس پہلے تو وہ مجھے دیکھ کر ایک دم حیران ہوا بہت زیادہ (اس کے آگے بیان کرنا معیوب لگ رہا ہے کہ اس نے احترام میں کیا حرکات کیں کیونکہ وہ میرے نانا ابو کا معتقد تھا)
خیر میں نے کہا کہ بابا بھوکا مررہاہوں استقبال ہوگیا ہو تو کچھ کھلاؤ جلدی سے اسنے فوراً کسی مزدور کو آواز دی اور کھانے کاکہا اور بے حد لذیذ سبزی اور روٹیاں پانچ منٹ میں آگئیں اتنے میں اسنے جھونپڑی کے کونے میں موجود چولہے پر چائے بنائی پھر یہاں وہاں کی باتیں کرتے کافی وقت ہوگیا تو میں نے کہا بابا اب میں واپس جاتا ہوں تو اس نے کہا کہ یہاں تک آگئے ہو تو لاہوت بھی دیکھ لیتے بلکہ وہاں رات گزارتے ہیں اور
نایاب شاہ جی آپ کو پتہ ہوگا کہ وہاں شام کو پانچ بجے کے بعد کسی کو رکنے نہیں دیتے ۔۔
وہاں کیا ہوا کیسی رات گزری کیا تجربہ رہا اسے رہنے دیتے ہیں کیوں کہ میں لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں یہ اتنی لمبی کہانی بھی نایاب شاہ جی نے جب شاہ نورانی کا ذکر کیا تو دل کیا کہ بیان کروں ۔۔