کسی ایک حاضری کا واقعہ سنائیے !
حاضری ؟ یہ لفظ دو طرح کا مفہوم رکھتا ہے ۔ اک کسی انسان کو ستانے والے جنات یا بھوت پریت یا کالے پیلے نیلے جادو ئی موکلات کو حاضر کرتے ان سے گفت و شنید کرتے انہیں مقبوضہ مقام چھوڑنے پر مجبور کرنا ۔
دوسرے کسی انسان پر اچانک ایسی کیفیت طاری ہوجانا کے وہ ماضی یا مستقبل کے حالات و واقعات غیر ارادی طور پر بیان کرنے لگے ۔ اور اس سے اس کیفیت میں جو پوچھا جائے وہ اس کے بارے درست بات بتائے ۔ اور کیفیت سے باہر آنے کے بعد اسے اس بارے کچھ یاد نہ رہے ۔
مجھے تو جتنی بھی حاضریوں کا تجربہ مشاہدہ ہوا ان میں صنف نازک پر قابض جنات کے نام اکثر اک سے ہی پائے ۔ جیسے " نارسائی کا دکھ " ادھورے پن کا احساس " توجہ سے محرومی " کسی اپنے کی جانب سے جنسی ہراس کا سامنا " خواہشات کا کچلا جانا " معصومیت میں مبتلا چاند پانے کی ضد " نا آسودگی کی اذیت " بے انتہا حسین ہونے کا غرور" شریک حیات سے توجہ الفت کے اظہار کی محرومی " یہاں وہاں سے سنے بے ترتیب وظائف کا ذکر " جمال کی متلاشی جلال کی ذاکر " جلال کی متلاشی جمال کی ذاکر "
اور ان تمام جنات کو اکثر عامل اپنے " لمس اور توجہ " سے بھگا دیتا ہے ۔ لمس اور توجہ بارے تفصیل اک پبلک مقام پر بیان کرنا غیر مناسب امر ہوگا ۔ بس اتنا کافی کہ معصوم کی معصومیت کو اپنے لمس و توجہ سے دھوکہ دیتے اسے نارسائی کے دکھ سے باہر نکالا جاتا ہے ۔ کچھ عامل حضرات اس علاج کی آڑ میں تعویذ دھاگہ جھاڑ پھونک کا ڈرامہ رچاتے اپنے نفسانی مقاصد کی تکمیل بھی کر لیتے ہیں ۔ اور کچھ عرصہ میں جن بھاگ جاتا ہے ۔
جو اللہ سوہنے کا خوف رکھتے ہیں وہ اللہ کے ذکر کو سہارا بناتے امید یقین کی شمع جلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اک اچھے دوست کی صورت اس کی ہر اک بات کو سنتے ہیں توجہ دیتے ہیں ، مریض کا کھویا ہوا اعتماد واپس لاتے ہیں ۔
اس جن کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ مریض پر تشنج اور مرگی کے سے دورے پڑتے ہیں ۔ جسم اینٹھ جاتا ہے ۔ دبلی پتلی نازک سی بچی دو تین بندوں کے قابو نہیں آتی ۔ اکثر یہ صرف خود کو ہی نقصان پہنچاتی ہے ۔ اپنا غصہ بے جان اشیاء پر اتارتی ہے ۔ چپ چاپ خاموش رہا کرتی ہے ۔
میرے مشاہدے میں بچیوں پر قابض جو غیر مرئی مخلوق آئی وہ سب ہی نفسیات سے مربط پائی ۔کچھ ایسے کیس ضرور دیکھے ہیں جن میں غیر مرئی مخلوق کی حقیقی پایا ہے ۔ اور اس کی بنیاد میں گیلے بالوں کے ساتھ تیز خوشبولگا مغرب کے وقت کے آس پاس کسی کھلی جگہ میں جانا جہاں اونچے درخت ہوں اور ویرانی پائی جاتی ہو ۔ ایسے کیس 3۔ہ فی صد ہوتے ہیں ۔
صنف کرخت پر قابض یہ غیر مرئی مخلوق اکثر ہی اس صنف کی اپنی غلطیوں اور والدین کی بے جا تنقید کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ یا پھر الٹے وظائف کا شاخسانہ ۔ غیر مکمل چلوں کا اثر ۔بے جا بہادری کے مظاہرے
صنف کرخت پر قابض غیرمرئی مخلوق 40 فی صد میں حقیقی اور 60 فی صد نفسیاتی پائی ہے ۔
ان قابض مخلوقات کو حاضر کرنا کوئی سہل نہیں ہوتا ۔ اگر تو قابض مخلوق ہندو ہے تو آسان ہے اگر قابض مخلوق مسلمان ہے تو لوہے کے چنے حقیقت میں چبوا دیتی ہے عامل کو ۔
پیپل اور برگد کا درخت ہی کیوں؟
کیسے مناظر دکھے ؟ کس سے خوف اور کس سے ڈر محسوس ہوا
راز کیسے کھلا؟
جنات اور وہم میں فرق کیا رہا پھر؟
آپ ضد اور حق کو ساتھ ملاتے رہے تو نقصانات کیا ہوئے؟
تو چھلاوا ، پچھل پیری ، شتونگڑے کی کوئی تصویر ہوتی ہے ، اگر گوگل پر اس جیسی کوئی مل جائے تو ذرا دکھائیں ، نہیں تو بتا دیں کہ وہ کیسے ہوتے ہیں ؟
یقین اور واہمے میں فرق کیسے کیا جائے؟ واہمہ بھی یقین اور یقین بھی واہمہ لگے
یہ دونوں درخت ہندو مذہب میں بہت متبرک مقدس کہلاتے ہیں ۔ اور ان کے عقیدے سے ان درختوں پر غیر مرئی مخلوقات کا بسیرا ہوتا ہے ۔ مردہ جلاتے وقت جب کھوپڑی پھٹتی ہے تو روح نکل کر کسی قریب ترین رشتہ دار میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اور اگر رشتہ دار چوکنے ہوتے کھوپڑی پھٹنے سے پہلے ہی اس مقام سے دور ہو جائیں جہاں تک روح رسائی رکھتی ہے ۔ تو پھر وہ روح اپنا بسیرا کسی قریبی پیپل یا برگد کے درخت پر بنا لیتی ہے ۔ طلسم و عملیات کی دنیا میں یہ مانا جاتا ہے کہ ان درختوں کے نیچے کئے جانے والے عمل طاقتور اور با اثر ہوتے ہیں ۔اور یہاں بسیرا کر رہی روحوں کو اپنا موکل بنایا جا سکتا ہے ۔
تاریک کالی رات میں اچانک اک جھماکہ ہو اور سامنے اک سٹیج سجا دکھے جس پر کوئی ظالمانہ متشددانہ ایکٹ چل رہا ہو ۔ کوئی ہمیں دیکھتے ہنستے ہنستے اپنا گلہ کاٹ اپنا سر اپنے ہاتھوں میں لیکر ہماری جانب آنے لگے ۔ کسی کا قد اچانک بڑھنے اور جسم کی ہیئیت پھیلنے لگے ۔ اس کے ہاتھ لمبے ہوتے ہماری جانب آنے لگیں ۔ اک بھیانک سی آواز ہمارے رونگٹوں کو کھڑے ہونے پر مجبور کرنے لگے ۔ کوئی حسین و جمیل صورت آہستہ آہستہ روپ اپنا بدلنے لگے ۔ دانت باہر کو آئیں ہاتھ کے پنجے مڑنے لگیں ۔
یہ جتنی بھی ہارر موویز ہوتی ہیں ان میں جو ساونڈ ایفکٹس ہوتے ہیں۔ جیسی جیسی صورتیں شکلیں سائے دکھائے جاتے ہیں ۔ یہ سب ہی فلم کی کہانی لکھنے والے نے ان کے تاثرات سے اخذ کیا ہوا ہوتا ہے جو ان مراحل سے گزرے ہوتے ہیں
ڈر اور خوف سے کوئی آزاد نہیں ۔ ڈر و خوف ہمیشہ ہی جاندار کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں کہ یہ ان کی بقاء کے لئے لازم ۔
مجھے بھی ڈر لگا خوف نے مجھے بھی اسیر کیا اور جب جان پر بنی تو جان بچانے کے لیئے جیسے ہی دفاع کو چھوڑ حملے کی سوچی ۔ ڈر و خوف ختم ہوگیا ۔ ڈر ہو یا خوف جب اپنی حد سے بڑھتا ہے تو یہ سوچ پیدا کر دیتا ہے کہ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا کچھ تو کوشش کر تو بچنے کی ۔ اور یہ کوشش کا جاگنا ڈر و خوف بھلا دیتا ہے ۔ بلی کو شیر سے لڑا دیتا ہے ۔۔۔۔۔
فرق صرف اور صرف احساس کا ہے باقی دونوں ہی غیر مرئی ہوتے ہیں ۔
جنات بلا شک اللہ سوہنے کی ہی مخلوق ہیں اور میرے ذاتی خیال میں اکثر جنات ہم انسانوں سے زیادہ سنجیدہ، رحم دل، ہمدرد، ایثار پیشہ اور غم خوار ہوتے ہیں۔ جنات کے بارے میں انسانوں پر قابض ہوتے ان کو ستانے کی جتنی کہانیاں مشہور ہیں ان میں کچھ سچائی نہیں ۔ انسانی دماغ جب ان کہانیوں کے زیر اثر آ جاتا ہے تو وہم کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جس قدر وہم زیادہ اور شک پختہ ہوتا ہے اتنا ہی دماغی اعصابی تحریکات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اور جن کا احساس وجدان پر مجسم ہوتے انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے ۔ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ انسان ہو حیوان ہو یا کہ جن جیسے ہی اپنے آپ کو خطرے میں پاتا ہے اپنے دفاع کے لیئے حملے میں پہل کر دیتا ہے ۔ کچھ انسان جنات کی جانب سے اس دفاع حملے کے بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔ یا پھر دوسری صورت میں قصدا ستائے جانے پر بطور انتقام کسی انسان پر قابض ہوجاتے ہیں ۔
ضد اور حق کو اک ساتھ خلط ملط کرنے پر یہی ہوا بس کہ " نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم "
گم کردہ راہ مسافر کی صورت گزر گئی زندگی مجھے گزارتے ہوئے ۔ اور یہ بلاشک کرم اللہ کا کہ پاگل دیوانہ نہ ہوا میں ۔
چھلاوہ اک ایسی مخلوق جو اک جگہ ٹک کر نہ رہ سکے ابھی سامنے ابھی پیچھے ابھی دائیں ابھی بائیں ابھی یہاں ابھی وہاں پارہ صفت ۔
اک حسین خوبصورت شکل و صورت عورت جس کے پاؤں کے پنجے پچھلی جانب ہوں ہاتھوں کی انگلیاں لمبی اور ناخن مڑے ہوئے ہوں ۔
شتونگڑے ؟ شاید چھلیڈے چھوٹے چھوٹے بونے جو بہت شرارتی اور انسانوں کو تنگ کرتے ہیں ویرانوں میں ۔ممکن ہے کہ جنات کا ہی کوئی قبیلہ ہو ۔
میری محترم بٹیا جس تن بیتی وہ تن جانے ۔۔۔۔۔۔۔ انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے اسے بعینہ اسی صورت بیان کرنا اک نا ممکن امر ہے ۔ یہ کہانیاں بیان نہیں کی جا سکتیں ۔ کچھ حد تک ہی اجازت ہے ۔جیسے اک پاؤں تو آسانی سے اٹھا لیتے ہیں دوسرا اٹھانے کی کوشش کریں تو گر کر چوٹ لگوا لیتے ہیں ۔ کچھ کہانیاں ان کہی ہی رہیں تو فساد کی راہ بند رہتی ہے ۔
یقین ہمیشہ اک ہی صورت دکھاتا ہے ۔ وہم پل پل روپ بدلتا ہے ۔ یہی فرق کر سکتے ہیں ہم ۔
آپ کے سوالوں کے جواب کی بورڈ پر رواں انگلیوں کو بہت محتاط رہنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کوئی جواب " دار " تک ہی نہ پہنچا دے ۔ مجرم ہی نہ بنا دے ۔۔
بہت دعائیں