محترم نایاب حسین سے گفتگو

جاسمن

لائبریرین
محترم بٹیا آپ کا یہ سوال مجھے ماضی میں پہنچاتے میری گزری فلم مجھے دکھا رہا ہے ۔ جو یاد آ رہا ہے لکھ رہا ہوں ۔
اللہ سوہنے کی قدرت بڑے بھائی کے بعد یک بعد دیگرے تین بہنیں اس دنیا میں تشریف لائیں ۔ جب میری آمد ہوئی تو میری دادی مرحومہ نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ یہ تو نایاب ہے ۔ یہ ایسا نام تھا جو اسم با مسمی ہوتے اپنوں کے لیئے نایاب رہا ۔ نہ کسی کی شادی نہ کسی کی وفات ۔ سب خاندان والے موجود ہوتے اور نایاب نایاب ہی ہوتا ۔
میں خود کو نایاب نہیں کہتا میری بٹیا یہ تو زمانہ کہتا ہے ۔
اب گزری کچھ یوں کہ 1969 میں والد مرحوم دولتالہ گاؤں سے تبدیل ہو کر لاہور لیڈی ایچی سن ہسپتال آگئے ۔ شاہدرہ اسٹیشن میں اک مکان کرائے پر لیا اور زندگی اپنی ڈگر چلنے لگی ۔ مجھے ایم سی مڈل سکول شاہدرہ میں کلاس دوئم میں داخلہ مل گیا ۔ جو کورس کی کتابیں تھیں وہ تو چار دن میں پڑھ لیں ۔ سب یاد ہو گئیں ۔ استاد کے کچھ بھی پوچھنے پر فٹ سے جواب دینا اور خود کو بڑا ذہین ماننا ۔ لیکن روز وقت پر سکول جانا اور وقت پر چھٹی کر گھر آنا ۔ یہ زندگی کا چلن مجھے بھاتا نہیں تھا ۔ اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ اک دن میرے اک کلاس فیلو نے کہا کہ چلو سیر کرنے چلیں ۔ بستے اٹھائے اور سکول کے پیچھے واقع ریلوے سٹیشن پہنچ گئے ۔ ناروال سے آنے والی ٹرین پر بیٹھے اور لاہور پہنچ گئے ۔ وہاں گھوم پھر اسی ٹرین پر بیٹھ واپس شاہدرہ آ گئے ۔ بس یہ سفر اک ایسے سفر کی شروعات تھی جو اب تک ختم نہ ہوا ۔ اب تو یہ سلسلہ بن گیا گھر سے سکول کے لیئے نکلنا بستے کہیں کسی کھیت میں چھپانے اور سارا دن آوارہ گردی کرنی ۔ یہ نہیں تھا کہ گھر والوں کو پرواہ نہیں تھی ۔ وہ اپنی اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر جب بھی میری پڑھائی بارے پوچھتے سب فر فر سنا دیتا ۔
دادی مرحوم بتاتی تھیں کہ گھر میں یسرناالقران پڑھ کر جب قران پاک شروع کیا تھا تو روزنامہ امروز کی خبریں پڑھ کر انہیں سناتا تھا ۔ گھر میں والد والدہ سمیت سب ہی مطالعہ کے شوقین تھے ۔ بہشتی زیور ۔ طلسم ہوش ربا ۔ پھول ۔ تہذیب نسواں کی تحاریر پر اکثر جب سب گھر والے کھانے کے لیئے بیٹھتے تو گفتگو ہوا کرتی تھی ۔ بس سمجھ لیں کہ مطالعہ اور بحث گھٹی میں شامل ہے والدین نے کھلانے پلانے میں کبھی کمی کی ہو تو ہو ۔ مگر کتابیں گھر لا ہمیں پڑھانے میں کبھی کنجوسی نہ کی ۔
والد صاحب سید سبط محمد اور والدہ صاحبہ سلطانہ سید کا تعلق امروہہ ضلع مراد آباد کے اک فقیر منش صوفی خاندان سے تھا جس کا نسبی تعلق سید حسین شر ف الد ین شا ولا یت سے تھا ۔ ہندوستان میں سادات امروہہ میں پہلے شخص جو سرزمین امروہہ میں وارد ہو ئے وہ سید شاہ نصیر الد ین تھے جو عابد ی خاندان کے مو رث ہو ئے۔ ان کی حیات ہی میں چو دھویں صدی عیسوی اور ساتویں صدی ہجر ی کے آغا ز میں سید حسین شر ف الد ین شاہ ولا یت وارد ا امروہہ ہو ئے۔
والد صاحب تقسیم برصغیر کے وقت سروے آف انڈیا میں ملازم تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد سروے آف پاکستان کے ملازم ہوئے ۔ وہاں سے محکمہ صحت بھیج دئے گئے ۔ والد صاحب کو زندگی نے کچھ اس طور برتا تھا کہ آپ مذہب و رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر رہتے صرف انسان دوستی پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہوگئے ۔ اس انسان دوستی کے باعث ان کی کبھی بھی اپنے افسروں سے نہ بنی ۔ اور نہ ہی ترقی ہوئی ۔ آپ اپنی قناعت و توکل میں مگن ڈیوٹی کے بعد انگلش کی ٹیوشن پڑھاتے اپنا اور بیوی بچوں کا رزق تلاشنے میں مصروف رہے ۔ ۔ اس ٹیوشن کے سلسلے میں والد محترم کی ملاقات میرے نانا جی سید عبد الحفیظ مرحوم سے ہوئی جو کہ باٹا شو کمپنی میں بوائلر انجیئر تھے ۔ نانا جی کو والد صاحب کی شخصیت اتنی بھائی کہ اپنی پڑھی لکھی بیٹی کو خوشی خوشی اک فقیر منش کی زوجیت میں دے دیا ۔ حق مغفرت فرمائے والدہ صاحبہ بھی اپنی سب امارت بھول دال روٹی قناعت کرتے اپنے صاحب کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارتی رہیں وقت کے ساتھ ساتھ کنبہ بڑھتے بڑھتے 11 افراد پر مشتمل ہوگیا ۔ اک فرد کمانے والا اور گیارہ فرد کھانے والے ۔ سو والدہ صاحبہ نے بھی ورکنگ وومن بننے کا رادہ کرتے 1970 میں ملازمت کر لی ۔ میری عمر اس وقت سات سال تھی ۔ ماں باپ دونوں ہم بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ملازمت کرنے لگے ۔ صبح جانا رات کو آنا ۔ چھٹی کے سب بچوں کا پاس بٹھا ان سے ان کی تعلیم بارے گفتگو کرنی ۔ سب بہن بھائی تو ماشاء اللہ سیدھے سبھاؤ سکول جاتے اپنی پڑھائی میں مصروف رہتے اور میں بھگوڑا جو اک بار ہی اپنے کورس کی کتب کو بھی ناول کی صورت پڑھ لیتا اور والدین کے کچھ پوچھنے پر ان کے پوچھے سبق سے بھی آگے کی سنا دیتا ۔ وہ مطمئن ہو جاتے ۔۔ والد صاحب چونکہ لیڈی ایچیسن ہسپتال میں تھے ۔اور شاہدرہ ہی کیا کہیں کا بھی کوئی رہائیشی جب اپنی بیگم کے ہمراہ زچگی کے سلسلے میں ہسپتال کا چکر لگتا تو گویا وہ والد صاحب کا مرید ہی ہوجاتا ۔ میرے سکول کے اساتذہ بھی ان میں شامل تھے ۔ اور میں نے اس عقیدت کا غلط فائدہ اٹھایا ۔ مسلسل سکول نہ جانے پر سکول سے نام کٹنا جولازم امر تھا ۔ اس سے بچتا رہا ۔ اپنی کلاس کے استاد کے گھر جا کر ان کی بیگم کو سودا سلف لا دیا کرنا ۔ اور امتحانوں سے پہلے باجی کی منت کرتے استاد محترم سے معافی پاتے امتحان دے آتا اور پاس ہو جاتا ۔ دوئم سوئم چہارم پنجم میں پہنچ وقت نے اک ایسا موقع دیا جو کہ مجھے سنوارنے کی بجائے مزید آوارگی میں دھکیل گیا ۔ پنجم میں وظیفے کے لیئے امتحان لیا جاتا تھا ۔ اور مختلف سکولوں سے ذہین بچے منتخب کیئے جاتے تھے ۔ اک دن حسب معمول سکول سے فرار ہوتے بازار کے گشت پر تھا ۔ اچانک پیچھے سے کسی نے کان پکڑ لیا اور کہا چل سکول ۔ آواز نے بتا دیا کہ استاد محترم ہیں ۔ ڈرتے دعائیں مانگتے سکول پہنچا ان کے ساتھ ۔ انہوں کہا کہ یہ سوال حل کر دو ۔ اللہ کی قدرت یا اس کی حکمت مجھ سے وہ سوال بہت جلد حل ہو گئے ۔ اور مجھے وظیفے کے امتحان کے لیئے منتخب کر لیا گیا ۔۔۔۔ وقت کا یہ کھیل " مرے کو مارے شاہ مدار " کی مثال ہو گیا ۔ وظیفہ پاتے ہی میں تو خود کو ایسا عالم سمجھنے لگا جسے کسی بھی استاد کی کوئی حاجت نہ ہو ۔۔
کلاس دوئم سے جب سکول سے بھاگنے کی شروعات ہوئیں تو ساتھ ہی " یقین " کی بھی شروعات ہو گئی ۔ وہ ایسے کہ ہم سکول سے بھاگنے والوں میں شامل اک بڑی کلاس کے بچے نے ہمیں بتایا کہ دو پتھر یہ اک اینٹ کے دو ٹکڑے اک ترتیب کے ساتھ اوپر نیچے رکھ کو جو خواہش کرو وہ پوری ہوتی ۔ کسی معاملے کو ٹالنا ہو جب بھی کارگر ہوتی ہے ۔ میں نے اسے اپنا لیا گھر سے نکلتے کسی کھیت درخت کے نیچے دو پتھر اوپر تلی رکھنا اور کہنا کہ میں سکول سے بھاگنے پر پکڑا نہ جاؤں ۔ مجھے کوئی اغوا نہ کرلے ۔ میں آج رستہ نہ بھول جاؤں ایسی ہی بچگانہ خواہشیں کرنا معمول بن گیا ۔ اگر کبھی کچھ ایسا ہوتا جس کے نہ ہونے کی دعا کی ہوتی تھی تو جب جاکر ان پتھروں کو دیکھنا تو وہ گرے ہوئے ملتے ۔ بس یقین مضبوط ہو جاتا ۔ والدین ہمارے لیئے رزق کی تلاش میں محو تھے اور ہم سب بہن بھائی ہر سال امتحان میں نہ صرف پاس ہو جاتے بلکہ والدین کو اساتذہ سے ہماری تعریف سن کر تسلی اور خوشی مل جاتی ۔ اب پرائمری پاس کر مڈل میں آ گیا تھا ۔ اور " انکا " اقابلا " ہمزاد " جیسے سلسلوں سے دوستی ہو چکی تھی ۔ خواہش اپنا قبضہ جما رہی تھی کہ میں جو کہ خود میں بہت ذہین ہوں میں بھی کچھ ایسے وظیفے عمل کروں کہ میرے پاس بھی ماورائی طاقتیں آ جائیں ۔ اور یہ جو میرے محلے کی ماں بہنیں مجھے " سید سردار ۔ سید باشاہ ۔ پیر و مرشد کی سیڑھی چڑھا موقع با موقع گھر بلا دودھ پلا حلوہ کھلا مجھ سے اپنے لیئے آسانی کی دعا کرواتی ہیں ۔ ان کے مسلوں کو حل کروں ۔
اپنے سب بہن بھائیوں میں میں بہت نحیف جسم کا حامل ہوں بہت دبلا پتلا وجود رہا ہے میرا اور کچھ نشے کی علت نے جسم کو بننے ہی نہ دیا ۔ جتنی کلائی دس سال کی عمر میں تھی ویسی ہی اب بھی ہے ۔جسمانی طور طاقتور نہ ہونے کا حل اپنی چرب زبانی میں پایا ۔ اور بادشاہ گر بن جن سے ڈر ہوتا ہوتا تھا انہیں دوسروں کے سر بٹھانے لگا ۔ اور خود ان کا چمچہ خاص ہوتے خود کو محفوظ رکھتے اپنی بادشاہی کرتا رہا ۔
کس قدر عجیب ہوتا ہے اپنی کہانی یاد کرنا ۔ وقت بیتے پل جیسے مجسم کر دیتا ہے ۔
نایاب کے نایاب ہونے کی کہانی جاری ہے
بہت دعائیں
یہ تو ایک سنسنی خیز ناول لگ رہا ہے۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
انٹرویو کا سلسلہ جاری و ساری ہے ، محترم نایاب صاحب کا انٹرویو جارہا ہے اور میں ہوں میزبان نور سعدیہ
انٹرویو میں ایک جانب محترم خلیل الرحمن ہیں تو دوسری طرف محترم نایاب صاحب
ایک جانب شور و غل ہے تو دوسری جانب سمندر کا سکوت
ایک جانب علم کے ساتھ شوخی ہے تو دوسری جانب علم کے ساتھ متانت
ایک جانب سبھی زندہ دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف جینے کا سلیقہ و تجربہ دیکھ رہے ہیں
ایک جانب شاعر ہیں اور دوسری جانب باذوق قاری
ایک جانب ناثر ہیں تو دوسری جانب علیم و ناثر ہیں
دونوں ہی عاجز ، دونوں ہی عالی اور دونوں ہی باذوق ، دونوں ہی سخی ، دونوں ہی رحم دل
میں ہوں نور ، ان دو ہستیوں کو محفل میں نئے سرے سے متعارف کرارہی ہوں
آپ اس انٹرویو کو بار بار پڑھیے اور سوچیے کہ محترم نایاب کی بیتی زندگی ان کی اپنی ہے
سچ تو یہ ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ یہ خود سے بنا رہے ہوں گے مگر سوچتی ہوں کوئی اتنا لمبی و طویل غلط بیانی کیسے کرسکتا ہے اور وہ بھی بنا جھول کے
پھر سچ تو یہ ہے یہ کردار اتنا حقیقی ہے تو اس کو جتنا ہو جان لیا جائے ، جتنے ہو سوالات کرلیے جائیں
میں ہوں نور ، آپ سب کو موقع دے رہی ہوں کہ سوالات کیجیئے تاکہ جو مجھ سے رہ جائیں ، آپ ان کی کسر پوری کردیں
یہ ہر وقت دعا دیتے ، نرمی دکھاتے آخر اتنے عالی ظرف کیوں بنتے ہیں ؟ کیا ان کو گھٹی میں ملا ؟
کون ہیں ان کے جد ؟ کیا ان کے جد سید حسین شرف الدین عرف شاہ ولایت ہیں اور ان سے سلسلہ سے جڑا ہے جن کو دنیا مانتی ہے ، کیا یہ وجہ ہے؟
کیا ان کو سید حسین شرف الدین شاہ ولایت سے نسبت ہے یا پھر ان کی اپنی کچھ کمائی ہے
محفلین جاننے کے لیے بے چین اور محترم نایاب صاحب جستجو کو مزید ہوا دیئے جارہے ہیں
دیکھئے ہماری خاموشی کا امتحان تو لے لیا اور اب جوابات کا سلسلہ شروع کیجیے

واہ بھئی۔ اس جاسوسی اور سسپینس ڈائجسٹ میں اگلی قسط کے لئے مدیر کی طرف سے کچھ اس طرح کا تبصرہ شائع ہوتا ہے اور آپ نے انہیں بھی مات دے دی ہے۔
میں ہوں نور۔۔۔۔۔بہت خوبصورت انداز۔
ماشاءاللہ!
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
یہ تو ایک سنسنی خیز ناول لگ رہا ہے۔:)

واہ بھئی۔ اس جاسوسی اور سسپینس دائجسٹ میں اگلی قسط کے لئے مدیر کی طرف سے ک ھ اس طرح کا تبصرہ شائع ہوتا ہے اور آپ نے انہیں بھی مات دے دی ہے۔
میں ہوں نور۔۔۔۔۔بہت خوبصورت انداز۔
ماشاءاللہ!
میری محترم جاسمن بٹیا
پنجابی کی اک مثال ہے کہ " جیہڑا کپو اوہی لال "
نطق کے حامل انس و انا کے جذبات میں گندھے ہم سب خود میں ایسی ایسی حقیقتوں کو چھپائے ہوئے ہیں کہ جب بھی کوئی بیان کرنے کی ہمت کرے تو فسانہ بھی اپنا فسوں بھلا دے ۔ کہتے ہیں نا کہ حقیقت افسانے سے زیادہ دل چسپ ہوتی ہے ۔
محترم نور سعدیہ بٹیا سے بہت گفتگو رہی ہے اور یہ میری معصوم سادہ دل صاف روح کی حامل بٹیا ( اللہ اس کی سب راہوں کو آسان فرمائے آمین ) میری داستان سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی ہے ۔ اور مجھے یقین بھرا یہ ڈر ہے کہ میرے سفر کر جانے کے بعد اس نے مجھ پر اک کتاب لکھ ڈالنی ہے ۔ وہ سب کچھ بھی لکھ دے گی جو میں خود بھی لکھتے گھبراتا ہوں ۔۔۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ سوہنا میری محترم بٹیا کے گمان کو میرے بارے سچ فرمائے آمین
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
کسی ایک حاضری کا واقعہ سنائیے !
حاضری ؟ یہ لفظ دو طرح کا مفہوم رکھتا ہے ۔ اک کسی انسان کو ستانے والے جنات یا بھوت پریت یا کالے پیلے نیلے جادو ئی موکلات کو حاضر کرتے ان سے گفت و شنید کرتے انہیں مقبوضہ مقام چھوڑنے پر مجبور کرنا ۔
دوسرے کسی انسان پر اچانک ایسی کیفیت طاری ہوجانا کے وہ ماضی یا مستقبل کے حالات و واقعات غیر ارادی طور پر بیان کرنے لگے ۔ اور اس سے اس کیفیت میں جو پوچھا جائے وہ اس کے بارے درست بات بتائے ۔ اور کیفیت سے باہر آنے کے بعد اسے اس بارے کچھ یاد نہ رہے ۔
مجھے تو جتنی بھی حاضریوں کا تجربہ مشاہدہ ہوا ان میں صنف نازک پر قابض جنات کے نام اکثر اک سے ہی پائے ۔ جیسے " نارسائی کا دکھ " ادھورے پن کا احساس " توجہ سے محرومی " کسی اپنے کی جانب سے جنسی ہراس کا سامنا " خواہشات کا کچلا جانا " معصومیت میں مبتلا چاند پانے کی ضد " نا آسودگی کی اذیت " بے انتہا حسین ہونے کا غرور" شریک حیات سے توجہ الفت کے اظہار کی محرومی " یہاں وہاں سے سنے بے ترتیب وظائف کا ذکر " جمال کی متلاشی جلال کی ذاکر " جلال کی متلاشی جمال کی ذاکر "
اور ان تمام جنات کو اکثر عامل اپنے " لمس اور توجہ " سے بھگا دیتا ہے ۔ لمس اور توجہ بارے تفصیل اک پبلک مقام پر بیان کرنا غیر مناسب امر ہوگا ۔ بس اتنا کافی کہ معصوم کی معصومیت کو اپنے لمس و توجہ سے دھوکہ دیتے اسے نارسائی کے دکھ سے باہر نکالا جاتا ہے ۔ کچھ عامل حضرات اس علاج کی آڑ میں تعویذ دھاگہ جھاڑ پھونک کا ڈرامہ رچاتے اپنے نفسانی مقاصد کی تکمیل بھی کر لیتے ہیں ۔ اور کچھ عرصہ میں جن بھاگ جاتا ہے ۔
جو اللہ سوہنے کا خوف رکھتے ہیں وہ اللہ کے ذکر کو سہارا بناتے امید یقین کی شمع جلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اک اچھے دوست کی صورت اس کی ہر اک بات کو سنتے ہیں توجہ دیتے ہیں ، مریض کا کھویا ہوا اعتماد واپس لاتے ہیں ۔
اس جن کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ مریض پر تشنج اور مرگی کے سے دورے پڑتے ہیں ۔ جسم اینٹھ جاتا ہے ۔ دبلی پتلی نازک سی بچی دو تین بندوں کے قابو نہیں آتی ۔ اکثر یہ صرف خود کو ہی نقصان پہنچاتی ہے ۔ اپنا غصہ بے جان اشیاء پر اتارتی ہے ۔ چپ چاپ خاموش رہا کرتی ہے ۔
میرے مشاہدے میں بچیوں پر قابض جو غیر مرئی مخلوق آئی وہ سب ہی نفسیات سے مربط پائی ۔کچھ ایسے کیس ضرور دیکھے ہیں جن میں غیر مرئی مخلوق کی حقیقی پایا ہے ۔ اور اس کی بنیاد میں گیلے بالوں کے ساتھ تیز خوشبولگا مغرب کے وقت کے آس پاس کسی کھلی جگہ میں جانا جہاں اونچے درخت ہوں اور ویرانی پائی جاتی ہو ۔ ایسے کیس 3۔ہ فی صد ہوتے ہیں ۔
صنف کرخت پر قابض یہ غیر مرئی مخلوق اکثر ہی اس صنف کی اپنی غلطیوں اور والدین کی بے جا تنقید کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ یا پھر الٹے وظائف کا شاخسانہ ۔ غیر مکمل چلوں کا اثر ۔بے جا بہادری کے مظاہرے
صنف کرخت پر قابض غیرمرئی مخلوق 40 فی صد میں حقیقی اور 60 فی صد نفسیاتی پائی ہے ۔
ان قابض مخلوقات کو حاضر کرنا کوئی سہل نہیں ہوتا ۔ اگر تو قابض مخلوق ہندو ہے تو آسان ہے اگر قابض مخلوق مسلمان ہے تو لوہے کے چنے حقیقت میں چبوا دیتی ہے عامل کو ۔
پیپل اور برگد کا درخت ہی کیوں؟
کیسے مناظر دکھے ؟ کس سے خوف اور کس سے ڈر محسوس ہوا
راز کیسے کھلا؟
جنات اور وہم میں فرق کیا رہا پھر؟
آپ ضد اور حق کو ساتھ ملاتے رہے تو نقصانات کیا ہوئے؟
تو چھلاوا ، پچھل پیری ، شتونگڑے کی کوئی تصویر ہوتی ہے ، اگر گوگل پر اس جیسی کوئی مل جائے تو ذرا دکھائیں ، نہیں تو بتا دیں کہ وہ کیسے ہوتے ہیں ؟
یقین اور واہمے میں فرق کیسے کیا جائے؟ واہمہ بھی یقین اور یقین بھی واہمہ لگے
یہ دونوں درخت ہندو مذہب میں بہت متبرک مقدس کہلاتے ہیں ۔ اور ان کے عقیدے سے ان درختوں پر غیر مرئی مخلوقات کا بسیرا ہوتا ہے ۔ مردہ جلاتے وقت جب کھوپڑی پھٹتی ہے تو روح نکل کر کسی قریب ترین رشتہ دار میں گھسنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اور اگر رشتہ دار چوکنے ہوتے کھوپڑی پھٹنے سے پہلے ہی اس مقام سے دور ہو جائیں جہاں تک روح رسائی رکھتی ہے ۔ تو پھر وہ روح اپنا بسیرا کسی قریبی پیپل یا برگد کے درخت پر بنا لیتی ہے ۔ طلسم و عملیات کی دنیا میں یہ مانا جاتا ہے کہ ان درختوں کے نیچے کئے جانے والے عمل طاقتور اور با اثر ہوتے ہیں ۔اور یہاں بسیرا کر رہی روحوں کو اپنا موکل بنایا جا سکتا ہے ۔

تاریک کالی رات میں اچانک اک جھماکہ ہو اور سامنے اک سٹیج سجا دکھے جس پر کوئی ظالمانہ متشددانہ ایکٹ چل رہا ہو ۔ کوئی ہمیں دیکھتے ہنستے ہنستے اپنا گلہ کاٹ اپنا سر اپنے ہاتھوں میں لیکر ہماری جانب آنے لگے ۔ کسی کا قد اچانک بڑھنے اور جسم کی ہیئیت پھیلنے لگے ۔ اس کے ہاتھ لمبے ہوتے ہماری جانب آنے لگیں ۔ اک بھیانک سی آواز ہمارے رونگٹوں کو کھڑے ہونے پر مجبور کرنے لگے ۔ کوئی حسین و جمیل صورت آہستہ آہستہ روپ اپنا بدلنے لگے ۔ دانت باہر کو آئیں ہاتھ کے پنجے مڑنے لگیں ۔
یہ جتنی بھی ہارر موویز ہوتی ہیں ان میں جو ساونڈ ایفکٹس ہوتے ہیں۔ جیسی جیسی صورتیں شکلیں سائے دکھائے جاتے ہیں ۔ یہ سب ہی فلم کی کہانی لکھنے والے نے ان کے تاثرات سے اخذ کیا ہوا ہوتا ہے جو ان مراحل سے گزرے ہوتے ہیں
ڈر اور خوف سے کوئی آزاد نہیں ۔ ڈر و خوف ہمیشہ ہی جاندار کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں کہ یہ ان کی بقاء کے لئے لازم ۔
مجھے بھی ڈر لگا خوف نے مجھے بھی اسیر کیا اور جب جان پر بنی تو جان بچانے کے لیئے جیسے ہی دفاع کو چھوڑ حملے کی سوچی ۔ ڈر و خوف ختم ہوگیا ۔ ڈر ہو یا خوف جب اپنی حد سے بڑھتا ہے تو یہ سوچ پیدا کر دیتا ہے کہ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا کچھ تو کوشش کر تو بچنے کی ۔ اور یہ کوشش کا جاگنا ڈر و خوف بھلا دیتا ہے ۔ بلی کو شیر سے لڑا دیتا ہے ۔۔۔۔۔
فرق صرف اور صرف احساس کا ہے باقی دونوں ہی غیر مرئی ہوتے ہیں ۔
جنات بلا شک اللہ سوہنے کی ہی مخلوق ہیں اور میرے ذاتی خیال میں اکثر جنات ہم انسانوں سے زیادہ سنجیدہ، رحم دل، ہمدرد، ایثار پیشہ اور غم خوار ہوتے ہیں۔ جنات کے بارے میں انسانوں پر قابض ہوتے ان کو ستانے کی جتنی کہانیاں مشہور ہیں ان میں کچھ سچائی نہیں ۔ انسانی دماغ جب ان کہانیوں کے زیر اثر آ جاتا ہے تو وہم کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جس قدر وہم زیادہ اور شک پختہ ہوتا ہے اتنا ہی دماغی اعصابی تحریکات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اور جن کا احساس وجدان پر مجسم ہوتے انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے ۔ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ انسان ہو حیوان ہو یا کہ جن جیسے ہی اپنے آپ کو خطرے میں پاتا ہے اپنے دفاع کے لیئے حملے میں پہل کر دیتا ہے ۔ کچھ انسان جنات کی جانب سے اس دفاع حملے کے بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔ یا پھر دوسری صورت میں قصدا ستائے جانے پر بطور انتقام کسی انسان پر قابض ہوجاتے ہیں ۔
ضد اور حق کو اک ساتھ خلط ملط کرنے پر یہی ہوا بس کہ " نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم "
گم کردہ راہ مسافر کی صورت گزر گئی زندگی مجھے گزارتے ہوئے ۔ اور یہ بلاشک کرم اللہ کا کہ پاگل دیوانہ نہ ہوا میں ۔
چھلاوہ اک ایسی مخلوق جو اک جگہ ٹک کر نہ رہ سکے ابھی سامنے ابھی پیچھے ابھی دائیں ابھی بائیں ابھی یہاں ابھی وہاں پارہ صفت ۔
اک حسین خوبصورت شکل و صورت عورت جس کے پاؤں کے پنجے پچھلی جانب ہوں ہاتھوں کی انگلیاں لمبی اور ناخن مڑے ہوئے ہوں ۔
شتونگڑے ؟ شاید چھلیڈے چھوٹے چھوٹے بونے جو بہت شرارتی اور انسانوں کو تنگ کرتے ہیں ویرانوں میں ۔ممکن ہے کہ جنات کا ہی کوئی قبیلہ ہو ۔
میری محترم بٹیا جس تن بیتی وہ تن جانے ۔۔۔۔۔۔۔ انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے اسے بعینہ اسی صورت بیان کرنا اک نا ممکن امر ہے ۔ یہ کہانیاں بیان نہیں کی جا سکتیں ۔ کچھ حد تک ہی اجازت ہے ۔جیسے اک پاؤں تو آسانی سے اٹھا لیتے ہیں دوسرا اٹھانے کی کوشش کریں تو گر کر چوٹ لگوا لیتے ہیں ۔ کچھ کہانیاں ان کہی ہی رہیں تو فساد کی راہ بند رہتی ہے ۔
یقین ہمیشہ اک ہی صورت دکھاتا ہے ۔ وہم پل پل روپ بدلتا ہے ۔ یہی فرق کر سکتے ہیں ہم ۔
آپ کے سوالوں کے جواب کی بورڈ پر رواں انگلیوں کو بہت محتاط رہنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کوئی جواب " دار " تک ہی نہ پہنچا دے ۔ مجرم ہی نہ بنا دے ۔۔
بہت دعائیں
 

جاسمن

لائبریرین
ہیں ں ں ں ں ں۔۔۔۔۔۔۔
ختم بھی ہوگئی۔۔۔۔۔۔
میں تو عجب سحر میں گرفتار پڑھے جارہی تھی۔۔۔۔۔اور مجھے لگتا ہے کہ ابھی بہت کچھ رہتا ہے۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ۔ ماشاءاللہ۔ آپ نے تو بہت زبردست نتائج نکالے ہیں۔ لوگ تو آخر تک ابہام اور شکوک میں مبتلا رہتے کسی ایک نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتے۔
نایاب بھائی! اللہ آپ کو ڈھیروں آسانیاں اور خوشیاں عطا فرمائے۔ آمین!
 

ام اویس

محفلین
میری محترم بٹیا ہم سب ہی حقیقت پر مبنی وہ سب داستانیں اپنے ساتھ اٹھائے پھر رہے ہیں ۔ زندگی نے جن حقیقتوں کو ہم پر کھولا ہے ۔ ہم سب اپنی زندگی کو لکھیں تو اسے پڑھ کر کوئی دلچسپ افسانہ کہے گا کوئی مزےدار کہانی کوئی مسحورکن داستان ۔ یہ جو نطق کی نعمت ہے نا یہ ہے ہی اپنی کہانی کہنے کے لیئے ۔ خود پر بیتی حقیقت سنانے کے لیئے ۔ بلا شک زندگی نام ہے کسی نہ کسی کہانی کے کردار بنے رہنے کا ۔ زندگی جو خوشی بھی دیتی ہے دکھ بھی ۔

اک عمر گزارتے گزارتے یہ خیال یقین میں بدلتا گیا کہ ہر شخص کی اپنی دنیا ہوتی ہے جس کو وہ بسر کرتا ہے اپنے لمحات ، اپنے جذبات ، اپنے محسوسات اور اپنی ایک الگ کہانی ہوتی ہے جو اس کے ساتھ ظہور میں آتی ہے اور اس کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے یا شاید جاری رہتی ہے البتہ دوسروں کی پہنچ سے باہر ہوجاتی ہے
کہانی جگ بیتی ہو یا ہڈ بیتی اس کا لطف اور مزہ ہی الگ ہے یا شاید کہانیاں بُننے والوں کو اس کا چسکا لگا ہوتا ہے ۔ حیرت وتجسس سے بھری اس کہانی کا داستان گو جتنی آسانی و روانی سے بیان کر رہا ہے اس میں بہت حصہ لفظوں سے جھانکتی پراسراریت کے بھید پانے والے کا ہے ۔ کیا جاننا ہے کہاں سے شروع کرنا اور کہاں لے جانا ہے ؟
جہاں اس داستان نے ذہن و خیال کو گرفت میں رکھا وہیں سوالوں کی ہمہ رنگی نے مبہوت کردیا

نطق کے حامل انس و انا کے جذبات میں گندھے ہم سب خود میں ایسی ایسی حقیقتوں کو چھپائے ہوئے ہیں کہ جب بھی کوئی بیان کرنے کی ہمت کرے تو فسانہ بھی اپنا فسوں بھلا دے ۔ کہتے ہیں نا کہ حقیقت افسانے سے زیادہ دل چسپ ہوتی ہے ۔
میرا ماننا ہے ہر افسانے کے پیچھے ایک حقیقت ہوتی ہے بلکہ کسی نے صحیح کہا
ایک حقیقت سو فسانے
 

جاسمن

لائبریرین
اک عمر گزارتے گزارتے یہ خیال یقین میں بدلتا گیا کہ ہر شخص کی اپنی دنیا ہوتی ہے جس کو وہ بسر کرتا ہے اپنے لمحات ، اپنے جذبات ، اپنے محسوسات اور اپنی ایک الگ کہانی ہوتی ہے جو اس کے ساتھ ظہور میں آتی ہے اور اس کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے یا شاید جاری رہتی ہے البتہ دوسروں کی پہنچ سے باہر ہوجاتی ہے
کہانی جگ بیتی ہو یا ہڈ بیتی اس کا لطف اور مزہ ہی الگ ہے یا شاید کہانیاں بُننے والوں کو اس کا چسکا لگا ہوتا ہے ۔ حیرت وتجسس سے بھری اس کہانی کا داستان گو جتنی آسانی و روانی سے بیان کر رہا ہے اس میں بہت حصہ لفظوں سے جھانکتی پراسراریت کے بھید پانے والے کا ہے ۔ کیا جاننا ہے کہاں سے شروع کرنا اور کہاں لے جانا ہے ؟
جہاں اس داستان نے ذہن و خیال کو گرفت میں رکھا وہیں سوالوں کی ہمہ رنگی نے مبہوت کردیا


میرا ماننا ہے ہر افسانے کے پیچھے ایک حقیقت ہوتی ہے بلکہ کسی نے صحیح کہا
ایک حقیقت سو فسانے
بہت خوبصورت تبصرہ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک عجیب سی الجھن میں ہوں ۔۔۔۔ سوالات لکھ دوں جو ذہن کے دَریچوں سے جھانکتے ہیں ۔۔۔، یہ کہ سوالات تشنہ نہ رہ جائیں جوابات سے مگر میں جانتی ہوں کہ کنواں پیاسے کے پاس آجائے تو یہ اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔۔۔ آپ جیسے صاحب علم لوگ محفل کی زینت بن جائیں بہت سے متجسس ذہنوں کو قرار مل پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا داستان ہے کہ شروع سے اب تلک کے جوابات نے سنسنی سی بکھیر دی ہے ۔۔۔۔

آپ بتائیے کہ آپ کی محترم بلاول شاہ سرکار سے کوئی ملاقات ہوئی یا ایسا کوئی سلسلہ ؟ لاہوت لامکاں جیسے پراسرار ماحول میں آپ نے کیا کیا راز دیکھے اور محسوس کیے اور کیا لاہوت لامکاں کی داستانیں جسٹ داستانیں ہیں ۔۔۔۔۔

آپ نے کہا ہے کہ کسی تاریخی عمارت کو غور سے دیکھنے پر قدرت بہت سے راز آپ پر آشکارا کرتی تھی جس میں قبر نشین کے زندگی کے حالات و واقعات ایک فلم کی مانند چلنے لگ جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔اس حوالے سے آپ نے دو واقعات سوال کے مطابق پیش کیے ۔۔۔کیا آپ ایسے واقعات بتاسکتے ہیں جن سے میں جان پاؤں کہ آپ نے کس قبرنشین کے حالات و واقعات سے سب سےزیادہ سیکھا ہے //////


کیا کوئی ایسا گر مجھے بھی بتاسکتے ہیں جس میں بھی کوئی تصویر متحرک چل پڑے ؟


ڈر اور خوف سے کوئی آزاد نہیں ۔ ڈر و خوف ہمیشہ ہی جاندار کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں کہ یہ ان کی بقاء کے لئے لازم ۔
مجھے بھی ڈر لگا خوف نے مجھے بھی اسیر کیا اور جب جان پر بنی تو جان بچانے کے لیئے جیسے ہی دفاع کو چھوڑ حملے کی سوچی ۔ ڈر و خوف ختم ہوگیا ۔ ڈر ہو یا خوف جب اپنی حد سے بڑھتا ہے تو یہ سوچ پیدا کر دیتا ہے کہ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا کچھ تو کوشش کر تو بچنے کی ۔ اور یہ کوشش کا جاگنا ڈر و خوف بھلا دیتا ہے ۔ بلی کو شیر سے لڑا دیتا ہے ۔۔۔۔۔
فرق صرف اور صرف احساس کا ہے باقی دونوں ہی غیر مرئی ہوتے ہیں


کیا ہر ڈر کا دفاع حملہ کرکے کیا جا سکتا ہے ؟ کیا حملہ ڈر کو اور نہیں بڑھاتا؟ کیا اتنا ہی آسان ہے اس ڈر کے شیر کو قابو کرنا جس آسانی سے آپ نے لکھ ڈالا ہے ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
کیا پتا تھا چند ماہ بعد رخصت ہوجانا ..وہ حادثہ ہوا جو ذہن و گمان میں بھی نہ تھا. تیر دل پہ لگا مگر اسکا نشان بھی نہ تھا
 
Top