خرم نے کہا:
علامہ کی شاعری پر ہمارے ایک نانا تھے انہوں نے بہت کام کیا ہے۔ تمام عمر بس یہی سودا رہا انہیں۔ علامہ کی تمام کتب کی انہوں نے تشریح کی اور ایک اچھا خاصا دفتر مرتب کر دیا۔ اپنے اس علمی ورثہ کا وہ وارث مجھے بنا گئے۔ اب تک تو فرصت نہ ملی کہ اسے شائع کروا سکوں مگر اب جب یہ سب باتیں شروع ہوئی ہیں تو سوچتا ہوں کہ یہ کام کر ہی گزروں۔ آپ کا کیا مشورہ ہے اس بارے میں؟ افسوس کہ وہ سب چیزیں پاکستان میں ہی پڑی ہیں وگرنہ نمونہ کے طور پر یقیناً کچھ پیش کرتا۔
برادرم خرم!
آپ نے مشورہ پوچھا ہے تو اس سلسلہ ميں عرض كرونگا كہ آپ كو اب تك يہ كر گزرنا چاہيئے تھا
بقول علامہ اقبال
باپ كا علم نہ بيٹے كو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل ميراث پدر كيوں كر ہو
آپ كے نانا اگر اپنے علمي ورثہ كا وارث آپ كو بنا گئي ہيں تو پھر يہ آپ كا فرض بھي ہے اور آپ پر قرض بھي ہے
بندہ پاكستان ميں ديني علمي اور ادبي اشاعتي خدمات فراہم كر سكتا ہے اس سلسلہ ميں ميں نے "ن والقلم" ادارہ مطبوعات اٹكك پاكستان قائم كيا ہوا ہے اور اب تك اس ادارے كے زير اہتمام دس بارہ كتب شائع ہو چكي ہيں جن ميں مشہور عالم ڈاكٹر غلام جيلاني برق كا منظورم كلام بھي شامل ہے ۔
ميں آپ كے نانا كے كلام كي اشاعت كے سلسلہ ميں كمپوزنگِ تيكنيكي اشاعتي خدمات يعني ايڈيٹنگ، سرورق، تزئين و آرائش پروف ريڈنگ اور كاپي پيسٹنگ وغيرہ كي خدمات مفت فراہم كر سكتا ہوں البتہ كاغز ،پرنٹنگ اور بائنڈنگ وغيرہ كے اخراجات آپ كو خود برداشت كرنا ہونگے جو خكدمت ميرے لائق ہے وہ في سبيل اللہ آپ كي نذر كرونگا
ليكن يہ سب كچھ اسي صورت ميں
جب آپ كے نانا كے علمي مسودات ديكھنے كے بعد يہ فيصلہ ہو جائے
كہ يہ قابل اشاعت كام ہے اور اسے شائع كرنا ہے